اک تیرا ہجر دائمی ھے مجھے
ورنہ ہر چیز عارضی ھے مجھے
ورنہ ہر چیز عارضی ھے مجھے
میری آنکھوں پہ دو مقدس ھاتھ
یہ اندھیرہ بھی روشنی ھے مجھے
یہ اندھیرہ بھی روشنی ھے مجھے
میں سخن میں ہوں اس جگہ کہ جہاں
سانس لینا بھی شاعری ھے مجھے
سانس لینا بھی شاعری ھے مجھے
اک اداسی جو اتنے لوگوں میں
نام لے کر پکارتی ھے مجھے
نام لے کر پکارتی ھے مجھے
میں اسے کب کا بھول بھال چکا
زندگی ھے کہ رو رہی ھے مجھے
زندگی ھے کہ رو رہی ھے مجھے
ان پرندوں سے بولنا سیکھا
پیڑ سے خامشی ملی ھے مجھے
پیڑ سے خامشی ملی ھے مجھے
میں کہ کاغذ کی ایک کشتی ھوں
پہلی بارش ہی آخری ھے مجھے
پہلی بارش ہی آخری ھے مجھے
لبوں سے لفظ جھڑیں آنکھ سے نمی نکلے
کسی طرح تو مرے دل سے بے دلی نکلے
کسی طرح تو مرے دل سے بے دلی نکلے
میں چاہتا ہوں پرندے رہا کیے جائیں
میں چاہتا ہوں ترے ہونٹ سے ہنسی نکلے
میں چاہتا ہوں ترے ہونٹ سے ہنسی نکلے
میں چاہتاہوں کوئی مجھ سے بات کرتا رہے
میں چاہتا ہوں کہ اندر کی خامشی نکلے
میں چاہتا ہوں کہ اندر کی خامشی نکلے
میں چاہتا ہوں مجھے طاقچوں میں رکھا جائے
میں چاہتا ہوں جلوں اور روشنی نکلے
میں چاہتا ہوں جلوں اور روشنی نکلے
میں چاہتا ہوں تجھے مجھ سے عشق ہو جائے
میں چاہتا ہوں کہ صحرا سے جل پری نکلے
میں چاہتا ہوں کہ صحرا سے جل پری نکلے
میں چاہتا ہوں ترے ہجر میں عجیب ہو کچھ
میں چاہتا ہوں چراغوں سے تیرگی نکلے
میں چاہتا ہوں چراغوں سے تیرگی نکلے
میں چاہتا ہوں مجھے کوئی درد دان کرے
شدید اتنا کہ آنسو ہنسی خوشی نکلے
شدید اتنا کہ آنسو ہنسی خوشی نکلے
تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا
اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا
اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا
یوں نہیں ہے کہ فقط میں ہی اُسے چاہتا ہوں
جو بھی اُس پیڑ کی چھاؤں میں گیا بیٹھ گیا
جو بھی اُس پیڑ کی چھاؤں میں گیا بیٹھ گیا
اتنا میٹھا تھا وہ غصے بھرا لہجہ مت پوچھ
اُس نے جس جس کو بھی جانے کا کہا بیٹھ گیا
اُس نے جس جس کو بھی جانے کا کہا بیٹھ گیا
اپنا لڑنا بھی محبت ہے تمھیں علم نہیں
چیختی تم رہی اور میرا گلا بیٹھ گیا
چیختی تم رہی اور میرا گلا بیٹھ گیا
اُس کی مرضی وہ جسے پاس بٹھا لے اپنے
اس پہ کیا لڑنا فلاں میری جگہ بیٹھ گیا
اس پہ کیا لڑنا فلاں میری جگہ بیٹھ گیا
بات دریاؤں کی سورج کی نہ تیری ہے یہاں
دو قدم جو بھی مرے ساتھ چلا بیٹھ گیا
دو قدم جو بھی مرے ساتھ چلا بیٹھ گیا
بزم . جاناں میں نشستیں نہیں ہوتیں مخصوص
جو بھی اک بار جہاں بیٹھ گیا بیٹھ گیا
جو بھی اک بار جہاں بیٹھ گیا بیٹھ گیا
تری قید سے میں یونہی رہا نہیں ہو رہا
مری زندگی ترا حق ادا نہیں ہو رہا
مری زندگی ترا حق ادا نہیں ہو رہا
ترے جیتے جاگتے اور کوئی مرے دل میں ہے
مرے دوست کیا یہ بہت برا نہیں ہو رہا
مرے دوست کیا یہ بہت برا نہیں ہو رہا
مرا موسموں سے تو پھر گلہ ہی فضول ہے
تجھے چھو کے بھی میں اگر ہرا نہیں ہو رہا
تجھے چھو کے بھی میں اگر ہرا نہیں ہو رہا
کوئی شعر ہے جو میں چاہ کر بھی نہ لکھ سکا
کوئی واقعہ ہے جو رونما نہیں ہو رہا
کوئی واقعہ ہے جو رونما نہیں ہو رہا
یہ جو ڈگمگانے لگی ہے تیرے دیے کی لو
اسے مجھ سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہو رہا
اسے مجھ سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہو رہا
مجھے علم ہے مری کشتیوں میں سوراخ ہیں
جبھی پار جانے کا حوصلہ نہیں ہو رہا
جبھی پار جانے کا حوصلہ نہیں ہو رہا
تہذیب حافی