Saturday, April 21, 2018

Image may contain: 3 people, text


ایک زمین
علامّہ مُحمّد اقبالؒ
مولانا ظفرؔؒ علی خان
رحمت الہٰی برقؔ اعظمیؒ
۔۔۔۔۔

نِگاہء فقر میں شانِ سِکندری کیا ہے
خِراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے

بُتوں سے تُجھ کو اُمّیدیں خُدا سے نومیدی
مُجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے

فلک نے اُن کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں
خبر نہیں روِشِ بندہ پروری کیا ہے

فقط نِگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دِل کا
نہ ہو نِگاہ میں شوخی تو دِلبری کیا ہے

اِسی خطا سے عتابِ ملُوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہُوں مآلِ سِکندری کیا ہے

کِسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکِن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے

خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مِرا کیا ہے شاعری کیا ہے۔۔۔!

۔۔۔۔۔

جناں کی حُور ہے کیا قاف کی پری کیا ہے
بُتانِ ہند سے سیکھیں کہ دِلبری کیا ہے

یہ نُکتہ زادہء توحید ہی کرے گا حل
کلاہ داری و آئینِ سروری کیا ہے

قبا ہو خرقہ کے نیچے تو اُن کو ہو معلُوم
کہ پارسائ کیا ہے قلندری کیا ہے

مہاسبھائیوں سے کہہ رہے تھے گاندھی جی
مُنافقت نہیں جِس میں وہ لِیڈری کیا ہے

ہو لاگ لیگ سے لیکِن ہو کانگرس سے لگاؤ
بتاؤ تو بَجُز اِس کے گورنری کیا ہے

کسی بہانے سے شیخ و برہمن مِل جائیں
تو مغربی صنموں کی فسُونگری کیا ہے

سُخنوری میں نظیریؔ نہیں ہے میری نظیر
مِرے مُقابلہ میں آج انوری کیا ہے۔۔۔!

۔۔۔۔۔

نہ ہو جو رُوحِ سُخن وہ سُخنوری کیا ہے
پرکھ سکے جو نہ جوہر وہ جوہری کیا ہے

نِگاہِ فقر میں یہ جنگِ زرگری کیا ہے
قلندری ہو میسّر تو قیصری کیا ہے

پہنچ کے قبر میں عِبرت کا آئینہ بنا
سِواۓ اِس کے مآلِ سکندری کیا ہے

مِلے کِسے دُر مقصد بغیر غوّاصی
مُجھے یہ فاصلہ چرخِ چنبری کیا ہے

جمالِ یار کے اِک پَرتَوِ حسیں کے سِوا
تجلّی رُخِ خورشید خاوری کیا ہے

بلند بانگ دَعاوی غلط ہیں سر تا سر
جو رُخ نہیں سُوۓ منزِل تو رہبری کیا ہے

شفق میں دیکھ شہیدوں کے خُون رنگ کی سُرخی
حِنا کے رنگ سے اِس کی برابری کیا ہے

غلط نہیں ہے مساوات کا اگر دعویٰ
تو پِھر آپ کا احساسِ برتری کیا ہے

نہ ہو جو دِل میں محبّت تو دِلدِہی کیسی
” نہ ہو نِگاہ میں شوخی تو دِلبری کیا ہے“

نبیﷺ کے دوش کی رِفعت کا عِلم ہے جِس کو
بتاۓ گا وہی معراجِ حیدری کیا ہے

خُدا سے برقؔ تعلُّق نہیں ہے جِس دِل کا
وہ خاک جانے بھلا بندہ پروری کیا ہے۔۔۔!

ايک زمين کئي شاعر


Image may contain: 2 people, text

غم عاشقی تیرا شکریہ…….عرش ملسیانی
کبھی اس مکاں سے گزر گیا کبھی اس مکاں سے گزر گیا
........
کبھی اس مکاں سے گزر گیا کبھی اس مکاں سے گزر گیا
تیرے آستان کی تلاش میں میں ہر آستاں سے گزر گیا

جسے لوگ کہتے ہیں، زندگی وہ تو حادثوں کا ہجوم ہے
یہ تو کہیے میرا ہی کام تھا کہ میں درمیاں سے گزر گیا

یہ تو میرا ذوق کمال ہے مگر اس کو دیکھ میرے خدا
تو نے روکا مجھ کو جہاں جہاں میں وہاں وہاں سے گزر گیا

کبھی تیرا در کبھی دربدر کبھی عرش پر کبھی فرش پر
غم عاشقی تیرا شکریہ میں کہاں کہاں سے گزر گیا
....
محمد امیر اعظم قریشی
کبھی مہر و ماہ و نجوم سے کبھی کہکشاں سے گزر گیا
میں تری تلاش میں آخرش حد لا مکاں سے گزر گیا

یہ تفاوت صنم و حرم ہے تبھی کہ جب بھی نشہ ہو کم
جو بھی غرق بادۂ حق ہوا غم این و آں سے گزر گیا

کبھی شہر حسن خیال سے کبھی دشت حزن و ملال سے
ترے عشق میں تیرے پیار میں میں کہاں کہاں سے گزر گیا

تری رہ گزر مری رہ گزر ترے نقش پا مری راہ پر
تو جہاں جہاں سے گزر گیا میں وہاں وہاں سے گزر گیا

رہ زندگی میں مقام وہ مجھے بارہا ملے دوستو
کہ خرد کا پاؤں پھسل گیا ہے جنوں جہاں سے گزر گیا

مرا جسم کیا مری روح کیا نہیں کوئی زخموں کی انتہا
اے امیرؔ تیر نگاہ حسن کہاں کہاں سے گزر گیا
.....
وقار بجنوری
رہ کہکشاں سے گزر گیا ہمہ این و آں سے گزر گیا
کوئی بزم ناز و نیاز میں میں حد و کماں سے گزر گیا

نہ کوئی جہاں سے گزر سکے یہ وہاں وہاں سے گزر گیا
ترے عشق میں دل مبتلا ہر اک امتحاں سے گزر گیا

ترے عشق سینہ فگار کا یہ شعور قابل داد ہے
وہی تیر دل سے لگا لیا جو تری کماں سے گزر گیا

ترے حسن سجدہ نواز کا یہ کرم جبین نیاز پر
کہ ملے حرم ہی حرم مجھے میں جہاں جہاں سے گزر گیا

مرے ناصحا ترا شکریہ مرے حال پر مجھے چھوڑ دے
جو تری زمیں پر محیط ہے میں اس آسماں سے گزر گیا

یہ نظام بزم حیات کا ابھی خلفشار کی نذر تھا
وہ تو شکر ہے کہ فسانہ خواں مری داستاں سے گزر گیا

رہے قید و بند کی لذتیں کہ اذیتیں بھی ہیں راحتیں
میں قفس میں آتے ہی سرحد غم آشیاں سے گزر گیا

نہ وقارؔ دیر سے واسطہ نہ حرم سے مجھ کو کوئی غرض
کسی بے نشاں کی تلاش میں میں ہر اک نشاں سے گزر گیا
....



مقبول نقش
تری جستجو میں بتاؤں کیا ، میں کہاں کہاں سے گزر گیا
کہیں دل کی دھڑکنیں رُک گئیں، کہیں وقت جیسے ٹھہر گیا

ترے غم کی عمر دراز ہو، مرا فن اسی سے سنور گیا
یہی درد بن کے چمک گیا، یہی چوٹ بن کے اُبھر گیا

یہ تو اپنا اپنا ہے حوصلہ ، کہیں عزم اور کہیں گِلہ
کوئی بارِ دوشِ زمیں رہا، کوئی کہکشاں سے گزر گیا

یہ اختلافِ مذاق ہے، یہی فرقِ وصل و فراق ہے
کوئی پائمالِ نشاط ہے، کوئی غم بھی پا کے سنور گیا

ترا لطف ہو کہ تری جفا، مِرے غم کی یہ تو نہیں دوا
مجھے اب تو اپنی تلاش ہے، میں تری طلب سے گزر گیا

وہ اُمنگ اور وہ ہما ہمی، جسے نقشؔ کہتے ہیں زندگی
دلِ نامُراد کے دَم سے تھی، دلِ نامُراد تو مر گیا

Thursday, April 19, 2018

ایک زمین


Image may contain: 2 people, text
ایک زمین
قلندر بخش جراتؔ
انشاءاللہ خان انشاؔ
نظیرؔ اکبر آبادی
۔۔۔۔۔
مِصرَع اُولٰی جراتؔ
مِصرَع ثانی انشاؔ

اُس زُلف پہ پھبتی شبِ دیجُور کی سُوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دُور کی سُوجھی

۔۔۔۔۔
انشاؔ

پھبتی تِرے مُکھڑے پہ مُجھے حُور کی سُوجھی
لا ہاتھ اِدھر دے کہ بہت دُور کی سُوجھی

ٹک دیکھئے گا جُبّہ و عَمّامہ زاہد
ہے اِس پہ مُجھے بلعم باعُور کی سُوجھی

کیوں مَیں دِل پر آبلہ پر تاک نہ باندُھوں
ہے اِس پہ مُجھے خوشۂ انگُور کی سُوجھی

ہے شیخ سیہ چہرہ جو مجلِس میں پُھدکتا
یاروں کو یہاں رُوئی کے لنگُور کی سُوجھی

واعظ جو پڑھا جن مُتَبختِر ہے نہایت
اِس پر مُجھے شیطان کی ہے پُور کی سُوجھی

ہاتھ اپنے سے جب چُھٹ گئی اُس ڈنڈ کی مچھلی
تب اُس کے تڑپنے پہ سَقَنقُور کی سُوجھی

ہاں اے شفقِ صُبح تِری دیکھ کے رنگت
شَنجرَف کی سُوجھی مُجھے کافُور کی سُوجھی

جب پُھول جھڑے نُور کے اِس آہ سے میری
اِس پر مُجھے انشاؔ شجرِ طُور کی سُوجھی

۔۔۔۔۔
نظیرؔ

دیکھ عقدِ ثُریّا ہمیں انگُور کی سُوجھی
کیوں بادہ کشاں ہم کو بھی کیا دُور کی سُوجھی

غش کھا کے گِرا پہلے ہی شُعلے کی جھلک سے
موسیٰ کو بھلا کہئے تو کیا طُور کی سُوجھی

ہم نے تو اُسے دیکھ یہ جانا کہ پری ہے
پریوں نے جو دیکھا تو اُنہیں حُور کی سُوجھی

دیکھا جو نہانے میں وہ گورا بدن اُس کا
بِلُور کی چوکی پہ جھلک نُور کی سُوجھی

سر پاؤں سے جب پھنس گئے اُس زُلفِ سیہ میں
جب ہم کو سیاہی شبِ دیجُور کی سُوجھی

جنّت کے لئے شیخ جو کرتا ہے عِبادت
کی غور جو خاطِر میں تو مزدُور کی سُوجھی

مَصنُوع میں صانِع نظر آوے تو نظیرؔ آہ
نزدیک کی پھر کیا ہے جہاں دُور کی سُوجھی



ايک رديف دو شاعر

Image may contain: 2 people, people smiling, text




شکیل بدایونی
اب وہ خود محوِ علاج دردِ پنہاں ہو گئے
اے خوشا قسمت کہ پھر جینے کے ساماں ہو گئے

سوچ تو لیتے آئینے میں کس کا عکس ہے

اک ذرا سی بات پر اس درجہ حیراں ہو گئے
میں تو سمجھا تھا کہ یہ بھی اک فریبِ حسن ہے

اُف رے غیرت وہ تو سچ مچ پیشیماں ہو گئے
دید کے قابل ہے فیضِ رہ نور دانِ جنون

خارد دامن سے اُلجھ کر گل بداماں ہو گئے
صدقہ جاں سوز ی فرقت تو مجھ پر بار تھا

میری حالت دیکھ کر تم کیوں پریشاں ہو گئے
کون رکھے گا جہاں میں کفرِ سامانی کی لاج

عشق میں ہم جیسے کافر جب مسلماں ہو گئے
حضرت واعظ جہاں کی لذتوں سے کیوں ہو دور

وہ فرشتہ خصلتی کیسی ، جب انساں ہو گئے
عہدِ فروا ، اک بہانہ ہی سہی لیکن شکیل

اس بہانے سے سکونِِ دل کے ساماں ہو گئے





عرفان احمد میر

خندگی خوش لب تبسم مثل ارماں ہو گئے 
عہد بے غم جوں ہی آیا ہم پریشاں ہو گئے

آگے تھی ہم کو قرابت شب سے شب کو ہم سے تھی 

ان کو تھی خلوت سے رغبت ہم شبستاں ہو گئے
ہائے یہ عجز و نیاز مے کشاں بھی کم نہیں 

آہ کیا بھر لی کہ ہم خاک‌‌ گلستاں ہو گئے
کیا تری محفل کی ہے یہ ارتجالی اے خدا 

سانس کی فرصت نہ دی اور عہد و پیماں ہو گئے
کیا کریں شکوہ تری بے اعتدالی سے رقیب 

وہ بلائے بھی نہ آئے آپ مہمان ہو گئے
یاد ہے ہم کو جنون لا فنا کی لغزشیں 

ہم میں تھی موجیں کبھی اب دشت ویراں ہو گئے
رکھ لیا ساقی نے میری خستگی کا یہ بھرم 

شیخ کی مجلس میں ہم پستی کا ساماں ہو گئے
تیرے کاکل کی درازی ہو کہ زلفوں کا ستم 

ہم نے آنکھیں ان سے موندیں بھی تو زنداں ہو گئے


تیری قامت پر فدا ہو کیا کہ لب پر افتخار 

تیری انگشت حنائی پر ہی قرباں ہو گئے


آہ وہ بالغ ترا مشہور فہوائے کلام 

بلبلوں نے ہم کو دیکھا کل تو حیراں ہو گئے




Wednesday, April 18, 2018

ایک بحر ۔۔۔ ایک قافیہ و ایک ردیف اور 18 غزلیں


No automatic alt text available.


ایک بحر ۔۔۔ ایک قافیہ و ایک ردیف اور 18 غزلیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عدیم ہاشمی

فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

وہ کہ خُوشبو کی طرح‌پھیلا تھا میرے چار سُو

میں اُسے محسوس کر سکتا تھا، چُھو سکتا نہ تھا
رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں، کوئی بھی آیا نہ تھا
یہ سبھی ویرانیاں اُس کے جُدا ہونے سے تھیں
آنکھ دُھندلائی ہوئی تھی، شہر دُھندلایا نہ تھا
عکس تو موجود تھا پر عکس تنہائی کا تھا
آئینہ تو تھا مگر اُس میں تیرا چہرا نہ تھا
میں تیری صورت لئے سارے زمانے میں پِھرا
ساری دُنیا میں مگر کوئی تیرے جیسا نہ تھا
خُود چڑھا رکھے تھے تن پر اَجنبیت کے غُلاف
ورنہ کب اِک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا
سینکڑوں طوفان لفظوں کے دبے تھے زیرِ لب
ایک پتھر خامشی کا تھا ، جو ہٹتا نہ تھا
محفلِ اہلِ وفا میں‌ہر طرح کے لوگ تھے
یا ترے جیسا نہیں تھا یا مرے جیسا نہ تھا
آج اُس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لیے
آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا
یاد کرکے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیم
بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا
مصلحت نے اجنبی ہم کو بنایا تھا عدیم
ورنہ کب اک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ولی عزلت

مغز بہار اس برس اس بن بچا نہ تھا 
چین جبیں بن ایک گل اب کی ہنسا نہ تھا

جب لگ میں صبح حسن بتوں سے ملا نہ تھا 

دل ہوئے گل سا ہات سے میرے گیا نہ تھا



کیا کی وفا کہ موج گہر سا ہے سر سے بند 

خنجر جز ایک دم کا مرا آشنا نہ تھا

جا کر فنا کے اس طرف آسودہ میں ہوا 

میں عالم عدم میں بھی دیکھا مزا نہ تھا

اس یار کاروانی کے وقت وداع ہائے 

بے نالہ ایک اشک مرا جوں درا نہ تھا

ہوتے ہی جلوہ گر ترے اے آفتاب رو 

سینے میں جیسے شبنم گل دل رہا نہ تھا

منہ موڑ بت کدہ سے حرم کو چلا ہے شیخ 

عزلتؔ مگر ہے کعبہ ہی میں یہاں خدا نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آزاد گلاٹی

خود ہمیں کو راحتوں کے کیف کا چسکا نہ تھا 
زندگی کا زہر ورنہ اس قدر کڑوا نہ تھا

اس نے تنہائی سے گھبرا کر پکارا تو نہیں 

اس سے پہلے تو مرا دل اس طرح دھڑکا نہ تھا

ہائے وہ عالم کہ ان کی بزم میں بھی بیٹھ کر 

میں یہی سوچا کیا میں تو کبھی تنہا نہ تھا

اس کے اپنے ہاتھ رخساروں کو سہلانے لگے 

گو بظاہر میری بابت اس نے کچھ سوچا نہ تھا


ہر طرف کھلتی رہیں کلیاں نسیم صبح سے 

اپنی قسمت میں صبا کا ایک بھی جھونکا نہ تھا

زندگی اے زندگی!! آ دو گھڑی مل کر رہیں 

تجھ سے میرا عمر بھر کا تو کوئی جھگڑا نہ تھا

سوچتے ہیں اب اسے آزادؔ ہم کیا نام دیں 

عمر کا وہ دور دل میں جب کوئی سودا نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اختر ہوشیارپوری

میں نے یوں دیکھا اسے جیسے کبھی دیکھا نہ تھا 
اور جب دیکھا تو آنکھوں پر یقیں آتا نہ تھا

بام و در سے سخت بارش میں بھی اٹھے گا دھواں 

یوں بھی ہوتا ہے محبت میں کبھی سوچا نہ تھا

آندھیوں کو روزن زنداں سے ہم دیکھا کئے 

دور تک پھیلا ہوا صحرا تھا نقش پا نہ تھا

لوگ لائے ہیں کہاں سے شب کو مرمر کے چراغ 

ان چٹانوں میں تو دن کو راستہ پیدا نہ تھا

شہر کی ہنگامہ آرائی میں کھو کر رہ گیا 

میں کہ اپنے گھر میں بھی مجھ کو سکوں ملتا نہ تھا

برف اپنے آپ گھل جاتی ہے سورج ہو نہ ہو 

شام سے پہلے یہ جانا تھا مگر سمجھا نہ تھا

ان دنوں بھی شہر میں سیلاب آتے تھے بہت 

وادیوں میں جب کہیں بادل ابھی برسا نہ تھا

رات کی تنہائیوں میں جس سے چونک اٹھے تھے ہم 

اپنی ہی آواز تھی شعلہ کوئی چمکا نہ تھا

وہ بھی سچ کہتے ہیں اخترؔ لوگ بیگانے ہوئے 

ہم بھی سچے ہیں کہ دنیا کا چلن ایسا نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حبیب موسوی

شب کہ مطرب تھا شراب ناب تھی پیمانہ تھا 
وہ پری وش کیا نہ تھا گویا کہ جو کچھ تھا نہ تھا

سوز دل سے لب یہ ہر دم نالہ بیتابانہ تھا 

ہجر ساقی میں کسی پہلو قرار اصلا نہ تھا

جلوہ گر دل میں خیال عارض جانانہ تھا 

گھر کی زینت تھی کہ زینت بخش صاحب خانہ تھا 
کیا کروں اب مبتلا ہوں آپ اپنے حال میں 
دی تھی نعمت اس نے جب لب پر مرے شکرانہ تھا

شہرۂ آفاق ہوتی میری ازخود رفتگی 

خیریت گزری کہ آنکھوں سے تجھے دیکھا نہ تھا

فصل گل میں چھوڑتا مے دیکھ کر ماہ صیام 

کچھ جنوں مجھ کو نہ تھا وحشت نہ تھی سودا نہ تھا

کیا کہوں ڈر یہ ہے وہ لیلیٰ ادا رسوا نہ ہو 

ورنہ مجنوں سے بھی کچھ بڑھ کر میرا افسانہ نہ تھا

گر نزاکت میں نہ ہوتا مثل تار عنکبوت 

خوب الفت سے زمانہ میں کوئی رشتہ نہ تھا

یوں ضعیفی آ گئی گویا ازل سے تھے ضعیف 

اور شباب ایسا گیا جیسے کبھی آیا نہ تھا

ہے یقیں عاشق تمہارا مر گیا ہو لو خبر 

میں نے کل دیکھا تھا جا کر حال کچھ اچھا نہ تھا



نیم باز آنکھیں تمہارا نام تھا ورد زباں 

زخم دل پر ہاتھ تھا لب پر مگر شکوہ نہ تھا

بخت کی برگشتگی گزری ہے حد سے اے حبیبؔ 

دیکھتے ہیں ان کے تلوے جن کا منہ دیکھا نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بمل کرشن اشک

جسم میں خواہش نہ تھی احساس میں کانٹا نہ تھا 
اس طرح جاگا کہ جیسے رات بھر سویا نہ تھا

اب یہی دکھ ہے ہمیں میں تھی کمی اس میں نہ تھی 

اس کو چاہا تھا مگر اپنی طرح چاہا نہ تھا

جانے والے وقت نے دیکھا تھا مڑ کر ایک بار 

گو ہمیں پہچانتا کم تھا مگر بھولا نہ تھا

ہم بہت کافی تھے اپنے واسطے جیسے بھی تھے 

کوئی ہم سا دوست کوئی ہم سا بیگانہ نہ تھا

اجنبی راہیں نہ جانے کس طرح آواز دیں 

جب سفر پر چل پڑے تھے کس لیے سوچا نہ تھا

پاؤں کا چکر لیے پھرتا رہے گا دوستو 

اور پھر سوچو گے اپنے شہر میں کیا کیا نہ تھا

ہم بھی ان راتوں میں تھالی پر دیا رکھ کر چلے 

جب شوالے کی عمارت کا کوئی در وا نہ تھا

فرض کی منزل نے میری گمرہی بھی چھین لی 

ورنہ اشکؔ اس رستی بستی راہ میں کیا کیا نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کرشن ادیب

مدرسہ آوارگی اور ہاتھ میں بستہ نہ تھا 
جو کتابوں میں ہے لکھا اس کو وہ پڑھتا نہ تھا

یوں تو دروازے کھلے تھے سارے اس کے واسطے 

وہ مسافر راستوں کا ایک جا ٹھہرا نہ تھا

جو سناتا تھا کبھی آب رواں کی داستاں 

اس کے ہونٹوں کا مقدر اوس کا قطرہ نہ تھا

تشنگی ہی تشنگی تھی اور صحرا کے سراب 

آنکھ پانی پر تھی لیکن سامنے دریا نہ تھا

چھوڑ آیا تھا جسے میں خود انا کے زعم میں 

پھر پلٹ کر اس کو میں نے عمر بھر دیکھا نہ تھا

میرے ہاتھوں میں ہے خوشبو اس کے ہاتھوں کی ادیبؔ 

جسم جس کا چھو کے میں نے آج تک دیکھا نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عارف شفیق

گھر سے چیخیں اٹھ رہی تھیں اور میں جاگا نہ تھا 
اتنی گہری نیند تو پہلے کبھی سویا نہ تھا


نشۂ آوارگی جب کم ہوا تو یہ کھلا 

کوئی بھی رستہ مرے گھر کی طرف جاتا نہ تھا

کیا گلہ اک دوسرے سے بے وفائی کا کریں 

ہم نے ہی اک دوسرے کو ٹھیک سے سمجھا نہ تھا

گل نہ تھے جس میں وہ گلشن بھی تھا جنگل کی طرح 

گھر وہ قبرستان تھا جس میں کوئی بچہ نہ تھا

آسماں پر تھا خدا تنہا مگر عارف شفیقؔ 

اس زمیں پر کوئی بھی میری طرح تنہا نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمیل نظر

وہ مری دنیا کا مالک تھا مگر میرا نہ تھا 
میں نے اس انداز پر پہلے کبھی سوچا نہ تھا

ایک مدت تک رہا خوش فہمیوں میں مبتلا 

آئینے کے روبرو جب تک مرا چہرہ نہ تھا

تہمتوں کو ایک ایسے اجنبی کی تھی تلاش 

جو کبھی گھر سے نکل کر راہ میں ٹھہرا نہ تھا

ہو چکی تھی شہرتیں رسوائیوں سے ہمکنار 

بھول جاتا میں جسے وہ سانحہ ایسا نہ تھا

میری نظروں میں ہے خاکہ وہ بھی حسن دوست کا 

جس کو لوگوں نے ابھی تک ذہن میں سوچا نہ تھا

میں اٹھوں تو رنگ لائیں تذکروں کے سلسلے 

لوگ اتنا تو کہیں کہ آدمی اچھا نہ تھا

لوگ اس انداز میں دیتے ہیں دنیا کی مثال 

میں تو جیسے تجربوں کے دور سے گزرا نہ تھا

اک نیا احساس دیتے ہیں وہ اہل سنگ کو 

آبرو کے ساتھ رہنا شہر میں اچھا نہ تھا

کیا اثر انداز ہوتا اس پہ افسانہ نظرؔ 

لفظ بھی مانگے ہوئے مفہوم بھی اپنا نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عتیق انظر

جس کی خاطر میں نے دنیا کی طرف دیکھا نہ تھا 
وہ مجھے یوں چھوڑ جائے گا کبھی سوچا نہ تھا

اس کے آنسو ہی بتاتے تھے نہ اب لوٹے گا وہ 

اس سے پہلے تو بچھڑتے وقت یوں روتا نہ تھا

رہ گیا تنہا میں اپنے دوستوں کی بھیڑ میں 

اور ہمدم وہ بنا جس سے کوئی رشتہ نہ تھا

قہقہوں کی دھوپ میں بیٹھے تھے میرے ساتھ سب 

آنسوؤں کی بارشوں میں پر کوئی بھیگا نہ تھا

اشک پلکوں پے بچھڑ کر اپنی قیمت کھو گیا 

یہ ستارہ قیمتی تھا جب تلک ٹوٹا نہ تھا

مرمریں گنبد پہ رکتی تھی ہر اک پیاسی نظر 

پر کسی نے مقبرے میں غم چھپا دیکھا نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


احمد نثار

عشق میں برباد ہونے کے سوا رکھا نہ تھا 
غم کو سہنے کے علاوہ کوئی بھی چارہ نہ تھا

یاد رہ رہ کر کسی کی ہے ستاتی رات بھر 

صبح ہوتے بھول جانا یہ تجھے شیوہ نہ تھا

یہ تری الفت مجھے رکھتی ہے بیتابی میں گم 

یہ سبھی کو تھی خبر لیکن کوئی چرچا نہ تھا

آئینہ دیکھوں تو کیوں تو ہی نظر آئے مجھے 

بولتا ہے کیا ترا چہرہ میرے جیسا نہ تھا

دن گزر جاتا ہے دنیا کی مسافت میں مگر 

رات ہی اک امتحاں ہے جس کا اندازہ نہ تھا

رات کی تنہائیاں آغوش میں لے کر مجھے 

پوچھتی ہیں کیا کبھی تنہائیاں دیکھا نہ تھا

کیا محبت وہ نشہ ہے میں ذرا جانوں نثارؔ 

زندگی میں اس طرح پہلے کبھی بہکا نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عارف عبدالمتین

تتلیاں رنگوں کا محشر ہیں کبھی سوچا نہ تھا 
ان کو چھونے پر کھلا وہ راز جو کھلتا نہ تھا!

تو وہ آئینہ ہے جس کو دیکھ کر روشن ہوا 

میں نے اپنے آپ کو سمجھا کہاں دیکھا نہ تھا!

چاند بن کر تو مرے آنگن میں اترا ہے ضرور 

نور اتنا بام و در پر آج تک بکھرا نہ تھا!

کون سے عالم میں میں نے آج دیکھا ہے تجھے 

تو دھنک بن کر مرے دل میں کبھی اترا نہ تھا!

سخت جانی سے مرا دل بچ گیا ورنہ یہاں 

کون سا پتھر تھا اس شیشے پہ جو برسا نہ تھا!

اس جہان رنگ و بو کو میں نے سمجھا تھا سراب 

اک حقیقت تھا یہ عارفؔ آنکھ کا دھوکا نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اقبال اشہر

پیاس کے بیدار ہونے کا کوئی رستہ نہ تھا 
اس طرف بادل نہیں تھے اس طرف دریا نہ تھا

رات کی تاریکیاں پہچان لیتی تھیں اسے 

روح کی آواز تھا وہ جسم کا سایہ نہ تھا

تیری یادیں تو چراغوں کی قطاریں بن گئیں 

پہلے بھی گھر میں اجالا تھا مگر ایسا نہ تھا

چند قطروں کے لئے دریا کو کیوں تکلیف دی 

میری جانب دیکھ لیتے میں کوئی صحرا نہ تھا

رات آئی تو چراغوں کی بڑی تعظیم تھی 

اور جب گزری تو کوئی پوچھنے والا نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیاز حسین لکھویرا

اک وہ بھی دن تھے تجھ سے مرا رابطہ نہ تھا 
سنجیدگی سے تیرے لیے سوچتا نہ تھا

نفرت ملی تو زعم وفا ٹوٹ ٹوٹ کر 

بکھرا کچھ اس طرح کہ کوئی واسطہ نہ تھا

کمرے میں پھیلتی ہی گئی روشنی کی لہر 

کرنوں کا جال تھا کہ کہیں ٹوٹتا نہ تھا

دیکھا تجھے تو چاند بھی پیڑوں میں چھپ گیا 

ویسے تو شہر بھر میں کوئی چاند سا نہ تھا

وہ اپنی ذات میں ہی مقید رہا نیازؔ 

سب دیکھتے تھے اس کو کوئی ڈھونڈھتا نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عبدالصمد تپشؔ

آنکھ تھی سوجی ہوئی اور رات بھر سویا نہ تھا 
اس طرح وہ ٹوٹ کر شاید کبھی رویا نہ تھا

ان کے شوق دید میں تھا اس قدر کھویا ہوا 

میں بھری محفل میں تھا ایسا کہ میں گویا نہ تھا

امتحاں ذوق سفر کا تھا تو سورج سر پہ تھا 

دھوپ تھی دیوار تھی لیکن کہیں سایہ نہ تھا

وہ بڑا تھا پھر بھی وہ اس قدر بے فیض تھا 

اس گھنیرے پیڑ میں جیسے کوئی سایہ نہ تھا

شاہراہ پر خون میں اک لاش تھی لتھڑی ہوئی 

آئے دن کا حادثہ تھا اس لئے چرچا نہ تھا

ہر نگہ پیاسی تھی لیکن وقت کی تحویل میں 

اک سراب آسا زمیں تھی دور تک دریا نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عطا عابدی

سر پہ سورج ہو مگر سایہ نہ ہو ایسا نہ تھا 
پہلے بھی تنہا تھا لیکن اس قدر تنہا نہ تھا

وہ تو یہ کہیے غم دوراں نے رکھ لی آبرو 

ورنہ دل کی بات تھی کچھ کھیل بچوں کا نہ تھا

بچ کے طوفاں سے نکل آیا تو حیرانی ہے کیوں 

گو سفینہ ڈوبتا تھا حوصلہ ٹوٹا نہ تھا

آپ آئے تو یقیں کرنا پڑا ورنہ یہاں 

رات کو سورج کبھی افلاک پر نکلا نہ تھا


شہر دلی آئینہ خانہ ہے لیکن اے عطاؔ 

جال تو خوش فہمیوں کا آپ کو بننا نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فاروق مضطر

سوچ بھی اس دن کو جب تو نے مجھے سوچا نہ تھا 
کوئی دریا دشت کے اطراف میں بہتا نہ تھا

اس کو کب فرصت تھی جو چہروں کو پڑھتا غور سے 

ورنہ سطح آئنہ کا ہر ورق سادہ نہ تھا

جانے کیوں اب رات دن گھر میں پڑا رہتا ہے وہ 

پہلے یوں خود میں کبھی سمٹا ہوا رہتا نہ تھا

خوشبوؤں رنگوں کو پی لیتی ہے آکر زرد شام 

پیڑ ہے اندیشۂ انجام تو سوکھا نہ تھا

شاہراہوں سے گریزاں ہے مگر کچھ سوچ کر 

عادتاً پہلے تو وہ پگڈنڈیاں چلتا نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رضیہ حلیم جنگ

میں مبتلائے عشق ہوں مجھ کو پتا نہ تھا 
جب تک کسی نے حال یہ میرا کیا نہ تھا

پایا ہے جب سے تجھ کو ہے تکمیل کا سرور 

میں تھی ادھوری تو مجھے جب تک ملا نہ تھا

اللہ تیرے عشق میں ہوں حال سے بے حال 

تب تک بڑے مزے میں تھی جب دل لگا نہ تھا