Wednesday, April 8, 2015

تہذیب حافی

اک تیرا ہجر دائمی ھے مجھے
ورنہ ہر چیز عارضی ھے مجھے
میری آنکھوں پہ دو مقدس ھاتھ
یہ اندھیرہ بھی روشنی ھے مجھے
میں سخن میں ہوں اس جگہ کہ جہاں
سانس لینا بھی شاعری ھے مجھے
اک اداسی جو اتنے لوگوں میں
نام لے کر پکارتی ھے مجھے
میں اسے کب کا بھول بھال چکا
زندگی ھے کہ رو رہی ھے مجھے
ان پرندوں سے بولنا سیکھا
پیڑ سے خامشی ملی ھے مجھے
میں کہ کاغذ کی ایک کشتی ھوں
پہلی بارش ہی آخری ھے مجھے
 

لبوں سے لفظ جھڑیں آنکھ سے نمی نکلے 
کسی طرح تو مرے دل سے بے دلی نکلے
میں چاہتا ہوں پرندے رہا کیے جائیں 
میں چاہتا ہوں ترے ہونٹ سے ہنسی نکلے
میں چاہتاہوں کوئی مجھ سے بات کرتا رہے 
میں چاہتا ہوں کہ اندر کی خامشی نکلے
میں چاہتا ہوں مجھے طاقچوں میں رکھا جائے 
میں چاہتا ہوں جلوں اور روشنی نکلے
میں چاہتا ہوں تجھے مجھ سے عشق ہو جائے 
میں چاہتا ہوں کہ صحرا سے جل پری نکلے
میں چاہتا ہوں ترے ہجر میں عجیب ہو کچھ 
میں چاہتا ہوں چراغوں سے تیرگی نکلے
میں چاہتا ہوں مجھے کوئی درد دان کرے 
شدید اتنا کہ آنسو ہنسی خوشی نکلے



تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا 
اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا
یوں نہیں ہے کہ فقط میں ہی اُسے چاہتا ہوں
جو بھی اُس پیڑ کی چھاؤں میں گیا بیٹھ گیا
اتنا میٹھا تھا وہ غصے بھرا لہجہ مت پوچھ 
اُس نے جس جس کو بھی جانے کا کہا بیٹھ گیا
اپنا لڑنا بھی محبت ہے تمھیں علم نہیں 
چیختی تم رہی اور میرا گلا بیٹھ گیا
اُس کی مرضی وہ جسے پاس بٹھا لے اپنے
اس پہ کیا لڑنا فلاں میری جگہ بیٹھ گیا
بات دریاؤں کی سورج کی نہ تیری ہے یہاں
دو قدم جو بھی مرے ساتھ چلا بیٹھ گیا
بزم . جاناں میں نشستیں نہیں ہوتیں مخصوص
 جو بھی اک بار جہاں بیٹھ گیا بیٹھ گیا



تری قید سے میں یونہی رہا نہیں ہو رہا
مری زندگی ترا حق ادا نہیں ہو رہا
ترے جیتے جاگتے اور کوئی مرے دل میں ہے
مرے دوست کیا یہ بہت برا نہیں ہو رہا
مرا موسموں سے تو پھر گلہ ہی فضول ہے
تجھے چھو کے بھی میں اگر ہرا نہیں ہو رہا
کوئی شعر ہے جو میں چاہ کر بھی نہ لکھ سکا
کوئی واقعہ ہے جو رونما نہیں ہو رہا
یہ جو ڈگمگانے لگی ہے تیرے دیے کی لو 
اسے مجھ سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہو رہا
مجھے علم ہے مری کشتیوں میں سوراخ ہیں
جبھی پار جانے کا حوصلہ نہیں ہو رہا
تہذیب حافی