Friday, October 26, 2018

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں



اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں 

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں 


ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی 

یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں 


غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو 

نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں 


تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا 

دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں 


آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر 

کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں 


اب نہ وہ میں نہ وہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فرازؔ 

جیسے دو سائے تمنا کے سرابوں میں ملیں

رخ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم



اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے 

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے 


تم نے ٹھہرائی اگر غیر کے گھر جانے کی 

تو ارادے یہاں کچھ اور ٹھہر جائیں گے 


خالی اے چارہ گرو ہوں گے بہت مرہم داں 

پر مرے زخم نہیں ایسے کہ بھر جائیں گے 


پہنچیں گے رہ گزر یار تلک کیوں کر ہم 

پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جائیں گے 


شعلۂ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں 

پر مجھے ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے 


ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ پر 

بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے 


آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی 

جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے 


نہیں پائے گا نشاں کوئی ہمارا ہرگز 

ہم جہاں سے روش تیر نظر جائیں گے 


سامنے چشم گہر بار کے کہہ دو دریا 

چڑھ کے گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے 


لائے جو مست ہیں تربت پہ گلابی آنکھیں 

اور اگر کچھ نہیں دو پھول تو دھر جائیں گے 


رخ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم 

مہر و ماہ نظروں سے یاروں کی اتر جائیں گے 


ہم بھی دیکھیں گے کوئی اہل نظر ہے کہ نہیں 

یاں سے جب ہم روش تیر نظر جائیں گے 


ذوقؔ جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں ملا 

ان کو مے خانے میں لے آؤ سنور جائیں گے