Friday, October 26, 2018

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں



اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں 

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں 


ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی 

یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں 


غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو 

نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں 


تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا 

دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں 


آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر 

کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں 


اب نہ وہ میں نہ وہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فرازؔ 

جیسے دو سائے تمنا کے سرابوں میں ملیں

رخ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم



اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے 

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے 


تم نے ٹھہرائی اگر غیر کے گھر جانے کی 

تو ارادے یہاں کچھ اور ٹھہر جائیں گے 


خالی اے چارہ گرو ہوں گے بہت مرہم داں 

پر مرے زخم نہیں ایسے کہ بھر جائیں گے 


پہنچیں گے رہ گزر یار تلک کیوں کر ہم 

پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جائیں گے 


شعلۂ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں 

پر مجھے ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے 


ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ پر 

بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے 


آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی 

جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے 


نہیں پائے گا نشاں کوئی ہمارا ہرگز 

ہم جہاں سے روش تیر نظر جائیں گے 


سامنے چشم گہر بار کے کہہ دو دریا 

چڑھ کے گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے 


لائے جو مست ہیں تربت پہ گلابی آنکھیں 

اور اگر کچھ نہیں دو پھول تو دھر جائیں گے 


رخ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم 

مہر و ماہ نظروں سے یاروں کی اتر جائیں گے 


ہم بھی دیکھیں گے کوئی اہل نظر ہے کہ نہیں 

یاں سے جب ہم روش تیر نظر جائیں گے 


ذوقؔ جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں ملا 

ان کو مے خانے میں لے آؤ سنور جائیں گے

Monday, June 25, 2018

بہلتے کس جگہ ، جی اپنا بہلانے کہاں جاتے

بہلتے کس جگہ ، جی اپنا بہلانے کہاں جاتے
تری چوکھٹ سے اُٹھ کر تیرے دیوانے کہاں جاتے

نہ واعظ سے کوئی رشتہ، نہ زاہد سے شناسائی
اگر ملتے نے رندوں کو تو پیمانے کہاں جاتے

خدا کا شکر ، شمعِ رُخ لیے آئے وہ محفل میں
جو پردے میں چُھپے رہتے تو پروانے کہاں جاتے

اگر ہوتی نہ شامل رسمِ دنیا میں یہ زحمت بھی
کسی بے کس کی میّت لوگ دفنانے کہاں جاتے

اگر کچھ اور بھی گردش میں رہتے دیدہِ ساقی
نہیں معلوم چکّر کھا کے میخانے کہاں جاتے

خدا آباد رکّھے سلسلہ اِس تیری نسبت کا
وگرنہ ہم بھری دنیا میں پہچانے کہاں جاتے

نصیرؔ اچھا ہوا در مل گیا اُن کا ہمیں ، ورنہ
کہاں رُکتے ، کہاں تھمتے ، خدا جانے کہاں جاتے​


پیرسید نصیر الدین نصیرؔ گیلانی​

تنہا نہ پی شراب، ہمیں بھی پلا کے پی

تنہا نہ پی شراب، ہمیں بھی پلا کے پی
اے پینے والے! ہم سے نگاہیں لڑا کے پی

رحمت کا آسرا ہے تو ہر غم پہ چھا کے پی
بے خوف ہو کے جام اٹھا، مسکرا کے پی

میخانہ تیرا، جام ترا، رِند بھی ترے
ساقی! مزا تو جب ہے، کہ سب کو پلا کے پی

ساغر اٹھا تو ہر غمِ دنیا کو بھول جا
پینے کا وقت آئے تو کچھ گُنگنا کے پی

شاید نہ کوئی اور جُھکے تیرے سامنے
زاہد! ذرا صُراحی کی گردن جھُکا کے پی

ساغر ہے صرف رندِ تُنک ظرف کے لیے 
اے مے پرست! خم کبھی منہ سے لگا کے پی

پینے میں احتیاط کا پہلو بھی چاہیئے
مخلوق کو نہ اپنا تماشا دکھا کے پی

اے بادہ کش !وہ آج نظر سے پلائیں گے
ساغر کو پھینک، آنکھوں سے آنکھیں ملا کے پی

آدابِ مے کشی کے تقاضے سمجھ نصیرؔ!
ساغر اٹھا کے اور نگاہیں جما کے پی​


پیر سید نصیر الدین نصیرؔ گیلانی​

کسی کو تجھ سے بڑھ کر جلوہ ساماں کون دیکھے گا

کسی کو تجھ سے بڑھ کر جلوہ ساماں کون دیکھے گا
تجھے دیکھے گی دنیا، ماہِ تاباں کون دیکھے گا

اُسے دیکھا سرِ دار و رسن ہم نے تو سر دے کر
ہمارے بعد دیکھیں رُوئے جاناں کون دیکھے گا

مری میّت کو کاندھا آج اگر وہ دے نہیں سکتے
تو کل جا کر بھلا گورِ غریباں کون دیکھے گا

سکوتِ بام و در، آثارِ وحشت، رنجِ تنہائی
بھری دنیا میں ہم سا خانہ ویراں کون دیکھے گا

ارے واعظ! حسابِ حشر سے ایسا بھی کیا ڈرنا
وہ بخشش پر تُلے تو فردِ عصیاں كون دیکھے گا

سُنو زِندانیو ضبطِ جُنوں عہدِ خزاں تک ہے
بہار آئی تو پھر دیوارِ زنداں كون دیکھے گا

جہاں میں اور بھی ہوں گے تمہارے دیکھنے والے
مگر میری طرح تم کو مری جاں کون دیکھے گا

رہے گا یہ تحیُرّ تا دمِ آرائشِ گیسو
پھر اِس کے بعد آئینے کو حیراں کون دیکھے گا

تمہی کو دل دیا تم سے ہی اِس دل کو اُمیدیں ہیں
اگر دیکھا نہ تم نے، دل کے ارماں کون دیکھے گا

کھڑا ہوں منتظر در پر نصيرؔ اُن کی اجازت کا
اشارا مل گیا تو سُوئے درباں کون دیکھے گا

نصيرؔ اِس دَور میں پھر بھی غنیمت ہے وجود اپنا
ہمارے بعد ہم جیسا سُخَن داں کون دیکھے گا​
پیر سید نصیر الدین نصیرؔ گیلانی ​

لڑاتے ہیں نظر ان سے جو ہوتے ہیں نظر والے

لڑاتے ہیں نظر ان سے جو ہوتے ہیں نظر والے
محبت کرتے ہیں دنیا میں دل والے ، جگر والے
ہمیں ذوقِ نظر نے کر دیا اس راز سے واقف
اشاروں میں پرکھتے ہیں زمانے کو نظر والے
کوئی تم سا نہ دیکھا ، یوں تو دیکھا ہم نے دنیا میں 
بہت جادو نظر والے ، بہت جادو اثر والے
تمہاری انجمن میں اور کس کو حوصلہ یہ ہے 
وہی دل پیش کرتے ہیں جو ہوتے ہیں جگر والے
سب اپنے اپنے زندانِ ہوس کے مستقل قیدی 
زمیں والے، یہ زر والے ، یہ در والے ، یہ گھر والے
ہُنر مندانِ الفت ہیں بہت کم اس زمانے میں 
جہاں میں یوں تو ہم نے لالکھوں دیکھے ہیں ہُنر والے
نصیر ان کی طرف سے یہ ہمیں تاکید ہوتی ہے
"سنبھل کر بیٹھیئے محفل میں بیٹھے ہیں ، نظر والے​
پیرسید نصیر الدین نصیرؔ گیلانی​

ادھر بھی نگاہِ کرم یا محمد ! صدا دے رہے ہیں یہ در پر سوالی

ادھر بھی نگاہِ کرم یا محمد ! صدا دے رہے ہیں یہ در پر سوالی
بہت ظلم ڈھائے ہیں اہلِ ستم نے ، دہائی تری اے غریبوں کے والی

نہ پوچھو دلِ کیفِ ساماں کا عالم ، ہے پیشِ نظر ان کا دربارِ عالی
نگاہوں میں ہیں پھر حضوری کے لمحے ، تصور میں ہے ان کے روضے کی جالی

جبیں خیر سے مطلعِ خیر احساں ، بدن منبعِ نور ، ابرو ہلالی 
ادھر روئے روشن پہ والشّمس کی ضَو ، اُدھر دوش پر زلف والیل والی

عطا کیجئے آلِ زہرا کا صدقہ ، فضائل کے پھولوں سے دامن ہے خالی
نہ عرفانِ حیدر ، نہ فقرِ ابوذر ، نہ تمکینِ سلماں ، نہ صبرِ بلالی

سمندر بھرے نام کا جس کے پانی ، اسی ناخدا کی ہے یہ مہربانی 
تلاطم میں آیا جو دریائے عصیاں ، تو کشتی مری ڈوبنے سے بچالی

نہ اب میرا خونِ تمنّا بہے گا ، جو مانگا ہے ان سے وہ مل کے رہے گا
میں اُس شاہ شاہاں کے در پہ کھڑا ہوں ، کبھی بات سائل کی جس نے نہ ٹالی

نویدِ بہاراں ملے کشتِ جاں کو ، خبر دے کوئی جا کے لب تشنگاں کو 
برسنے کو آیا ہے طیبہ سے بادل ، وہ دیکھو اُٹھی ہے گھٹا کالی کالی

سزاوار ہیں اب تو لطف و کرم کے ، کھڑے ہیں جو سائے میں بابِ حرم کے
لئے آنکھوں میں اشکوں کے موتی ، سجائے ہوئے دل کے زخموں کی ڈالی

زمانہ ہے گرچہ مسلسل سفر میں ، مسلم ہے دنیائے فکر و نظر میں 
تری بے نظیری ، تری بے عدیلی، تری بے مثیلی ، تری بے مثالی

کرم ہے یہ سب آپ کا میرے آقا ! بلایا مجھے اپنی چوکھٹ پہ ، ورنہ
کہاں میری پلکیں کہاں خاکِ طیبہ ، کہاں میں ، کہاں آپ کا بابِ عالی

نہ مجھ میں کوئی گفتگو کا قرینہ ، نہ دامن میں حرفِ بیاں کا خزینہ
یہ عجزِ سخن ہی تو ہے میری دولت ، ہے میرا ہنر یہ مری بے کمالی

رہے سر پہ تاجِ شفاعت سلامت ، ترا در رہے تا قیامِ قیامت
توجہ کی خیرات لے کر اٹھے گا ، نصیر آج بیٹھا ہے بن کر سوالی​
پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی​

بیتاب ہیں، ششدر ہیں، پریشان بہت ہیں

بیتاب ہیں، ششدر ہیں، پریشان بہت ہیں
کیوں کر نہ ہوں، دل ایک ہے، ارمان بہت ہیں

کیوں یاد نہ رکّھوں تجھے اے دُشمنِ پنہاں!
آخر مِرے سَر پر تِرے احسان بہت ہیں

ڈھونڈو تو کوئی کام کا بندہ نہیں مِلتا
کہنے کو تو اِس دور میں انسان بہت ہیں

اللہ ! اِسے پار لگائے تو لگائے
کشتی مِری کمزور ہے طوفان بہت ہیں

دیکھیں تجھے، یہ ہوش کہاں اہلِ نظر کو
تصویر تِری دیکھ کر حیران بہت ہیں

ارمانوں کی اِک بھیڑ لگی رہتی ہے دن رات
دل تنگ نہیں، خیر سے مہمان بہت ہیں

یُوں ملتے ہیں، جیسے نہ کوئی جان نہ پہچان
دانستہ نصیرؔ آج وہ انجان بہت ہیں​

پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی

ہر طرف سے جھانکتا ہے روئے جانانہ مجھے

ہر طرف سے جھانکتا ہے روئے جانانہ مجھے
محفلِ ہستی ہے گویا آئینہ خانہ مجھے

اِک قیامت ڈھائے گا دنیا سے اٹھ جانا مرا
یاد کر کے روئیں گے یارانِ میخانہ مجھے 

دل ملاتے بھی نہیں دامن چھڑاتے بھی نہیں 
تم نے آخر کیوں بنا رکھا ہے دیوانہ مجھے 

یا کمالِ قُرب ہو یا انتہائے بُعد ہو
یا نبھانا ساتھ یا پھر بُھول ہی جانا مجھے

انگلیاں شب زادگانِ شہر کی اُٹھنے لگیں 
میرے ساقی دے ذرا قندیلِ میخانہ مجھے

تُو ہی بتلا اس تعلق کو بھلا کیا نام دوں 
ساری دنیا کہہ رہی ہے تیرا دیوانہ مجھے

جس کے سناٹے ہوں میری خامشی سے ہم کلام
کاش مل جائے نصیرؔ اک ایسا ویرانہ مجھے​



پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانیؒ​

Monday, June 18, 2018

جُز گماں اور تھا ہی کیا میرا

جُز گماں اور تھا ہی کیا میرا
فقط اک میرا نام تھا میرا
نکہتِ پیرہن سے اُس گُل کی
سلسلہ بے صبا رہا میرا
مجھ کو خواہش ہی ڈھونڈھنے کی نہ تھی
مجھ میں کھویا رہا خدا میرا
تھوک دے خون جان لے وہ اگر
عالمِ ترکِ مُدعا میرا
جب تجھے میری چاہ تھی جاناں!
بس وہی وقت تھا کڑا میرا
کوئی مجھ تک پہنچ نہیں پاتا
اتنا آسان ہے پتا میرا
آ چکا پیش وہ مروّت سے
اب چلوں کام ہو چکا میرا
آج میں خود سے ہو گیا مایوس
آج اِک یار مر گیا میرا
جون ایلیا

ہیں موسم رنگ کے کتنے گنوائے، میں نہیں گِنتا

ہیں موسم رنگ کے کتنے گنوائے، میں نہیں گِنتا
ہوئے کتنے دن اس کوچے سے آئے، میں نہیں گِنتا
بھلا خود میں کب اپنا ہوں، سو پھر اپنا پرایا کیا
ہیں کتنے اپنے اور کتنے پرائے میں نہیں گِنتا
لبوں کے بیچ تھا ہر سانس اک گنتی بچھڑنے کی
مرے وہ لاکھ بوسے لے کے جائے میں نہیں گِنتا
وہ میری ذات کی بستی جو تھی میں اب وہاں کب ہوں
وہاں آباد تھے کِس کِس کے سائے میں نہیں گِنتا
بھلا یہ غم میں بھولوں گا کہ غم بھی بھول جاتے ہیں
مرے لمحوں نے کتنے غم بُھلائے میں نہیں گِنتا
تُو جن یادوں کی خوشبو لے گئی تھی اے صبا مجھ سے
انہیں تُو موج اندر موج لائے میں نہیں گِنتا
وہ سارے رشتہ ہائے جاں کے تازہ تھے جو اس پل تک
تھے سب باشندہء کہنہ سرائے، میں نہیں گِنتا
جون ایلیا

رامش گروں سے داد طلب انجمن میں تھی

رامش گروں سے داد طلب انجمن میں تھی
وہ حالت سکوت جو اس کے سخن میں تھی
تھے دن عجب وہ کشمکش انتخاب کے
اک بات یاسمیں میں تھی اک یاسمن میں تھی
رم خوردگی میں اپنے غزال ختن تھے ہم
یہ جب کا ذکر ہے کہ غزالہ ختم میں تھی
محمل کے ساتھ ساتھ میں آ تو گیا مگر
وہ بات شہر میں تو نہیں ہے جو بن میں تھی
کیوں کہ سماعتوں کو خنک عیش کر گئی
وہ تند شعلگی جو نوا کے بدن میں تھی
خوباں کہاں تھے نکتہ خوبی سے با خبر
یہ اہلِ فن کی بات تھی اور اہلِ فن میں تھی
یاد آ رہی ہے پھر تری فرمائشِ سخن
وہ نغمگی کہاں مری عرضِ سخن میں تھی
آشوبناک تھی نگہِ اوّلینِ شوق
صبحِ وصال کی سی تھکن اس بدن میں تھی
پہنچی ہے جب ہماری تباہی کی داستاں
عذرا وطن میں تھی نہ عنیزہ وطن میں تھی
میں اور پاسِ وضعِ خرد، کیا ہوا مجھے؟
میری تو آن ہی مرے دیوانہ پن میں تھی
انکار ہے تو قیمتِ انکار کچھ بھی ہو
یزداں سے پوچھنا یہ ادا اہرمن میں تھی
جون ایلیا

ہار جا اے نگاہِ ناکارہ

ہار جا اے نگاہِ ناکارہ
گم افق میں ہوا وہ طیارہ
آہ وہ محملِ فضا پرواز
چاند کو لے گیا ہے سیارہ
صبح اس کو وداع کر کے میں
نصف شب تک پھرا ہوں آوارہ
سانس کیا ہیں کہ میرے سینے میں
ہر نفس چل رہا ہے اک آرا
کچھ کہا بھی جو اس سے حال تو کب؟
جب تلافی رہی، نہ کفّارہ
کیا تھا آخر مرا وہ عشق عجیب
عشق کا خوں، کہ عشقِ خوں خوارہ
ناز کو جس نے اپنا حق سمجھا
کیا تمہیں یاد ہے وہ بے چارہ؟
چاند ہے آج کچھ نڈھال نڈھال
کیا بہت تھک گیا ہے ہرکارہ
اس مسلسل شبِ جدائی میں
خون تھوکا گیا ہے مہ پارہ
ہو گئی ہے مرے سفر کی سحر
کوچ کا بج رہا ہے نقارہ
جون ایلیا

عہد اُس کُوچہِ دل سے ہے سو اُس کوچہ میں

عہد اُس کُوچہِ دل سے ہے سو اُس کوچہ میں
ہے کوئی اپنی جگہ ہم جسے برباد رکھیں
کیا کہیں کیتنے نُقطے ہیں جو برتے نہ گئے
خوش بدن عشق کریں اور ہم اُستاد رکھیں
بے ستون اک نواہی میں ہے شہرِ دل کی
تیشہ انعام کریں اور کوئی فریاد رکھیں
آشیانہ کوئی اپنا نہیں پر شوق یہ ہے
اک قفس لائیں کہیں سے اور کوئی صیاد رکھیں
جون ایلیا

تجھ بدن پر ہم نے جانیں واریاں

تجھ بدن پر ہم نے جانیں واریاں
تجھ کو تڑپانے کی ہیں تیاریاں
کر رہے ہیں یاد اسے ہم روزوشب
ہیں بُھلانے کی اسے تیاریاں
تھا کبھی میں اک ہنسی اُن کے لیے
رو رہی ہیں اب مجھے مت ماریاں
جھوٹ سچ کے کھیل میں ہلکان ہیں
خوب ہیں یہ لڑکیاں بےچاریاں
شعر تو کیا بات کہہ سکتے نہیں
جو بھی نوکر جون ہیں سرکاریاں
جو میاں جاتے ہیں دفتر وقت پر
اُن سے ہیں اپنی جُدا دشواریاں
ہم بھلا آئین اور قانون کی
کب تلک سہتے رہیں غداریاں
سُن رکھو اے شہر دارو ! خون کی
ہونے ہی والی ہیں ندیاں جاریاں
جون ایلیا

Saturday, June 2, 2018

عمر میں اس سے بڑی تھی لیکن پہلے ٹوٹ کے بکھری میں



عمر میں اس سے بڑی تھی لیکن پہلے ٹوٹ کے بکھری میں 
ساحل ساحل جذبے تھے اور دریا دریا پہنچی میں

شہر میں اس کے نام کے جتنے شخص تھے سب ہی اچھے تھے 
صبح سفر تو دھند بہت تھی دھوپیں بن کر نکلی میں

اس کی ہتھیلی کے دامن میں سارے موسم سمٹے تھے 
اس کے ہاتھ میں جاگی میں اور اس کے ہاتھ سے اجلی میں

اک مٹھی تاریکی میں تھا اک مٹھی سے بڑھ کر پیار 
لمس کے جگنو پلو باندھے زینہ زینہ اتری میں

اس کے آنگن میں کھلتا تھا شہر مراد کا دروازہ 
کنویں کے پاس سے خالی گاگر ہاتھ میں لے کر پلٹی میں

میں نے جو سوچا تھا یوں تو اس نے بھی وہی سوچا تھا 
دن نکلا تو وہ بھی نہیں تھا اور موجود نہیں تھی میں

لمحہ لمحہ جاں پگھلے گی قطرہ قطرہ شب ہوگی 
اپنے ہاتھ لرزتے دیکھے اپنے آپ ہی سنبھلی میں

پان کھا کر سرمہ کی تحریر پھر کھینچی تو کیا

پان کھا کر سرمہ کی تحریر پھر کھینچی تو کیا 
جب مرا خوں ہو چکا شمشیر پھر کھینچی تو کیا 
اے مہوس جب کہ زر تیرے نصیبوں میں نہیں 
تو نے محنت بھی پئے اکسیر پھر کھینچی تو کیا 
گر کھنچے سینہ سے ناوک روح تو قالب سے کھینچ 
اے اجل جب کھنچ گیا وہ تیر پھر کھینچی تو کیا 
کھینچتا تھا پاؤں میرا پہلے ہی زنجیر سے 
اے جنوں تو نے مری زنجیر پھر کھینچی تو کیا 
دار ہی پر اس نے کھینچا جب سر بازار عشق 
لاش بھی میری پئے تشہیر پھر کھینچی تو کیا 
کھینچ اب نالہ کوئی ایسا کہ ہو اس کو اثر 
تو نے اے دل آہ پر تاثیر پھر کھینچی تو کیا 
چاہیئے اس کا تصور ہی سے نقشہ کھینچنا 
دیکھ کر تصویر کو تصویر پھر کھینچی تو کیا 
کھینچ لے اول ہی سے دل کی عنان اختیار 
تو نے گر اے عاشق دلگیر پھر کھینچی تو کیا 
کیا ہوا آگے اٹھائے گر ظفرؔ احسان عقل 
اور اگر اب منت تدبیر پھر کھینچی توکیا

Monday, May 28, 2018

وہ سو سو اٹھکھٹوں سے گھر سے باہر دو قدم نکلے





وہ سو سو اٹھکھٹوں سے گھر سے باہر دو قدم نکلے
بلا سے اس کی گر اس میں کسی مضطر کا دم نکلے

کہاں آنسو کے قطرے خون دل سے ہیں بہم نکلے
یہ دل میں جمع تھے مدت سے کچھ پیکان غم نکلے

مرے مضمون سوز دل سے خط سب جل گیا میرا
قلم سے حرف جو نکلے شرر ہی یک قلم نکلے

نکال اے چارہ گر تو شوق سے لیکن سر پیکاں
ادھر نکلے جگر سے تیر ادھر قالب سے دم نکلے

تصور سے لب لعلیں کے تیرے ہم اگر رو دیں
تو جو لخت جگر آنکھوں سے نکلے اک رقم نکلے

نہیں ڈرتے اگر ہوں لاکھ زنداں یار زنداں سے
جنون اب تو مثال نالۂ زنجیر ہم نکلے

جگر پر داغ لب پر دود دل اور اشک دامن میں
تری محفل سے ہم مانند شمع صبح دم نکلے

اگر ہوتا زمانہ گیسوئے شب رنگ کا تیرے
مری شب دیز سودا کا زیادہ تر قدم نکلے

کجی جن کی طبیعت میں ہے کب ہوتی وہ سیدھی ہے
کہو شاخ گل تصویر سے کس طرح خم نکلے

شمار اک شب کیا ہم نے جو اپنے دل کے داغوں سے
تو انجم چرخ ہشتم کے بہت سے ان سے کم نکلے

خدا کے واسطے زاہد اٹھا پردہ نہ کعبہ کا
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے

تمنا ہے یہ دل میں جب تلک ہے دم میں دم اپنے
ظفرؔ منہ سے ہمارے نام اس کا دم بہ دم نکل

بہادر شاہ ظفر

Sunday, May 27, 2018

خو بيا هم دوزخي يمه

bakhtzada dainsh


کليمه وېم مسلمان يمه
منونکے دَ قران يمه
دَ لوئے الله بنده يمه
منونکے دَ هغه يمه
دَ خاورې نه پېدا يمه
بچے زۀ دَ حوا يمه
زۀ څومره قيمتي يمه 
خو بيا هم دوزخي يمه

باران دَ مېکائيل منم 
زۀ شان دَ جبرائيل منم
زۀ رُعب دَ عزرائيل منم
شپېلۍ دَ اسرافيل منم
هابيل منم قابيل منم
لښکر دَ ابابيل منم
دَ رحم دې سوالي يمه
خو بيا هم دوزخي يمه


آدم منم حوا منم 
عيسیٰ منم موسیٰ منم
منم زبيح الله منم
منم خليل الله منم
هارون منم قارون منم
دَ هر دور قانون منم
پۀ دين محمدي يمه
خو بيا هم دوزخي يمه

  
زۀ دين منم قران منم
زۀ ستا واړه ياران منم
علي منم عمر منم
صديق منم عثمان منم
دَ زړۀ نه اهل بېت منم
مئين پۀ دوئې بيخي يمه
خو بيا هم دوزخي يمه

زۀ مونځ کووم زکات منم
قران منم مشکات منم
زبور منم تورات منم
حکمونه دَ جهاد منم
ابو داود ابن ماجه منم
زۀ هره صحيفه منم
منمه صحيفې منم 
زۀ واړه معجزې منم
ماران منم چينې منم
وليانو سلسلې منم
دَ عقل نه خالي يمه 
خو بيا هم دوزخي يمه 
  

 دَ مصر دَ کوڅې قصه 
 دَ ښکلې زلېخې قصه
يوسف ليده دَ شپې قصه
پۀ خوب کښې دَ هغې قصه
پۀ سور اور کښې دَ ټال قصه
منمه دَ بلال قصه
مئين پۀ حبشي يمه
زۀ بيا هم دوزخي يمه




حورې شته غلمان بۀ وي
جنت کښې شهد روان بۀ وي
خوَږې پستې اوبۀ بۀ وي
شراب بۀ وي شوده بۀ وي
پۀ خيال کښې جنتي يمه 
خو بيا هم دوزخي يمه


دوزخ بۀ وي ماران بۀ وي
سور اور لړمانان بۀ وي
تيارې بۀ وي تور تم بۀ وي
خوَلې بۀ وي زُقم بۀ وي
دانشه ګُناه نۀ کووم
هېڅ غم دَ دُنيا نۀ کووم
ستم زۀ پۀ چا نۀ کووم
غنمو نۀ غلا نۀ کووم
دَ ذکر ريا نۀ کووم
دَ فکر سودا نۀ کووم
دَ مکر ژړا نۀ کووم
دَ کبر خندا نۀ کووم
هېڅ غم زۀ دَ چا نۀ کووم
بس دم پۀ مُلا نۀ کووم
ياران وائي ولي يمه
خو بيا هم دوزخي يمه



پروفېسر بخت ذاده دانش

For video pleas click down side banner