افسانے

جنور ی کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیرنگ کراس کا رخ کر 
کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔
یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھر پور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھار کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لئے تیز قدم اٹھا رہے تھے مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔
اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کر دیتا۔ ایک خالی ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی مگر اس نے "نو تھینک یو" کہہ کر اسے بھی ٹال دیا۔
جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ با رونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی گویا کرکٹ کا کھیل ہو رہا ہو۔
راستے میں وہ سڑک آئی جو لارنس گارڈن کی طرف جاتی تھی مگر اس وقت شام کے دھندلکے اور سخت کہرے میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس رہی تھی کہ اس نے ادھر کا رخ نہ کیا اور سیدھا چیرنگ کراس کی طرف چلتا رہا۔
ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت آ گئی۔ اس نے اپنا رومال نکالا جسے جیب میں رکھنے کی بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میں اڑس رکھا تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیرا، تاکہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے۔ پاس گھاس کے ایک ٹکڑے پر کچھ انگریز بچے بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ وہ رک گیا اور بڑی دلچسپی سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ بچے کچھ دیر تک تو اس کی پرواہ کئے بغیر کھیل میں مصروف رہے مگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانے سے لگے اور پھر اچانک گیند سنبھال کر ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے گھاس کے اس ٹکڑے ہی سے چلے گئے۔
نوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بنچ پر پڑی اور وہ اس پر آ کے بیٹھ گیا۔ اس وقت شام کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سردی اور بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کی یہ شدت نا خوشگوار نہ تھی بلکہ لذت پرستی کی ترغیب دیتی تھی۔ شہر کے عیش پسند طبقے کا تو کہنا ہی کیا وہ تو اس سردی میں زیادہ ہی کھل کھیلتا ہے۔ تنہائی میں بسر کرنے والے بھی اس سردی سے ورغلائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر محفلوں اور مجمعوں میں جانے کی سوچنے لگتے ہیں تاکہ جسموں کا قرب حاصل ہو۔ حصولِ لذت کی یہی جستجو لوگوں کو مال پر کھینچ لائی تھی اور وہ حسبِ توفیق ریستورانوں، کافی ہاؤسوں، رقص گاہوں، سینماؤں اور تفریح کے دوسرے مقاموں پر محظوظ ہو رہے تھے۔
مال روڈ پر موٹروں، تانگوں اور بائیسکلوں کا تانتا بندھا ہوا تو تھا ہی پٹری پر چلنے والوں کی بھی کثرت تھی۔ علاوہ ازیں سڑک کی دو رویہ دکانوں میں خرید و فروخت کا بازار بھی گرم تھا۔ جن کم نصیبوں کو نہ تفریحِ طبع کی استطاعت تھی نہ خرید و فروخت کی، وہ دور ہی سے کھڑے کھڑے ان تفریح گاہوں اور دکانوں کی رنگا رنگ روشنیوں سے جی بہلا رہے تھے۔
نوجوان سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے زن و مرد کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر ان کے چہروں سے کہیں زیادہ ان کے لباس پر پڑتی تھی۔ ان میں ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، سرکاری افسر، لیڈر، فنکار، کالجوں کے طلبا اور طالبات، نرسیں، اخباروں کے نمائندے، دفتروں کے بابو۔زیادہ تر لوگ اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہر قسم کے اوور کوٹ، قراقلی کے بیش قیمت اوور کوٹ سے لے کر خالی پٹی کے پرانے فوجی اوور کوٹ تک جسے نیلام میں خریدا گیا تھا۔
نوجوان کا اپنا اوور کوٹ تھا تو خاصا پرانا مگر اس کا کپڑا خوب بڑھیا تھا پھر وہ سلا ہوا بھی کسی ماہر درزی کا تھا۔ اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بہت دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کالر خوب جما ہوا تھا۔ باہوں کی کریز بڑی نمایاں، سلو ٹ کہیں نام کو نہیں۔ بٹن سینگ کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے۔ نوجوان اس میں بہت مگن معلوم ہوتا تھا۔
ایک لڑکا پان بیڑی سگریٹ کا صندوقچہ گلے میں ڈالے سامنے سے گزرا۔ نوجوان نے آواز دی۔
"پان والا!۔"
"جناب!"
"دس کا چینج ہے؟"
"ہے تو نہیں۔ لا دوں گا۔ کیا لیں گے آپ؟"
"نوٹ لے کے بھاگ گیا تو؟"
"اجی واہ۔ کوئی چور اچکا ہوں جو بھاگ جاؤں گا۔ اعتبار نہ ہو تو میرے ساتھ چلئے۔ لیں گے کیا آپ؟"
"نہیں نہیں، ہم خود چینج لائے گا۔ لو یہ اکنی نکل آئی۔ ایک سگریٹ دے دو اور چلے جاؤ۔"
لڑکے کے جانے کے بعد مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگانے لگا۔ وہ ویسے ہی بہت خوش نظر آتا تھا۔ سگریٹ کے دھوئیں نے اس پر سرور کی کیفیت طاری کر دی۔
ایک چھوٹی سی سفید رنگ بلی سردی میں ٹھٹھری ہوئی بنچ کے نیچے اس کے قدموں میں آ کر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ اس نے پچکارا تو اچھل کر بنچ پر آ چڑھی۔ اس نے پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔
"پور لٹل سو ل"
اس کے بعد وہ بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور سڑک کو پار کر کے اس طرف چلا جدھر سینما کی رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ تماشا شروع ہو چکا تھا۔ برآمدے میں بھیڑ نہ تھی۔ صرف چند لوگ تھے جو آنے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر دکھائے گئے تھے۔
تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں۔ ایک خاص شانِ استغنا کے ساتھ مگر صنفِ نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔ لڑکیاں آپس میں ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی۔ اتنے میں ایک لڑکی نے، جو اپنی ساتھ والیوں سے زیادہ حسین بھی تھی اور شوخ بھی، دوسری لڑکی کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے باہر نکل آیا۔
اب سات بج چکے تھے اور وہ مال کی پٹری پر پھر پہلے کی طرح مٹر گشت کرتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ ایک ریستوران میں آرکسٹرا بج رہا تھا۔ اندر سے کہیں زیادہ باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان میں زیادہ تر موٹروں کے ڈرائیور، کوچوان، پھل بیچنے والے، جو اپنا مال بیچ کے خالی ٹوکرے لئے کھڑے تھے۔ کچھ راہ گیر جو چلتے چلتے ٹھہر گئے تھے۔ کچھ مزدوری پیشہ لوگ تھے اور کچھ گداگر۔ یہ اندر والوں سے کہیں زیادہ گانے کے رسیا معلوم ہوتے تھے کیونکہ وہ غل غپاڑہ نہیں مچا رہے تھے بلکہ خاموشی سے نغمہ سن رہے تھے۔ حالانکہ دھن اور ساز اجنبی تھے۔ نوجوان پل بھر کے لئے رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔
تھوڑی دور چل کے اسے انگریزی موسیقی کی ایک بڑی سی دکان نظر آئی اور وہ بلا تکلف اندر چلا گیا۔ ہر طرف شیشے کی الماریوں میں طرح طرح کے انگریزی ساز رکھے ہوئے تھے۔ ایک لمبی میز پر مغربی موسیقی کی دو ورقی کتابیں چنی تھیں۔ یہ نئے چلنتر گانے تھے۔ سرورق خوبصورت رنگدار مگر دھنیں گھٹیا۔ ایک چھچھلتی ہوئی نظر ان پر ڈالی پھر وہاں سے ہٹ آیا اور سازوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایک ہسپانوی گٹار پر، جو ایک کھونٹی سے ٹنگی ہوئی تھی، ناقدانہ نظر ڈالی اور اس کے ساتھ قیمت کا جو ٹکٹ لٹک رہا تھا اسے پڑھا۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک بڑا جرمن پیانو رکھا ہوا تھا۔ اس کا کور اٹھا کے انگلیوں سے بعض پردوں کو ٹٹولا اور پھر کور بند کر دیا۔
پیانو کی آواز سن کر دکان کا ایک کارندہ اس کی طرف بڑھا۔
"گڈ ایوننگ سر۔ کوئی خدمت؟"
"نہیں شکریہ۔ ہاں اس مہینے کی گراموفون ریکارڈوں کی فہرست دے دیجئے۔"
فہرست لے لے کے اوور کوٹ کی جیب میں ڈالی۔ دکان سے باہر نکل آیا اور پھر چلنا شروع کر دیا۔ راستے میں ایک چھوٹا سا بک اسٹال پڑا۔ نوجوان یہاں بھی رکا۔ کئی تازہ رسالوں کے ورق الٹے۔ رسالہ جہاں سے اٹھاتا بڑی احتیاط سے وہیں رکھ دیتا۔ اَور آگے بڑھا تو قالینوں کی ایک دکان نے اس کی توجہ کو جذب کیا۔ مالک دکان نے جو ایک لمبا سا چغہ پہنے اور سر پر کلاہ رکھے تھا۔ گرمجوشی سے اس کی آؤ بھگت کی۔
"ذرا یہ ایرانی قالین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اتاریئے نہیں یہیں دیکھ لوں گا۔ کیا قیمت ہے اس کی؟
"چودہ سو تیس روپے ہے۔"
نوجوان نے اپنی بھنووں کو سکیڑا جس کا مطلب تھا "اوہو اتنی۔"
دکاندار نے کہا "آپ پسند کر لیجئے۔ ہم جتنی بھی رعایت کر سکتے ہیں کر دیں گے۔"
"شکریہ لیکن اس وقت تو میں صرف ایک نظر دیکھنے آیا ہوں۔"
"شوق سے دیکھئے۔ آپ ہی کی دکان ہے۔"
وہ تین منٹ کے بعد اس دکان سے بھی نکل آیا۔ اس کے اوور کوٹ کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا جو ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا تھا۔ وہ اس وقت کاج سے کچھ زیادہ باہر نکل آیا تھا۔ جب وہ اس کو ٹھیک کر رہا تھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف اور پر اسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے پھر اپنی مٹر گشت شروع کر دی۔
اب وہ ہائی کورٹ کی عمارتوں کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اتنا کچھ چل لینے کے بعد اس کی فطری چونچالی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ نہ تکان محسوس ہوئی تھی نہ اکتاہٹ۔ یہاں پٹری پر چلنے والوں کی ٹولیاں کچھ چھٹ سی گئی تھیں اور میں ان میں کافی فصل رہنے لگا تھا۔ اس نے اپنی بید کی چھڑی کو ایک انگلی پر گھمانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی اور چھڑی زمین پر گر پڑی "اوہ سوری" کہہ کر زمین پر جھکا اور چھڑی کو اٹھا لیا۔
اس اثنا میں ایک نوجوان جوڑا جو اس کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا اس کے پاس سے گزر کر آگے نکل آیا۔ لڑکا دراز قامت تھا اور سیاہ کوڈرائے کی پتلون اور زپ والی چمڑے کی جیکٹ پہنے تھا اور لڑکی سفید ساٹن کی گھیر دار شلوار اور سبز رنگ کا کا کوٹ۔ وہ بھاری بھرکم سی تھی۔اس کے بالوں میں ایک لمبا سا سیاہ چٹا گندھا ہوا تھا جو اس کمر سے نیچا تھا۔ لڑکی کے چلنے سے اس چٹلے کا پھندنا اچھلتا کودتا پے درپے اس کے فربہ جسم سے ٹکراتا تھا۔ نوجوان کے لئے جو اب ان کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا یہ نظارہ خاصا جاذب نظر تھا۔ وہ جوڑا کچھ دیر تک تو خاموش چلتا رہا۔ اس کے بعد لڑکے نے کچھ کہا جس کے جواب میں لڑکی اچانک چمک کر بولی۔
ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔
"سنو میرا کہنا مانو" لڑکے نے نصیحت کے انداز میں کہا "ڈاکٹر میرا دوست ہے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔"
"نہیں، نہیں، نہیں۔"
"میں کہتا ہوں تمہیں ذرا تکلیف نہ ہو گی۔"
"لڑکی نے کچھ جواب نہ دیا۔"
"تمہارے باپ کو کتنا رنج ہو گا۔ ذرا ان کی عزت کا بھی تو خیال کرو۔"
"چپ رہو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گی۔"
نوجوان نے شام سے اب تک اپنی مٹر گشت کے دوران میں جتنی انسانی شکلیں دیکھی تھیں ان میں سے کسی نے بھی اس کی توجہ کو اپنی طرف منعطف نہیں کیا تھا۔ فی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ہی نہیں۔ یا پھر وہ اپنے حال میں ایسا مست تھا کہ کسی دوسرے سے اسے سروکار ہی نہ تھا مگر اس دلچسپ جوڑے نے جس میں کسی افسانے کے کرداروں کی سی ادا تھی، جیسے یکبارگی اس کے دل کو موہ لیا تھا اور اسے حد درجہ مشتاق بنا دیا کہ وہ ان کی اور بھی باتیں سنے اور ہو سکے تو قریب سے ان کی شکلیں بھی دیکھ لے۔
اس وقت وہ تینوں بڑے ڈاکخانے کے چوراہے کے پاس پہنچ گئے تھے۔ لڑکا اور لڑکی پل بھر کو رکے اور پھر سڑک پار کر کے میکلو ڈ روڈ پر چل پڑے۔ نوجوان مال روڈ پر ہی ٹھہرا رہا۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ فی الفور ان کے پیچھے گیا تو ممکن ہے انہیں شبہ ہو جائے کہ ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ اس لئے اسے کچھ لمحے رک جانا چاہئے۔
جب وہ لوگ کوئی سو گز آگے نکل گئے تو اس نے لپک کر ان کا پیچھا کرنا چاہا مگر ابھی اس نے آدھی ہی سڑک پار کی ہو گی کہ اینٹوں سے بھری ہوئی ایک لاری پیچھے سے بگولے کی طرح آئی اور اسے روندتی ہوئی میکلوڈ روڈ کی طرف نکل گئی۔ لاری کے ڈرائیور نے نوجوان کی چیخ سن کر پل بھر کے لئے گاڑی کی رفتار کم کی۔ پھر وہ سمجھ گیا کہ کوئی لاری کی لپیٹ میں آگیا اور وہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاری کو لے بھاگا۔ دو تین راہ گیر جو اس حادثے کو دیکھ رہے تھے شور مچانے لگے کہ نمبر دیکھو نمبر دیکھو مگر لاری ہوا ہو چکی تھی۔
اتنے میں کئی اور لوگ جمع ہو گئے۔ ٹریفک کا ایک انسپکٹر جو موٹر سائیکل پر جا رہا تھا رک گیا۔ نوجوان کی دونوں ٹانگیں بالکل کچلی گئی تھیں۔ بہت سا خون نکل چکا تھا اور وہ سسک رہا تھا۔
فوراً ایک کار کو روکا گیا اور اسے جیسے تیسے اس میں ڈال کر بڑے ہسپتال روانہ کر دیا گیا۔ جس وقت وہ ہسپتال پہنچا تو اس میں ابھی رمق بھر جان باقی تھی۔ اس ہسپتال کے شعبۂ حادثات میں اسسٹنٹ سرجن مسٹر خان اور دو نو عمر نرسیں مس شہناز اور مس گِل ڈیوٹی پر تھیں۔ جس وقت اسے سٹریچر پر ڈال کے آپریشن روم میں لے جایا جا رہا تھا تو ان نرسوں کی نظر اس پر پڑی۔ اس کا بادامی رنگ کا اوور کوٹ ابھی تک اس کے جسم پر تھا اور سفید سلک کا مفلر گلے میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے کپڑوں پر جا بجا خون کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ کسی نے از راہِ دردمندی اس کی سبز فلیٹ ہیٹ اٹھا کے اس کے سینہ پر رکھ دی تھی تاکہ کوئی اڑا نہ لے جائے۔
شہناز نے گل سے کہا:
"کسی بھلے گھر کا معلوم ہوتا ہے بے چارہ۔"
گل دبی آواز میں بولی۔
"خوب بن ٹھن کے نکلا تھا بے چارہ ہفتے کی شام منانے۔"
"ڈرائیور پکڑا گیا یا نہیں؟"
"نہیں بھاگ گیا۔"
"کتنے افسوس کی بات ہے۔"
آپریشن روم میں اسسٹنٹ سرجن اور اور نرسیں چہروں پر جراحی کے نقاب چڑھائے جنہوں نے ان کی آنکھوں سے نیچے کے سارے حصے کو چھپا رکھا تھا، اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ اسے سنگ مر مر کی میز پر لٹا دیا گیا۔ اس نے سر میں جو تیز خوشبو دار تیل ڈال رکھا تھا،اس کی کچھ مہک ابھی تک باقی تھی۔ پٹیاں ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔ حادثے سے اس کی دونوں ٹانگیں تو ٹوٹ چکی تھیں مگر سرکی مانگ نہیں بگڑنے پائی تھی۔
اب اس کے کپڑے اتارے جا رہے تھے۔ سب سے پہلے سفید سلک گلوبند اس کے گلے سے اتارا گیا۔ اچانک نرس شہناز اور نرس گِل نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ چہرے جو دلی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں، جراحی کے نقاب تلے چھپے ہوئے تھے اور زبانیں بند۔
نوجوان کے گلوبند کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا سرے سے قمیص ہی نہیں تھی۔۔۔اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جا بجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سوئٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آ رہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلوبند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپا رہتا تھا۔ اس کے جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پوڈر لگا ہوا تھا۔ سوئٹر اور بنیان کے بعد پتلون کی باری آئی اور شہناز اور گِل کی نظریں پھر بیک وقت اٹھیں۔ پتلون کو پیٹی کے بجائے ایک پرانی دھجی سے جو شاید کبھی نکٹائی رہی ہو گی خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھٹنوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا اور کئی جگہ کھونچیں لگی تھیں مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لئے لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔ اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ پھر مس شہناز اور مس گِل کی آنکھیں چار ہوئیں۔
بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں، اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ بلا شبہ اس وقت تک وہ دم توڑ چکا تھا۔ اس کا جسم سنگ مر مر کی میز پر بے جان پڑا تھا۔ اس کا چہرہ جو پہلے چھت کی سمت تھا۔ کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف مڑ گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جسم اور اس کے ساتھ روح کی برہنگی نے اسے خجل کر دیا ہے اور وہ اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرا رہا ہے۔
اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں:
ایک چھوٹی سی سیاہ کنگھی، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا سگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں نام اور پتے لکھے تھے۔نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹر گشت کے دوران اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھما دئے تھے اور اس نے انہیں اوور کوٹ کی جیب میں ڈال دیا تھا۔
افسوس کہ اس کی بید کی چھڑی جو حادثے کے دوران میں کہیں کھو گئی تھی اس فہرست میں شامل نہ تھی۔
جنور ی کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔
یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھر پور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھار کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لئے تیز قدم اٹھا رہے تھے مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔
اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کر دیتا۔ ایک خالی ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی مگر اس نے "نو تھینک یو" کہہ کر اسے بھی ٹال دیا۔
جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ با رونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی گویا کرکٹ کا کھیل ہو رہا ہو۔
راستے میں وہ سڑک آئی جو لارنس گارڈن کی طرف جاتی تھی مگر اس وقت شام کے دھندلکے اور سخت کہرے میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس رہی تھی کہ اس نے ادھر کا رخ نہ کیا اور سیدھا چیرنگ کراس کی طرف چلتا رہا۔
ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت آ گئی۔ اس نے اپنا رومال نکالا جسے جیب میں رکھنے کی بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میں اڑس رکھا تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیرا، تاکہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے۔ پاس گھاس کے ایک ٹکڑے پر کچھ انگریز بچے بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ وہ رک گیا اور بڑی دلچسپی سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ بچے کچھ دیر تک تو اس کی پرواہ کئے بغیر کھیل میں مصروف رہے مگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانے سے لگے اور پھر اچانک گیند سنبھال کر ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے گھاس کے اس ٹکڑے ہی سے چلے گئے۔
نوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بنچ پر پڑی اور وہ اس پر آ کے بیٹھ گیا۔ اس وقت شام کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سردی اور بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کی یہ شدت نا خوشگوار نہ تھی بلکہ لذت پرستی کی ترغیب دیتی تھی۔ شہر کے عیش پسند طبقے کا تو کہنا ہی کیا وہ تو اس سردی میں زیادہ ہی کھل کھیلتا ہے۔ تنہائی میں بسر کرنے والے بھی اس سردی سے ورغلائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر محفلوں اور مجمعوں میں جانے کی سوچنے لگتے ہیں تاکہ جسموں کا قرب حاصل ہو۔ حصولِ لذت کی یہی جستجو لوگوں کو مال پر کھینچ لائی تھی اور وہ حسبِ توفیق ریستورانوں، کافی ہاؤسوں، رقص گاہوں، سینماؤں اور تفریح کے دوسرے مقاموں پر محظوظ ہو رہے تھے۔
مال روڈ پر موٹروں، تانگوں اور بائیسکلوں کا تانتا بندھا ہوا تو تھا ہی پٹری پر چلنے والوں کی بھی کثرت تھی۔ علاوہ ازیں سڑک کی دو رویہ دکانوں میں خرید و فروخت کا بازار بھی گرم تھا۔ جن کم نصیبوں کو نہ تفریحِ طبع کی استطاعت تھی نہ خرید و فروخت کی، وہ دور ہی سے کھڑے کھڑے ان تفریح گاہوں اور دکانوں کی رنگا رنگ روشنیوں سے جی بہلا رہے تھے۔
نوجوان سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے زن و مرد کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر ان کے چہروں سے کہیں زیادہ ان کے لباس پر پڑتی تھی۔ ان میں ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، سرکاری افسر، لیڈر، فنکار، کالجوں کے طلبا اور طالبات، نرسیں، اخباروں کے نمائندے، دفتروں کے بابو۔زیادہ تر لوگ اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہر قسم کے اوور کوٹ، قراقلی کے بیش قیمت اوور کوٹ سے لے کر خالی پٹی کے پرانے فوجی اوور کوٹ تک جسے نیلام میں خریدا گیا تھا۔
نوجوان کا اپنا اوور کوٹ تھا تو خاصا پرانا مگر اس کا کپڑا خوب بڑھیا تھا پھر وہ سلا ہوا بھی کسی ماہر درزی کا تھا۔ اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بہت دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کالر خوب جما ہوا تھا۔ باہوں کی کریز بڑی نمایاں، سلو ٹ کہیں نام کو نہیں۔ بٹن سینگ کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے۔ نوجوان اس میں بہت مگن معلوم ہوتا تھا۔
ایک لڑکا پان بیڑی سگریٹ کا صندوقچہ گلے میں ڈالے سامنے سے گزرا۔ نوجوان نے آواز دی۔
"پان والا!۔"
"جناب!"
"دس کا چینج ہے؟"
"ہے تو نہیں۔ لا دوں گا۔ کیا لیں گے آپ؟"
"نوٹ لے کے بھاگ گیا تو؟"
"اجی واہ۔ کوئی چور اچکا ہوں جو بھاگ جاؤں گا۔ اعتبار نہ ہو تو میرے ساتھ چلئے۔ لیں گے کیا آپ؟"
"نہیں نہیں، ہم خود چینج لائے گا۔ لو یہ اکنی نکل آئی۔ ایک سگریٹ دے دو اور چلے جاؤ۔"
لڑکے کے جانے کے بعد مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگانے لگا۔ وہ ویسے ہی بہت خوش نظر آتا تھا۔ سگریٹ کے دھوئیں نے اس پر سرور کی کیفیت طاری کر دی۔
ایک چھوٹی سی سفید رنگ بلی سردی میں ٹھٹھری ہوئی بنچ کے نیچے اس کے قدموں میں آ کر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ اس نے پچکارا تو اچھل کر بنچ پر آ چڑھی۔ اس نے پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔
"پور لٹل سو ل"
اس کے بعد وہ بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور سڑک کو پار کر کے اس طرف چلا جدھر سینما کی رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ تماشا شروع ہو چکا تھا۔ برآمدے میں بھیڑ نہ تھی۔ صرف چند لوگ تھے جو آنے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر دکھائے گئے تھے۔
تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں۔ ایک خاص شانِ استغنا کے ساتھ مگر صنفِ نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔ لڑکیاں آپس میں ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی۔ اتنے میں ایک لڑکی نے، جو اپنی ساتھ والیوں سے زیادہ حسین بھی تھی اور شوخ بھی، دوسری لڑکی کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے باہر نکل آیا۔
اب سات بج چکے تھے اور وہ مال کی پٹری پر پھر پہلے کی طرح مٹر گشت کرتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ ایک ریستوران میں آرکسٹرا بج رہا تھا۔ اندر سے کہیں زیادہ باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان میں زیادہ تر موٹروں کے ڈرائیور، کوچوان، پھل بیچنے والے، جو اپنا مال بیچ کے خالی ٹوکرے لئے کھڑے تھے۔ کچھ راہ گیر جو چلتے چلتے ٹھہر گئے تھے۔ کچھ مزدوری پیشہ لوگ تھے اور کچھ گداگر۔ یہ اندر والوں سے کہیں زیادہ گانے کے رسیا معلوم ہوتے تھے کیونکہ وہ غل غپاڑہ نہیں مچا رہے تھے بلکہ خاموشی سے نغمہ سن رہے تھے۔ حالانکہ دھن اور ساز اجنبی تھے۔ نوجوان پل بھر کے لئے رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔
تھوڑی دور چل کے اسے انگریزی موسیقی کی ایک بڑی سی دکان نظر آئی اور وہ بلا تکلف اندر چلا گیا۔ ہر طرف شیشے کی الماریوں میں طرح طرح کے انگریزی ساز رکھے ہوئے تھے۔ ایک لمبی میز پر مغربی موسیقی کی دو ورقی کتابیں چنی تھیں۔ یہ نئے چلنتر گانے تھے۔ سرورق خوبصورت رنگدار مگر دھنیں گھٹیا۔ ایک چھچھلتی ہوئی نظر ان پر ڈالی پھر وہاں سے ہٹ آیا اور سازوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایک ہسپانوی گٹار پر، جو ایک کھونٹی سے ٹنگی ہوئی تھی، ناقدانہ نظر ڈالی اور اس کے ساتھ قیمت کا جو ٹکٹ لٹک رہا تھا اسے پڑھا۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک بڑا جرمن پیانو رکھا ہوا تھا۔ اس کا کور اٹھا کے انگلیوں سے بعض پردوں کو ٹٹولا اور پھر کور بند کر دیا۔
پیانو کی آواز سن کر دکان کا ایک کارندہ اس کی طرف بڑھا۔
"گڈ ایوننگ سر۔ کوئی خدمت؟"
"نہیں شکریہ۔ ہاں اس مہینے کی گراموفون ریکارڈوں کی فہرست دے دیجئے۔"
فہرست لے لے کے اوور کوٹ کی جیب میں ڈالی۔ دکان سے باہر نکل آیا اور پھر چلنا شروع کر دیا۔ راستے میں ایک چھوٹا سا بک اسٹال پڑا۔ نوجوان یہاں بھی رکا۔ کئی تازہ رسالوں کے ورق الٹے۔ رسالہ جہاں سے اٹھاتا بڑی احتیاط سے وہیں رکھ دیتا۔ اَور آگے بڑھا تو قالینوں کی ایک دکان نے اس کی توجہ کو جذب کیا۔ مالک دکان نے جو ایک لمبا سا چغہ پہنے اور سر پر کلاہ رکھے تھا۔ گرمجوشی سے اس کی آؤ بھگت کی۔
"ذرا یہ ایرانی قالین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اتاریئے نہیں یہیں دیکھ لوں گا۔ کیا قیمت ہے اس کی؟
"چودہ سو تیس روپے ہے۔"
نوجوان نے اپنی بھنووں کو سکیڑا جس کا مطلب تھا "اوہو اتنی۔"
دکاندار نے کہا "آپ پسند کر لیجئے۔ ہم جتنی بھی رعایت کر سکتے ہیں کر دیں گے۔"
"شکریہ لیکن اس وقت تو میں صرف ایک نظر دیکھنے آیا ہوں۔"
"شوق سے دیکھئے۔ آپ ہی کی دکان ہے۔"
وہ تین منٹ کے بعد اس دکان سے بھی نکل آیا۔ اس کے اوور کوٹ کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا جو ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا تھا۔ وہ اس وقت کاج سے کچھ زیادہ باہر نکل آیا تھا۔ جب وہ اس کو ٹھیک کر رہا تھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف اور پر اسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے پھر اپنی مٹر گشت شروع کر دی۔
اب وہ ہائی کورٹ کی عمارتوں کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اتنا کچھ چل لینے کے بعد اس کی فطری چونچالی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ نہ تکان محسوس ہوئی تھی نہ اکتاہٹ۔ یہاں پٹری پر چلنے والوں کی ٹولیاں کچھ چھٹ سی گئی تھیں اور میں ان میں کافی فصل رہنے لگا تھا۔ اس نے اپنی بید کی چھڑی کو ایک انگلی پر گھمانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی اور چھڑی زمین پر گر پڑی "اوہ سوری" کہہ کر زمین پر جھکا اور چھڑی کو اٹھا لیا۔
اس اثنا میں ایک نوجوان جوڑا جو اس کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا اس کے پاس سے گزر کر آگے نکل آیا۔ لڑکا دراز قامت تھا اور سیاہ کوڈرائے کی پتلون اور زپ والی چمڑے کی جیکٹ پہنے تھا اور لڑکی سفید ساٹن کی گھیر دار شلوار اور سبز رنگ کا کا کوٹ۔ وہ بھاری بھرکم سی تھی۔اس کے بالوں میں ایک لمبا سا سیاہ چٹا گندھا ہوا تھا جو اس کمر سے نیچا تھا۔ لڑکی کے چلنے سے اس چٹلے کا پھندنا اچھلتا کودتا پے درپے اس کے فربہ جسم سے ٹکراتا تھا۔ نوجوان کے لئے جو اب ان کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا یہ نظارہ خاصا جاذب نظر تھا۔ وہ جوڑا کچھ دیر تک تو خاموش چلتا رہا۔ اس کے بعد لڑکے نے کچھ کہا جس کے جواب میں لڑکی اچانک چمک کر بولی۔
ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔
"سنو میرا کہنا مانو" لڑکے نے نصیحت کے انداز میں کہا "ڈاکٹر میرا دوست ہے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔"
"نہیں، نہیں، نہیں۔"
"میں کہتا ہوں تمہیں ذرا تکلیف نہ ہو گی۔"
"لڑکی نے کچھ جواب نہ دیا۔"
"تمہارے باپ کو کتنا رنج ہو گا۔ ذرا ان کی عزت کا بھی تو خیال کرو۔"
"چپ رہو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گی۔"
نوجوان نے شام سے اب تک اپنی مٹر گشت کے دوران میں جتنی انسانی شکلیں دیکھی تھیں ان میں سے کسی نے بھی اس کی توجہ کو اپنی طرف منعطف نہیں کیا تھا۔ فی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ہی نہیں۔ یا پھر وہ اپنے حال میں ایسا مست تھا کہ کسی دوسرے سے اسے سروکار ہی نہ تھا مگر اس دلچسپ جوڑے نے جس میں کسی افسانے کے کرداروں کی سی ادا تھی، جیسے یکبارگی اس کے دل کو موہ لیا تھا اور اسے حد درجہ مشتاق بنا دیا کہ وہ ان کی اور بھی باتیں سنے اور ہو سکے تو قریب سے ان کی شکلیں بھی دیکھ لے۔
اس وقت وہ تینوں بڑے ڈاکخانے کے چوراہے کے پاس پہنچ گئے تھے۔ لڑکا اور لڑکی پل بھر کو رکے اور پھر سڑک پار کر کے میکلو ڈ روڈ پر چل پڑے۔ نوجوان مال روڈ پر ہی ٹھہرا رہا۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ فی الفور ان کے پیچھے گیا تو ممکن ہے انہیں شبہ ہو جائے کہ ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ اس لئے اسے کچھ لمحے رک جانا چاہئے۔
جب وہ لوگ کوئی سو گز آگے نکل گئے تو اس نے لپک کر ان کا پیچھا کرنا چاہا مگر ابھی اس نے آدھی ہی سڑک پار کی ہو گی کہ اینٹوں سے بھری ہوئی ایک لاری پیچھے سے بگولے کی طرح آئی اور اسے روندتی ہوئی میکلوڈ روڈ کی طرف نکل گئی۔ لاری کے ڈرائیور نے نوجوان کی چیخ سن کر پل بھر کے لئے گاڑی کی رفتار کم کی۔ پھر وہ سمجھ گیا کہ کوئی لاری کی لپیٹ میں آگیا اور وہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاری کو لے بھاگا۔ دو تین راہ گیر جو اس حادثے کو دیکھ رہے تھے شور مچانے لگے کہ نمبر دیکھو نمبر دیکھو مگر لاری ہوا ہو چکی تھی۔
اتنے میں کئی اور لوگ جمع ہو گئے۔ ٹریفک کا ایک انسپکٹر جو موٹر سائیکل پر جا رہا تھا رک گیا۔ نوجوان کی دونوں ٹانگیں بالکل کچلی گئی تھیں۔ بہت سا خون نکل چکا تھا اور وہ سسک رہا تھا۔
فوراً ایک کار کو روکا گیا اور اسے جیسے تیسے اس میں ڈال کر بڑے ہسپتال روانہ کر دیا گیا۔ جس وقت وہ ہسپتال پہنچا تو اس میں ابھی رمق بھر جان باقی تھی۔ اس ہسپتال کے شعبۂ حادثات میں اسسٹنٹ سرجن مسٹر خان اور دو نو عمر نرسیں مس شہناز اور مس گِل ڈیوٹی پر تھیں۔ جس وقت اسے سٹریچر پر ڈال کے آپریشن روم میں لے جایا جا رہا تھا تو ان نرسوں کی نظر اس پر پڑی۔ اس کا بادامی رنگ کا اوور کوٹ ابھی تک اس کے جسم پر تھا اور سفید سلک کا مفلر گلے میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے کپڑوں پر جا بجا خون کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ کسی نے از راہِ دردمندی اس کی سبز فلیٹ ہیٹ اٹھا کے اس کے سینہ پر رکھ دی تھی تاکہ کوئی اڑا نہ لے جائے۔
شہناز نے گل سے کہا:
"کسی بھلے گھر کا معلوم ہوتا ہے بے چارہ۔"
گل دبی آواز میں بولی۔
"خوب بن ٹھن کے نکلا تھا بے چارہ ہفتے کی شام منانے۔"
"ڈرائیور پکڑا گیا یا نہیں؟"
"نہیں بھاگ گیا۔"
"کتنے افسوس کی بات ہے۔"
آپریشن روم میں اسسٹنٹ سرجن اور اور نرسیں چہروں پر جراحی کے نقاب چڑھائے جنہوں نے ان کی آنکھوں سے نیچے کے سارے حصے کو چھپا رکھا تھا، اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ اسے سنگ مر مر کی میز پر لٹا دیا گیا۔ اس نے سر میں جو تیز خوشبو دار تیل ڈال رکھا تھا،اس کی کچھ مہک ابھی تک باقی تھی۔ پٹیاں ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔ حادثے سے اس کی دونوں ٹانگیں تو ٹوٹ چکی تھیں مگر سرکی مانگ نہیں بگڑنے پائی تھی۔
اب اس کے کپڑے اتارے جا رہے تھے۔ سب سے پہلے سفید سلک گلوبند اس کے گلے سے اتارا گیا۔ اچانک نرس شہناز اور نرس گِل نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ چہرے جو دلی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں، جراحی کے نقاب تلے چھپے ہوئے تھے اور زبانیں بند۔
نوجوان کے گلوبند کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا سرے سے قمیص ہی نہیں تھی۔۔۔اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جا بجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سوئٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آ رہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلوبند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپا رہتا تھا۔ اس کے جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پوڈر لگا ہوا تھا۔ سوئٹر اور بنیان کے بعد پتلون کی باری آئی اور شہناز اور گِل کی نظریں پھر بیک وقت اٹھیں۔ پتلون کو پیٹی کے بجائے ایک پرانی دھجی سے جو شاید کبھی نکٹائی رہی ہو گی خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھٹنوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا اور کئی جگہ کھونچیں لگی تھیں مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لئے لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔ اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ پھر مس شہناز اور مس گِل کی آنکھیں چار ہوئیں۔
بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں، اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ بلا شبہ اس وقت تک وہ دم توڑ چکا تھا۔ اس کا جسم سنگ مر مر کی میز پر بے جان پڑا تھا۔ اس کا چہرہ جو پہلے چھت کی سمت تھا۔ کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف مڑ گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جسم اور اس کے ساتھ روح کی برہنگی نے اسے خجل کر دیا ہے اور وہ اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرا رہا ہے۔
اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں:
ایک چھوٹی سی سیاہ کنگھی، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا سگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں نام اور پتے لکھے تھے۔نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹر گشت کے دوران اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھما دئے تھے اور اس نے انہیں اوور کوٹ کی جیب میں ڈال دیا تھا۔
افسوس کہ اس کی بید کی چھڑی جو حادثے کے دوران میں کہیں کھو گئی تھی اس فہرست میں شامل نہ تھی۔
جنور ی کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔
یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھر پور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھار کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لئے تیز قدم اٹھا رہے تھے مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔
اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کر دیتا۔ ایک خالی ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی مگر اس نے "نو تھینک یو" کہہ کر اسے بھی ٹال دیا۔
جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ با رونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی گویا کرکٹ کا کھیل ہو رہا ہو۔
راستے میں وہ سڑک آئی جو لارنس گارڈن کی طرف جاتی تھی مگر اس وقت شام کے دھندلکے اور سخت کہرے میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس رہی تھی کہ اس نے ادھر کا رخ نہ کیا اور سیدھا چیرنگ کراس کی طرف چلتا رہا۔
ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت آ گئی۔ اس نے اپنا رومال نکالا جسے جیب میں رکھنے کی بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میں اڑس رکھا تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیرا، تاکہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے۔ پاس گھاس کے ایک ٹکڑے پر کچھ انگریز بچے بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ وہ رک گیا اور بڑی دلچسپی سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ بچے کچھ دیر تک تو اس کی پرواہ کئے بغیر کھیل میں مصروف رہے مگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانے سے لگے اور پھر اچانک گیند سنبھال کر ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے گھاس کے اس ٹکڑے ہی سے چلے گئے۔
نوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بنچ پر پڑی اور وہ اس پر آ کے بیٹھ گیا۔ اس وقت شام کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سردی اور بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کی یہ شدت نا خوشگوار نہ تھی بلکہ لذت پرستی کی ترغیب دیتی تھی۔ شہر کے عیش پسند طبقے کا تو کہنا ہی کیا وہ تو اس سردی میں زیادہ ہی کھل کھیلتا ہے۔ تنہائی میں بسر کرنے والے بھی اس سردی سے ورغلائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر محفلوں اور مجمعوں میں جانے کی سوچنے لگتے ہیں تاکہ جسموں کا قرب حاصل ہو۔ حصولِ لذت کی یہی جستجو لوگوں کو مال پر کھینچ لائی تھی اور وہ حسبِ توفیق ریستورانوں، کافی ہاؤسوں، رقص گاہوں، سینماؤں اور تفریح کے دوسرے مقاموں پر محظوظ ہو رہے تھے۔
مال روڈ پر موٹروں، تانگوں اور بائیسکلوں کا تانتا بندھا ہوا تو تھا ہی پٹری پر چلنے والوں کی بھی کثرت تھی۔ علاوہ ازیں سڑک کی دو رویہ دکانوں میں خرید و فروخت کا بازار بھی گرم تھا۔ جن کم نصیبوں کو نہ تفریحِ طبع کی استطاعت تھی نہ خرید و فروخت کی، وہ دور ہی سے کھڑے کھڑے ان تفریح گاہوں اور دکانوں کی رنگا رنگ روشنیوں سے جی بہلا رہے تھے۔
نوجوان سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے زن و مرد کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر ان کے چہروں سے کہیں زیادہ ان کے لباس پر پڑتی تھی۔ ان میں ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، سرکاری افسر، لیڈر، فنکار، کالجوں کے طلبا اور طالبات، نرسیں، اخباروں کے نمائندے، دفتروں کے بابو۔زیادہ تر لوگ اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہر قسم کے اوور کوٹ، قراقلی کے بیش قیمت اوور کوٹ سے لے کر خالی پٹی کے پرانے فوجی اوور کوٹ تک جسے نیلام میں خریدا گیا تھا۔
نوجوان کا اپنا اوور کوٹ تھا تو خاصا پرانا مگر اس کا کپڑا خوب بڑھیا تھا پھر وہ سلا ہوا بھی کسی ماہر درزی کا تھا۔ اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بہت دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کالر خوب جما ہوا تھا۔ باہوں کی کریز بڑی نمایاں، سلو ٹ کہیں نام کو نہیں۔ بٹن سینگ کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے۔ نوجوان اس میں بہت مگن معلوم ہوتا تھا۔
ایک لڑکا پان بیڑی سگریٹ کا صندوقچہ گلے میں ڈالے سامنے سے گزرا۔ نوجوان نے آواز دی۔
"پان والا!۔"
"جناب!"
"دس کا چینج ہے؟"
"ہے تو نہیں۔ لا دوں گا۔ کیا لیں گے آپ؟"
"نوٹ لے کے بھاگ گیا تو؟"
"اجی واہ۔ کوئی چور اچکا ہوں جو بھاگ جاؤں گا۔ اعتبار نہ ہو تو میرے ساتھ چلئے۔ لیں گے کیا آپ؟"
"نہیں نہیں، ہم خود چینج لائے گا۔ لو یہ اکنی نکل آئی۔ ایک سگریٹ دے دو اور چلے جاؤ۔"
لڑکے کے جانے کے بعد مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگانے لگا۔ وہ ویسے ہی بہت خوش نظر آتا تھا۔ سگریٹ کے دھوئیں نے اس پر سرور کی کیفیت طاری کر دی۔
ایک چھوٹی سی سفید رنگ بلی سردی میں ٹھٹھری ہوئی بنچ کے نیچے اس کے قدموں میں آ کر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ اس نے پچکارا تو اچھل کر بنچ پر آ چڑھی۔ اس نے پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔
"پور لٹل سو ل"
اس کے بعد وہ بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور سڑک کو پار کر کے اس طرف چلا جدھر سینما کی رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ تماشا شروع ہو چکا تھا۔ برآمدے میں بھیڑ نہ تھی۔ صرف چند لوگ تھے جو آنے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر دکھائے گئے تھے۔
تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں۔ ایک خاص شانِ استغنا کے ساتھ مگر صنفِ نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔ لڑکیاں آپس میں ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی۔ اتنے میں ایک لڑکی نے، جو اپنی ساتھ والیوں سے زیادہ حسین بھی تھی اور شوخ بھی، دوسری لڑکی کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے باہر نکل آیا۔
اب سات بج چکے تھے اور وہ مال کی پٹری پر پھر پہلے کی طرح مٹر گشت کرتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ ایک ریستوران میں آرکسٹرا بج رہا تھا۔ اندر سے کہیں زیادہ باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان میں زیادہ تر موٹروں کے ڈرائیور، کوچوان، پھل بیچنے والے، جو اپنا مال بیچ کے خالی ٹوکرے لئے کھڑے تھے۔ کچھ راہ گیر جو چلتے چلتے ٹھہر گئے تھے۔ کچھ مزدوری پیشہ لوگ تھے اور کچھ گداگر۔ یہ اندر والوں سے کہیں زیادہ گانے کے رسیا معلوم ہوتے تھے کیونکہ وہ غل غپاڑہ نہیں مچا رہے تھے بلکہ خاموشی سے نغمہ سن رہے تھے۔ حالانکہ دھن اور ساز اجنبی تھے۔ نوجوان پل بھر کے لئے رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔
تھوڑی دور چل کے اسے انگریزی موسیقی کی ایک بڑی سی دکان نظر آئی اور وہ بلا تکلف اندر چلا گیا۔ ہر طرف شیشے کی الماریوں میں طرح طرح کے انگریزی ساز رکھے ہوئے تھے۔ ایک لمبی میز پر مغربی موسیقی کی دو ورقی کتابیں چنی تھیں۔ یہ نئے چلنتر گانے تھے۔ سرورق خوبصورت رنگدار مگر دھنیں گھٹیا۔ ایک چھچھلتی ہوئی نظر ان پر ڈالی پھر وہاں سے ہٹ آیا اور سازوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایک ہسپانوی گٹار پر، جو ایک کھونٹی سے ٹنگی ہوئی تھی، ناقدانہ نظر ڈالی اور اس کے ساتھ قیمت کا جو ٹکٹ لٹک رہا تھا اسے پڑھا۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک بڑا جرمن پیانو رکھا ہوا تھا۔ اس کا کور اٹھا کے انگلیوں سے بعض پردوں کو ٹٹولا اور پھر کور بند کر دیا۔
پیانو کی آواز سن کر دکان کا ایک کارندہ اس کی طرف بڑھا۔
"گڈ ایوننگ سر۔ کوئی خدمت؟"
"نہیں شکریہ۔ ہاں اس مہینے کی گراموفون ریکارڈوں کی فہرست دے دیجئے۔"
فہرست لے لے کے اوور کوٹ کی جیب میں ڈالی۔ دکان سے باہر نکل آیا اور پھر چلنا شروع کر دیا۔ راستے میں ایک چھوٹا سا بک اسٹال پڑا۔ نوجوان یہاں بھی رکا۔ کئی تازہ رسالوں کے ورق الٹے۔ رسالہ جہاں سے اٹھاتا بڑی احتیاط سے وہیں رکھ دیتا۔ اَور آگے بڑھا تو قالینوں کی ایک دکان نے اس کی توجہ کو جذب کیا۔ مالک دکان نے جو ایک لمبا سا چغہ پہنے اور سر پر کلاہ رکھے تھا۔ گرمجوشی سے اس کی آؤ بھگت کی۔
"ذرا یہ ایرانی قالین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اتاریئے نہیں یہیں دیکھ لوں گا۔ کیا قیمت ہے اس کی؟
"چودہ سو تیس روپے ہے۔"
نوجوان نے اپنی بھنووں کو سکیڑا جس کا مطلب تھا "اوہو اتنی۔"
دکاندار نے کہا "آپ پسند کر لیجئے۔ ہم جتنی بھی رعایت کر سکتے ہیں کر دیں گے۔"
"شکریہ لیکن اس وقت تو میں صرف ایک نظر دیکھنے آیا ہوں۔"
"شوق سے دیکھئے۔ آپ ہی کی دکان ہے۔"
وہ تین منٹ کے بعد اس دکان سے بھی نکل آیا۔ اس کے اوور کوٹ کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا جو ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا تھا۔ وہ اس وقت کاج سے کچھ زیادہ باہر نکل آیا تھا۔ جب وہ اس کو ٹھیک کر رہا تھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف اور پر اسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے پھر اپنی مٹر گشت شروع کر دی۔
اب وہ ہائی کورٹ کی عمارتوں کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اتنا کچھ چل لینے کے بعد اس کی فطری چونچالی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ نہ تکان محسوس ہوئی تھی نہ اکتاہٹ۔ یہاں پٹری پر چلنے والوں کی ٹولیاں کچھ چھٹ سی گئی تھیں اور میں ان میں کافی فصل رہنے لگا تھا۔ اس نے اپنی بید کی چھڑی کو ایک انگلی پر گھمانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی اور چھڑی زمین پر گر پڑی "اوہ سوری" کہہ کر زمین پر جھکا اور چھڑی کو اٹھا لیا۔
اس اثنا میں ایک نوجوان جوڑا جو اس کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا اس کے پاس سے گزر کر آگے نکل آیا۔ لڑکا دراز قامت تھا اور سیاہ کوڈرائے کی پتلون اور زپ والی چمڑے کی جیکٹ پہنے تھا اور لڑکی سفید ساٹن کی گھیر دار شلوار اور سبز رنگ کا کا کوٹ۔ وہ بھاری بھرکم سی تھی۔اس کے بالوں میں ایک لمبا سا سیاہ چٹا گندھا ہوا تھا جو اس کمر سے نیچا تھا۔ لڑکی کے چلنے سے اس چٹلے کا پھندنا اچھلتا کودتا پے درپے اس کے فربہ جسم سے ٹکراتا تھا۔ نوجوان کے لئے جو اب ان کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا یہ نظارہ خاصا جاذب نظر تھا۔ وہ جوڑا کچھ دیر تک تو خاموش چلتا رہا۔ اس کے بعد لڑکے نے کچھ کہا جس کے جواب میں لڑکی اچانک چمک کر بولی۔
ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔
"سنو میرا کہنا مانو" لڑکے نے نصیحت کے انداز میں کہا "ڈاکٹر میرا دوست ہے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔"
"نہیں، نہیں، نہیں۔"
"میں کہتا ہوں تمہیں ذرا تکلیف نہ ہو گی۔"
"لڑکی نے کچھ جواب نہ دیا۔"
"تمہارے باپ کو کتنا رنج ہو گا۔ ذرا ان کی عزت کا بھی تو خیال کرو۔"
"چپ رہو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گی۔"
نوجوان نے شام سے اب تک اپنی مٹر گشت کے دوران میں جتنی انسانی شکلیں دیکھی تھیں ان میں سے کسی نے بھی اس کی توجہ کو اپنی طرف منعطف نہیں کیا تھا۔ فی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ہی نہیں۔ یا پھر وہ اپنے حال میں ایسا مست تھا کہ کسی دوسرے سے اسے سروکار ہی نہ تھا مگر اس دلچسپ جوڑے نے جس میں کسی افسانے کے کرداروں کی سی ادا تھی، جیسے یکبارگی اس کے دل کو موہ لیا تھا اور اسے حد درجہ مشتاق بنا دیا کہ وہ ان کی اور بھی باتیں سنے اور ہو سکے تو قریب سے ان کی شکلیں بھی دیکھ لے۔
اس وقت وہ تینوں بڑے ڈاکخانے کے چوراہے کے پاس پہنچ گئے تھے۔ لڑکا اور لڑکی پل بھر کو رکے اور پھر سڑک پار کر کے میکلو ڈ روڈ پر چل پڑے۔ نوجوان مال روڈ پر ہی ٹھہرا رہا۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ فی الفور ان کے پیچھے گیا تو ممکن ہے انہیں شبہ ہو جائے کہ ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ اس لئے اسے کچھ لمحے رک جانا چاہئے۔
جب وہ لوگ کوئی سو گز آگے نکل گئے تو اس نے لپک کر ان کا پیچھا کرنا چاہا مگر ابھی اس نے آدھی ہی سڑک پار کی ہو گی کہ اینٹوں سے بھری ہوئی ایک لاری پیچھے سے بگولے کی طرح آئی اور اسے روندتی ہوئی میکلوڈ روڈ کی طرف نکل گئی۔ لاری کے ڈرائیور نے نوجوان کی چیخ سن کر پل بھر کے لئے گاڑی کی رفتار کم کی۔ پھر وہ سمجھ گیا کہ کوئی لاری کی لپیٹ میں آگیا اور وہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاری کو لے بھاگا۔ دو تین راہ گیر جو اس حادثے کو دیکھ رہے تھے شور مچانے لگے کہ نمبر دیکھو نمبر دیکھو مگر لاری ہوا ہو چکی تھی۔
اتنے میں کئی اور لوگ جمع ہو گئے۔ ٹریفک کا ایک انسپکٹر جو موٹر سائیکل پر جا رہا تھا رک گیا۔ نوجوان کی دونوں ٹانگیں بالکل کچلی گئی تھیں۔ بہت سا خون نکل چکا تھا اور وہ سسک رہا تھا۔
فوراً ایک کار کو روکا گیا اور اسے جیسے تیسے اس میں ڈال کر بڑے ہسپتال روانہ کر دیا گیا۔ جس وقت وہ ہسپتال پہنچا تو اس میں ابھی رمق بھر جان باقی تھی۔ اس ہسپتال کے شعبۂ حادثات میں اسسٹنٹ سرجن مسٹر خان اور دو نو عمر نرسیں مس شہناز اور مس گِل ڈیوٹی پر تھیں۔ جس وقت اسے سٹریچر پر ڈال کے آپریشن روم میں لے جایا جا رہا تھا تو ان نرسوں کی نظر اس پر پڑی۔ اس کا بادامی رنگ کا اوور کوٹ ابھی تک اس کے جسم پر تھا اور سفید سلک کا مفلر گلے میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے کپڑوں پر جا بجا خون کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ کسی نے از راہِ دردمندی اس کی سبز فلیٹ ہیٹ اٹھا کے اس کے سینہ پر رکھ دی تھی تاکہ کوئی اڑا نہ لے جائے۔
شہناز نے گل سے کہا:
"کسی بھلے گھر کا معلوم ہوتا ہے بے چارہ۔"
گل دبی آواز میں بولی۔
"خوب بن ٹھن کے نکلا تھا بے چارہ ہفتے کی شام منانے۔"
"ڈرائیور پکڑا گیا یا نہیں؟"
"نہیں بھاگ گیا۔"
"کتنے افسوس کی بات ہے۔"
آپریشن روم میں اسسٹنٹ سرجن اور اور نرسیں چہروں پر جراحی کے نقاب چڑھائے جنہوں نے ان کی آنکھوں سے نیچے کے سارے حصے کو چھپا رکھا تھا، اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ اسے سنگ مر مر کی میز پر لٹا دیا گیا۔ اس نے سر میں جو تیز خوشبو دار تیل ڈال رکھا تھا،اس کی کچھ مہک ابھی تک باقی تھی۔ پٹیاں ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔ حادثے سے اس کی دونوں ٹانگیں تو ٹوٹ چکی تھیں مگر سرکی مانگ نہیں بگڑنے پائی تھی۔
اب اس کے کپڑے اتارے جا رہے تھے۔ سب سے پہلے سفید سلک گلوبند اس کے گلے سے اتارا گیا۔ اچانک نرس شہناز اور نرس گِل نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ چہرے جو دلی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں، جراحی کے نقاب تلے چھپے ہوئے تھے اور زبانیں بند۔
نوجوان کے گلوبند کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا سرے سے قمیص ہی نہیں تھی۔۔۔اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جا بجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سوئٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آ رہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلوبند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپا رہتا تھا۔ اس کے جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پوڈر لگا ہوا تھا۔ سوئٹر اور بنیان کے بعد پتلون کی باری آئی اور شہناز اور گِل کی نظریں پھر بیک وقت اٹھیں۔ پتلون کو پیٹی کے بجائے ایک پرانی دھجی سے جو شاید کبھی نکٹائی رہی ہو گی خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھٹنوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا اور کئی جگہ کھونچیں لگی تھیں مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لئے لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔ اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ پھر مس شہناز اور مس گِل کی آنکھیں چار ہوئیں۔
بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں، اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ بلا شبہ اس وقت تک وہ دم توڑ چکا تھا۔ اس کا جسم سنگ مر مر کی میز پر بے جان پڑا تھا۔ اس کا چہرہ جو پہلے چھت کی سمت تھا۔ کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف مڑ گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جسم اور اس کے ساتھ روح کی برہنگی نے اسے خجل کر دیا ہے اور وہ اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرا رہا ہے۔
اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں:
ایک چھوٹی سی سیاہ کنگھی، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا سگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں نام اور پتے لکھے تھے۔نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹر گشت کے دوران اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھما دئے تھے اور اس نے انہیں اوور کوٹ کی جیب میں ڈال دیا تھا۔
افسوس کہ اس کی بید کی چھڑی جو حادثے کے دوران میں کہیں کھو گئی تھی اس فہرست میں شامل نہ تھی۔
جنور ی کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔
یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھر پور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھار کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لئے تیز قدم اٹھا رہے تھے مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔
اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کر دیتا۔ ایک خالی ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی مگر اس نے "نو تھینک یو" کہہ کر اسے بھی ٹال دیا۔
جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ با رونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی گویا کرکٹ کا کھیل ہو رہا ہو۔
راستے میں وہ سڑک آئی جو لارنس گارڈن کی طرف جاتی تھی مگر اس وقت شام کے دھندلکے اور سخت کہرے میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس رہی تھی کہ اس نے ادھر کا رخ نہ کیا اور سیدھا چیرنگ کراس کی طرف چلتا رہا۔
ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت آ گئی۔ اس نے اپنا رومال نکالا جسے جیب میں رکھنے کی بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میں اڑس رکھا تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیرا، تاکہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے۔ پاس گھاس کے ایک ٹکڑے پر کچھ انگریز بچے بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ وہ رک گیا اور بڑی دلچسپی سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ بچے کچھ دیر تک تو اس کی پرواہ کئے بغیر کھیل میں مصروف رہے مگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانے سے لگے اور پھر اچانک گیند سنبھال کر ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے گھاس کے اس ٹکڑے ہی سے چلے گئے۔
نوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بنچ پر پڑی اور وہ اس پر آ کے بیٹھ گیا۔ اس وقت شام کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سردی اور بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کی یہ شدت نا خوشگوار نہ تھی بلکہ لذت پرستی کی ترغیب دیتی تھی۔ شہر کے عیش پسند طبقے کا تو کہنا ہی کیا وہ تو اس سردی میں زیادہ ہی کھل کھیلتا ہے۔ تنہائی میں بسر کرنے والے بھی اس سردی سے ورغلائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر محفلوں اور مجمعوں میں جانے کی سوچنے لگتے ہیں تاکہ جسموں کا قرب حاصل ہو۔ حصولِ لذت کی یہی جستجو لوگوں کو مال پر کھینچ لائی تھی اور وہ حسبِ توفیق ریستورانوں، کافی ہاؤسوں، رقص گاہوں، سینماؤں اور تفریح کے دوسرے مقاموں پر محظوظ ہو رہے تھے۔
مال روڈ پر موٹروں، تانگوں اور بائیسکلوں کا تانتا بندھا ہوا تو تھا ہی پٹری پر چلنے والوں کی بھی کثرت تھی۔ علاوہ ازیں سڑک کی دو رویہ دکانوں میں خرید و فروخت کا بازار بھی گرم تھا۔ جن کم نصیبوں کو نہ تفریحِ طبع کی استطاعت تھی نہ خرید و فروخت کی، وہ دور ہی سے کھڑے کھڑے ان تفریح گاہوں اور دکانوں کی رنگا رنگ روشنیوں سے جی بہلا رہے تھے۔
نوجوان سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے زن و مرد کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر ان کے چہروں سے کہیں زیادہ ان کے لباس پر پڑتی تھی۔ ان میں ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، سرکاری افسر، لیڈر، فنکار، کالجوں کے طلبا اور طالبات، نرسیں، اخباروں کے نمائندے، دفتروں کے بابو۔زیادہ تر لوگ اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہر قسم کے اوور کوٹ، قراقلی کے بیش قیمت اوور کوٹ سے لے کر خالی پٹی کے پرانے فوجی اوور کوٹ تک جسے نیلام میں خریدا گیا تھا۔
نوجوان کا اپنا اوور کوٹ تھا تو خاصا پرانا مگر اس کا کپڑا خوب بڑھیا تھا پھر وہ سلا ہوا بھی کسی ماہر درزی کا تھا۔ اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بہت دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کالر خوب جما ہوا تھا۔ باہوں کی کریز بڑی نمایاں، سلو ٹ کہیں نام کو نہیں۔ بٹن سینگ کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے۔ نوجوان اس میں بہت مگن معلوم ہوتا تھا۔
ایک لڑکا پان بیڑی سگریٹ کا صندوقچہ گلے میں ڈالے سامنے سے گزرا۔ نوجوان نے آواز دی۔
"پان والا!۔"
"جناب!"
"دس کا چینج ہے؟"
"ہے تو نہیں۔ لا دوں گا۔ کیا لیں گے آپ؟"
"نوٹ لے کے بھاگ گیا تو؟"
"اجی واہ۔ کوئی چور اچکا ہوں جو بھاگ جاؤں گا۔ اعتبار نہ ہو تو میرے ساتھ چلئے۔ لیں گے کیا آپ؟"
"نہیں نہیں، ہم خود چینج لائے گا۔ لو یہ اکنی نکل آئی۔ ایک سگریٹ دے دو اور چلے جاؤ۔"
لڑکے کے جانے کے بعد مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگانے لگا۔ وہ ویسے ہی بہت خوش نظر آتا تھا۔ سگریٹ کے دھوئیں نے اس پر سرور کی کیفیت طاری کر دی۔
ایک چھوٹی سی سفید رنگ بلی سردی میں ٹھٹھری ہوئی بنچ کے نیچے اس کے قدموں میں آ کر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ اس نے پچکارا تو اچھل کر بنچ پر آ چڑھی۔ اس نے پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔
"پور لٹل سو ل"
اس کے بعد وہ بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور سڑک کو پار کر کے اس طرف چلا جدھر سینما کی رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ تماشا شروع ہو چکا تھا۔ برآمدے میں بھیڑ نہ تھی۔ صرف چند لوگ تھے جو آنے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر دکھائے گئے تھے۔
تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں۔ ایک خاص شانِ استغنا کے ساتھ مگر صنفِ نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔ لڑکیاں آپس میں ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی۔ اتنے میں ایک لڑکی نے، جو اپنی ساتھ والیوں سے زیادہ حسین بھی تھی اور شوخ بھی، دوسری لڑکی کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے باہر نکل آیا۔
اب سات بج چکے تھے اور وہ مال کی پٹری پر پھر پہلے کی طرح مٹر گشت کرتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ ایک ریستوران میں آرکسٹرا بج رہا تھا۔ اندر سے کہیں زیادہ باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان میں زیادہ تر موٹروں کے ڈرائیور، کوچوان، پھل بیچنے والے، جو اپنا مال بیچ کے خالی ٹوکرے لئے کھڑے تھے۔ کچھ راہ گیر جو چلتے چلتے ٹھہر گئے تھے۔ کچھ مزدوری پیشہ لوگ تھے اور کچھ گداگر۔ یہ اندر والوں سے کہیں زیادہ گانے کے رسیا معلوم ہوتے تھے کیونکہ وہ غل غپاڑہ نہیں مچا رہے تھے بلکہ خاموشی سے نغمہ سن رہے تھے۔ حالانکہ دھن اور ساز اجنبی تھے۔ نوجوان پل بھر کے لئے رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔
تھوڑی دور چل کے اسے انگریزی موسیقی کی ایک بڑی سی دکان نظر آئی اور وہ بلا تکلف اندر چلا گیا۔ ہر طرف شیشے کی الماریوں میں طرح طرح کے انگریزی ساز رکھے ہوئے تھے۔ ایک لمبی میز پر مغربی موسیقی کی دو ورقی کتابیں چنی تھیں۔ یہ نئے چلنتر گانے تھے۔ سرورق خوبصورت رنگدار مگر دھنیں گھٹیا۔ ایک چھچھلتی ہوئی نظر ان پر ڈالی پھر وہاں سے ہٹ آیا اور سازوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایک ہسپانوی گٹار پر، جو ایک کھونٹی سے ٹنگی ہوئی تھی، ناقدانہ نظر ڈالی اور اس کے ساتھ قیمت کا جو ٹکٹ لٹک رہا تھا اسے پڑھا۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک بڑا جرمن پیانو رکھا ہوا تھا۔ اس کا کور اٹھا کے انگلیوں سے بعض پردوں کو ٹٹولا اور پھر کور بند کر دیا۔
پیانو کی آواز سن کر دکان کا ایک کارندہ اس کی طرف بڑھا۔
"گڈ ایوننگ سر۔ کوئی خدمت؟"
"نہیں شکریہ۔ ہاں اس مہینے کی گراموفون ریکارڈوں کی فہرست دے دیجئے۔"
فہرست لے لے کے اوور کوٹ کی جیب میں ڈالی۔ دکان سے باہر نکل آیا اور پھر چلنا شروع کر دیا۔ راستے میں ایک چھوٹا سا بک اسٹال پڑا۔ نوجوان یہاں بھی رکا۔ کئی تازہ رسالوں کے ورق الٹے۔ رسالہ جہاں سے اٹھاتا بڑی احتیاط سے وہیں رکھ دیتا۔ اَور آگے بڑھا تو قالینوں کی ایک دکان نے اس کی توجہ کو جذب کیا۔ مالک دکان نے جو ایک لمبا سا چغہ پہنے اور سر پر کلاہ رکھے تھا۔ گرمجوشی سے اس کی آؤ بھگت کی۔
"ذرا یہ ایرانی قالین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اتاریئے نہیں یہیں دیکھ لوں گا۔ کیا قیمت ہے اس کی؟
"چودہ سو تیس روپے ہے۔"
نوجوان نے اپنی بھنووں کو سکیڑا جس کا مطلب تھا "اوہو اتنی۔"
دکاندار نے کہا "آپ پسند کر لیجئے۔ ہم جتنی بھی رعایت کر سکتے ہیں کر دیں گے۔"
"شکریہ لیکن اس وقت تو میں صرف ایک نظر دیکھنے آیا ہوں۔"
"شوق سے دیکھئے۔ آپ ہی کی دکان ہے۔"
وہ تین منٹ کے بعد اس دکان سے بھی نکل آیا۔ اس کے اوور کوٹ کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا جو ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا تھا۔ وہ اس وقت کاج سے کچھ زیادہ باہر نکل آیا تھا۔ جب وہ اس کو ٹھیک کر رہا تھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف اور پر اسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے پھر اپنی مٹر گشت شروع کر دی۔
اب وہ ہائی کورٹ کی عمارتوں کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اتنا کچھ چل لینے کے بعد اس کی فطری چونچالی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ نہ تکان محسوس ہوئی تھی نہ اکتاہٹ۔ یہاں پٹری پر چلنے والوں کی ٹولیاں کچھ چھٹ سی گئی تھیں اور میں ان میں کافی فصل رہنے لگا تھا۔ اس نے اپنی بید کی چھڑی کو ایک انگلی پر گھمانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی اور چھڑی زمین پر گر پڑی "اوہ سوری" کہہ کر زمین پر جھکا اور چھڑی کو اٹھا لیا۔
اس اثنا میں ایک نوجوان جوڑا جو اس کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا اس کے پاس سے گزر کر آگے نکل آیا۔ لڑکا دراز قامت تھا اور سیاہ کوڈرائے کی پتلون اور زپ والی چمڑے کی جیکٹ پہنے تھا اور لڑکی سفید ساٹن کی گھیر دار شلوار اور سبز رنگ کا کا کوٹ۔ وہ بھاری بھرکم سی تھی۔اس کے بالوں میں ایک لمبا سا سیاہ چٹا گندھا ہوا تھا جو اس کمر سے نیچا تھا۔ لڑکی کے چلنے سے اس چٹلے کا پھندنا اچھلتا کودتا پے درپے اس کے فربہ جسم سے ٹکراتا تھا۔ نوجوان کے لئے جو اب ان کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا یہ نظارہ خاصا جاذب نظر تھا۔ وہ جوڑا کچھ دیر تک تو خاموش چلتا رہا۔ اس کے بعد لڑکے نے کچھ کہا جس کے جواب میں لڑکی اچانک چمک کر بولی۔
ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔
"سنو میرا کہنا مانو" لڑکے نے نصیحت کے انداز میں کہا "ڈاکٹر میرا دوست ہے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔"
"نہیں، نہیں، نہیں۔"
"میں کہتا ہوں تمہیں ذرا تکلیف نہ ہو گی۔"
"لڑکی نے کچھ جواب نہ دیا۔"
"تمہارے باپ کو کتنا رنج ہو گا۔ ذرا ان کی عزت کا بھی تو خیال کرو۔"
"چپ رہو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گی۔"
نوجوان نے شام سے اب تک اپنی مٹر گشت کے دوران میں جتنی انسانی شکلیں دیکھی تھیں ان میں سے کسی نے بھی اس کی توجہ کو اپنی طرف منعطف نہیں کیا تھا۔ فی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ہی نہیں۔ یا پھر وہ اپنے حال میں ایسا مست تھا کہ کسی دوسرے سے اسے سروکار ہی نہ تھا مگر اس دلچسپ جوڑے نے جس میں کسی افسانے کے کرداروں کی سی ادا تھی، جیسے یکبارگی اس کے دل کو موہ لیا تھا اور اسے حد درجہ مشتاق بنا دیا کہ وہ ان کی اور بھی باتیں سنے اور ہو سکے تو قریب سے ان کی شکلیں بھی دیکھ لے۔
اس وقت وہ تینوں بڑے ڈاکخانے کے چوراہے کے پاس پہنچ گئے تھے۔ لڑکا اور لڑکی پل بھر کو رکے اور پھر سڑک پار کر کے میکلو ڈ روڈ پر چل پڑے۔ نوجوان مال روڈ پر ہی ٹھہرا رہا۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ فی الفور ان کے پیچھے گیا تو ممکن ہے انہیں شبہ ہو جائے کہ ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ اس لئے اسے کچھ لمحے رک جانا چاہئے۔
جب وہ لوگ کوئی سو گز آگے نکل گئے تو اس نے لپک کر ان کا پیچھا کرنا چاہا مگر ابھی اس نے آدھی ہی سڑک پار کی ہو گی کہ اینٹوں سے بھری ہوئی ایک لاری پیچھے سے بگولے کی طرح آئی اور اسے روندتی ہوئی میکلوڈ روڈ کی طرف نکل گئی۔ لاری کے ڈرائیور نے نوجوان کی چیخ سن کر پل بھر کے لئے گاڑی کی رفتار کم کی۔ پھر وہ سمجھ گیا کہ کوئی لاری کی لپیٹ میں آگیا اور وہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاری کو لے بھاگا۔ دو تین راہ گیر جو اس حادثے کو دیکھ رہے تھے شور مچانے لگے کہ نمبر دیکھو نمبر دیکھو مگر لاری ہوا ہو چکی تھی۔
اتنے میں کئی اور لوگ جمع ہو گئے۔ ٹریفک کا ایک انسپکٹر جو موٹر سائیکل پر جا رہا تھا رک گیا۔ نوجوان کی دونوں ٹانگیں بالکل کچلی گئی تھیں۔ بہت سا خون نکل چکا تھا اور وہ سسک رہا تھا۔
فوراً ایک کار کو روکا گیا اور اسے جیسے تیسے اس میں ڈال کر بڑے ہسپتال روانہ کر دیا گیا۔ جس وقت وہ ہسپتال پہنچا تو اس میں ابھی رمق بھر جان باقی تھی۔ اس ہسپتال کے شعبۂ حادثات میں اسسٹنٹ سرجن مسٹر خان اور دو نو عمر نرسیں مس شہناز اور مس گِل ڈیوٹی پر تھیں۔ جس وقت اسے سٹریچر پر ڈال کے آپریشن روم میں لے جایا جا رہا تھا تو ان نرسوں کی نظر اس پر پڑی۔ اس کا بادامی رنگ کا اوور کوٹ ابھی تک اس کے جسم پر تھا اور سفید سلک کا مفلر گلے میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے کپڑوں پر جا بجا خون کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ کسی نے از راہِ دردمندی اس کی سبز فلیٹ ہیٹ اٹھا کے اس کے سینہ پر رکھ دی تھی تاکہ کوئی اڑا نہ لے جائے۔
شہناز نے گل سے کہا:
"کسی بھلے گھر کا معلوم ہوتا ہے بے چارہ۔"
گل دبی آواز میں بولی۔
"خوب بن ٹھن کے نکلا تھا بے چارہ ہفتے کی شام منانے۔"
"ڈرائیور پکڑا گیا یا نہیں؟"
"نہیں بھاگ گیا۔"
"کتنے افسوس کی بات ہے۔"
آپریشن روم میں اسسٹنٹ سرجن اور اور نرسیں چہروں پر جراحی کے نقاب چڑھائے جنہوں نے ان کی آنکھوں سے نیچے کے سارے حصے کو چھپا رکھا تھا، اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ اسے سنگ مر مر کی میز پر لٹا دیا گیا۔ اس نے سر میں جو تیز خوشبو دار تیل ڈال رکھا تھا،اس کی کچھ مہک ابھی تک باقی تھی۔ پٹیاں ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔ حادثے سے اس کی دونوں ٹانگیں تو ٹوٹ چکی تھیں مگر سرکی مانگ نہیں بگڑنے پائی تھی۔
اب اس کے کپڑے اتارے جا رہے تھے۔ سب سے پہلے سفید سلک گلوبند اس کے گلے سے اتارا گیا۔ اچانک نرس شہناز اور نرس گِل نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ چہرے جو دلی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں، جراحی کے نقاب تلے چھپے ہوئے تھے اور زبانیں بند۔
نوجوان کے گلوبند کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا سرے سے قمیص ہی نہیں تھی۔۔۔اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جا بجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سوئٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آ رہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلوبند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپا رہتا تھا۔ اس کے جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پوڈر لگا ہوا تھا۔ سوئٹر اور بنیان کے بعد پتلون کی باری آئی اور شہناز اور گِل کی نظریں پھر بیک وقت اٹھیں۔ پتلون کو پیٹی کے بجائے ایک پرانی دھجی سے جو شاید کبھی نکٹائی رہی ہو گی خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھٹنوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا اور کئی جگہ کھونچیں لگی تھیں مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لئے لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔ اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ پھر مس شہناز اور مس گِل کی آنکھیں چار ہوئیں۔
بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں، اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ بلا شبہ اس وقت تک وہ دم توڑ چکا تھا۔ اس کا جسم سنگ مر مر کی میز پر بے جان پڑا تھا۔ اس کا چہرہ جو پہلے چھت کی سمت تھا۔ کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف مڑ گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جسم اور اس کے ساتھ روح کی برہنگی نے اسے خجل کر دیا ہے اور وہ اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرا رہا ہے۔
اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں:
ایک چھوٹی سی سیاہ کنگھی، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا سگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں نام اور پتے لکھے تھے۔نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹر گشت کے دوران اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھما دئے تھے اور اس نے انہیں اوور کوٹ کی جیب میں ڈال دیا تھا۔
افسوس کہ اس کی بید کی چھڑی جو حادثے کے دوران میں کہیں کھو گئی تھی اس فہرست میں شامل نہ تھی۔
جنور ی کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔
یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھر پور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھار کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لئے تیز قدم اٹھا رہے تھے مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔
اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کر دیتا۔ ایک خالی ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی مگر اس نے "نو تھینک یو" کہہ کر اسے بھی ٹال دیا۔
جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ با رونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی گویا کرکٹ کا کھیل ہو رہا ہو۔
راستے میں وہ سڑک آئی جو لارنس گارڈن کی طرف جاتی تھی مگر اس وقت شام کے دھندلکے اور سخت کہرے میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس رہی تھی کہ اس نے ادھر کا رخ نہ کیا اور سیدھا چیرنگ کراس کی طرف چلتا رہا۔
ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت آ گئی۔ اس نے اپنا رومال نکالا جسے جیب میں رکھنے کی بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میں اڑس رکھا تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیرا، تاکہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے۔ پاس گھاس کے ایک ٹکڑے پر کچھ انگریز بچے بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ وہ رک گیا اور بڑی دلچسپی سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ بچے کچھ دیر تک تو اس کی پرواہ کئے بغیر کھیل میں مصروف رہے مگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانے سے لگے اور پھر اچانک گیند سنبھال کر ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے گھاس کے اس ٹکڑے ہی سے چلے گئے۔
نوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بنچ پر پڑی اور وہ اس پر آ کے بیٹھ گیا۔ اس وقت شام کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سردی اور بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کی یہ شدت نا خوشگوار نہ تھی بلکہ لذت پرستی کی ترغیب دیتی تھی۔ شہر کے عیش پسند طبقے کا تو کہنا ہی کیا وہ تو اس سردی میں زیادہ ہی کھل کھیلتا ہے۔ تنہائی میں بسر کرنے والے بھی اس سردی سے ورغلائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر محفلوں اور مجمعوں میں جانے کی سوچنے لگتے ہیں تاکہ جسموں کا قرب حاصل ہو۔ حصولِ لذت کی یہی جستجو لوگوں کو مال پر کھینچ لائی تھی اور وہ حسبِ توفیق ریستورانوں، کافی ہاؤسوں، رقص گاہوں، سینماؤں اور تفریح کے دوسرے مقاموں پر محظوظ ہو رہے تھے۔
مال روڈ پر موٹروں، تانگوں اور بائیسکلوں کا تانتا بندھا ہوا تو تھا ہی پٹری پر چلنے والوں کی بھی کثرت تھی۔ علاوہ ازیں سڑک کی دو رویہ دکانوں میں خرید و فروخت کا بازار بھی گرم تھا۔ جن کم نصیبوں کو نہ تفریحِ طبع کی استطاعت تھی نہ خرید و فروخت کی، وہ دور ہی سے کھڑے کھڑے ان تفریح گاہوں اور دکانوں کی رنگا رنگ روشنیوں سے جی بہلا رہے تھے۔
نوجوان سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے زن و مرد کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر ان کے چہروں سے کہیں زیادہ ان کے لباس پر پڑتی تھی۔ ان میں ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، سرکاری افسر، لیڈر، فنکار، کالجوں کے طلبا اور طالبات، نرسیں، اخباروں کے نمائندے، دفتروں کے بابو۔زیادہ تر لوگ اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہر قسم کے اوور کوٹ، قراقلی کے بیش قیمت اوور کوٹ سے لے کر خالی پٹی کے پرانے فوجی اوور کوٹ تک جسے نیلام میں خریدا گیا تھا۔
نوجوان کا اپنا اوور کوٹ تھا تو خاصا پرانا مگر اس کا کپڑا خوب بڑھیا تھا پھر وہ سلا ہوا بھی کسی ماہر درزی کا تھا۔ اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بہت دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کالر خوب جما ہوا تھا۔ باہوں کی کریز بڑی نمایاں، سلو ٹ کہیں نام کو نہیں۔ بٹن سینگ کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے۔ نوجوان اس میں بہت مگن معلوم ہوتا تھا۔
ایک لڑکا پان بیڑی سگریٹ کا صندوقچہ گلے میں ڈالے سامنے سے گزرا۔ نوجوان نے آواز دی۔
"پان والا!۔"
"جناب!"
"دس کا چینج ہے؟"
"ہے تو نہیں۔ لا دوں گا۔ کیا لیں گے آپ؟"
"نوٹ لے کے بھاگ گیا تو؟"
"اجی واہ۔ کوئی چور اچکا ہوں جو بھاگ جاؤں گا۔ اعتبار نہ ہو تو میرے ساتھ چلئے۔ لیں گے کیا آپ؟"
"نہیں نہیں، ہم خود چینج لائے گا۔ لو یہ اکنی نکل آئی۔ ایک سگریٹ دے دو اور چلے جاؤ۔"
لڑکے کے جانے کے بعد مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگانے لگا۔ وہ ویسے ہی بہت خوش نظر آتا تھا۔ سگریٹ کے دھوئیں نے اس پر سرور کی کیفیت طاری کر دی۔
ایک چھوٹی سی سفید رنگ بلی سردی میں ٹھٹھری ہوئی بنچ کے نیچے اس کے قدموں میں آ کر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ اس نے پچکارا تو اچھل کر بنچ پر آ چڑھی۔ اس نے پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔
"پور لٹل سو ل"
اس کے بعد وہ بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور سڑک کو پار کر کے اس طرف چلا جدھر سینما کی رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ تماشا شروع ہو چکا تھا۔ برآمدے میں بھیڑ نہ تھی۔ صرف چند لوگ تھے جو آنے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر دکھائے گئے تھے۔
تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں۔ ایک خاص شانِ استغنا کے ساتھ مگر صنفِ نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔ لڑکیاں آپس میں ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی۔ اتنے میں ایک لڑکی نے، جو اپنی ساتھ والیوں سے زیادہ حسین بھی تھی اور شوخ بھی، دوسری لڑکی کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے باہر نکل آیا۔
اب سات بج چکے تھے اور وہ مال کی پٹری پر پھر پہلے کی طرح مٹر گشت کرتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ ایک ریستوران میں آرکسٹرا بج رہا تھا۔ اندر سے کہیں زیادہ باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان میں زیادہ تر موٹروں کے ڈرائیور، کوچوان، پھل بیچنے والے، جو اپنا مال بیچ کے خالی ٹوکرے لئے کھڑے تھے۔ کچھ راہ گیر جو چلتے چلتے ٹھہر گئے تھے۔ کچھ مزدوری پیشہ لوگ تھے اور کچھ گداگر۔ یہ اندر والوں سے کہیں زیادہ گانے کے رسیا معلوم ہوتے تھے کیونکہ وہ غل غپاڑہ نہیں مچا رہے تھے بلکہ خاموشی سے نغمہ سن رہے تھے۔ حالانکہ دھن اور ساز اجنبی تھے۔ نوجوان پل بھر کے لئے رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔
تھوڑی دور چل کے اسے انگریزی موسیقی کی ایک بڑی سی دکان نظر آئی اور وہ بلا تکلف اندر چلا گیا۔ ہر طرف شیشے کی الماریوں میں طرح طرح کے انگریزی ساز رکھے ہوئے تھے۔ ایک لمبی میز پر مغربی موسیقی کی دو ورقی کتابیں چنی تھیں۔ یہ نئے چلنتر گانے تھے۔ سرورق خوبصورت رنگدار مگر دھنیں گھٹیا۔ ایک چھچھلتی ہوئی نظر ان پر ڈالی پھر وہاں سے ہٹ آیا اور سازوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایک ہسپانوی گٹار پر، جو ایک کھونٹی سے ٹنگی ہوئی تھی، ناقدانہ نظر ڈالی اور اس کے ساتھ قیمت کا جو ٹکٹ لٹک رہا تھا اسے پڑھا۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک بڑا جرمن پیانو رکھا ہوا تھا۔ اس کا کور اٹھا کے انگلیوں سے بعض پردوں کو ٹٹولا اور پھر کور بند کر دیا۔
پیانو کی آواز سن کر دکان کا ایک کارندہ اس کی طرف بڑھا۔
"گڈ ایوننگ سر۔ کوئی خدمت؟"
"نہیں شکریہ۔ ہاں اس مہینے کی گراموفون ریکارڈوں کی فہرست دے دیجئے۔"
فہرست لے لے کے اوور کوٹ کی جیب میں ڈالی۔ دکان سے باہر نکل آیا اور پھر چلنا شروع کر دیا۔ راستے میں ایک چھوٹا سا بک اسٹال پڑا۔ نوجوان یہاں بھی رکا۔ کئی تازہ رسالوں کے ورق الٹے۔ رسالہ جہاں سے اٹھاتا بڑی احتیاط سے وہیں رکھ دیتا۔ اَور آگے بڑھا تو قالینوں کی ایک دکان نے اس کی توجہ کو جذب کیا۔ مالک دکان نے جو ایک لمبا سا چغہ پہنے اور سر پر کلاہ رکھے تھا۔ گرمجوشی سے اس کی آؤ بھگت کی۔
"ذرا یہ ایرانی قالین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اتاریئے نہیں یہیں دیکھ لوں گا۔ کیا قیمت ہے اس کی؟
"چودہ سو تیس روپے ہے۔"
نوجوان نے اپنی بھنووں کو سکیڑا جس کا مطلب تھا "اوہو اتنی۔"
دکاندار نے کہا "آپ پسند کر لیجئے۔ ہم جتنی بھی رعایت کر سکتے ہیں کر دیں گے۔"
"شکریہ لیکن اس وقت تو میں صرف ایک نظر دیکھنے آیا ہوں۔"
"شوق سے دیکھئے۔ آپ ہی کی دکان ہے۔"
وہ تین منٹ کے بعد اس دکان سے بھی نکل آیا۔ اس کے اوور کوٹ کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا جو ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا تھا۔ وہ اس وقت کاج سے کچھ زیادہ باہر نکل آیا تھا۔ جب وہ اس کو ٹھیک کر رہا تھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف اور پر اسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے پھر اپنی مٹر گشت شروع کر دی۔
اب وہ ہائی کورٹ کی عمارتوں کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اتنا کچھ چل لینے کے بعد اس کی فطری چونچالی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ نہ تکان محسوس ہوئی تھی نہ اکتاہٹ۔ یہاں پٹری پر چلنے والوں کی ٹولیاں کچھ چھٹ سی گئی تھیں اور میں ان میں کافی فصل رہنے لگا تھا۔ اس نے اپنی بید کی چھڑی کو ایک انگلی پر گھمانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی اور چھڑی زمین پر گر پڑی "اوہ سوری" کہہ کر زمین پر جھکا اور چھڑی کو اٹھا لیا۔
اس اثنا میں ایک نوجوان جوڑا جو اس کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا اس کے پاس سے گزر کر آگے نکل آیا۔ لڑکا دراز قامت تھا اور سیاہ کوڈرائے کی پتلون اور زپ والی چمڑے کی جیکٹ پہنے تھا اور لڑکی سفید ساٹن کی گھیر دار شلوار اور سبز رنگ کا کا کوٹ۔ وہ بھاری بھرکم سی تھی۔اس کے بالوں میں ایک لمبا سا سیاہ چٹا گندھا ہوا تھا جو اس کمر سے نیچا تھا۔ لڑکی کے چلنے سے اس چٹلے کا پھندنا اچھلتا کودتا پے درپے اس کے فربہ جسم سے ٹکراتا تھا۔ نوجوان کے لئے جو اب ان کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا یہ نظارہ خاصا جاذب نظر تھا۔ وہ جوڑا کچھ دیر تک تو خاموش چلتا رہا۔ اس کے بعد لڑکے نے کچھ کہا جس کے جواب میں لڑکی اچانک چمک کر بولی۔
ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔
"سنو میرا کہنا مانو" لڑکے نے نصیحت کے انداز میں کہا "ڈاکٹر میرا دوست ہے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔"
"نہیں، نہیں، نہیں۔"
"میں کہتا ہوں تمہیں ذرا تکلیف نہ ہو گی۔"
"لڑکی نے کچھ جواب نہ دیا۔"
"تمہارے باپ کو کتنا رنج ہو گا۔ ذرا ان کی عزت کا بھی تو خیال کرو۔"
"چپ رہو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گی۔"
نوجوان نے شام سے اب تک اپنی مٹر گشت کے دوران میں جتنی انسانی شکلیں دیکھی تھیں ان میں سے کسی نے بھی اس کی توجہ کو اپنی طرف منعطف نہیں کیا تھا۔ فی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ہی نہیں۔ یا پھر وہ اپنے حال میں ایسا مست تھا کہ کسی دوسرے سے اسے سروکار ہی نہ تھا مگر اس دلچسپ جوڑے نے جس میں کسی افسانے کے کرداروں کی سی ادا تھی، جیسے یکبارگی اس کے دل کو موہ لیا تھا اور اسے حد درجہ مشتاق بنا دیا کہ وہ ان کی اور بھی باتیں سنے اور ہو سکے تو قریب سے ان کی شکلیں بھی دیکھ لے۔
اس وقت وہ تینوں بڑے ڈاکخانے کے چوراہے کے پاس پہنچ گئے تھے۔ لڑکا اور لڑکی پل بھر کو رکے اور پھر سڑک پار کر کے میکلو ڈ روڈ پر چل پڑے۔ نوجوان مال روڈ پر ہی ٹھہرا رہا۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ فی الفور ان کے پیچھے گیا تو ممکن ہے انہیں شبہ ہو جائے کہ ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ اس لئے اسے کچھ لمحے رک جانا چاہئے۔
جب وہ لوگ کوئی سو گز آگے نکل گئے تو اس نے لپک کر ان کا پیچھا کرنا چاہا مگر ابھی اس نے آدھی ہی سڑک پار کی ہو گی کہ اینٹوں سے بھری ہوئی ایک لاری پیچھے سے بگولے کی طرح آئی اور اسے روندتی ہوئی میکلوڈ روڈ کی طرف نکل گئی۔ لاری کے ڈرائیور نے نوجوان کی چیخ سن کر پل بھر کے لئے گاڑی کی رفتار کم کی۔ پھر وہ سمجھ گیا کہ کوئی لاری کی لپیٹ میں آگیا اور وہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاری کو لے بھاگا۔ دو تین راہ گیر جو اس حادثے کو دیکھ رہے تھے شور مچانے لگے کہ نمبر دیکھو نمبر دیکھو مگر لاری ہوا ہو چکی تھی۔
اتنے میں کئی اور لوگ جمع ہو گئے۔ ٹریفک کا ایک انسپکٹر جو موٹر سائیکل پر جا رہا تھا رک گیا۔ نوجوان کی دونوں ٹانگیں بالکل کچلی گئی تھیں۔ بہت سا خون نکل چکا تھا اور وہ سسک رہا تھا۔
فوراً ایک کار کو روکا گیا اور اسے جیسے تیسے اس میں ڈال کر بڑے ہسپتال روانہ کر دیا گیا۔ جس وقت وہ ہسپتال پہنچا تو اس میں ابھی رمق بھر جان باقی تھی۔ اس ہسپتال کے شعبۂ حادثات میں اسسٹنٹ سرجن مسٹر خان اور دو نو عمر نرسیں مس شہناز اور مس گِل ڈیوٹی پر تھیں۔ جس وقت اسے سٹریچر پر ڈال کے آپریشن روم میں لے جایا جا رہا تھا تو ان نرسوں کی نظر اس پر پڑی۔ اس کا بادامی رنگ کا اوور کوٹ ابھی تک اس کے جسم پر تھا اور سفید سلک کا مفلر گلے میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے کپڑوں پر جا بجا خون کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ کسی نے از راہِ دردمندی اس کی سبز فلیٹ ہیٹ اٹھا کے اس کے سینہ پر رکھ دی تھی تاکہ کوئی اڑا نہ لے جائے۔
شہناز نے گل سے کہا:
"کسی بھلے گھر کا معلوم ہوتا ہے بے چارہ۔"
گل دبی آواز میں بولی۔
"خوب بن ٹھن کے نکلا تھا بے چارہ ہفتے کی شام منانے۔"
"ڈرائیور پکڑا گیا یا نہیں؟"
"نہیں بھاگ گیا۔"
"کتنے افسوس کی بات ہے۔"
آپریشن روم میں اسسٹنٹ سرجن اور اور نرسیں چہروں پر جراحی کے نقاب چڑھائے جنہوں نے ان کی آنکھوں سے نیچے کے سارے حصے کو چھپا رکھا تھا، اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ اسے سنگ مر مر کی میز پر لٹا دیا گیا۔ اس نے سر میں جو تیز خوشبو دار تیل ڈال رکھا تھا،اس کی کچھ مہک ابھی تک باقی تھی۔ پٹیاں ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔ حادثے سے اس کی دونوں ٹانگیں تو ٹوٹ چکی تھیں مگر سرکی مانگ نہیں بگڑنے پائی تھی۔
اب اس کے کپڑے اتارے جا رہے تھے۔ سب سے پہلے سفید سلک گلوبند اس کے گلے سے اتارا گیا۔ اچانک نرس شہناز اور نرس گِل نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ چہرے جو دلی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں، جراحی کے نقاب تلے چھپے ہوئے تھے اور زبانیں بند۔
نوجوان کے گلوبند کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا سرے سے قمیص ہی نہیں تھی۔۔۔اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جا بجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سوئٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آ رہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلوبند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپا رہتا تھا۔ اس کے جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پوڈر لگا ہوا تھا۔ سوئٹر اور بنیان کے بعد پتلون کی باری آئی اور شہناز اور گِل کی نظریں پھر بیک وقت اٹھیں۔ پتلون کو پیٹی کے بجائے ایک پرانی دھجی سے جو شاید کبھی نکٹائی رہی ہو گی خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھٹنوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا اور کئی جگہ کھونچیں لگی تھیں مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لئے لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔ اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ پھر مس شہناز اور مس گِل کی آنکھیں چار ہوئیں۔
بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں، اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ بلا شبہ اس وقت تک وہ دم توڑ چکا تھا۔ اس کا جسم سنگ مر مر کی میز پر بے جان پڑا تھا۔ اس کا چہرہ جو پہلے چھت کی سمت تھا۔ کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف مڑ گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جسم اور اس کے ساتھ روح کی برہنگی نے اسے خجل کر دیا ہے اور وہ اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرا رہا ہے۔
اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں:
ایک چھوٹی سی سیاہ کنگھی، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا سگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں نام اور پتے لکھے تھے۔نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹر گشت کے دوران اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھما دئے تھے اور اس نے انہیں اوور کوٹ کی جیب میں ڈال دیا تھا۔
افسوس کہ اس کی بید کی چھڑی جو حادثے کے دوران میں کہیں کھو گئی تھی اس فہرست میں شامل نہ تھی۔
جنور ی کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔
یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھر پور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھار کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لئے تیز قدم اٹھا رہے تھے مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔
اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کر دیتا۔ ایک خالی ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی مگر اس نے "نو تھینک یو" کہہ کر اسے بھی ٹال دیا۔
جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ با رونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی گویا کرکٹ کا کھیل ہو رہا ہو۔
راستے میں وہ سڑک آئی جو لارنس گارڈن کی طرف جاتی تھی مگر اس وقت شام کے دھندلکے اور سخت کہرے میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس رہی تھی کہ اس نے ادھر کا رخ نہ کیا اور سیدھا چیرنگ کراس کی طرف چلتا رہا۔
ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت آ گئی۔ اس نے اپنا رومال نکالا جسے جیب میں رکھنے کی بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میں اڑس رکھا تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیرا، تاکہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے۔ پاس گھاس کے ایک ٹکڑے پر کچھ انگریز بچے بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ وہ رک گیا اور بڑی دلچسپی سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ بچے کچھ دیر تک تو اس کی پرواہ کئے بغیر کھیل میں مصروف رہے مگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانے سے لگے اور پھر اچانک گیند سنبھال کر ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے گھاس کے اس ٹکڑے ہی سے چلے گئے۔
نوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بنچ پر پڑی اور وہ اس پر آ کے بیٹھ گیا۔ اس وقت شام کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سردی اور بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کی یہ شدت نا خوشگوار نہ تھی بلکہ لذت پرستی کی ترغیب دیتی تھی۔ شہر کے عیش پسند طبقے کا تو کہنا ہی کیا وہ تو اس سردی میں زیادہ ہی کھل کھیلتا ہے۔ تنہائی میں بسر کرنے والے بھی اس سردی سے ورغلائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر محفلوں اور مجمعوں میں جانے کی سوچنے لگتے ہیں تاکہ جسموں کا قرب حاصل ہو۔ حصولِ لذت کی یہی جستجو لوگوں کو مال پر کھینچ لائی تھی اور وہ حسبِ توفیق ریستورانوں، کافی ہاؤسوں، رقص گاہوں، سینماؤں اور تفریح کے دوسرے مقاموں پر محظوظ ہو رہے تھے۔
مال روڈ پر موٹروں، تانگوں اور بائیسکلوں کا تانتا بندھا ہوا تو تھا ہی پٹری پر چلنے والوں کی بھی کثرت تھی۔ علاوہ ازیں سڑک کی دو رویہ دکانوں میں خرید و فروخت کا بازار بھی گرم تھا۔ جن کم نصیبوں کو نہ تفریحِ طبع کی استطاعت تھی نہ خرید و فروخت کی، وہ دور ہی سے کھڑے کھڑے ان تفریح گاہوں اور دکانوں کی رنگا رنگ روشنیوں سے جی بہلا رہے تھے۔
نوجوان سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے زن و مرد کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر ان کے چہروں سے کہیں زیادہ ان کے لباس پر پڑتی تھی۔ ان میں ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، سرکاری افسر، لیڈر، فنکار، کالجوں کے طلبا اور طالبات، نرسیں، اخباروں کے نمائندے، دفتروں کے بابو۔زیادہ تر لوگ اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہر قسم کے اوور کوٹ، قراقلی کے بیش قیمت اوور کوٹ سے لے کر خالی پٹی کے پرانے فوجی اوور کوٹ تک جسے نیلام میں خریدا گیا تھا۔
نوجوان کا اپنا اوور کوٹ تھا تو خاصا پرانا مگر اس کا کپڑا خوب بڑھیا تھا پھر وہ سلا ہوا بھی کسی ماہر درزی کا تھا۔ اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بہت دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کالر خوب جما ہوا تھا۔ باہوں کی کریز بڑی نمایاں، سلو ٹ کہیں نام کو نہیں۔ بٹن سینگ کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے۔ نوجوان اس میں بہت مگن معلوم ہوتا تھا۔
ایک لڑکا پان بیڑی سگریٹ کا صندوقچہ گلے میں ڈالے سامنے سے گزرا۔ نوجوان نے آواز دی۔
"پان والا!۔"
"جناب!"
"دس کا چینج ہے؟"
"ہے تو نہیں۔ لا دوں گا۔ کیا لیں گے آپ؟"
"نوٹ لے کے بھاگ گیا تو؟"
"اجی واہ۔ کوئی چور اچکا ہوں جو بھاگ جاؤں گا۔ اعتبار نہ ہو تو میرے ساتھ چلئے۔ لیں گے کیا آپ؟"
"نہیں نہیں، ہم خود چینج لائے گا۔ لو یہ اکنی نکل آئی۔ ایک سگریٹ دے دو اور چلے جاؤ۔"
لڑکے کے جانے کے بعد مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگانے لگا۔ وہ ویسے ہی بہت خوش نظر آتا تھا۔ سگریٹ کے دھوئیں نے اس پر سرور کی کیفیت طاری کر دی۔
ایک چھوٹی سی سفید رنگ بلی سردی میں ٹھٹھری ہوئی بنچ کے نیچے اس کے قدموں میں آ کر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ اس نے پچکارا تو اچھل کر بنچ پر آ چڑھی۔ اس نے پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔
"پور لٹل سو ل"
اس کے بعد وہ بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور سڑک کو پار کر کے اس طرف چلا جدھر سینما کی رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ تماشا شروع ہو چکا تھا۔ برآمدے میں بھیڑ نہ تھی۔ صرف چند لوگ تھے جو آنے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر دکھائے گئے تھے۔
تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں۔ ایک خاص شانِ استغنا کے ساتھ مگر صنفِ نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔ لڑکیاں آپس میں ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی۔ اتنے میں ایک لڑکی نے، جو اپنی ساتھ والیوں سے زیادہ حسین بھی تھی اور شوخ بھی، دوسری لڑکی کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے باہر نکل آیا۔
اب سات بج چکے تھے اور وہ مال کی پٹری پر پھر پہلے کی طرح مٹر گشت کرتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ ایک ریستوران میں آرکسٹرا بج رہا تھا۔ اندر سے کہیں زیادہ باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان میں زیادہ تر موٹروں کے ڈرائیور، کوچوان، پھل بیچنے والے، جو اپنا مال بیچ کے خالی ٹوکرے لئے کھڑے تھے۔ کچھ راہ گیر جو چلتے چلتے ٹھہر گئے تھے۔ کچھ مزدوری پیشہ لوگ تھے اور کچھ گداگر۔ یہ اندر والوں سے کہیں زیادہ گانے کے رسیا معلوم ہوتے تھے کیونکہ وہ غل غپاڑہ نہیں مچا رہے تھے بلکہ خاموشی سے نغمہ سن رہے تھے۔ حالانکہ دھن اور ساز اجنبی تھے۔ نوجوان پل بھر کے لئے رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔
تھوڑی دور چل کے اسے انگریزی موسیقی کی ایک بڑی سی دکان نظر آئی اور وہ بلا تکلف اندر چلا گیا۔ ہر طرف شیشے کی الماریوں میں طرح طرح کے انگریزی ساز رکھے ہوئے تھے۔ ایک لمبی میز پر مغربی موسیقی کی دو ورقی کتابیں چنی تھیں۔ یہ نئے چلنتر گانے تھے۔ سرورق خوبصورت رنگدار مگر دھنیں گھٹیا۔ ایک چھچھلتی ہوئی نظر ان پر ڈالی پھر وہاں سے ہٹ آیا اور سازوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایک ہسپانوی گٹار پر، جو ایک کھونٹی سے ٹنگی ہوئی تھی، ناقدانہ نظر ڈالی اور اس کے ساتھ قیمت کا جو ٹکٹ لٹک رہا تھا اسے پڑھا۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک بڑا جرمن پیانو رکھا ہوا تھا۔ اس کا کور اٹھا کے انگلیوں سے بعض پردوں کو ٹٹولا اور پھر کور بند کر دیا۔
پیانو کی آواز سن کر دکان کا ایک کارندہ اس کی طرف بڑھا۔
"گڈ ایوننگ سر۔ کوئی خدمت؟"
"نہیں شکریہ۔ ہاں اس مہینے کی گراموفون ریکارڈوں کی فہرست دے دیجئے۔"
فہرست لے لے کے اوور کوٹ کی جیب میں ڈالی۔ دکان سے باہر نکل آیا اور پھر چلنا شروع کر دیا۔ راستے میں ایک چھوٹا سا بک اسٹال پڑا۔ نوجوان یہاں بھی رکا۔ کئی تازہ رسالوں کے ورق الٹے۔ رسالہ جہاں سے اٹھاتا بڑی احتیاط سے وہیں رکھ دیتا۔ اَور آگے بڑھا تو قالینوں کی ایک دکان نے اس کی توجہ کو جذب کیا۔ مالک دکان نے جو ایک لمبا سا چغہ پہنے اور سر پر کلاہ رکھے تھا۔ گرمجوشی سے اس کی آؤ بھگت کی۔
"ذرا یہ ایرانی قالین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اتاریئے نہیں یہیں دیکھ لوں گا۔ کیا قیمت ہے اس کی؟
"چودہ سو تیس روپے ہے۔"
نوجوان نے اپنی بھنووں کو سکیڑا جس کا مطلب تھا "اوہو اتنی۔"
دکاندار نے کہا "آپ پسند کر لیجئے۔ ہم جتنی بھی رعایت کر سکتے ہیں کر دیں گے۔"
"شکریہ لیکن اس وقت تو میں صرف ایک نظر دیکھنے آیا ہوں۔"
"شوق سے دیکھئے۔ آپ ہی کی دکان ہے۔"
وہ تین منٹ کے بعد اس دکان سے بھی نکل آیا۔ اس کے اوور کوٹ کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا جو ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا تھا۔ وہ اس وقت کاج سے کچھ زیادہ باہر نکل آیا تھا۔ جب وہ اس کو ٹھیک کر رہا تھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف اور پر اسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے پھر اپنی مٹر گشت شروع کر دی۔
اب وہ ہائی کورٹ کی عمارتوں کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اتنا کچھ چل لینے کے بعد اس کی فطری چونچالی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ نہ تکان محسوس ہوئی تھی نہ اکتاہٹ۔ یہاں پٹری پر چلنے والوں کی ٹولیاں کچھ چھٹ سی گئی تھیں اور میں ان میں کافی فصل رہنے لگا تھا۔ اس نے اپنی بید کی چھڑی کو ایک انگلی پر گھمانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی اور چھڑی زمین پر گر پڑی "اوہ سوری" کہہ کر زمین پر جھکا اور چھڑی کو اٹھا لیا۔
اس اثنا میں ایک نوجوان جوڑا جو اس کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا اس کے پاس سے گزر کر آگے نکل آیا۔ لڑکا دراز قامت تھا اور سیاہ کوڈرائے کی پتلون اور زپ والی چمڑے کی جیکٹ پہنے تھا اور لڑکی سفید ساٹن کی گھیر دار شلوار اور سبز رنگ کا کا کوٹ۔ وہ بھاری بھرکم سی تھی۔اس کے بالوں میں ایک لمبا سا سیاہ چٹا گندھا ہوا تھا جو اس کمر سے نیچا تھا۔ لڑکی کے چلنے سے اس چٹلے کا پھندنا اچھلتا کودتا پے درپے اس کے فربہ جسم سے ٹکراتا تھا۔ نوجوان کے لئے جو اب ان کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا یہ نظارہ خاصا جاذب نظر تھا۔ وہ جوڑا کچھ دیر تک تو خاموش چلتا رہا۔ اس کے بعد لڑکے نے کچھ کہا جس کے جواب میں لڑکی اچانک چمک کر بولی۔
ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔
"سنو میرا کہنا مانو" لڑکے نے نصیحت کے انداز میں کہا "ڈاکٹر میرا دوست ہے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔"
"نہیں، نہیں، نہیں۔"
"میں کہتا ہوں تمہیں ذرا تکلیف نہ ہو گی۔"
"لڑکی نے کچھ جواب نہ دیا۔"
"تمہارے باپ کو کتنا رنج ہو گا۔ ذرا ان کی عزت کا بھی تو خیال کرو۔"
"چپ رہو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گی۔"
نوجوان نے شام سے اب تک اپنی مٹر گشت کے دوران میں جتنی انسانی شکلیں دیکھی تھیں ان میں سے کسی نے بھی اس کی توجہ کو اپنی طرف منعطف نہیں کیا تھا۔ فی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ہی نہیں۔ یا پھر وہ اپنے حال میں ایسا مست تھا کہ کسی دوسرے سے اسے سروکار ہی نہ تھا مگر اس دلچسپ جوڑے نے جس میں کسی افسانے کے کرداروں کی سی ادا تھی، جیسے یکبارگی اس کے دل کو موہ لیا تھا اور اسے حد درجہ مشتاق بنا دیا کہ وہ ان کی اور بھی باتیں سنے اور ہو سکے تو قریب سے ان کی شکلیں بھی دیکھ لے۔
اس وقت وہ تینوں بڑے ڈاکخانے کے چوراہے کے پاس پہنچ گئے تھے۔ لڑکا اور لڑکی پل بھر کو رکے اور پھر سڑک پار کر کے میکلو ڈ روڈ پر چل پڑے۔ نوجوان مال روڈ پر ہی ٹھہرا رہا۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ فی الفور ان کے پیچھے گیا تو ممکن ہے انہیں شبہ ہو جائے کہ ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ اس لئے اسے کچھ لمحے رک جانا چاہئے۔
جب وہ لوگ کوئی سو گز آگے نکل گئے تو اس نے لپک کر ان کا پیچھا کرنا چاہا مگر ابھی اس نے آدھی ہی سڑک پار کی ہو گی کہ اینٹوں سے بھری ہوئی ایک لاری پیچھے سے بگولے کی طرح آئی اور اسے روندتی ہوئی میکلوڈ روڈ کی طرف نکل گئی۔ لاری کے ڈرائیور نے نوجوان کی چیخ سن کر پل بھر کے لئے گاڑی کی رفتار کم کی۔ پھر وہ سمجھ گیا کہ کوئی لاری کی لپیٹ میں آگیا اور وہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاری کو لے بھاگا۔ دو تین راہ گیر جو اس حادثے کو دیکھ رہے تھے شور مچانے لگے کہ نمبر دیکھو نمبر دیکھو مگر لاری ہوا ہو چکی تھی۔
اتنے میں کئی اور لوگ جمع ہو گئے۔ ٹریفک کا ایک انسپکٹر جو موٹر سائیکل پر جا رہا تھا رک گیا۔ نوجوان کی دونوں ٹانگیں بالکل کچلی گئی تھیں۔ بہت سا خون نکل چکا تھا اور وہ سسک رہا تھا۔
فوراً ایک کار کو روکا گیا اور اسے جیسے تیسے اس میں ڈال کر بڑے ہسپتال روانہ کر دیا گیا۔ جس وقت وہ ہسپتال پہنچا تو اس میں ابھی رمق بھر جان باقی تھی۔ اس ہسپتال کے شعبۂ حادثات میں اسسٹنٹ سرجن مسٹر خان اور دو نو عمر نرسیں مس شہناز اور مس گِل ڈیوٹی پر تھیں۔ جس وقت اسے سٹریچر پر ڈال کے آپریشن روم میں لے جایا جا رہا تھا تو ان نرسوں کی نظر اس پر پڑی۔ اس کا بادامی رنگ کا اوور کوٹ ابھی تک اس کے جسم پر تھا اور سفید سلک کا مفلر گلے میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے کپڑوں پر جا بجا خون کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ کسی نے از راہِ دردمندی اس کی سبز فلیٹ ہیٹ اٹھا کے اس کے سینہ پر رکھ دی تھی تاکہ کوئی اڑا نہ لے جائے۔
شہناز نے گل سے کہا:
"کسی بھلے گھر کا معلوم ہوتا ہے بے چارہ۔"
گل دبی آواز میں بولی۔
"خوب بن ٹھن کے نکلا تھا بے چارہ ہفتے کی شام منانے۔"
"ڈرائیور پکڑا گیا یا نہیں؟"
"نہیں بھاگ گیا۔"
"کتنے افسوس کی بات ہے۔"
آپریشن روم میں اسسٹنٹ سرجن اور اور نرسیں چہروں پر جراحی کے نقاب چڑھائے جنہوں نے ان کی آنکھوں سے نیچے کے سارے حصے کو چھپا رکھا تھا، اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ اسے سنگ مر مر کی میز پر لٹا دیا گیا۔ اس نے سر میں جو تیز خوشبو دار تیل ڈال رکھا تھا،اس کی کچھ مہک ابھی تک باقی تھی۔ پٹیاں ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔ حادثے سے اس کی دونوں ٹانگیں تو ٹوٹ چکی تھیں مگر سرکی مانگ نہیں بگڑنے پائی تھی۔
اب اس کے کپڑے اتارے جا رہے تھے۔ سب سے پہلے سفید سلک گلوبند اس کے گلے سے اتارا گیا۔ اچانک نرس شہناز اور نرس گِل نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ چہرے جو دلی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں، جراحی کے نقاب تلے چھپے ہوئے تھے اور زبانیں بند۔
نوجوان کے گلوبند کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا سرے سے قمیص ہی نہیں تھی۔۔۔اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جا بجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سوئٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آ رہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلوبند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپا رہتا تھا۔ اس کے جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پوڈر لگا ہوا تھا۔ سوئٹر اور بنیان کے بعد پتلون کی باری آئی اور شہناز اور گِل کی نظریں پھر بیک وقت اٹھیں۔ پتلون کو پیٹی کے بجائے ایک پرانی دھجی سے جو شاید کبھی نکٹائی رہی ہو گی خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھٹنوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا اور کئی جگہ کھونچیں لگی تھیں مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لئے لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔ اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ پھر مس شہناز اور مس گِل کی آنکھیں چار ہوئیں۔
بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں، اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ بلا شبہ اس وقت تک وہ دم توڑ چکا تھا۔ اس کا جسم سنگ مر مر کی میز پر بے جان پڑا تھا۔ اس کا چہرہ جو پہلے چھت کی سمت تھا۔ کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف مڑ گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جسم اور اس کے ساتھ روح کی برہنگی نے اسے خجل کر دیا ہے اور وہ اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرا رہا ہے۔
اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں:
ایک چھوٹی سی سیاہ کنگھی، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا سگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں نام اور پتے لکھے تھے۔نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹر گشت کے دوران اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھما دئے تھے اور اس نے انہیں اوور کوٹ کی جیب میں ڈال دیا تھا۔
افسوس کہ اس کی بید کی چھڑی جو حادثے کے دوران میں کہیں کھو گئی تھی اس فہرست میں شامل نہ تھی۔
جنور ی کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔
یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھر پور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھار کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لئے تیز قدم اٹھا رہے تھے مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔
اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کر دیتا۔ ایک خالی ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی مگر اس نے "نو تھینک یو" کہہ کر اسے بھی ٹال دیا۔
جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ با رونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی گویا کرکٹ کا کھیل ہو رہا ہو۔
راستے میں وہ سڑک آئی جو لارنس گارڈن کی طرف جاتی تھی مگر اس وقت شام کے دھندلکے اور سخت کہرے میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس رہی تھی کہ اس نے ادھر کا رخ نہ کیا اور سیدھا چیرنگ کراس کی طرف چلتا رہا۔
ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت آ گئی۔ اس نے اپنا رومال نکالا جسے جیب میں رکھنے کی بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میں اڑس رکھا تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیرا، تاکہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے۔ پاس گھاس کے ایک ٹکڑے پر کچھ انگریز بچے بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ وہ رک گیا اور بڑی دلچسپی سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ بچے کچھ دیر تک تو اس کی پرواہ کئے بغیر کھیل میں مصروف رہے مگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانے سے لگے اور پھر اچانک گیند سنبھال کر ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے گھاس کے اس ٹکڑے ہی سے چلے گئے۔
نوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بنچ پر پڑی اور وہ اس پر آ کے بیٹھ گیا۔ اس وقت شام کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سردی اور بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کی یہ شدت نا خوشگوار نہ تھی بلکہ لذت پرستی کی ترغیب دیتی تھی۔ شہر کے عیش پسند طبقے کا تو کہنا ہی کیا وہ تو اس سردی میں زیادہ ہی کھل کھیلتا ہے۔ تنہائی میں بسر کرنے والے بھی اس سردی سے ورغلائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر محفلوں اور مجمعوں میں جانے کی سوچنے لگتے ہیں تاکہ جسموں کا قرب حاصل ہو۔ حصولِ لذت کی یہی جستجو لوگوں کو مال پر کھینچ لائی تھی اور وہ حسبِ توفیق ریستورانوں، کافی ہاؤسوں، رقص گاہوں، سینماؤں اور تفریح کے دوسرے مقاموں پر محظوظ ہو رہے تھے۔
مال روڈ پر موٹروں، تانگوں اور بائیسکلوں کا تانتا بندھا ہوا تو تھا ہی پٹری پر چلنے والوں کی بھی کثرت تھی۔ علاوہ ازیں سڑک کی دو رویہ دکانوں میں خرید و فروخت کا بازار بھی گرم تھا۔ جن کم نصیبوں کو نہ تفریحِ طبع کی استطاعت تھی نہ خرید و فروخت کی، وہ دور ہی سے کھڑے کھڑے ان تفریح گاہوں اور دکانوں کی رنگا رنگ روشنیوں سے جی بہلا رہے تھے۔
نوجوان سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے زن و مرد کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر ان کے چہروں سے کہیں زیادہ ان کے لباس پر پڑتی تھی۔ ان میں ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، سرکاری افسر، لیڈر، فنکار، کالجوں کے طلبا اور طالبات، نرسیں، اخباروں کے نمائندے، دفتروں کے بابو۔زیادہ تر لوگ اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہر قسم کے اوور کوٹ، قراقلی کے بیش قیمت اوور کوٹ سے لے کر خالی پٹی کے پرانے فوجی اوور کوٹ تک جسے نیلام میں خریدا گیا تھا۔
نوجوان کا اپنا اوور کوٹ تھا تو خاصا پرانا مگر اس کا کپڑا خوب بڑھیا تھا پھر وہ سلا ہوا بھی کسی ماہر درزی کا تھا۔ اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بہت دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کالر خوب جما ہوا تھا۔ باہوں کی کریز بڑی نمایاں، سلو ٹ کہیں نام کو نہیں۔ بٹن سینگ کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے۔ نوجوان اس میں بہت مگن معلوم ہوتا تھا۔
ایک لڑکا پان بیڑی سگریٹ کا صندوقچہ گلے میں ڈالے سامنے سے گزرا۔ نوجوان نے آواز دی۔
"پان والا!۔"
"جناب!"
"دس کا چینج ہے؟"
"ہے تو نہیں۔ لا دوں گا۔ کیا لیں گے آپ؟"
"نوٹ لے کے بھاگ گیا تو؟"
"اجی واہ۔ کوئی چور اچکا ہوں جو بھاگ جاؤں گا۔ اعتبار نہ ہو تو میرے ساتھ چلئے۔ لیں گے کیا آپ؟"
"نہیں نہیں، ہم خود چینج لائے گا۔ لو یہ اکنی نکل آئی۔ ایک سگریٹ دے دو اور چلے جاؤ۔"
لڑکے کے جانے کے بعد مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگانے لگا۔ وہ ویسے ہی بہت خوش نظر آتا تھا۔ سگریٹ کے دھوئیں نے اس پر سرور کی کیفیت طاری کر دی۔
ایک چھوٹی سی سفید رنگ بلی سردی میں ٹھٹھری ہوئی بنچ کے نیچے اس کے قدموں میں آ کر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ اس نے پچکارا تو اچھل کر بنچ پر آ چڑھی۔ اس نے پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔
"پور لٹل سو ل"
اس کے بعد وہ بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور سڑک کو پار کر کے اس طرف چلا جدھر سینما کی رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ تماشا شروع ہو چکا تھا۔ برآمدے میں بھیڑ نہ تھی۔ صرف چند لوگ تھے جو آنے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر دکھائے گئے تھے۔
تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں۔ ایک خاص شانِ استغنا کے ساتھ مگر صنفِ نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔ لڑکیاں آپس میں ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی۔ اتنے میں ایک لڑکی نے، جو اپنی ساتھ والیوں سے زیادہ حسین بھی تھی اور شوخ بھی، دوسری لڑکی کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے باہر نکل آیا۔
اب سات بج چکے تھے اور وہ مال کی پٹری پر پھر پہلے کی طرح مٹر گشت کرتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ ایک ریستوران میں آرکسٹرا بج رہا تھا۔ اندر سے کہیں زیادہ باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان میں زیادہ تر موٹروں کے ڈرائیور، کوچوان، پھل بیچنے والے، جو اپنا مال بیچ کے خالی ٹوکرے لئے کھڑے تھے۔ کچھ راہ گیر جو چلتے چلتے ٹھہر گئے تھے۔ کچھ مزدوری پیشہ لوگ تھے اور کچھ گداگر۔ یہ اندر والوں سے کہیں زیادہ گانے کے رسیا معلوم ہوتے تھے کیونکہ وہ غل غپاڑہ نہیں مچا رہے تھے بلکہ خاموشی سے نغمہ سن رہے تھے۔ حالانکہ دھن اور ساز اجنبی تھے۔ نوجوان پل بھر کے لئے رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔
تھوڑی دور چل کے اسے انگریزی موسیقی کی ایک بڑی سی دکان نظر آئی اور وہ بلا تکلف اندر چلا گیا۔ ہر طرف شیشے کی الماریوں میں طرح طرح کے انگریزی ساز رکھے ہوئے تھے۔ ایک لمبی میز پر مغربی موسیقی کی دو ورقی کتابیں چنی تھیں۔ یہ نئے چلنتر گانے تھے۔ سرورق خوبصورت رنگدار مگر دھنیں گھٹیا۔ ایک چھچھلتی ہوئی نظر ان پر ڈالی پھر وہاں سے ہٹ آیا اور سازوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایک ہسپانوی گٹار پر، جو ایک کھونٹی سے ٹنگی ہوئی تھی، ناقدانہ نظر ڈالی اور اس کے ساتھ قیمت کا جو ٹکٹ لٹک رہا تھا اسے پڑھا۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک بڑا جرمن پیانو رکھا ہوا تھا۔ اس کا کور اٹھا کے انگلیوں سے بعض پردوں کو ٹٹولا اور پھر کور بند کر دیا۔
پیانو کی آواز سن کر دکان کا ایک کارندہ اس کی طرف بڑھا۔
"گڈ ایوننگ سر۔ کوئی خدمت؟"
"نہیں شکریہ۔ ہاں اس مہینے کی گراموفون ریکارڈوں کی فہرست دے دیجئے۔"
فہرست لے لے کے اوور کوٹ کی جیب میں ڈالی۔ دکان سے باہر نکل آیا اور پھر چلنا شروع کر دیا۔ راستے میں ایک چھوٹا سا بک اسٹال پڑا۔ نوجوان یہاں بھی رکا۔ کئی تازہ رسالوں کے ورق الٹے۔ رسالہ جہاں سے اٹھاتا بڑی احتیاط سے وہیں رکھ دیتا۔ اَور آگے بڑھا تو قالینوں کی ایک دکان نے اس کی توجہ کو جذب کیا۔ مالک دکان نے جو ایک لمبا سا چغہ پہنے اور سر پر کلاہ رکھے تھا۔ گرمجوشی سے اس کی آؤ بھگت کی۔
"ذرا یہ ایرانی قالین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اتاریئے نہیں یہیں دیکھ لوں گا۔ کیا قیمت ہے اس کی؟
"چودہ سو تیس روپے ہے۔"
نوجوان نے اپنی بھنووں کو سکیڑا جس کا مطلب تھا "اوہو اتنی۔"
دکاندار نے کہا "آپ پسند کر لیجئے۔ ہم جتنی بھی رعایت کر سکتے ہیں کر دیں گے۔"
"شکریہ لیکن اس وقت تو میں صرف ایک نظر دیکھنے آیا ہوں۔"
"شوق سے دیکھئے۔ آپ ہی کی دکان ہے۔"
وہ تین منٹ کے بعد اس دکان سے بھی نکل آیا۔ اس کے اوور کوٹ کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا جو ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا تھا۔ وہ اس وقت کاج سے کچھ زیادہ باہر نکل آیا تھا۔ جب وہ اس کو ٹھیک کر رہا تھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف اور پر اسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے پھر اپنی مٹر گشت شروع کر دی۔
اب وہ ہائی کورٹ کی عمارتوں کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اتنا کچھ چل لینے کے بعد اس کی فطری چونچالی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ نہ تکان محسوس ہوئی تھی نہ اکتاہٹ۔ یہاں پٹری پر چلنے والوں کی ٹولیاں کچھ چھٹ سی گئی تھیں اور میں ان میں کافی فصل رہنے لگا تھا۔ اس نے اپنی بید کی چھڑی کو ایک انگلی پر گھمانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی اور چھڑی زمین پر گر پڑی "اوہ سوری" کہہ کر زمین پر جھکا اور چھڑی کو اٹھا لیا۔
اس اثنا میں ایک نوجوان جوڑا جو اس کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا اس کے پاس سے گزر کر آگے نکل آیا۔ لڑکا دراز قامت تھا اور سیاہ کوڈرائے کی پتلون اور زپ والی چمڑے کی جیکٹ پہنے تھا اور لڑکی سفید ساٹن کی گھیر دار شلوار اور سبز رنگ کا کا کوٹ۔ وہ بھاری بھرکم سی تھی۔اس کے بالوں میں ایک لمبا سا سیاہ چٹا گندھا ہوا تھا جو اس کمر سے نیچا تھا۔ لڑکی کے چلنے سے اس چٹلے کا پھندنا اچھلتا کودتا پے درپے اس کے فربہ جسم سے ٹکراتا تھا۔ نوجوان کے لئے جو اب ان کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا یہ نظارہ خاصا جاذب نظر تھا۔ وہ جوڑا کچھ دیر تک تو خاموش چلتا رہا۔ اس کے بعد لڑکے نے کچھ کہا جس کے جواب میں لڑکی اچانک چمک کر بولی۔
ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔
"سنو میرا کہنا مانو" لڑکے نے نصیحت کے انداز میں کہا "ڈاکٹر میرا دوست ہے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔"
"نہیں، نہیں، نہیں۔"
"میں کہتا ہوں تمہیں ذرا تکلیف نہ ہو گی۔"
"لڑکی نے کچھ جواب نہ دیا۔"
"تمہارے باپ کو کتنا رنج ہو گا۔ ذرا ان کی عزت کا بھی تو خیال کرو۔"
"چپ رہو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گی۔"
نوجوان نے شام سے اب تک اپنی مٹر گشت کے دوران میں جتنی انسانی شکلیں دیکھی تھیں ان میں سے کسی نے بھی اس کی توجہ کو اپنی طرف منعطف نہیں کیا تھا۔ فی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ہی نہیں۔ یا پھر وہ اپنے حال میں ایسا مست تھا کہ کسی دوسرے سے اسے سروکار ہی نہ تھا مگر اس دلچسپ جوڑے نے جس میں کسی افسانے کے کرداروں کی سی ادا تھی، جیسے یکبارگی اس کے دل کو موہ لیا تھا اور اسے حد درجہ مشتاق بنا دیا کہ وہ ان کی اور بھی باتیں سنے اور ہو سکے تو قریب سے ان کی شکلیں بھی دیکھ لے۔
اس وقت وہ تینوں بڑے ڈاکخانے کے چوراہے کے پاس پہنچ گئے تھے۔ لڑکا اور لڑکی پل بھر کو رکے اور پھر سڑک پار کر کے میکلو ڈ روڈ پر چل پڑے۔ نوجوان مال روڈ پر ہی ٹھہرا رہا۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ فی الفور ان کے پیچھے گیا تو ممکن ہے انہیں شبہ ہو جائے کہ ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ اس لئے اسے کچھ لمحے رک جانا چاہئے۔
جب وہ لوگ کوئی سو گز آگے نکل گئے تو اس نے لپک کر ان کا پیچھا کرنا چاہا مگر ابھی اس نے آدھی ہی سڑک پار کی ہو گی کہ اینٹوں سے بھری ہوئی ایک لاری پیچھے سے بگولے کی طرح آئی اور اسے روندتی ہوئی میکلوڈ روڈ کی طرف نکل گئی۔ لاری کے ڈرائیور نے نوجوان کی چیخ سن کر پل بھر کے لئے گاڑی کی رفتار کم کی۔ پھر وہ سمجھ گیا کہ کوئی لاری کی لپیٹ میں آگیا اور وہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاری کو لے بھاگا۔ دو تین راہ گیر جو اس حادثے کو دیکھ رہے تھے شور مچانے لگے کہ نمبر دیکھو نمبر دیکھو مگر لاری ہوا ہو چکی تھی۔
اتنے میں کئی اور لوگ جمع ہو گئے۔ ٹریفک کا ایک انسپکٹر جو موٹر سائیکل پر جا رہا تھا رک گیا۔ نوجوان کی دونوں ٹانگیں بالکل کچلی گئی تھیں۔ بہت سا خون نکل چکا تھا اور وہ سسک رہا تھا۔
فوراً ایک کار کو روکا گیا اور اسے جیسے تیسے اس میں ڈال کر بڑے ہسپتال روانہ کر دیا گیا۔ جس وقت وہ ہسپتال پہنچا تو اس میں ابھی رمق بھر جان باقی تھی۔ اس ہسپتال کے شعبۂ حادثات میں اسسٹنٹ سرجن مسٹر خان اور دو نو عمر نرسیں مس شہناز اور مس گِل ڈیوٹی پر تھیں۔ جس وقت اسے سٹریچر پر ڈال کے آپریشن روم میں لے جایا جا رہا تھا تو ان نرسوں کی نظر اس پر پڑی۔ اس کا بادامی رنگ کا اوور کوٹ ابھی تک اس کے جسم پر تھا اور سفید سلک کا مفلر گلے میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے کپڑوں پر جا بجا خون کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ کسی نے از راہِ دردمندی اس کی سبز فلیٹ ہیٹ اٹھا کے اس کے سینہ پر رکھ دی تھی تاکہ کوئی اڑا نہ لے جائے۔
شہناز نے گل سے کہا:
"کسی بھلے گھر کا معلوم ہوتا ہے بے چارہ۔"
گل دبی آواز میں بولی۔
"خوب بن ٹھن کے نکلا تھا بے چارہ ہفتے کی شام منانے۔"
"ڈرائیور پکڑا گیا یا نہیں؟"
"نہیں بھاگ گیا۔"
"کتنے افسوس کی بات ہے۔"
آپریشن روم میں اسسٹنٹ سرجن اور اور نرسیں چہروں پر جراحی کے نقاب چڑھائے جنہوں نے ان کی آنکھوں سے نیچے کے سارے حصے کو چھپا رکھا تھا، اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ اسے سنگ مر مر کی میز پر لٹا دیا گیا۔ اس نے سر میں جو تیز خوشبو دار تیل ڈال رکھا تھا،اس کی کچھ مہک ابھی تک باقی تھی۔ پٹیاں ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔ حادثے سے اس کی دونوں ٹانگیں تو ٹوٹ چکی تھیں مگر سرکی مانگ نہیں بگڑنے پائی تھی۔
اب اس کے کپڑے اتارے جا رہے تھے۔ سب سے پہلے سفید سلک گلوبند اس کے گلے سے اتارا گیا۔ اچانک نرس شہناز اور نرس گِل نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ چہرے جو دلی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں، جراحی کے نقاب تلے چھپے ہوئے تھے اور زبانیں بند۔
نوجوان کے گلوبند کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا سرے سے قمیص ہی نہیں تھی۔۔۔اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جا بجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سوئٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آ رہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلوبند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپا رہتا تھا۔ اس کے جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پوڈر لگا ہوا تھا۔ سوئٹر اور بنیان کے بعد پتلون کی باری آئی اور شہناز اور گِل کی نظریں پھر بیک وقت اٹھیں۔ پتلون کو پیٹی کے بجائے ایک پرانی دھجی سے جو شاید کبھی نکٹائی رہی ہو گی خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھٹنوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا اور کئی جگہ کھونچیں لگی تھیں مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لئے لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔ اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ پھر مس شہناز اور مس گِل کی آنکھیں چار ہوئیں۔
بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں، اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ بلا شبہ اس وقت تک وہ دم توڑ چکا تھا۔ اس کا جسم سنگ مر مر کی میز پر بے جان پڑا تھا۔ اس کا چہرہ جو پہلے چھت کی سمت تھا۔ کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف مڑ گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جسم اور اس کے ساتھ روح کی برہنگی نے اسے خجل کر دیا ہے اور وہ اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرا رہا ہے۔
اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں:
ایک چھوٹی سی سیاہ کنگھی، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا سگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں نام اور پتے لکھے تھے۔نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹر گشت کے دوران اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھما دئے تھے اور اس نے انہیں اوور کوٹ کی جیب میں ڈال دیا تھا۔
افسوس کہ اس کی بید کی چھڑی جو حادثے کے دوران میں کہیں کھو گئی تھی اس فہرست میں شامل نہ تھی۔
جنور ی کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔
یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھر پور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھار کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لئے تیز قدم اٹھا رہے تھے مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔
اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کر دیتا۔ ایک خالی ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی مگر اس نے "نو تھینک یو" کہہ کر اسے بھی ٹال دیا۔
جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ با رونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی گویا کرکٹ کا کھیل ہو رہا ہو۔
راستے میں وہ سڑک آئی جو لارنس گارڈن کی طرف جاتی تھی مگر اس وقت شام کے دھندلکے اور سخت کہرے میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس رہی تھی کہ اس نے ادھر کا رخ نہ کیا اور سیدھا چیرنگ کراس کی طرف چلتا رہا۔
ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت آ گئی۔ اس نے اپنا رومال نکالا جسے جیب میں رکھنے کی بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میں اڑس رکھا تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیرا، تاکہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے۔ پاس گھاس کے ایک ٹکڑے پر کچھ انگریز بچے بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ وہ رک گیا اور بڑی دلچسپی سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ بچے کچھ دیر تک تو اس کی پرواہ کئے بغیر کھیل میں مصروف رہے مگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانے سے لگے اور پھر اچانک گیند سنبھال کر ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے گھاس کے اس ٹکڑے ہی سے چلے گئے۔
نوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بنچ پر پڑی اور وہ اس پر آ کے بیٹھ گیا۔ اس وقت شام کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سردی اور بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کی یہ شدت نا خوشگوار نہ تھی بلکہ لذت پرستی کی ترغیب دیتی تھی۔ شہر کے عیش پسند طبقے کا تو کہنا ہی کیا وہ تو اس سردی میں زیادہ ہی کھل کھیلتا ہے۔ تنہائی میں بسر کرنے والے بھی اس سردی سے ورغلائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر محفلوں اور مجمعوں میں جانے کی سوچنے لگتے ہیں تاکہ جسموں کا قرب حاصل ہو۔ حصولِ لذت کی یہی جستجو لوگوں کو مال پر کھینچ لائی تھی اور وہ حسبِ توفیق ریستورانوں، کافی ہاؤسوں، رقص گاہوں، سینماؤں اور تفریح کے دوسرے مقاموں پر محظوظ ہو رہے تھے۔
مال روڈ پر موٹروں، تانگوں اور بائیسکلوں کا تانتا بندھا ہوا تو تھا ہی پٹری پر چلنے والوں کی بھی کثرت تھی۔ علاوہ ازیں سڑک کی دو رویہ دکانوں میں خرید و فروخت کا بازار بھی گرم تھا۔ جن کم نصیبوں کو نہ تفریحِ طبع کی استطاعت تھی نہ خرید و فروخت کی، وہ دور ہی سے کھڑے کھڑے ان تفریح گاہوں اور دکانوں کی رنگا رنگ روشنیوں سے جی بہلا رہے تھے۔
نوجوان سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے زن و مرد کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر ان کے چہروں سے کہیں زیادہ ان کے لباس پر پڑتی تھی۔ ان میں ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، سرکاری افسر، لیڈر، فنکار، کالجوں کے طلبا اور طالبات، نرسیں، اخباروں کے نمائندے، دفتروں کے بابو۔زیادہ تر لوگ اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہر قسم کے اوور کوٹ، قراقلی کے بیش قیمت اوور کوٹ سے لے کر خالی پٹی کے پرانے فوجی اوور کوٹ تک جسے نیلام میں خریدا گیا تھا۔
نوجوان کا اپنا اوور کوٹ تھا تو خاصا پرانا مگر اس کا کپڑا خوب بڑھیا تھا پھر وہ سلا ہوا بھی کسی ماہر درزی کا تھا۔ اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بہت دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کالر خوب جما ہوا تھا۔ باہوں کی کریز بڑی نمایاں، سلو ٹ کہیں نام کو نہیں۔ بٹن سینگ کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے۔ نوجوان اس میں بہت مگن معلوم ہوتا تھا۔
ایک لڑکا پان بیڑی سگریٹ کا صندوقچہ گلے میں ڈالے سامنے سے گزرا۔ نوجوان نے آواز دی۔
"پان والا!۔"
"جناب!"
"دس کا چینج ہے؟"
"ہے تو نہیں۔ لا دوں گا۔ کیا لیں گے آپ؟"
"نوٹ لے کے بھاگ گیا تو؟"
"اجی واہ۔ کوئی چور اچکا ہوں جو بھاگ جاؤں گا۔ اعتبار نہ ہو تو میرے ساتھ چلئے۔ لیں گے کیا آپ؟"
"نہیں نہیں، ہم خود چینج لائے گا۔ لو یہ اکنی نکل آئی۔ ایک سگریٹ دے دو اور چلے جاؤ۔"
لڑکے کے جانے کے بعد مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگانے لگا۔ وہ ویسے ہی بہت خوش نظر آتا تھا۔ سگریٹ کے دھوئیں نے اس پر سرور کی کیفیت طاری کر دی۔
ایک چھوٹی سی سفید رنگ بلی سردی میں ٹھٹھری ہوئی بنچ کے نیچے اس کے قدموں میں آ کر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ اس نے پچکارا تو اچھل کر بنچ پر آ چڑھی۔ اس نے پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔
"پور لٹل سو ل"
اس کے بعد وہ بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور سڑک کو پار کر کے اس طرف چلا جدھر سینما کی رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ تماشا شروع ہو چکا تھا۔ برآمدے میں بھیڑ نہ تھی۔ صرف چند لوگ تھے جو آنے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر دکھائے گئے تھے۔
تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں۔ ایک خاص شانِ استغنا کے ساتھ مگر صنفِ نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔ لڑکیاں آپس میں ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی۔ اتنے میں ایک لڑکی نے، جو اپنی ساتھ والیوں سے زیادہ حسین بھی تھی اور شوخ بھی، دوسری لڑکی کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے باہر نکل آیا۔
اب سات بج چکے تھے اور وہ مال کی پٹری پر پھر پہلے کی طرح مٹر گشت کرتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ ایک ریستوران میں آرکسٹرا بج رہا تھا۔ اندر سے کہیں زیادہ باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان میں زیادہ تر موٹروں کے ڈرائیور، کوچوان، پھل بیچنے والے، جو اپنا مال بیچ کے خالی ٹوکرے لئے کھڑے تھے۔ کچھ راہ گیر جو چلتے چلتے ٹھہر گئے تھے۔ کچھ مزدوری پیشہ لوگ تھے اور کچھ گداگر۔ یہ اندر والوں سے کہیں زیادہ گانے کے رسیا معلوم ہوتے تھے کیونکہ وہ غل غپاڑہ نہیں مچا رہے تھے بلکہ خاموشی سے نغمہ سن رہے تھے۔ حالانکہ دھن اور ساز اجنبی تھے۔ نوجوان پل بھر کے لئے رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔
تھوڑی دور چل کے اسے انگریزی موسیقی کی ایک بڑی سی دکان نظر آئی اور وہ بلا تکلف اندر چلا گیا۔ ہر طرف شیشے کی الماریوں میں طرح طرح کے انگریزی ساز رکھے ہوئے تھے۔ ایک لمبی میز پر مغربی موسیقی کی دو ورقی کتابیں چنی تھیں۔ یہ نئے چلنتر گانے تھے۔ سرورق خوبصورت رنگدار مگر دھنیں گھٹیا۔ ایک چھچھلتی ہوئی نظر ان پر ڈالی پھر وہاں سے ہٹ آیا اور سازوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایک ہسپانوی گٹار پر، جو ایک کھونٹی سے ٹنگی ہوئی تھی، ناقدانہ نظر ڈالی اور اس کے ساتھ قیمت کا جو ٹکٹ لٹک رہا تھا اسے پڑھا۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک بڑا جرمن پیانو رکھا ہوا تھا۔ اس کا کور اٹھا کے انگلیوں سے بعض پردوں کو ٹٹولا اور پھر کور بند کر دیا۔
پیانو کی آواز سن کر دکان کا ایک کارندہ اس کی طرف بڑھا۔
"گڈ ایوننگ سر۔ کوئی خدمت؟"
"نہیں شکریہ۔ ہاں اس مہینے کی گراموفون ریکارڈوں کی فہرست دے دیجئے۔"
فہرست لے لے کے اوور کوٹ کی جیب میں ڈالی۔ دکان سے باہر نکل آیا اور پھر چلنا شروع کر دیا۔ راستے میں ایک چھوٹا سا بک اسٹال پڑا۔ نوجوان یہاں بھی رکا۔ کئی تازہ رسالوں کے ورق الٹے۔ رسالہ جہاں سے اٹھاتا بڑی احتیاط سے وہیں رکھ دیتا۔ اَور آگے بڑھا تو قالینوں کی ایک دکان نے اس کی توجہ کو جذب کیا۔ مالک دکان نے جو ایک لمبا سا چغہ پہنے اور سر پر کلاہ رکھے تھا۔ گرمجوشی سے اس کی آؤ بھگت کی۔
"ذرا یہ ایرانی قالین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اتاریئے نہیں یہیں دیکھ لوں گا۔ کیا قیمت ہے اس کی؟
"چودہ سو تیس روپے ہے۔"
نوجوان نے اپنی بھنووں کو سکیڑا جس کا مطلب تھا "اوہو اتنی۔"
دکاندار نے کہا "آپ پسند کر لیجئے۔ ہم جتنی بھی رعایت کر سکتے ہیں کر دیں گے۔"
"شکریہ لیکن اس وقت تو میں صرف ایک نظر دیکھنے آیا ہوں۔"
"شوق سے دیکھئے۔ آپ ہی کی دکان ہے۔"
وہ تین منٹ کے بعد اس دکان سے بھی نکل آیا۔ اس کے اوور کوٹ کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا جو ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا تھا۔ وہ اس وقت کاج سے کچھ زیادہ باہر نکل آیا تھا۔ جب وہ اس کو ٹھیک کر رہا تھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف اور پر اسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے پھر اپنی مٹر گشت شروع کر دی۔
اب وہ ہائی کورٹ کی عمارتوں کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اتنا کچھ چل لینے کے بعد اس کی فطری چونچالی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ نہ تکان محسوس ہوئی تھی نہ اکتاہٹ۔ یہاں پٹری پر چلنے والوں کی ٹولیاں کچھ چھٹ سی گئی تھیں اور میں ان میں کافی فصل رہنے لگا تھا۔ اس نے اپنی بید کی چھڑی کو ایک انگلی پر گھمانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی اور چھڑی زمین پر گر پڑی "اوہ سوری" کہہ کر زمین پر جھکا اور چھڑی کو اٹھا لیا۔
اس اثنا میں ایک نوجوان جوڑا جو اس کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا اس کے پاس سے گزر کر آگے نکل آیا۔ لڑکا دراز قامت تھا اور سیاہ کوڈرائے کی پتلون اور زپ والی چمڑے کی جیکٹ پہنے تھا اور لڑکی سفید ساٹن کی گھیر دار شلوار اور سبز رنگ کا کا کوٹ۔ وہ بھاری بھرکم سی تھی۔اس کے بالوں میں ایک لمبا سا سیاہ چٹا گندھا ہوا تھا جو اس کمر سے نیچا تھا۔ لڑکی کے چلنے سے اس چٹلے کا پھندنا اچھلتا کودتا پے درپے اس کے فربہ جسم سے ٹکراتا تھا۔ نوجوان کے لئے جو اب ان کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا یہ نظارہ خاصا جاذب نظر تھا۔ وہ جوڑا کچھ دیر تک تو خاموش چلتا رہا۔ اس کے بعد لڑکے نے کچھ کہا جس کے جواب میں لڑکی اچانک چمک کر بولی۔
ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔
"سنو میرا کہنا مانو" لڑکے نے نصیحت کے انداز میں کہا "ڈاکٹر میرا دوست ہے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔"
"نہیں، نہیں، نہیں۔"
"میں کہتا ہوں تمہیں ذرا تکلیف نہ ہو گی۔"
"لڑکی نے کچھ جواب نہ دیا۔"
"تمہارے باپ کو کتنا رنج ہو گا۔ ذرا ان کی عزت کا بھی تو خیال کرو۔"
"چپ رہو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گی۔"
نوجوان نے شام سے اب تک اپنی مٹر گشت کے دوران میں جتنی انسانی شکلیں دیکھی تھیں ان میں سے کسی نے بھی اس کی توجہ کو اپنی طرف منعطف نہیں کیا تھا۔ فی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ہی نہیں۔ یا پھر وہ اپنے حال میں ایسا مست تھا کہ کسی دوسرے سے اسے سروکار ہی نہ تھا مگر اس دلچسپ جوڑے نے جس میں کسی افسانے کے کرداروں کی سی ادا تھی، جیسے یکبارگی اس کے دل کو موہ لیا تھا اور اسے حد درجہ مشتاق بنا دیا کہ وہ ان کی اور بھی باتیں سنے اور ہو سکے تو قریب سے ان کی شکلیں بھی دیکھ لے۔
اس وقت وہ تینوں بڑے ڈاکخانے کے چوراہے کے پاس پہنچ گئے تھے۔ لڑکا اور لڑکی پل بھر کو رکے اور پھر سڑک پار کر کے میکلو ڈ روڈ پر چل پڑے۔ نوجوان مال روڈ پر ہی ٹھہرا رہا۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ فی الفور ان کے پیچھے گیا تو ممکن ہے انہیں شبہ ہو جائے کہ ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ اس لئے اسے کچھ لمحے رک جانا چاہئے۔
جب وہ لوگ کوئی سو گز آگے نکل گئے تو اس نے لپک کر ان کا پیچھا کرنا چاہا مگر ابھی اس نے آدھی ہی سڑک پار کی ہو گی کہ اینٹوں سے بھری ہوئی ایک لاری پیچھے سے بگولے کی طرح آئی اور اسے روندتی ہوئی میکلوڈ روڈ کی طرف نکل گئی۔ لاری کے ڈرائیور نے نوجوان کی چیخ سن کر پل بھر کے لئے گاڑی کی رفتار کم کی۔ پھر وہ سمجھ گیا کہ کوئی لاری کی لپیٹ میں آگیا اور وہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاری کو لے بھاگا۔ دو تین راہ گیر جو اس حادثے کو دیکھ رہے تھے شور مچانے لگے کہ نمبر دیکھو نمبر دیکھو مگر لاری ہوا ہو چکی تھی۔
اتنے میں کئی اور لوگ جمع ہو گئے۔ ٹریفک کا ایک انسپکٹر جو موٹر سائیکل پر جا رہا تھا رک گیا۔ نوجوان کی دونوں ٹانگیں بالکل کچلی گئی تھیں۔ بہت سا خون نکل چکا تھا اور وہ سسک رہا تھا۔
فوراً ایک کار کو روکا گیا اور اسے جیسے تیسے اس میں ڈال کر بڑے ہسپتال روانہ کر دیا گیا۔ جس وقت وہ ہسپتال پہنچا تو اس میں ابھی رمق بھر جان باقی تھی۔ اس ہسپتال کے شعبۂ حادثات میں اسسٹنٹ سرجن مسٹر خان اور دو نو عمر نرسیں مس شہناز اور مس گِل ڈیوٹی پر تھیں۔ جس وقت اسے سٹریچر پر ڈال کے آپریشن روم میں لے جایا جا رہا تھا تو ان نرسوں کی نظر اس پر پڑی۔ اس کا بادامی رنگ کا اوور کوٹ ابھی تک اس کے جسم پر تھا اور سفید سلک کا مفلر گلے میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے کپڑوں پر جا بجا خون کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ کسی نے از راہِ دردمندی اس کی سبز فلیٹ ہیٹ اٹھا کے اس کے سینہ پر رکھ دی تھی تاکہ کوئی اڑا نہ لے جائے۔
شہناز نے گل سے کہا:
"کسی بھلے گھر کا معلوم ہوتا ہے بے چارہ۔"
گل دبی آواز میں بولی۔
"خوب بن ٹھن کے نکلا تھا بے چارہ ہفتے کی شام منانے۔"
"ڈرائیور پکڑا گیا یا نہیں؟"
"نہیں بھاگ گیا۔"
"کتنے افسوس کی بات ہے۔"
آپریشن روم میں اسسٹنٹ سرجن اور اور نرسیں چہروں پر جراحی کے نقاب چڑھائے جنہوں نے ان کی آنکھوں سے نیچے کے سارے حصے کو چھپا رکھا تھا، اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ اسے سنگ مر مر کی میز پر لٹا دیا گیا۔ اس نے سر میں جو تیز خوشبو دار تیل ڈال رکھا تھا،اس کی کچھ مہک ابھی تک باقی تھی۔ پٹیاں ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔ حادثے سے اس کی دونوں ٹانگیں تو ٹوٹ چکی تھیں مگر سرکی مانگ نہیں بگڑنے پائی تھی۔
اب اس کے کپڑے اتارے جا رہے تھے۔ سب سے پہلے سفید سلک گلوبند اس کے گلے سے اتارا گیا۔ اچانک نرس شہناز اور نرس گِل نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ چہرے جو دلی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں، جراحی کے نقاب تلے چھپے ہوئے تھے اور زبانیں بند۔
نوجوان کے گلوبند کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا سرے سے قمیص ہی نہیں تھی۔۔۔اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جا بجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سوئٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آ رہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلوبند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپا رہتا تھا۔ اس کے جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پوڈر لگا ہوا تھا۔ سوئٹر اور بنیان کے بعد پتلون کی باری آئی اور شہناز اور گِل کی نظریں پھر بیک وقت اٹھیں۔ پتلون کو پیٹی کے بجائے ایک پرانی دھجی سے جو شاید کبھی نکٹائی رہی ہو گی خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھٹنوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا اور کئی جگہ کھونچیں لگی تھیں مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لئے لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔ اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ پھر مس شہناز اور مس گِل کی آنکھیں چار ہوئیں۔
بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں، اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ بلا شبہ اس وقت تک وہ دم توڑ چکا تھا۔ اس کا جسم سنگ مر مر کی میز پر بے جان پڑا تھا۔ اس کا چہرہ جو پہلے چھت کی سمت تھا۔ کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف مڑ گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جسم اور اس کے ساتھ روح کی برہنگی نے اسے خجل کر دیا ہے اور وہ اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرا رہا ہے۔
اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں:
ایک چھوٹی سی سیاہ کنگھی، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا سگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں نام اور پتے لکھے تھے۔نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹر گشت کے دوران اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھما دئے تھے اور اس نے انہیں اوور کوٹ کی جیب میں ڈال دیا تھا۔
افسوس کہ اس کی بید کی چھڑی جو حادثے کے دوران میں کہیں کھو گئی تھی اس فہرست میں شامل نہ تھی۔








جب ہوش آیا تو اس نےخود کو ایک سڑک کےکنارےایک درخت کےنیچےبیٹھا ہوا پایا۔ سامنےتارکول کی سڑک پر دور دور تک دھوپ پھیلی ہوئی تھی ۔ اکا دکا سواریاں آجا رہی تھے۔ آس پاس کی فلک بوس عمارتوں کی بالکنیاں ویران تھیں ۔ دھوپ کی شدت کی وجہ سےشاید مکین ان سےجھانکنےکی جسارت بھی نہیں کررہےتھے۔ سڑک کی دونوں طرف دور دور تک دکانوں کا ایک سلسلہ تھا ۔ ان میں کچھ دوکانیں بند تھیں لیکن باقی کھلی ہوئی تھیں ۔ بند دوکانوں کےشیڈ میں ایک دو آوارہ کتےدھوپ اور گرمی سےبچنےکےلئےلیٹےہوئےتھے۔ یا اکا دکا راہ گیر ان کےسائےمیں کھرےہوکر سستا رہےتھے۔ کبھی کبھی ان کی بےچین نظریں بار بار ویران سڑک کی طرف اٹھ جاتی تھیں ۔ شاید انہیں اپنی سواری کا انتظار تھا ۔ جو دوکانیں کھلی ہوئی تھیں ان میں گاہکوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا ۔ ان دوکانوں میں ان دوکانوں کےمالک اور ان میں کام کرنےوالےنوکر بیٹھےیا تو اونگھ رہےتھےیا منہ پھاڑ کر جماہیاں لےرہےتھے۔ وقت معلوم کرنےکےلئےاس نےاپنی کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی تو اس کا دل دھک سےرہ گیا ۔ کلائی پر گھڑی نہیں تھی ۔ کلائی پر بندھی گھڑی نہ دیکھ کر یاد آیا کہ اس کےپاس ایک چھوٹی سی اٹیچی بھی تھی ۔جس میں دوپہر کےکھانےکا ڈبہ ‘ ایک دو غیر ضروری فائل ‘ کچھ اخبارات اور رسالےاور کچھ نوٹس وغیرہ تھے۔ وہ اٹیچی اسےکہیں نظر نہیں آئی ۔ اس کا مطلب تھا وہ اٹیچی بھی گھڑی کی طرح غائب ہے۔ لاشعوری طور پر اس کا ہاتھ پتلون کی جیب کی طرف رینگ گیا اور وہ جیب میں پرس تلاش کرنےلگا ۔ ظاہر سی بات ہےایسی حالت میں جیب میں پرس کی موجودگی ناممکن سی بات تھی ۔ اس نےایک ٹھنڈی سانس لی اور پتلون کی چور جیب میں اپنی انگلیاں ڈالیں اس کی انگلیاں نوٹوں سےٹکرائیں تو اسےکچھ اطمینان ہوا ۔ پرس میں دس بیس روپیوں کےنوٹ ‘ کچھ وزیٹنگ کارڈ اور لوکل کا ماہانہ پاس تھا۔ دھیرےدھیرےاسےیاد آنےلگا کہ جب وہ گھر سےآفس جانےکےلئےنکلا تھا تو سر میں ہلکا ہلکا درد تھا ۔ جو وقت گزرنےکےساتھ ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا تھا ۔ اسےاچھی طرح یاد ہےوہ وی ٹی جانےوالی لوکل ٹرین میں سوار ہوا تھا ۔ لیکن پھر ٹرین سےیہاں کس طرح پہنچا ؟ اسےکچھ یاد نہیں آرہا تھا ۔ مگر یہ جگہ کون سی ہے؟ اس سوال کےذہن میں سر اٹھاتےہی اس نےسامنےوالی دوکانوں کےسائن بورڈ غور سےدیکھے۔ ” تم میں اس وقت گھاٹ کوپر میں ہوں ۔ “ بڑبڑاتےہوئی اس نےاپنےہونٹ بھینچےاور پھر آسمان کی طرف دیکھنےلگا ۔ سورج جس زاویےپر رکا ہوا تھا اس سےتو ایسا لگ رہا تھا کہ اس وقت دوپہر کا ایک یا ڈیڑھ بج رہا ہوگا ۔ وہ ممبرا سےآٹھ بجےلوکل میں سوار ہوا تھا ۔ اس کا مطلب ہےوہ چار ‘ پانچ گھنٹےمدہوشی کےعالم میں رہا ۔ جسم پر کوئی خراش کا نشان نہیں تھا ۔ اس کا مطلب ہےآج اس کےساتھ کوئی حادثہ پیش نہیں آیا ۔ بس کچھ گھنٹوں کےلئےاس کےدماغ کا جسم سےرابطہ ٹوٹا اور اس درمیان جسم نےکیا کیا ‘ کیا اور اس کےساتھ کیا ہوا اسےکچھ یاد نہیں آرہا تھا ۔ اور اب یاد آبھی نہیں سکتا تھا ۔ اسےعلم تھا دماغ سےجسم کا رابطہ ٹوٹتےہی وہ لوکل سےاتر گیا ہوگا اور یونہی انجان سڑکوں پر بےمقصد آوارہ گردی کررہا ہوگا ۔ یا تو پھر چکرا کر اسی جگہ گرپڑا ہوگا جس جگہ اس وقت بیٹھا ہے۔ یا پھر مدہوشی میں عجیب و غریب مجنونانہ حرکتیں کرکےلوگوں کو اپنی طرف متوجہ کررہا ہوگا ۔ اس کی مجنونانہ حرکتیں اور اس کےہاتھ کی اٹیچی کسی غنڈےکی توجہ کا مرکز بنی ہوگی ۔ غنڈےنےبڑےاطمینان سےاسےاس جگہ بٹھایا ہوگا جہاں اس وقت وہ بیٹھا ہوا ہے۔ بڑےاطمینان سےاس نےاس سےایک دو باتیں کی ہوں گی اور اس کی کلائی سےگھڑی اتاری ہوگی پھر جیب سےپرس نکالا ہوگا اور ہاتھ سےاٹیچی لےکر اطمینان سےچلتا بنا ہوگا ۔ وہ چپ چاپ اسےجاتا دیکھ رہا ہوگا یا پھر درخت کےسائےمیں لیٹ گیا ہوگا ۔ کیا ہوا ہوگا ؟ اس بات کا وہ صرف اندازہ ہی لگا سکتا تھا ۔ اس کےساتھ کیا ہوا ہے؟ کسی سےمعلوم بھی نہیں ہوسکتا تھا ۔ مگر جو کچھ اس کےساتھ ہوا اسےاس کا بہت افسوس تھا ۔ آج اسےپھر گھر والوں اور بیوی کو اپنےلٹنےکی ایک فرضی کہانی سنانی پڑےگی لیکن وہ کل آفس میں کیا جواب دےگا ؟ بنا اطلاع کےوہ آفس سےکیوں غائب رہا ۔ اسی طرح پہلےہی اس کی بےشمار چھٹیاں ہوچکی تھیں ۔ اور آج تو آفس میں اس کی موجودگی بےحد ضروری تھی ۔اس کی غیر حاضری سےآفس میں ہنگامہ مچ گیا ہوگا ۔ ڈیڑھ دو ہی بج رہےہیں ۔ کیا کریں ؟ آفس جانےکا اب بھی وقت ہے۔ لیکن وہ اپنےآپ کو جسمانی طور پر اتنا لاغر اور تھکا ہوا محسوس کررہا تھا کہ نہ تو اس میں آفس جانےکی قوت تھی نہ گھر واپس جانےکی ۔ لیکن آفس بھی نہ جائےاسےواپس گھر تو جانا ہی پڑےگا ۔ وہ اٹھا اور بوجھل قدموں سےاسٹیشن جانےکا راستہ ڈھونڈتا اسٹیشن کی طرف چل دیا ۔ راستےمیں اس نےایک گاڑی والےکےپاس سےوڑا پاو¿ کھایا اور چائےپی ۔ کچھ دیر قبل جس بھوک کی شدت سےاسےکمزوری کا محسوس ہورہی تھی وہ کچھ دور ہوئی ۔ اس کےذہن میں ایک ہی بات گونج رہی تھی ۔ ” آج پھر اس پر دورہ پڑا تھا ۔ اور یہ دورہ پانچ چھ گھنٹوں کا تھا ۔ “ ڈاکٹروں کا کہنا تھا ممکن ہےشروعات میں اس طرح کےدورےکچھ گھنٹوں تک محدود رہیں لیکن یہی صورت حال رہی تو یہ دورےکئی کئی دن اور کئی کئی مہینوں کےبھی ہوسکتےہیں ۔ یعنی وہ کئی کئی مہینوں تک زندہ ہوتےہوئےبھی مردوں سا رہےگا ۔ مہینوں ایسی زندگی گزارسکتا ہےجس کا اس کی اصلی زندگی سےکوئی تعلق نہیں ہوگا ۔ اس کی اصلی زندگی کی کوئی بات اسےیاد نہیں آئےگی ۔ اور بعد میں اس لا تعلق زندگی کی کوئی بات بھی اسےیاد نہیں آئےگی ۔ اور ایسا بھی ہوسکتا ہےاس طرح کےدوروں کےدرمیان وہ ٹیومر پھٹ جائےاور اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔ ” آخر وہ پھٹ کیوں نہیں جاتا ؟ “ وہ جھنجھلا کر سوچنےلگا ۔ ” اسےپھٹ جانا چاہئیے۔ اس کےپھٹ جانےسےمجھےاس کربناک زندگی سےنجات تو مل جائےگی ۔ “ ” تم مرنا چاہتےہو ؟ “ اس کےاندر کوئی زور سےہنسا ۔ ” نہیں ‘ تم مر نہیں سکتےتم مرنےسےڈرتےہو ۔ تم مرنا نہیں چاہتےہو ۔ اسی لئےتو تم اپنا علاج نہیں کروا رہےہو ۔ کیونکہ ممکن ہےعلاج کےدوران تمہاری موت واقع ہوجائے۔ یا تم زندگی بھر کےلئےاندھے‘ لنگڑے‘ لولے‘ اپاہج ہوجاو¿ ۔ یا تمہارا ذہن ہمیشہ کےلئےایک کبھی نہ چھٹنےوالی تاریکی میں ڈوب جائے۔ اور تم ہوش میں رہتےہوئےبھی ہمیشہ کےلئےبےہوش ہوجاو¿ ۔ “ آخر وہ ان دوروں کا عذاب کب تک جھیلتا رہےگا ؟ شاید موت ہی اسےاس عذاب سےنجات دلا سکتی ہے۔ لیکن موت کب آئےگی ؟ جب اس کےدماغ کا ٹیومر پھٹ جائےگا ۔ اس کےدماغ کا ٹیومر کب پھٹےگا ؟ اس بارےمیں تو نہ کوئی بتا سکتا تھا اور نہ کوئی پیشن گوئی کرسکتا ہے۔ ممکن ہےابھی ایک سیکنڈ بعد وہ ٹیومر پھٹ جائےیا پھر ہوسکتا ہےزندگی بھر وہ ٹیومر نہ پھٹےاور زندگی بھر وہ اس عذاب میں مبتلا رہے۔ اسےتو اس بات کا قطعی علم نہیں تھا کہ اس کےدماغ میں کوئی ٹیومر بھی ہے۔ جسےعرف عام میں برین ٹیومر کہتےہیں ۔ ہاں یہ بات ضرور تھی کہ بچپن سےوہ درد سر کا مریض تھا ۔ اور بڑھتی عمر کےساتھ ساتھ وہ درد بڑھتا ہی گیا ۔ اور وہ اس کربناک عذاب میں مبتلا رہا ۔ بچپن میں جب اس کا سر درد کرتا تو وہ اس درد کا بہانہ بنا کر اسکول سےچھٹی لےلیتا تھا ۔ اس کےٹیچر اس کےچہرےکےتاثرات اور کیفیت دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیتےتھےکہ سچ مچ اس کےسر میں سخت درد ہےاور وہ اسےچھٹی دےدیتےتھے۔ اس وقت وہ بہت خوش ہوتا تھا اور سوچتا تھا روزانہ اس کا سر دکھا کرےاور اسےروزانہ اسی طرح اسکول سےچھٹی ملتی رہے۔ لیکن بڑھتی عمر کےساتھ بڑھنےوالی اس سر درد کی تکلیف سےاسےکوفت ہونےلگی تھی۔ اس نےاس مرض کی کئی ڈاکٹروں سےدوائیں لیں ۔ ڈاکٹروں کی دواو¿ں سےوقتی طور پر درد غائب ہوجاتا ۔ لیکن کچھ دنوں بعد پھر معمول کےمطابق سر اٹھاتا ۔ اس کی دائمی سر درد کی شکایت دیکھ کر ڈاکٹروں نےاسےمائیگرین کا مریض قرار دیا ۔ مائیگرین جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ خود کو مائیگرین کا مریض قرار دئےجانےکےبعد اسےکم سےکم اس بات کا اطمینان تو ہوگیا کہ ا ب اسےدواو¿ں کا استعمال کرنےکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ایک ایسےمرض میں مبتلا ہےجس پر دوائیں کارگر ثابت نہیں ہوتیں ۔ اس نےاپنےاندر درد کی شدت کو برداشت کرنےکی قوت پیدا کی ۔ یہ سلسلہ برسوں تک چلتا رہا ۔ جب بھی اس کےسر میں درد اٹھتا وہ نہ تو اس کا علاج کرتا نہ کوئی دوا گولی لیتا ۔ چپ چاپ اس درد کو برداشت کرتا ۔ کچھ گھنٹوں کےبعد وہ درد خود بخود غائب ہوجاتا ۔ لیکن دھیرےدھیرےاسےپتہ چلا جب وہ شدید سر درد میں مبتلا ہوتا ہےتو کبھی کبھی بڑی عجیب حرکتیں کرنےلگتا ہے۔ جس کی وجہ سےلوگوں کو اس کےبارےمیں تشویش ہونےلگتی ہے۔ اس بارےمیں اسےاس کےدوستوں اور آفس کےلوگوں نےبتایا تھا کہ کئی کاغذات پرزہ پرزہ کرڈالےاور کورےکاغذات کو برےسلیقےسےفائلوں میں لگا کر رکھ دیا ۔ کئی اہم کاغذات پر بلا وجہ غیر ضروری اسٹامپ لگا کر اپنےدستخط کردئے۔ تو کبھی کبھی اخبارات اور آفس کےکاغذات پر گھنٹوں پتہ نہیں کیا اول فول ٹائپ کرتا رہا ۔ اس کی ان حرکتوں سےلوگوں نےاندازہ لگایا کہ اس پر عجیب قسم کےشیدد دورےپڑتےہیں ۔ دورےپڑنےکی شکایتیں اس سےکئی بار اس کےگھر والوں اور دوستوں نےکی تھیں ۔ دوروں کی حالت میں وہ چاول کو پانی کی طرح پینےلگتا اور پانی کو روٹی کی طرح کھانےکی کوشش کرتا ۔ گھر کی چیزیں غلط مقامات پر رکھتا یا ان کا غلط استعمال کرتا ۔ ایک بار تو ان حرکتوں سےاس کی زندگی خطرےمیں پڑ گئی تھی ۔اس نےمٹی کا تیل اپنےجسم پر ڈال لیا اور پانی سمجھ کر مٹی کا تیل پی لیا ۔ معمول پر آنےکےبعد اسےاپنےدوروں کی تفصیل معلوم ہوتیں تو اس کےجسم میں خوف کی سرد لہریں دوڑنےلگتیں ۔آج اس کےساتھ کیا ہوجاتا ۔ اف ! وہ کس طرح کی زندگی گزارر ہا ہے۔ آخر ان دوروں سےمجبور ہوکر اسےڈاکٹر کی صلاح لینی پڑی ۔ ڈاکٹر نےاس کی پوری کیس ہسٹری سنی ‘ سر کا ایکسرےنکالا ۔ اچھی طرح چیک اپ کیا اور اس کےبعد اسےبتایا گیا ۔ ” تمہارےدماغ میں ایک ٹیومر ہےاور اس کی وجہ سےتم اس طرح کی حرکتیں کرتےہو یا تمہارےساتھ ایسا ہوتا ہے۔ “ ڈاکٹر نےاسےبڑی تفصیل سےاس برین ٹیومر یا اس بیماری کےبارےمیں بتایا تھا ۔ اس کےسر میں درد اس لئےہوتا تھا کہ اس ٹیومر کی وجہ سےدماغ کےکچھ حصوں کو خون کی سپلائی رک جاتی تھا ۔ جیسےجیسےٹیومر بڑا ہونےلگا درد کی شدت بھی بڑھنےلگی ۔ اور اب صورت حال یہ ہےکہ جب دماغ کےبہت بڑےحصےکو خون کی سپلائی رک جاتی ہےتو دماغ اور جسم کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔ اور وہ اس حالت میں اول جلول حرکتیں کرنےلگتا ہے۔ ” اس کا کوئی علاج ہےڈاکٹر صاحب ؟ “ ” اس کا تو بس ایک ہی علاج ہے۔ آپریشن کےذریعہ سر سےاس ٹیومر کو نکال دیا جائے۔ “ ” میں اس عذاب سےنجات پانےکےلئےآپریشن کرانےکےلئےبھی تیار ہوں ڈاکٹر صاحب ! “ ” لیکن یہ آپریشن اتنا آسان نہیں ہےجتنا تم سمجھ رہےہو ۔ معاملہ دماغ کا ہےممکن ہےیہ آپریشن کامیاب نہ ہو اور اس آپریشن کےدرمیان تمہاری موت واقع ہوجائےیا یہ بھی ممکن ہےآپریشن کےدوران تمہارےدماغ کا کوئی حصہ متاثر ہوجائےاور تم زندگی بھر کےلئےاندھے‘ لنگڑے‘ لولےیا اپاہج بن جاو¿ ۔ تمہاری آنکھوں کی بینائی کھو جائے۔ یا تمہاری قوتِ گویائی صلب ہو جائے۔ یہ بڑا پرخطرآپریشن ہوتا ہے۔ اگر آپریشن کےدوران دماغ کا کوئی بھی حصہ معمولی طور پر بھی متاثر ہوجائےتو وہ اپنا کام بند کردیتا ہےاور اس کےاثرات کیا ہوسکتےہیں میں تو بتا ہی چکا ہوں ۔” نہیں نہیں ڈاکٹر صاحب ! “ ڈاکٹر کی بات سن کر وہ کانپ اٹھا تھا ۔ ” میں مرنا نہیں چاہتا ۔ میں اندھا ‘ لنگڑا ‘ لولا ہوسکتا ہوں ۔ نہیں نہیں میں آپریشن نہیں کروں گا ۔ چاہےمجھےکتنا ہی درد کتنی ہی تکلیف سہنی پڑے۔ چاہےمجھےکتنےہی شدید دوروں کےعذاب سےگزرنا پڑے۔ اگر میرےدماغ کا ٹیومر پھٹ جاتا اور میری موت ہوجاتی ہےتو مجھےوہ موت منظور ہےکیونکہ وہ میری فطرتی موت ہوگی ۔ لیکن آپریشن کرکےنہ تو میں غیر فطری زندگی جینا چاہتا ہوں نہ غیر فطری موت مرنا چاہتا ہوں ۔ “ڈاکٹر نےاسےبہت سمجھایا لیکن اس نےڈاکٹر کی ایک نہ مانی ۔ اس نےکسی کو نہیں بتایا کہ اس کےدماغ میں ایک ٹیومر ہےاور اسی ٹیومر کی وجہ سےاس عذاب میں مبتلا ہے۔ اور ممکن ہےوہ ٹیومر ایک دن اس کی جان بھی لےلے۔ ظاہر سی بات تھی وہ گھر والوں یا دوستوں کو اپنی بیماری کےبارےمیں بتاتا تو وہ اس کی جان بچانےکےلئےاسےزندہ دیکھنےکےلئےاس پر آپریشن کےلئےزور ڈالتے۔ اور آپریشن کا انجام کیا ہوسکتا ہےاسےعلم تھا ۔ اس لئےاس نےاپنی بھلائی اسی میں سمجھی کہ اپنےمرض کےبارےمیں کسی کو نہ بتایا جائی۔ اور اس طرح ہر طرح کےدباو¿ سےآزاد رہ کر کچھ دنوں کی ہی سہی لیکن باقی بچی زندگی تو وہ چین سےگذار سکے۔ ا س کےبعد اس کےساتھ وہی ہوتا رہا جو پہلےہوتا آرہا تھا۔ کبھی کبھی درد کی شدت اتنی بڑھ جاتی کہ وہ دیواروں سےاپنا سر ٹکراکر لہولہان کرلیتا تھا ۔ کبھی کبھی دورےکی حالت میں اس کےہاتھوں سےایسےکام سرزد ہوجاتےتھےجن کےنقصان کی تلافی وہ مہینوں تک نہیں کرپاتا تھا ۔ اسےآفس سےکئی میمو مل چکےتھے۔ کیونکہ وہ دورےکی صورت میں آفس کےکئی ضروری کاغذات پھاڑ چکا تھا ۔ ایک بار اس کےباس نےاس کےدوروں سےعاجز آکر اسےمیمو دےدیا کہ وہ پندرہ دن کےاندر اپنا میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کرےورنہ اسےملازمت سےبرطرف کردیا جائےگا ۔ ملازمت سےبرطرفی کےتصور سےہی وہ کانپ اٹھا ۔ اگر اسےنوکری سےنکال دیا گیا تو وہ کیا کرےگا ‘ کون اسےنوکری دےگا ‘ ایسی حالت میں کیا وہ کوئی دوسرا کام کرپائےگا ‘ اس کےگھر والوں اور بیوی بچوں کا گذر کس طرح ہوگا ۔ مجبوراً اسےاپنی نوکری بچانےکےلئےایک ڈاکٹر کو رشوت دےکر اپنی فٹنیس کا جھوٹا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا پڑا ۔ تب سےوہ بہت ڈرتا تھا ۔اور رات دن خدا سےدعا کرتا تھا کہ کم سےکم اپنےآفس میں دورہ نہ پڑے۔ اگر پڑےبھی تو اس کےہاتھوں کوئی ایسا کام نہ ہو جس سےاس کی ملازمت پر آنچ آئے۔ لیکن یہ اس کےبس میں کہاں تھا ۔ اگر یہی بات اس کےبس میں ہوتی تو اس کےلئےکوئی مسئلہ ہی نہیں تھا ۔ کئی بار ایسا ہوا کہ دورےکی حالت میں بھٹکتا وہ پتہ نہیں کہا سےکہاں پہونچ گیا یا کسی سواری سےٹکرا کر سخت زخمی ہوگیا ۔ دورےکی حالت میں اس کا سامان کہاں گر گیا یا کسی نےچرا لیا ؟ اسےعلم نہیں ہوسکا ۔ وہ گھر سےنکلتا تو اسےمحسوس ہوتا ابھی اس کےسر کا ٹیومر پھٹ جائےگا اور ابھی اس کی موت واقع ہوجائےگی ۔ اس کی لاش لاوارث لاش کی طرح سڑک پر بےگور و کفن پڑی رہےگی ۔ گھر والوں کو اس کی موت کی خبر بھی نہیں مل پائےگی ۔ آفس میں ہوتا تو کام کرتےکرتےبار بار اسےمحسوس ہوتا کہ اس کا ٹیومر ابھی پھٹ پڑےگا اور اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائےگا ۔ رات میں جب وہ سونےکےلئےلیٹتا تو ہر رات اسےمحسوس ہوتا یہ اس کی زندگی کی آخری رات ہے۔ رات کےکسی پہر اس کےسر کا ٹیومر پھٹ جائےگا اور سویرےگھر والوں کو بستر پر اس کی لاش ملےگی ۔ پتہ نہیں اس کی زندگی ایک پل کی بھی باقی ہےیا پھر اسےاس عذاب میں ابھی برسوں جینا ہے۔ وہ ترشنکو بن کر زندگی اور موت کےدرمیان لٹکا ہوا تھا ۔ نہ اسےزندگی اپنےموہ سےآزاد کرپارہی تھی اور نہ موت اسےگلےلگا رہی تھی ۔ وہ بوجھل قدموں سےریلوےاسٹیشن کی طرف بڑھ رہا تھا اچانک سر میں ہلکا ہلکا دردہونےلگا جس کی شدت بڑھتی جارہی تھی ۔ اس کےدل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں ۔ پھر درد پھر دورہ ۔ اوہ گاڈ ! ۔ وہ گھر واپس پہنچ پائےگا بھی یا نہیں ؟ اور سر پکڑ کروہ ایک جگہ بیٹھ گیا ۔ ll


"ادھا" ــــ گلزار صاحب کا ایک خوبصورت افسانہ



سب اُسے " ادّھا “ کہہ کے بلاتے تھے ۔پورا کیا ، پونا کیا ،بس ادّھا --------- قد کا بونا جو تھا ۔پتہ نہیں کس نے نام رکھا تھا ۔ماں باپ ہوتے تو ان سے پوچھتا ۔جب سے ہوش سنبھالا تھا، یہی نام سنا تھا اور یہ بھی نہیں کہ کبھی کوئی تکلیف ہوئی ہو ۔دل دُ کھا ہو ۔کچھ نہیں ۔ہر وقت اپنی مستی میں رہتا تھا ۔خربوزے والے نے کہا ، ادّھے ذرا دکان دیکھیو میں کھانا کھا کے آیا ۔“ اور ادّھا بڑے مزے سے ڈنڈی ہاتھ میں لے کر بیٹھ جاتا اور ہانک لگاتا ۔“ آجا مصری کے ڈلے ہیں ۔وہ کبھی خربوزے بیچتا ، کبھی کھجوریں ، نانی کو وید جی سے ہاضمے کی دوا لا کر دیتا ، تیسری منزل والے کیشوانی کی بچّی کو سکول چھوڑ کے آتا اور مادھو مستری کو کبھی مزدور نہ ملتا تو وہ اینٹیں ڈھونے کا کام بھی کر لیتا ۔مگر سب سے زیادہ مزہ آتا تھا اسے بارات کے آگے ناچنے میں ، بارات چاہے کسی کی بھی ہو ،بھولے بھٹکے بھی ادھر سے گزر جاتی تو وہ اپنے اس ایک میل کے علاقے میں آگے آگے چھوٹے چھوٹے ہاتھ جھلاتا چھوٹی چھوٹی ٹانگوں پر تھرکتا ناچتا چلا جاتا ۔اُس روز وہاں سے ورق کوٹنے والے الیاس کی بارات نکلی تو وہ حسبِ عادت آگے آگے ناچتا ہوا چلنے لگا پنڈت نے ٹوکا بھی ۔ابے ادّھے ، مسلمان کی بارات میں ناچ رہا ہے ؟“ہوا میں ہاتھ جھلاتے ہوئے ادّھا بولا ، ڈھول تو دونوں ہی کے بجتا ہے ، اور ایسے ہی بجتا ہے ۔“ادّھا بارہ سال کے بچّوں میں کھیلتا تو انہی جیسا لگتا ۔جب بچّے سکول چلے جاتے تو وہ سوسائٹی کے بیچ والے باغ میں بوڑھے مالی کے ساتھ مل کر نیم کی سوکھی پتّیاں جمع کرتا اور رات کو پروفیسر صاحب کی بیٹھک سے ماچس لا کر اُس میں آگ لگا دیتا ۔ایک بار پروفیسر صاحب نے اُسے ایک پرانا کوٹ دیا ۔ادّھے نے باہر آکر دیکھا اور اُسے مالی چاچا کے حوالے کر دیا ۔بوری کی بوری دے دی پہننے کو ،اس میں تو میرے جیسے تین آجائیں ۔“چھتّر پور سوسائٹی کی پانچ بلڈنگوں میں رہنے والے اسّی 80 کنبوں کے لگ بھگ ساڑھے تین سو آدمی تھے ۔اور ادّھا ، ج، خ ،کے نقطے کی طرح اُن سب میں گھومتا رہتا ۔کسی کا کام اس کے بغیر رکتا نہیں تھا مگر اس کے بغیر چلتا بھی نہیں تھا ۔ادّھا نہیں تھا تو جیسے وہ پورے نہیں تھے ۔جیسے بھرے پُرے گھر کو پالتو بلّی کچھ اور بھر دیتی ہے ۔ایسے ہی اُس نے چھتّر پور سوسائٹی کو کچھ اور بھر دیا تھا ۔لیکن کل وہ اُن سب کو خالی کر گیا ۔غریب کر گیا ۔کمپاؤنڈ میں جمع بھیڑ کو پروفیسر نے چلّا کر کہا تھا ۔تم سب ادھورے ہو ، آدھے ہو ۔اور جسے تم ادّھا کہتے ہو ،دیکھو ،دیکھو ، وہ کتنا پورا ہے ،کتنا مکمل !“یہ بات چاہے کل کی ہے ۔مگر اصل بات شروع ہوئی تھی دو سال پہلے ۔اصل بات سے پہلے بھی ایک بات ہوئی تھی اور وہ بھی کچھ کم اصل نہیں تھی ۔مگر اُس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے تھے ۔چھتّر پور سوسائٹی کی سب سے خوبصورت لڑکی رادھا کملانی اُس دن ہیر گنج کے علاقے سے آرہی تھی کہ تین غنڈوں نے اُسے گھیر لیا ۔ایک نے آنکھ ماری ، دوسرے نے سیٹی بجائی ، اور تیسرا کندھے کا گِھسّہ دے کر آگے نکل گیا ۔لڑکی سہم گئی ۔دور گلی کے سرے پر اُسے ایک سایہ سا نظر آیا ، اور وہ زور سے چلّائی ۔ادّھے --------- !“اُس نے آواز سُنی تو بھاگا آیا ۔رادھا نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا ، ادّھے ذرا مجھے گھر تک پہنچا دے ۔“ادّھے کو بات سمجھتے دیر نہیں لگی ۔شیر ہوگیا ۔ رادھا کی بانہہ پکڑ کے بولا ، چلیئے ------ میں ہوں نا ۔“اور وہ اُن تین غنڈوں کے بیچ میں سے رادھا کو یوں نکال کر لے گیا ، جیسے ہوا کا جھونکا نکل جائے ۔مگر اُس رات ادّھے کو نیند نہیں آئی ۔پہلی بار اُسے لگا کہ اُس کی عمر اٹھائیس برس کی ہے ۔اگلے دن اُس نے سکول کے بچّوں کے ساتھ کھیلنا چھوڑ دیا اور کپڑے استری کروا کر پہننے لگا ۔تبدیلی لوگوں نے بھی دیکھی اور رادھا نے بھی ! وہ صرف ہنس دی ۔ ہاؤ کیوٹ۔“ادّھے کو جیسے زندگی میں نیا کام مل گیا باڈی گارڈ کا ، محافظ کا ، رادھا کو اچھا لگتا وہ صبح اُسے کالج تک چھوڑ کر آتا کبھی کبھی کچھ کتابیں بھی اُٹھا لیتا --------- کبھی شام کو پہنچ جاتا ، واپسی میں ساتھ لے کر آتا ------- لیکن ایک دن رادھا نے اُس کا دل توڑ دیا ۔وہ جگدیش سے ملنے جایا کرتی تھی جہاں ادّھا اُسے چھوڑ کر آتا تھا --------- مگر جگدیش کو یہ اچّھا نہیں لگا ۔اُس نے اعتراض کیا تو رادھا نے ڈانٹ دیا ۔“ چھی چھی ------- اس پر شک کرتے ہو ؟ اس آدھے سے مرد پر !!!!! “بس اُس سے آگے ادّھے نے نہیں سُنا ۔اُلٹے پاؤں لوٹ آیا ۔آتے ہی گلی میں اُس نے لیٹے ہوئے ایک کتّے کو پیٹنا شروع کردیا بہت مارا اور جیسے خود ہی زخمی ہوکر اپنی کھولی میں جا کر لیٹ گیا ۔اگلے دن سے اس کا رویہ بدلا ہوا تھا ،لوگوں کو بہت حیرت ہوئی جس نے بھی اُس سے کوئی کام کہا ، ادّھے نے پوچھا ، پیسے دوگے ؟“پیسے ؟ تمہیں پیسے کیا کرنے ہیں ؟؟؟؟کچھ بھی کروں ! ----------- “دھیرے دھیرے ادّھے کے صندوق میں کئی طرح کے نوٹ اور سکّے جمع ہونے لگے ۔یہ اصل بات سے پہلے کی بات ہے ---------- اور اصل بات یہ ہے کہ چھ مہینے بعد رادھا کی شادی ہوگئی ------- زور زور سے ریکارڈ بج رہے تھے ، اور موڑ سے بینڈ بجنے کی آواز آ رہی تھی ۔ادّھے کو برداشت کرنا مشکل ہوگیا ۔اُس کے تھرکنے والے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے ، وہ تیزی سے اُٹھا صندوق کے سارے پیسے نکالے اور چھتّر پور سوسائٹی کی ۔سی ۔ بلڈنگ کے تیرہ نمبر فلیٹ کا دروازہ جا کھٹکھٹایا ۔تیرہ نمبر فلیٹ میں ستّیہ رہتی تھی ۔اکیلی اور بدنام ۔ چھتّر پور سوسائٹی کے بیشتر لوگ چاہتے تھے کہ وہ وہاں سے چلی جائے کیونکہ بیشتر لوگ رات کو وقت بے وقت اُس کے فلیٹ سے نکلتے ہوئے یا اندر جاتے ہوئے دیکھے گئے تھے ۔ادّھے نے وہ سب دیکھا تھا ، سمجھا بھی تھا مگر خاموش رہا اور آج ۔۔۔۔۔۔۔۔ معلوم نہیں فلیٹ کے اندر کیا ہوا ، مگر ادّھا پورے سات گھنٹے بعد ستّیہ کے گھر سے نکلا جب رادھا کی ڈولی جا چکی تھی ۔اس کے بعد ادّھا اکثر وہاں جانے لگا لوگوں کو بہت برا لگا کہ ستّیہ نے ادّھے کے ساتھ بھی سمبندھ بنانے میں گریز نہ کیا ۔اور یہ بات انہیں برداشت نہیں ہوئی کہ جس عورت کے ساتھ ان کے سمبندھ ہوں ، اُس کے ساتھ اس بونے کے بھی تعلقات ہوں ، وہ چاہے ویشیا ہی کیوں نہ ہو ----------- بس ستّیہ کے خلاف پوری سوسائٹی گرم ہو گئی -------- ایک دو نوجوانوں نے ادّھے کو پیٹ بھی دیا -------- ادّھا تلملا اُٹھا ------- مار کھا کے وہ پھر ستّیہ کے یہاں پہنچا ۔وہ بستر پر لیٹی ہوئی تھی ۔شائد کچھ بیمار تھی ۔ادّھے نے سیدھے سپاٹ لفظوں میں کہا ۔“ ستّیہ میں تجھ سے شادی کرنا چاہتا ہوں ، ستّیہ نے اُس کی طرف دیکھا اور ، ہوں ۔ کہہ کے دوسری طرف کروٹ بدل لی۔ادّھے نے اُسے بازو سے پکڑ کے اپنی طرف کیا ۔“ کیوں ؟ مجھ سے شادی نہیں کرسکتی ، میں آدمی نہیں ہوں ؟؟؟؟ کیا تو بھی مجھے ۔۔۔۔۔۔ ادّھا سمجھتی ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟ستّیہ نے اُس کی طرف آنکھ بھر کے دیکھا اور کہا ۔“ مجھے سونے دے ادّھے ! میری طبعیت ٹھیک نہیں !ادّھے کے ہاتھ سے ستّیہ کی بانہہ چھوٹ گئی ، ٹھیک ہے ، پھر مر ! جہنم میں جا ۔“ یہ کہہ کے وہ گھوما دھڑاک سے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا اور سیڑھیاں اُتر گیا ۔اصل بات یہ بھی نہیں ہے کیونکہ اس کے بعد بھی سال بھر تک ادّھا چھتّر پور سوسائٹی میں ہی رہا ------ اُڑتی اُڑتی خبریں اُسے ستّیہ کے بارے میں ملتی رہتی تھیں ۔“ سی ، بلڈنگ سے گزرنا اُس نے قصداً کم کر دیا تھا ------ کسی نے اُسے بتایا ستّیہ کے بیٹا ہوا ہے ، اور یہ بات چھتّر پور سوسائٹی کے لوگ برداشت نہیں کر سکتے تھے ------ ستّیہ کے جان کے پیچھے پڑ گئے ------ اسے نکالو ------ فلیٹ چھوڑو ۔“ پھر بھی کسی طرح ستّیہ نے چھ مہینے نکال لیئے ۔اور یہ ابھی کل کی بات ہے کہ ادّھا اپنے راشن کا تھیلا پیٹھ پر لادے کمپاؤنڈ میں داخل ہوا ، اُس نے دیکھا ۔سی ۔ بلڈنگ کے نیچے بہت ساری بھیڑ جمع ہے ۔ اُس نے پوچھا بھی نہیں مگر کسی نے بتایا۔ستّیہ نے زہر کھا لیا ہے ۔“ادّھا تیزی کے ساتھ اوپر کی طرف بھاگا ۔وہ بھول گیا کہ اُس کی پیٹھ پر راشن کا تھیلا ہے اور وہ اُسے چھوڑ بھی سکتا ہے ------- جانے کیوں لوگ اُسے راستہ بھی دیتے رہے ------ اور آخر وہ تیرہ نمبر فلیٹ کے دروازے پر پہنچ گیا ۔اُس نے دیکھا ستّیہ کی لاش ابھی پلنگ پر ہی پڑی تھی اور چھ مہینے کا بچّہ لاش سے کھیل رہا تھا ۔سارے کمپاؤنڈ میں پروفیسر کی آواز گونج رہی تھی ، یہ بچّہ تم میں سے کون قبول کرے گا ؟؟؟؟ تم میں اتنی انسانیت تو ہے کہ چندہ کرکے لاش کو جلا دو گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس بچے کو ۔۔۔۔۔۔ میں پوچھتا ہوں کون قبول کرے گا ؟؟؟؟؟؟سب کے سب بت بنے کھڑے رہے ۔اچانک ادّھے کے ہاتھ سے راشن کا تھیلا نیچے پھسل گیا سب اُس کی طرف دیکھتے رہ گئے ------ اُس نے دھیرے دھیرے قدموں سے جاکر بچّے کو اُٹھایا اور بنا کسی طرف دیکھے اُسے کندھے سے لگائے ، بھیڑ میں سے گزرتا ہوا ، سوسائٹی کے کمپاؤنڈ سے باہر چلا گیا ۔پروفیسر کی آواز ابھی تک گونج رہی تھی ۔“تم سب ادھورے ہو ، آدھے ہو ، اور جسے تم ادّھا کہتے ہو ، دیکھو دیکھو وہ کتنا پورا ہے ، کتنا مکمل -



افسانہ: باسودے کی مریم
تحریر: اسد محمّد خان
آواز: ضیا ء محی الدین

مریم کےخیال میں ساری دنیا میں بس تین ہی شہر تھے۔مکہ،مدینہ اور گنج باسودہ۔مگر یہ تین تو ہمارا آپ کا حساب ہے،مریم کے حساب سے مکہ،مدینہ ایک ہی شہر تھا۔"اپنے حجور کا شہر"۔مکے مدینے سریپ میں ان کے حجور تھے اور گنج باسودے میں اُن کا ممدو۔
ممدو اُن کا چھوٹا بیٹا تھا۔اس کے رخسار پر "اِتّا بڑا" ناسور تھا۔بعد میں ڈاکٹروں نے ناسور کاٹ پیٹ کر رخسار میں ایک کھڑکی بنادی تھی جس میں سے ممدو کی زبان پانی سے نکلی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپتی رہتی تھی۔مجھے یاد ہے پہلی بار مریم نے اماں کو سرجری کا یہ لطیفہ سنایا تو میں کھی کھی کر کے ہنسنے لگا تھا۔اگر مریم اپنے کھردرے ہاتھوں سے کھینچ کھانچ کے مجھے اپنی گود میں نہ بھر لیتیں تو میری وہ پٹائی ہوتی کہ رہے نام اللہ کا۔"اے دلھین! بچہ ہے۔بچہ ہے ری دلھین! بچہ ہے۔"مگر اماں نے غُصّے میں دو چار ہاتھ جڑ ہی دیے جو مریم نے اپنے ہاتھوں پر روکے اور مجھے اُٹھا کر اپنی کوٹھری میں قلعہ بند ہوگئیں۔میں مریم کے اندھیرے قلعے میں بڑی دیر تک ٹھس ٹھس کر کے روتا رہا۔وہ اپنے اور میرے آنسو پونچھتی جاتی تھیں اور چیخ چیخ کر خفا ہورہی تھیں۔"اے ری دلھین،یہ اللہ کی دین ہیں۔۔۔۔۔۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتّی ہیں۔انہیں مارے گی،کوٹے گی تو اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھش ہوں گے تجھ سے؟؟توبہ کر دلھین! توبہ کر۔"
پھر وہ طرح طرح سے کھڑکی اور مچھلی والا لطیفہ سنا سنا کر مجھے بہلانے لگیں۔"تو بیٹا ڈانگدروں نے کیا کیا کہ حرامیوں نے ممدو کے گال میں کھڈکی بنادی اور کھڈکی میں سے تھرک،تھرک تھرک۔۔۔۔۔"مریم کا دل بہت بڑا تھا اور کیوں نہ ہوتا،اس میں ان کے حجور کا مکہ مدینہ آباد تھا اور سینکڑوں باسودے آباد تھے۔جن میں ہزاروں لاکھوں گل گتھنے ممدو اپنی گول مٹول مٹھیوں سے مریم کی دودھوں بھری ممتا پر دستک دیتے رہتے تھے۔"انّا بوا! دروازہ کھولو۔اللہ کی دین آئے ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی آئے ہیں۔"
مریم نے میرے ابا کو دودھ پلایا،وہ میری کھلائی اور میری پناہ تھیں،وہ میرے بھانجے بھانجیوں کی انّا تھیں اور ابھی زندہ ہوتیں تو انھی بھانجے بھانجیوں کے بچے اپنے چارج میں لیے بیٹھی ہوتیں۔میری تین پشتوں پر مریم کا احسان ہے۔
میں نے ایک بار مریم کے قلعے میں گھس کر ان کی پٹلیا سے گُڑ کی بھیلی چرالی۔مریم بچوں کو بگاڑنے والی مشہور تھیں۔مگر مجال ہے جو جرائم میں کسی کی حمایت کر جائیں۔انہوں نے فوری طور پر اماں سے میری رپورٹ کردی اور اماں،خدا انہیں خوش رکھے،جاگیردار کی بیٹی،کھری پٹھانی اپنی اولاد سے کوئی گھٹیا فعل منسوب ہوتے دیکھ ہی نہیں سکتیں۔انہوں نے جلال میں آکر اُلٹا مریم سے ان پولا کردیا۔
ابا کو پتہ ہی نہ تھا کہ گھر میں سرد جنگ جاری ہے۔وہ اس طرح عشاء کی نماز کے بعد پندرہ بیس منٹ کے لیے مریم کے پاس بیٹھ کر ان کا حال احوال پوچھتے،مریم کے پاو٘ں دابنے کی کوشش کرتے اور ان کی پیار بھری جھڑکیوں کی دولت سمیٹ کر اپنے کمرے میں سونے چلے جاتے۔
تین چار دن میری یہ دو جنّتیں ایک دوسرے سے برگشتہ رہیں اور میں گنہگار عذاب جھیلتا رہا۔اماں نے مریم کے دیکھ بھال میں کوئی کوتاہی تو نہ کی مگر مریم کا سامنا ہوجاتا تو اماں کے نازک خدوخال آپی آپ سنگ و آہن بن جاتے۔مریم زیادہ طر اپنی کوٹھری میں محصور رہیں اور شاید روتی رہیں۔آخر چوتھے پانچویں دن میں پھوٹ بہا اور پٹائی کے خوف سے بے نیاز ہوکر اماں کی گود میں سر رکھ کر میں نے اقبال جرم کرلیا۔اماں کے پاو٘ں تلے زمین نکل گئی۔بس ایک غضب کی نگاہ کی،مجھے ایک طرف دھکیل کر اُٹھ کھڑی ہوئیں اور بجلی کی سی تیزی سے مریم کےقلعے میں داخل ہوگئیں۔"انّا بوا! تمہارا منجھلا تو چور نکلا۔بوا! ہمیں معاف کردو۔"میں نے کواڑ کی آڑ سے دیکھا کہ مریم لرزتے ہاتھوں سے اماں کے دونوں ہاتھ تھامے انہیں چوم رہی ہیں۔کبھی ہنستی ہیں،کبھی روتی ہیں اور کبھی اماں کو چپت لگانے کا ڈراما کرتی ہیں۔"بس ری دلھین! بس کر،چپ ری دلھین! چپ کر۔دیکھ،میں مار بیٹھوں گی۔"
مریم سیدھی سادھی میواتن تھیں۔میری خالہ سے مرتے دم تک صرف اس لیے خفا رہیں کہ عقیقے پر ان کا نام فاطمہ رکھ دیا گیا تھا۔"ری دُلھین! بی بی پھاطمہ تو ایکئی تھیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم جی سرکار کی سہجادی تھیں،دنیا آکھرت کی باچھا تھیں۔ہم دوجخ کے کندے بھلا ان کی بروبری کریں گے۔توبہ توبہ استگپھار۔"
محرم میں نویں اور دسویں کی درمیانی شب خشوع و خضوع سے تعزیے،سواریاں اور اکھاڑے دیکھتیں،خوب خوب پاپڑ،پکوڑے کھاتیں کھلاتیں اور دسویں کو صبح سے "وجو بنا کے" بیٹھ جاتیں،ہم لڑکوں کو پکڑ پکڑ کر دن بھر شہادت نامہ سنتیں یا کلمہ طیبّہ کا ورد کرتیں،اور خدا مغفرت کرے،کلمہ شریف بھی جس طرح چاہتیں پڑھتیں: "لا الا ہا ال للا نبی جی رسول الا حجور جی رسول الا۔"
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا نام لے لے کر بین کرتیں،رو رو کر آنکھ سجا لیتیں اور بین کرتے کرتے گالیوں پر اتر آتیں۔"رے حرامیوں نے میرے سہجادے کو ماردیا۔رے ناس مٹوں نے میرے باچھا کو مار دیا۔"
محرم میں وہ ہم لڑکوں کو حسن،حسین کے فقیر بناتی تھیں۔ہمارے کرتے ہرے رنگ دیتیں۔گردنوں میں کلاوے ڈال دیتیں اور چھوٹی چھوٹی بٹونیاں سی کر ان میں دو دو آنے کے پیسے ڈال،سیفٹی پنوں سے ہمارے گریبانوں میں ٹانک دیتی تھیں۔
حق مغفرت کرے،ہمارے دادا میں مرحوم تھوڑے سے وہابی تھے۔ابا بھی ان سے کچھ متاثر ہیں پر محرم کے دنوں میں مریم کے آگے کسی کی وہابیت نہیں چلتی۔دس روز کے لیے تو بس مریم ہی ڈکٹیٹر ہوتیں۔مگر یہ ڈکٹیٹری بھی جیو،اور جینے دو کے اصول پر چلاتی تھیں،ہمیں فقیر بنا کر چپکے سے سمجھا دیتی تھیں،"دیکھ رے بیٹا! بڑے میاں کے سامنے متی جانا۔"
اور بڑے میں جی بھی،خدا ان پر اپنی رحمتوں کا سایہ رکھے،کمال بزرگ تھے۔ظاہرتو یہ کرتے تھے جیسے مریم کی ان باتوں سے خوش نہیں ہیں۔پر ایک سال محرم کے دنوں میں مریم باسودے چلی گئیں،ہمارے گھر میں نہ شہادت نامہ پڑھا گیا نہ ہائے حسین ہوئی نہ ہم فقیر بنے۔عاشورے پر ہم لڑکے دن بھر ہاکی کھیلتے رہے۔عصر کی نماز پڑھ کر دادا میں گھر لوٹ رہے تھے۔ہمیں باڑے میں دھوم مچاتے دیکھا تو لاٹھی ٹیک کر کھڑے ہوگئے۔"ابے کرشٹانو! تم حسن حسین کے فقیر ہو؟بڑھیا نہیں ہے تو جانگیے پہن کر ادھم مچانے لگے۔یہ نہیں ہوتا کہ آدمیوں کی طرح بیٹھ کر یٰسین شریف پڑھو۔"
یٰسین شریف پڑھو حسن،حسین کے نام پر،یٰسین شریف پڑھو بڑے میاں جی کے نام پر،یٰسین شریف مریم کے نام پر اور ان کے ممدو کے نام پر کہ ان سب کے خوبصورت ناموں سے تمہاری یادوں میں چراغاں ہے۔
مگر میں ممدو کو نہیں جانتا۔مجھے صرف اس قدر علم ہے کہ ممدو باسودے میں رہتا تھا اور ڈانگدروں نے اس کے گال میں کھڈکی بنا دی تھی اور اس کھڑکی کے پٹ مریم کی جنت میں کھلتے تھے،اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جب مریم بڑے سوز سے کھواجہ پیا جرا کھولو کِوڑیاں گاتی تھیں تو اماں کی کوئلوں جیسی آواز شامل ہوکر مجھ پر ہزار جنتوں کے دروازے کھول دیتی تھیں۔میں اماں کے زانو پر سر رکھ کر لیٹ جاتا اور خواجہ پیا کو سروں کے معصوم جھروکے سے درشن بانٹتے دیکھا کرتا۔سنا ہے میری اماں موج میں ہوتی ہیں تو اب بھی گاتی ہیں۔خدا انہیں ہنستا گاتا رکھے۔پر مریم کی آواز تھک کر سوچکی ہے یا شاید ایک لمبے سفر پر روانہ ہوچکی ہےاور مکے مدینے سریپ کی گلیوں میں پھول بکھراتی پھر رہی ہے یا باسودے کے قبرستان میں ممدو کو لوریاں سنا رہی ہے۔
سفر مریم کی سب سے بڑی آرزو تھی،وہ حج کرنا چاہتی تھیں۔ویسے تو مریم ہمارے گھر کی مالک ہی تھیں مگر پتا نہیں کب سے تنخواہ لے رہی تھیں۔ابا بتاتے ہیں کہ وہ جب اسکول میں ملازم ہوئے تو انہوں نے اپنی تنخواہ مریم کے قدموں میں لاکر رکھ دی۔مریم پھول کی طرح کھِل اُٹھیں۔اپنی گاڑھے کی چادر سے انہوں نے ایک چوّنی کھول کر ملازمہ کو دی کی جا بھاگ کر بجار سے زلے بیاں لیا۔مریم نے خود ان جلیبیوں پر کلمہ شریف پڑھا اور تنخواہ اور جلیبیاں اٹھا کر بڑے غرور کے ساتھ دادا میاں کے سامنے رکھ آئیں۔"بڑے میاں جی! مبارکی ہو۔دولھے میاں کی تنکھا ملی ہے۔"پھر اس تنخواہ میں سے وہ اپنی بھی تنخواہ لینے لگیں۔جو پتہ نہیں انہوں نے ایک روپیہ مقرر کی تھی کہ دو روپے۔
مریم کا خرچ کچھ بھی نہیں تھا۔باسودے میں ان کے مرحوم شوہر کی تھوڑی سی زمین تھی،جو ممدو کے گزارے کے لیے بہت تھی،اور بکریاں تھیں جن کی دیکھ بھال ممدو کرتا۔بڑا لڑکا شتاب خاں ریلوائی میں چوکیدار تھا اور مزے کرتا تھا۔برسوں کسی کو پتہ نہ چلا کہ مریم اپنی تنخواہوں کا کرتی کیا ہیں۔پھر ایک دن وہ ڈھیر سارے کل دار روپے،میلے کچیلے نوٹ اور ریزگاری اٹھائے ہوئے ابا کے پاس پہنچیں اور انکشاف کیا کہ وہ حج کرنے جارہی ہیں۔کرائے کی یہ رقم ان کے برسوں کی کمائی تھی۔ یہ مکہ مدینہ فنڈ تھا جو مریم خبر نہیں کب سے جمع کر رہی تھیں۔ابا نے گن کر بتایا کہ نو سیکڑے،تین بیسی سات روپے کچھ آنے ہیں۔مریم کو اس سے غرض نہیں تھی کہ یہ کتنے ہیں،وہ تو سیدھی سی بات پوچھ رہی تھیں کہ ان سے مکے مدینے کا ٹکس مل جائے گا یا نہیں۔ابا نے بتایا کہ بیشک مل جائے گا۔
مریم نے تیاریاں شروع کردیں۔وہ اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے گنگناتی رہتیں کہ کھواجہ پیا جرا کھولا کِوڑیاں۔ان پر مکے مدینے کی کھڑکیاں کھلی ہوئی تھی اور ان کھڑکیوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جی کے مقدس پیراہن کی خوشبو چلی آرہی تھی۔کسی نے چھیڑنے کو کہہ دیا کہ تم کو ڈھنگ سے نماز پڑھنی تو آتی نہیں،قران شریف تو یاد نہیں ہے،پھر حج کیسے کروگی؟
مریم بپھر گئیں۔"رے مسلمان کی بٹیا،مسلمان کی جورو ہوں۔نماج پڑھنا کاہے نئیں آتی۔رے کلمہ سریپ سن لے،چاروں کُل سن لے۔اور کیا چیے تیرے کو؟ہاں اور کیا چیے؟"پھر ان کے دل میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم جی کے پیار کا چمن بھی کھلا ہوا تھا کہ یہی بہت تھا۔
مگر ایک دن شتاب خاں کا خط آیا کہ ممدو کی حالیت کھراب ہے،بکریاں بیچ بانچ کے علاج مالجہ کرایا،جمین گروی رکھ دی۔اب بالکل پیسے نئیں ہیں۔صورت دیکھنا چاہتی ہے تو خط کوتار سمجھنا۔مریم کی آنکھوں میں مکہ مدینہ دھندلا گیا۔انہوں نے نو سینکڑے،تین بیسی،سات روپے چادر میں باندھے اور روتی پیٹتی باسودے کی بس میں جا بیٹھیں۔ابا ساتھ جانا چاہتے تھے انہیں سختی سے منع کردیا۔
ممدو تو ان کی ذمہ داری تھا،وہ کسی اور کو کیوں اس میں شریک کرتیں۔مریم کا یہ اصول بڑا سفاک تھا۔انہوں نے باسودے خیریت سے پہنچنے کا خط تو لکھوادیا پر ممدو کے بارے میں ایک لفظ نہیں لکھوایا۔مہینے گزر گئے،کسی نے بتایا کہ وہ ممدو کو علاج کے لیے اندور لے گئی ہیں،پھر پتہ چلا کہ بمبئی میں صابو صادق کی سرائے میں نظر آئی تھیں،پھر پتہ چلا کہ ممدو مرگیا ہے۔پھر ایک لٹی لٹائی مریم گھر لوٹ آئیں۔
میں اسکول سے گھر پہنچا تو دیکھا کہ مریم صحن میں بیٹھی اپنے مرے ہوئے بیٹے کو کوس رہی ہیں،"رے حرامی تیرا ستیاناس جائے رے ممدو! تیری ٹھٹھری نکلے۔اورے بدجناور تیری کبر میں کیڑے پڑیں۔میرے سبرے پیسے کھرچ کرادیے۔اے ری دلھین! میں مکے مدینے کیسے جاو٘ں گی۔بتا ری دلھین! اب کیسے جاو٘ں گی۔"
ابا نے کہا،"میں تمہیں حج کراو٘ں گا۔"
اماں نے کہا "انّا بوا ہم اپنے جہیز والے کڑے بیچ دیں گے،تمہیں حج کرائیں گے۔"
مگر مریم چپ نہ ہوئیں،دو دن تک روتی رہیں اور ممدو کو کوستی پیٹتی رہیں۔لوگوں نے سمجھایا کہ آخر دولھے میاں بھی تمہارا ہی بیٹا ہے،وہ اگر تمہیں حج کرواتا ہے تو ٹھیک ہے،مان کیوں نہیں جاتیں؟مگر مریم تو بس احسان کرنا جانتی تھیں،کسی بیٹے کا احسان بھی اپنے سر کیوں لیتیں۔انہوں نے تو اپنی کمائی کے پیسوں سے حج کرنے کی ٹھانی تھی۔
ممدو کے مرنے کے بعد مریم شاید ایک دفعہ اور باسودے گئیں اپنی زمین کا تیا پانچہ کرنے پھر اس کے بعد باسودے کا زوال شروع ہوگیا۔مریم کے چوڑے چکلے میواتی سینے میں بس ایک ہی شہر بسا رہ گیا۔ان کے حجور کا سہر۔وہ اٹھتے بیٹھتے "نبی جی،حجور جی" کرتی رہتیں۔کبھی یوں لگتا کہ انہیں قرار سا آگیا ہے۔شاید اس لیے کہ ان کے بھولے بھالے منصوبہ کار ذہن نے ایک نیا مکہ مدینہ فنڈ کھول لیا تھا۔
ابا نے بڑے شوق سے لحاف سلوا کر دیا،مریم چپکے سے جاکر بیچ آئیں۔عید آئی،مریم کے بھی کپڑے بنے،خدا معلوم کب،کتنے پیسوں میں وہ کپڑے بیچ دیے۔ابا اماں سمیت،ہم سب کو جو ایک ایک آنہ عیدی دیتی تھیں،فوری طور پر بند کردی۔پیسا پیسا کرکے پھر مکہ مدینہ فنڈ جمع ہورہا تھا۔سب ملا کر پانچ سو ساٹھ روپے ہی جمع ہوئے تھے کہ مریم کا بلاوا آگیا۔مجھے معلوم نہیں کہ کب اور کس طرح چل بسیں۔میں گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنی خالہ کہ گاو٘ں گیا ہوا تھا،واپس آیا تو اماں مجھے دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں،"منجھلے! تیری انْا بوا گزر گئیں۔لڑکے! تجھے بگاڑنے والی گزر گئیں۔"
ابا نے مجھے حکم دیا کہ میں مریم کی قبر پر ہو آو٘ں،میں نہیں گیا۔میں کیوں جاتا،ٹھنڈی مٹی کے ڈھیر کا نام تو مریم نہیں تھا۔میں نہیں گیا۔ابا ناراض بھی ہوئے مگر میں نہیں گیا۔
لوگوں نے بتایا کہ مریم نے مرتے وقت دو وصّیتیں کی تھیں۔ایک وصّیت تو یہ تھی کہ تجہیز و تکفین اُنھی کے پیسوں سے کی جائے اور باقی کے پیسے شتاب خان کو بھیج دیے جائیں۔دوسری وصّیت کا صرف امآں کو علم تھا۔اماں کے کان میں انہوں نے مرت وقت کچھ کہا تھا جو اماں کسی کو نہیں بتانا چاہتی تھیں۔
میں یہاں آگیا۔پندرہ برس گزرگئے۔65ء میں ابا اور اماں نے فریضہ حج ادا کیا۔اماں حج کر کے لوٹیں تو بہت خوش تھیں۔کہنے لگیں،"منجھلے میاں! اللہ نے اپنے حبیب کے صدقے میں حج کرادیا۔مدینے طیبہ کی زیارت کرادی اور تمہاری انّا بوا کی دوسری وصّیت بھی پوری کرائی۔عذاب ثواب جائے بڑی بی کے سر۔ہم نے تو ہرے گنبد کی طرف منہ کر کے کئی دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! باسودے والی مریم فوت ہوگئیں۔مرتے وخت کہہ رئی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جی سرکار! میں آتی ضرور مگر میرا ممدو بڑا حرامی نکلا۔میرے سب پیسے خرچ کرادیے
















خاموش چیخیں



رضیہ فصیح احمد

میرے اندر کوئی کہہ رہا تھا ’’بھاگو بھاگو‘ یہ تمہارے بس کا روگ نہیں۔ تم تنہا اسے نہیں جھیل سکتیں۔ تم کمزور ہو اور یہ بڑا جھمیلاہے۔‘‘
مگر میرا دل پکار رہا تھا ’’بڑا ہو یا چھوٹا‘ اب صرف تم یہاں ہو اور تمھیں ہی جھیلنا ہے اسے۔ سیمیں بی بی‘ کمزور ہونے کے بہت مواقع آئیں گے۔ گھر میں چوہیا نکل آئے تو ہائے وائے کر لینا‘یہ بہادر بننے کا وقت ہے کہ ایک زندگی کاسوال ہے۔ تم نے بچے کی آواز اپنے کانوں سے سنی ہے۔ اگر وہ بند ہو گئی تو کیا تم زندگی بھر خود کو معاف کر سکو گی؟‘‘ دل سے دُوبہ دُو تو ہوتی رہتی تھی مگر ایسا نازک وقت اس سے پہلے نہیں آیا تھا۔
’’اچھا صرف ایک منٹ‘ اسے آکسیجن مل جائے‘ اس کے بعد میری ذمے داری نہیں۔‘‘ میں نے سوچا۔
کبھی کبھی نجانے کون کھینچ کر مجھے ایسی جگہ لے جاتا ہے جہاں جانے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہوتا؟ دل سے نبردآزمائی اس بات پر بھی ہوئی تھی کہ میں نے کہا ’’کل سے باقاعدہ چہل قدمی شروع کروں گی کہ آج تو اندھیرا ہو چلا ہے۔‘‘
دل نے کہا ’’بزرگوں نے کہا ہے کہ کل کبھی نہیں آتا۔‘‘
میں نے کہا ’’ارادہ مضبوط ہو اور دل میں کھوٹ نہ ہو تو کل ہمیشہ آتا ہے۔‘‘
دل نے کہا ’’ ارادہ مضبوط ہو اور دل میں کھوٹ نہ ہو تو آدمی کام آج سے شروع کرتا ہے نہ کہ کل سے اور چھوٹے موٹے بہانے تلاش نہیں کرتا۔‘‘
میں نے کہا ’’چلو آج ہی سے سہی۔ ابھی اتنی روشنی ہے کہ اپارٹمنٹ کمپلیکس کا ایک چکر لگایا جا سکے۔‘‘
’’بسم اللہ …‘‘ دل نے خوش ہو کر کہا۔
اب سوچا کہ چلو احتیاطاً پڑوسن سے بھی پوچھ لیں کہ اکثر ساتھ ٹہلنے جانے کا ذکر کرتی ہے۔ پڑوسن کے اپارٹمنٹ کی گھنٹی بجائی اور ساتھ چلنے کو کہا۔ جواب ملا‘ آج نہیں‘ آج میرے پاس کمپنی ہے‘ مطلب یہ کہ کوئی بیٹھا ہے۔ میں نیچے اتر آئی۔
اس کمپلیکس میں کئی عمارتیں تھیں اور سب کا طرز تعمیر ایک جیسا تھا۔ سب کے آگے لان تھے‘ پیچھے کار پارکنگ اور ہر دو عمارتوں کے درمیان ایک بڑا سا ڈمسٹر یا کوڑا گھر جس میں کوڑا کرکٹ ایک ہفتہ تک سمایا رہتا۔ ہمارا کمپلیکس آخری تھا‘ اس لیے حد بندی کے خار دار تار نصب تھے اور اس سے آگے جنگل۔
مجھے ہلکی سی آواز ‘ بہت ہلکی‘ کوڑے گھر کے پاس سے آئی۔ شاید بلی کی تھی۔ یہ گائوں ہی تو تھا۔ آوارہ بلیاں جو شہروں میں نظر نہیں آتیں‘ یہاں دکھائی دے جاتی تھیں۔ اپنے ملک میں کوڑے کے آس پاس بلی اُعجوبہ نہیں مگر امریکا میں جہاں انھیں بلور کے برتنوں میں کٹا ہوا قیمہ‘ وٹامن ملے گوشت اور کھیلنے کے لیے پلاسٹک کے چوہے اور ہڈیاں فراہم کی جاتی ہیں‘ وہ کوڑا گھر میں کیوں جھانکیں؟
یہ سوچتی آگے بڑھی کہ واقعی کوئی آفت کا مارا بلی کا بچہ پھنس گیا ہے تو اس کی مدد کر دوں۔ دوسری آواز… می می‘ بالکل میائوں بھی نہیں تھی۔ یہ یقین ضرور ہوا کہ آواز کوڑے ہی سے آ رہی ہے۔ کوٹھڑی برابرکوڑا گھر سے باہر نکالنا میرے بس میں بھی ہو گا یا نہیں‘ یہ بعد کی بات ہے‘ دیکھ تو لوں۔
قریب پہنچی تو آواز بند ہو چکی تھی۔ اونچے کوڑا گھر میں اچک اور جھانک کر دیکھا‘ بلی نہیں تھی۔ دفعتہ نحیف سی آواز پھر آئی۔ یہ وہاں پڑے بڑے بڑے کالے تھیلوں میں سے کسی ایک تھیلے سے آئی تھی۔ تو کیا بلی تھیلے میں بند ہے؟
تب ہی دل نے کہا ’’بچی کیوں بن رہی ہو‘ یہ کسی نوزائیدہ بچے کی آواز ہے۔‘‘
دوبارہ کان لگا کر سنا‘ دل ٹھیک کہہ رہا تھا۔ کسی نوزائیدہ بچے کی آواز تھیلے کے اندر سے آ رہی تھی۔ گھٹی‘ گھٹی‘ اگر اسے فوراً نہ کھولا گیا تو آکسیجن کی کمی سے مر جائے گا غریب۔ میرے اندر کوئی کہہ رہا تھا۔ ’’بھاگو بھاگو‘ کس مصیبت میں پڑ رہی ہوںاور دل کہہ رہا تھا ’’ایک زندگی کا سوال ہے۔ بچہ مر گیا تو ساری زندگی خود کو کیا منہ دکھائو گی؟‘‘
خیالات کی یلغار نے مجھے دبوچ لیا… بچے کو نکالوں‘ پولیس کو اطلاع دوں‘ کسی کو مدد کے لیے بلائوں؟
اندھادھند نزدیک ترین کمپلیکس اپارٹمنٹ کی طرف بھاگی۔ اندر جانے والا دروازہ مقفل تھا۔ ڈاک کے ڈبوں پررہنے والوں کے نام لکھے تھے۔ ہر اپارٹمنٹ کا دروازہ کھولنے کے لیے ایک گھنٹی کا بٹن تھا۔ میں ان اپارٹمنٹس میں کسی کو نہیں جانتی تھی۔ یوں ہی بٹن دبایا۔ کسی کے آنے کی اُمید نہیں تو دروازہ بھی نہیں کھلے گا۔ پھر بھی موہوم سی اُمید میں جلدی جلدی سارے بٹن دبائے مگر کوئی دروازہ نہیں کھلا۔
کچھ دن پہلے لوگ کھول بھی دیتے تھے۔ لیکن ایک شرابی نے یہ وتیرہ اپنا لیا کہ اپنے اپارٹمنٹ میں جانے کے لیے کسی بھی گھر کا بٹن دبا کر اندر داخل ہو جاتا۔ پھر نشے میں جس گھر کو اپنا سمجھتا‘ وہاں گھنٹیاں بجا بجا کر لوگوں کا ناطقہ بند کر دیتا۔ اگر وہ اپنی عمارت میں پہنچ کر صحیح جگہ کی گھنٹی بھی بجاتا تو دروازہ نہ کھلتا کہ اس کی دھرم پتنی نے طلاق کا مقدمہ ٹھونک کر شوہر سے تحفظ کا پروانہ لے رکھا تھا۔ وہ نیک بخت پولیس کو بلا لیتی اور رات کوپولیس اسٹیشن اس کا ٹھکانا ہوتا۔
چناںچہ اب کوئی دروازہ نہیں کھولتا تھا۔ یہ بات یاد آتے ہی میں پھر باہر بھاگی۔ بھاگتے ہوئے سوچا ’’کمپلیکس کے دفتر تو اس وقت کوئی ہو گا نہیں‘ گھر سے فون کروں تو تین منزل چڑھنے تک اس گھٹی گھٹی آواز پر کیا گزرے گی؟‘‘
آخری فیصلہ … بچے کو خود نکالو۔ کوئی قانونی اڑچن تو نہ ہو گی؟ بلا سے ہو۔ کوڑے کے ڈھیر سے پھول سے بچے کو نکال سکو گی‘ کبھی پہلے یہ کام کیا ہے؟ جس نے ڈالا ہے‘ اس نے دیکھ لیا تو ٹیٹوا دبا دے گا اور پولیس کہیں یہ نہ کہے کہ تم نے اغوا کیا اور مار ڈالا؟
’’چپ چپ! یہ بولنے نہیں‘ کام کا وقت ہے۔ دیکھو میرے ہاتھ پہلے ہی کانپ رہے ہیں‘ ہونٹ موٹے ہو گئے‘ زبان بھاری ہو چکی ‘ بس اب نہ بولنا۔ اپنے اندر اٹھنے والی آوازوں کو چپ کرانا بھی بڑا کام تھا۔ میں نے تھیلے ٹٹولے‘ آواز پھر بند ہو گئی تھی۔
’’بھاگو بھاگو‘ بچہ مر چکا۔‘‘
’’چپ‘ چپ‘ آواز آ رہی ہے‘ ہلکی ہو گئی ہے۔‘‘
’’جب تک نکالو گی‘مر ہی جائے گا۔‘‘
می… می… می… آواز آخری تھیلے سے آ رہی تھی۔ جیسے تیسے کھینچ کر نکالا۔ خاصا بھاری تھا‘ کمر نے احتجاج کیا۔ مختلف اعضا مختلف اوقات میں احتجاج کرتے رہے۔ کم بخت یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ایمرجنسی ہے‘ باغیانہ ذہنیت لے کر پیدا ہوئے ہیں۔
چاند کی روشنی اتنی ہلکی تھی جیسے کسی ٹارچ کے سیل ختم ہو گئے اور پیلی روشنی آخری ہچکیاں لے رہی ہو۔ کانپتے ہاتھوں سے تھیلے میں لگی گرہ کھولنے کی کوشش کی‘ نہیں کھلتی کم بخت۔ تھیلے کو پھاڑنے کی کوشش کی۔
می… می… جیسے کوئی ہمت بندھا رہا ہو۔ مگر گٹھیا زدہ کلائی اور انگلیاں احتجاج کرنے لگیں۔ مریں کم بخت‘ میں تو کھول کر دم لوں گی۔ میں پھر گرہ کھولنے لگی۔ اتنی دیر میں نظر آیا کہ تھیلا کئی جگہ سے تھوڑا تھوڑا کٹا ہوا ہے۔ وہاں سے پھاڑنے میں یقینا آسانی ہو گی۔
اندھیرا اب نیچے اُتر آیا تھا۔ شفق رنگ اندھیرے میں ڈوب گئے تھے۔ خاردار تار‘ کھمبے اور عمارتوں کے ٹیڑھے میڑھے سائے ماحول کو پراسرار بنا رہے تھے کہ اتنے میں ایک سایہ میری طرف بڑھا۔ میں ڈر کر چیخ مارنے والی تھی کہ آواز آئی ’’امی!‘‘ بیٹا میری تلاش میں نکل آیا تھا۔
’’فرمان‘ جلد آئو‘ ڈمسٹر کے پاس‘ جلدی۔‘‘
فرمان بھاگتا ہوا آیا ’’یہاں کیا کر رہی ہیں آپ؟‘‘ وہی احتجاج‘ اب بیٹے کی طرف سے۔
’’دیکھو‘ اس تھیلے میں کوئی بچہ ہے‘ میں اسے نکال رہی ہوں۔‘‘
’’خدا کے لیے آپ نہ نکالیے۔‘‘ وہ رونے والا ہو گیا۔
’’کیوں‘ کیوں نہ نکالوں؟‘‘
’’پولیس کو فون کیجیے۔‘‘
’’تم کرو‘ مجھے کوشش کرنے دو‘ ورنہ وہ مر جائے گا یا تم نکالو تو میں گھر جا کر فون کرتی ہوں۔‘‘
آخری بات سنتے ہی وہ گھر کی طرف بھاگا۔ میں نے چلا کر کہا ’’ایک ٹارچ اور تولیہ لے کر واپس آنا۔‘‘
میرے ہاتھ تھیلا پھاڑنے میں مصروف تھے۔ آخر خاصا بڑا سوراخ کر دیا۔ جھانک کر دیکھا… مڑے تڑے کاغذ‘ ڈبل روٹی کے ٹکڑے‘ پھلوں کے چھلکے اور بیج‘ شیشے کے ٹکڑے اور منا سا بچہ۔ مجھے یک دم سردی سی لگی اور میں سر سے پیر تک کانپنے لگی۔
بیٹا ٹھیک کہتا تھا‘ نہیں دل ٹھیک کہتا تھا‘ اب کیا کروں؟ بچے کو اپنے دوپٹے میں لیے میں تھرتھرکانپ رہی تھی۔ اسے نکالتے ہوئے ہاتھوں میں جو چپچپاہٹ محسوس ہوئی، وہ بڑی لرزہ خیز تھی۔ بہت دور درخت کی ایک شاخ کے بیچ چاند بندھا سا لٹکا تھا۔ چاند کی ہلکی روشنی میں یہ پتا چلنا محال تھا کہ یہ چپچپاہٹ پیدائش کے خون کی تھی یا شیشے کے ٹکڑوں نے بچے کے بدن پر زخم ڈال دیے تھے۔
میرے جسم کی گرمی اسے بھلی لگی یا کیا کہ وہ خاموش ہو گیا اور ساکن بھی۔اوپر کھڑکی سے روشنی کی رمق آئی۔ کسی کو باتوں کی آواز سے کچھ شبہ ہوا یا شاید کوئی میری طرح کھڑکی سے جھانکنے کا شوقین تھا۔ فرمان اب تک نہیں لوٹا تھا۔ مائوں کی رکھی ہوئی چیزیں ویسے بھی بچوں کو آسانی سے نہیں ملتیں۔ میرے پاس انتظار کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ہوا سائیں سائیں کر رہی تھی‘ لگتا تھا درخت صورت حال جاننے کو کئی قدم نزدیک کھسک آئے ہیں۔
جیسے ہی فرمان ٹارچ اور تولیہ لے کر آیا‘ سڑک پر ٹیائوں ٹیائوں کرتی ایمبولینس کی آواز گونجی۔ پھر ایمبولینس‘ فائر انجن اور پولیس کی گاڑیاں آ کھڑی ہوئیں۔ میری جان میں جان آئی۔ بچے کو ایک سیکنڈ ضائع کیے بغیر وہ ایمبولینس میں ڈال کر لے گئے۔ آگ بجھانے والا انجن بھی چلا گیا۔ پولیس والوں نے میر ابیان لکھا‘ جائے وقوع کی تصویریں لیں۔ وہ کوڑے گھر کی حد بندی کر رہے تھے‘ جب ہم ماں بیٹا ان سے اجازت لے کر گھر واپس آئے۔
گھر کی تین سیڑھیاں چڑھ کر سرخ پتھر پر فرمان دونوں ہاتھوں سے منہ چھپائے بیٹھ گیا۔ میں نے چہرے سے ایک ہاتھ اٹھا کر اپنے ہاتھ میں لیا تو یوں لگا جیسے پگھلتا برف کا ٹکڑا تھام لیا ہو۔اس کے چہرے کی پیلاہٹ پورے چاند نما ہنڈے کی روشنی میں اور نمایاں ہو گئی تھی۔ خاردار تار پار جنگل میں کسی بھٹکے جگنو کی روشنی امیدوں کی طرح ٹمٹما کر بجھ بجھ جاتی تھی۔
میرے بہت کہنے پر بھی فرمان نہیں اٹھا بلکہ ایسی رکھائی سے کہا جس سے وہ آج تک مجھ سے نہیں بولا تھا ’’خدا کے لیے آپ اندر جائیے اور مجھے اکیلا چھوڑ دیجیے۔‘‘
تب ہی ایک خیال میرے ذہن میں کوندا۔ اس پڑوسن نے جو میرے ساتھ ٹہلنے نہیں گئی تھی‘ مجھے بتایا تھا ’’جب تمہارا بیٹا اکیلا رہتا تھا تو ایک امریکی لڑکی اکثر اس کے ساتھ نظر آتی۔ اس کمپلیکس کی عمارت کا ہر پہلا گھر ایک بیڈ روم کا تھا۔ اس میں کمپلیکس کے ملازمین یا کالج یونیورسٹی کے لڑکے لڑکیاں رہتے تھے۔ وہ بھی ایسے ہی کسی اپارٹمنٹ میں تھی مگر اب بہت دنوں سے نظر نہیں آئی۔ ایک مرتبہ کسی اسٹور میں ملی تو ماں بننے والی تھی۔‘‘
میں نے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی کہ ممکن ہے اس کی کوئی ہم جماعت ہو۔ ماں بننا یہاں کوئی اُعجوبہ تو ہے نہیں۔ میں تو جب اس گھر میں آئی تھی‘ میں نے کسی لڑکی کو بیٹے کے ساتھ نہیں دیکھا۔ اور میرا خیال تھا کہ وہ مجھ سے کچھ نہیں چھپاتا۔ اس نے خود مجھے بلایا تھا تاکہ میں گھر کے کام کاج کر دیا کروں۔
گھر جانے سے پہلے میں نے پڑوسن کی گھنٹی بجائی۔ اسی نے دروازہ کھولا۔ ایک گنجا موٹا مرد سامنے بیٹھا نظر آ رہا تھا۔ پڑوسن بھی سجی سجائی تھی۔ بال جو عام حالات میں خاصے پراگندہ رہتے‘ سنورے ہوئے تھے۔ شاید وہ کہیں باہر کھاناکھانے کا پروگرام بنائے ہوئے تھے۔ میں نے دخل در معقولات کی معافی مانگی اور پوچھا‘ اس لڑکی کا نام کیا ہے جس کے ساتھ میرے بیٹے کی دوستی تھی؟
یہ کہہ کر اُس نے تڑاق سے دروازہ بند کر دیا۔
’’مجھے نہیں معلوم۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی دوستی تھی۔‘‘
رہ رہ کر خیال آتا‘ جائوں بیٹے سے کچھ پوچھوں۔ مگر کیا پوچھوں؟ اب تو دل بھی دم سادھے پڑا تھا‘ کچھ نہ بولتا تھا… رات بھر سوتی جاگتی رہی۔ طرح طرح کے برے خواب دیکھتی رہی۔ رات بھر گھر کے سامنے لگا صنوبر کا درخت ٹیرس کے جنگلے پر ہاتھ مارتا رہا اور میں چونک چونک کر اٹھتی رہی۔ ایک مرتبہ آنکھ کھلی تو بے چین ہو کر اٹھی اور بیٹے کے دروازے تک گئی۔ یوں لگا جیسے اندر کوئی سسکیاں لے رہا ہو۔ نہیں شاید پنکھا چل رہا ہے۔
پھر میں نے کچھ نہیں سوچا نہ دل کو بولنے کی مہلت دی‘ برائے نام دروازہ کھٹکھٹا کر جھٹ اندر داخل ہو گئی۔ بجلی کا بٹن دبایا کہ میں اسے اور وہ مجھے دیکھ لے۔ میرا خیال تھا کہ وہ جاگ رہا ہے‘ مگر وہ ہڑبڑا کر اٹھا اور آنکھیں ملیں۔ مجھے یقین ہو گیا کہ وہ سو رہا تھا مگر اب واپسی کی کشتیاں جل چکی تھیں۔
’’کیا بات ہے امی؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ایک بات میرے ذہن پر سوار ہے‘ تم سے پوچھنا چاہ رہی تھی۔‘‘
’’رات کے دو بجے؟‘‘ اس نے گھڑی کی طرف دیکھا۔
’’مجھے نیند نہیں آ رہی تھی اور جب تک یہ بات صاف نہیں ہوتی‘ مجھے نیند نہیں آئے گی۔ تم میری عادت جانتے ہو۔ اس لیے یہ بات ابھی پوچھنا چاہتی ہوں۔‘‘
وہ چپ رہا۔ میں انتظار کرتی رہی کہ کہے ’’پوچھیے‘‘ مگر وہ کچھ نہ بولا۔‘‘
بغیر کسی تیاری کے میرے منہ سے نکلا ’’کیا وہ تمہارا بچہ تھا؟‘‘
فرمان کا منہ کھلا اور کھلے کا کھلا رہ گیا۔ پھر چہرہ سرخ ہونا شروع ہوا‘ دیکھتے دیکھتے گلنار ہو گیا اور کان جیسے جلتے انگارے۔ میں اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ڈر رہی تھی کہ مجھے تو سچ سننا تھا… میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا… بیک وقت غصہ‘ رحم‘ بے اعتباری اور دکھ… رنج کی وہ پرچھائیاں جنھیں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ پھر وہ رونے لگا۔ میری گود میں سر ڈال کر کہنے لگا ’’آپ مجھے اتنا برا سمجھ سکتی ہیں‘ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔‘‘
نہیں معلوم کیوں میں سر سے پیر تک کانپ گئی۔
میں نے کہا ’’بیٹا معاف کرنا‘ اس بچے کو دیکھ کر تمہاری جو کیفیت تھی‘ تو جانے کیوں خیال آیا کہ…‘‘
’’مجھے تو یہی خیال آتا رہا‘ کہیں وہ مر نہ گیا ہو… کیاوہ زندہ تھا امی؟‘‘
’’میں یقین سے نہیں کہہ سکتی‘دعا تو یہی کر رہی ہوں مگر یہ میرے سوال کا جواب تو نہیں۔‘‘
’’میں یہ بھی سوچتا رہا کہ… کہ وہ میرا بھی ہو سکتا تھا۔‘‘
’’کیا مطلب ؟‘‘
’’ڈیڑھ سال ہوا‘ آپ کے آنے سے پہلے میں نے ایک امریکی لڑکی سے ’’کاغذی شادی‘‘ کر لی تھی۔ میں اسے بتاتا رہتا کہ ابا کے انتقال کے بعد آپ نے کتنی مشکلوں سے میری پرورش کی ہے‘ میری خواہش پر مجھے پڑھنے امریکا تک بھیجا ہے۔ میں کسی طرح اپنی ماں کو ناخوش نہیں کر سکتا۔ میں نے اسے یہ بھی بتایا‘ آپ ایمان کی حد تک یقین رکھتی ہیں کہ اگر میں نے کسی امریکی لڑکی سے شادی کی تو مجھے کھو دیں گی۔اس لیے ابھی میں اُنھیں تمہارے متعلق نہیں بتا سکتا اور نہ تعلیم کے دوران بچے کا بار اُٹھا سکتا ہوں۔
’’ جب میں نے کئی بار اس سے اسقاط حمل کی بات کی تو وہ ناراض ہو گئی۔ اب چھے مہینے کے بچے کو وہ اکیلی پال رہی ہے۔ مجھ سے بات تک نہیں کرتی۔ مگر میں اپنے بیٹے کو دیکھ آتا ہوں‘امی وہ اتنا پیارا ہے کہ کیا بتائوں… کل اس بچے کو دیکھ کر خیال آیا کہ وہ میری بات مان لیتی تو میرا بیٹا بھی اسپتال کے کوڑا گھر کی نذر ہو جاتا۔‘‘ وہ سسکیاں لینے لگا۔ میں بھی رونے لگی۔
تھوڑی دیر بعد میں نے اس کا سر تکیے پر رکھ کر کہا ’’تم سو جائو‘ میں بھی اب تھوڑی دیر لیٹوں گی۔‘‘
وہ میری طرف دیکھتا رہا۔ جب بچہ تھا تو ایسی ہی امید بھری نظروں سے دیکھتا کہ میں اسے دوسری ٹافی دوں گی یا نہیں؟ میں اُٹھ کر جانے لگی تو بولا ’’امی کیا کل ہم جمی اور اس کی ماں کو یہاں لے آئیں؟‘‘ اس کی آنکھوں میں امید کے چراغ روشن تھے۔
’’نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
اس کی آنکھوں کے چراغ بری طرح ٹمٹمانے لگے۔
میں دروازہ اور روشنی بند کر کے ٹیرس پر چلی آئی۔ لکڑی کا فرش اور جنگلا تر تھا‘ جیسے رات روتے رہے ہوں۔ چاند اوپر آ گیا تھا۔ کوڑا گھر کے چہار طرف لگا زرد ٹیپ پھڑپھرا رہا تھا۔ میرے ذہن میں می می کی آواز ابھری‘ پھر دو معصوم بچوں کی خاموش چیخیں جیسے میرے سینے میں سلاخوں کی طرح گڑ گئیں۔ مجھے اس بہادر لڑکی کا خیال آیا جو میرے پوتے کو محبت سے تنہا پال رہی تھی۔ اگر وہ مجھے چھوڑ بھی دے‘ میں اسے نہیں چھوڑ سکتی تھی۔
میں فوراً یہ بات فرمان کو نہیں بتانا چاہتی تھی۔ عورت ہونے کے ناتے میری تمنا تھی کہ اُسے تھوڑی سی سزا مل جائے۔
’’لیکن یہ تو سوچو اتنی بڑی قربانی اس نے صرف تمہاری خاطر دی… صرف تمہاری خوشی کی خاطر‘ صرف تمہاری خوشی کی خاطر۔‘‘ دل پھر بولنے لگا۔
مجھ سے صبر نہیں ہوا‘ میں دوبارہ اُس کے کمرے میں گئی‘دروازہ کھولا اور کہا ’’سنو فرمان! جب تک میں اپنے پوتے کے لیے نرسری بنا لوں اور بہو کو دلہن بنا کر لانے کا انتظام نہ کر لوں‘ اسے کیسے لا سکتی ہوں!‘


 

0 comments:

Post a Comment