اردو لٹریچر

گرل فرینڈ

آپ کسی کی گرل فرینڈ ہیں تو آپ خوش قسمت ہیں اور اگر نہیں تو پھر وہ خوش قسمت ہے
ہمارا مشاہدہ ہے کہ گرل فرینڈ بنانے کے بڑے فائدے ہیں۔ بندہ بے شک ساری زندگی گھر میں کدو گوشت کھاتا رہے
لیکن جیسے ہی اس کی کوئی گرل فرینڈ بنتی ہے، وہ اچانک پیزا کھانے لگتا ہے، کپڑے استری کرنے لگتا ہے اور ہر چوتھے روز نہانے بھی لگتا ہے۔
یہی حال لڑکی کا بھی ہوتا ہے۔ آپ نے آج تک کسی ایسی گرل فرینڈ کے بارے میں نہیں سنا ہوگا جس نے اپنے بوائے فرینڈ سے نان چھولے کھانے کی فرمائش کی ہو۔ لڑکیوں کو پتا ہوتا ہے کہ انہوں نے ایسی کوئی فرمائش کی تو بیٹھے بٹھائے ڈی گریڈ ہو جا ئیں گی
لہذا یہ اسٹارٹ ہی زنگر برگر سے لیتی ہیں۔ یہ کبھی کبھی خود بھی لڑکے کو فون کرلیتی ہیں لیکن ایک منٹ کی گفتگو کے بعد ہی اسے احتیاطاَ بتا دیتی ہیں کہ اگر میرا فون بند ہو جائے تو پلیز تم کرلینا۔ ٹھیک ایک منٹ بعد یہ کوئی بات کرتے کرتے اچانک فون بند کردیتی ہیں، لڑکا فوراَ رنگ بیک کرتا ہے اور پندرہ منٹ میں اپنا سو والا کارڈ ختم کروا بیٹھتا ہے
اچھی گرل فرینڈ لڑکے کو کافی ساری احتیاطی "تدابیر" بھی سمجھا دیتی ہے۔ مثلاَ یہ کہ جب بھی مجھ سے بات کرنی ہو پہلے کوئی عام سا لطیفہ فارورڈ کرنا، اگر میری طرف سے جواب نہ آئے تو سمجھ جانا میں "میلاد" میں ہوں۔ اسی طرح اگر کبھی میری بجائے گھر میں سے کوئی اور فون اٹھا لے تو فون بند نہ کردینا بلکہ اطمینان سے کہنا، کیا یہ رشید پلمبر کا نمبر ہے؟ اور اگر کبھی میں بات کرتے کرتے اچانک فون بند کردوں تو مجھے فوراَ دوبارہ فون نہ کرنا، ہاں اگر مسڈ کال دوں تو پھر بے شک کرلینا۔
ایسی گرل فرینڈز ہمیشہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ وہ صرف آپ سے ہی بات کرتی ہیں، ورنہ ان کے پاس کسی کیلئے کوئی ٹیم نہیں۔ ایسے میں اگر آپ کبھی رات کے دو بجے ان کو چیک کرنے کیلئے فون کریں تو اکثر کے فون سے یہی آواز آئے گی "آپ کا مطلوبہ نمبر پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے مصروف ہے" اگر آپ بعد میں شکوہٰ کریں کہ اتنی رات کو کس سے بات ہورہی تھی تو اس کا جواب دینے کی بجائے فوراَ رونی صورت بنا کر کہیں گی "شکیل! تم مجھ پر شک کر رہے ہو، اپنی گڑیا پر؟؟؟"
ظاہری بات ہے شکیل صاحب اس جذباتی حملے سے کہاں محفوظ رہ سکتے ہیں، لہذا فوراَ گھگھیا کر کہتے ہیں "کیسی بات کررہی ہو جان، میں اپنے باپ پر تو شک کرسکتا ہوں، تم پر نہیں" لیکن یہ الٹا شکیل پر چڑھ دوڑتی ہیں، فوراَ روتے ہوئے کہیں گی "نہیں نہیں نہیں! تم نے مجھ پر شک کیا ہے، میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میرا شکیل اتنا گھٹیا بھی ہوسکتا ہے، تم نے میرے اعتماد کا خون کردیا ہے، پلیز مجھے کہیں سے زہر لادو، میں اب زندہ نہیں رہنا چاہتی" اور شکیل صاحب کو فون کی بات بھول کر اپنی فکر پڑ جاتی ہے

ہمارا مشورہ یہ ہے کہ گرل فرینڈ وہ بنانی چاہیئے جو کم ازکم آپ جتنا ضرور پڑھی ہوئی ہو
ورنہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایم اے پاس لڑکے کی میٹرک پاس گرل فرینڈ اکثر اس بات پر ناراض ہوکر بیٹھ جاتی ہے کہ "تم نے مجھے موبائل میں رنگ ٹونیں کیوں نہیں بھروا کے دیں
اسی طرح وہ گرل فرینڈ جو آپ سے تعلیم میں زیادہ ہو، وہ ایک اور قسم کی مصیبت بن جاتی ہے۔ فرض کیا کہ لڑکا میٹرک ہے اور گرل فرینڈ ایم اے ہے تو اس کا ہر دن یہی شکوٰہ ہوگا "خدا کیلئے نذیر، کبھی تو ڈھنگ کے کپڑے پہن آیا کرو، کوٹ پنٹ کے نیچے جوگر کون پہنتا ہے؟"
اب بھلا نذیر کیسے بتائے کہ اس نے جوگر پہلی دفعہ نہیں پہنے، کوٹ پنٹ پہلی دفعہ پہنا ہے



جب پرندہ زندہ ہوتا ہے تو کیڑے مکوڑوں کو کھا جاتا ہے لیکن جب مرجاتا ہے تو کیڑے مکوڑے اسے کھا جاتے ہیں،وقت کسی لمحے بھی بدل سکتا ہے،،زندگی میں کسی کو بھی کمتر نہ جانو. آپ ہو سکتا ہے طاقتور ہوں لیکن وقت آپ سے زیادہ طاقتور ہے۔۔۔، ایک خراب سوچ ساری خوبصورت سوچوں کو ختم کردیتی ہے






دسمبری دکھڑا


رمضان سے پہلے اور عید کے بعد دھڑادھڑ شادیوں کا موسم ہوتا ہے اور ایسے ایسے بندے کی شادی ہوجاتی ہے کہ رب دیاں رب ای جانے، کہنے کو دل کرتا ہے۔ ایسے ہی سردیوں کے بعد امتحانات کاموسم شروع ہوجاتا ہے جس میں سکولوں، کالجوں کے بچے اور بچیاں، اپنے اپنے سماجی رتبے کے مطابق پرچے، امتحان اور ایگزیمز وغیرہ دیتے ہیں ۔ گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ، پِت اور آموں کا موسم ہوتاہے ۔اکتوبر، نومبر اجتماعی زچگیوں کا موسم ہوتاہے جو اگرچہ سارا سال ہی جاری رہتا ہے لیکن ان دو مہینوں کی فضیلت کچھ سِوا ہے۔
ان سارے موسموں کے بعد دسمبر آجاتا ہے۔
اور جناب عالی، یہ اجتماعی رنڈی رونے کا موسم ہے۔ جن کی جون میں سپلیاں آئی تھیں، انہیں اب جاکے اس کی تکلیف شروع ہوتی ہے۔ کیونکہ موسم مزے کا ہوچکا ہوتاہے۔ بجلی آئے یا جائے کوئی پروا نہیں۔ بھوک ٹکا کے لگتی ہے۔ ملائی والی دودھ پتّی پی کے اور مونگ پھلی ٹونگتے ہوئے اگر پرانے دکھ یاد نہیں آنے تو کیا دردانہ بٹ یاد آنی ہے؟ جن کی "سیٹ" بچیوں کی شادی مارچ میں ہوچکی ہوتی ہے تو ان کا تو دسمبر میں سیڈ ہونا بنتا ہی ہے کہ مہینے کے آخر تک انہیں ماموں بننے کی توقع بھی ہوتی ہے۔ مرے پہ سو دُرّے۔
دسمبری سیڈنیس کی سب سے بڑی وجہ ڈائجسٹی وائرس ہے۔ اپنے وصی شاہ جی جیسے عظیم شعراء کی عظیم ترین شاعری "آپ کی پسند" میں بدّو ملہی سے شجاع آباد اور گوجرخان سے بھکر تک کی دوشیزائیں بذریعہ جوابی لفافے کے بھیجتی ہیں اور پھر خود ہی پڑھ پڑھ کے اپنی خوابوں کے شہزادے عرف آئیڈیل کی یاد میں آہیں بھر بھر کے پھٹّڑ ہوتی رہتی ہیں۔ یہ خوابوں کے شہزادے، ان کےخوابوں میں تو بلاناغہ بالترتیب، گھوڑے، سائیکل، موٹر سائیکل، کار وغیرہ میں آتے رہتے ہیں لیکن یہ خواب دیکھ دیکھ کے ان نمانیوں کے چھ چھ بچے ہوجاتے ہیں پر وہ نگوڑے شہزادے، اللہ جانے کہاں غرق ہوتے ہیں کہ پہنچتے ہی نہیں، پہنچتے ہی نہیں!۔
تو صاحبو، دسمبر میں رات کو سارے کاموں سے فارغ ہوکے حتی کہ چھوٹے کا پیمپر بھی بدل کے جب بندی رضائی میں گھس کے ڈائجسٹ پھرولنا شروع کرتی ہے اور "آپ کی پسند" یا "آپ کی بیاض" والا صفحہ سامنے آجاتا ہے تو دسمبر تو دردیلا لگنا ہی ہے ۔ یہ درد اس وقت اور بڑھ جاتا ہے جب رضائی کی دوسری طرف سے دھاڑ نما خرّاٹے بھی بلند ہونے لگیں۔ اب اس وقت "خوابوں کا شہزادہ" ہی یاد آئےگا ناکہ میلی بنیان اور شلوار میں خرّاٹے مارتا ہوا دہوش۔
رہے نام اللہ کا۔





(اماں کا دل ایسا ہی تھا)


جب ابّا کی تنخواہ کے ساڑھے تین سو روپے پورے خرچ ہو جاتے تب امّاں ہمارا پسندیدہ پکوان تیار کرتیں-
ترکیب یہ تھی کہ سوکھی روٹیوں کے ٹکڑے کپڑے کے پرانے تھیلے میں جمع ہوتے رہتے اور مہینے کے آخری دنوں میں ان ٹکڑوں کی قسمت کھلتی- پانی میں بھگو کر نرم کر کے ان کے ساتھ ایک دو مٹھی بچی ہوئی دالیں سل بٹے پر پسے مصالحے کے ساتھ دیگچی میں ڈال کر پکنے چھوڑ دیا جاتا-
حتیٰ کہ مزے دار حلیم سا بن جاتا اور ہم سب بچے وہ حلیم انگلیاں چاٹ کر ختم کر جاتےـ امّاں کے لیے صرف دیگچی کی تہہ میں لگے کچھ ٹکڑے ہی بچتے-
امّاں کا کہنا تھا کہ کھرچن کا مزہ تم لوگ کیا جانو-
اور امّاں ایسی سگھڑ تھیں کہ ایک دن گوبھی پکتی اور اگلے دن اسی گوبھی کے پتوں اور ڈنٹھلوں کی سبزی بنتی اور یہ کہنا مشکل ہوجاتا کہ گوبھی زیادہ مزے کی تھی یا اس کے ڈنٹھلوں کی سبزی-
امّاں جب بھی بازار جاتیں تو غفور درزی کی دکان کے کونے میں پڑی کترنوں کی پوٹلی بنا کے لے آتیں- کچھ عرصے بعد یہ کترنیں تکئے کے نئے غلافوں میں بھر دی جاتیں- کیونکہ امّاں کے بقول ایک تو مہنگی روئی خریدو اور پھر روئی کے تکیوں میں جراثیم بسیرا کر لیتے ہیں- اور پھر کترنوں سے بھرے تکیوں پر امّاں رنگ برنگے دھاگوں سے شعر کاڑھ دیتیں-
کبھی لاڈ آجاتا تو ہنستے ہوئے کہتیں ' تم شہزادے شہزادیوں کے تو نخرے ہی نہیں سماتے جی، سوتے بھی شاعری پر سر رکھ کے ہو-'
عید کے موقع پر محلے بھر کے بچے غفور درزی سے کپڑے سلواتے- ہم ضد کرتے تو امّاں کہتیں وہ تو مجبوری میں سلواتے ہیں کیونکہ ان کے گھروں میں کسی کو سینا پرونا نہیں آتا-
میں تو اپنے شہزادے شہزادیوں کے لیے ہاتھ سے کپڑے سیئوں گی- جمعۃ الوداع کے مبارک دن ابّا لٹھے اور پھول دار چھینٹ کے دو آدھے آدھے تھان جانے کہاں سے خرید کر گھر لاتے- لٹھے کے تھان میں سے ابّا اور تینوں لڑکوں کے اور چھینٹ کے تھان میں سے دونوں لڑکیوں اور امّاں کے جوڑے کٹتے اور پھر امّاں ہم سب کو سلانے کے بعد سحری تک آپا نصیبن کے دیوار ملے کوارٹر سے لائی گئی سلائی مشین پر سب کے جوڑے سیتیں-
آپا نصیبن سال کے سال اس شرط پر مشین دیتیں کہ ان کا اور ان کے میاں کا جوڑا بھی امّاں سی کے دیں گی- ہم بہن بھائی جب ذرا ذرا سیانے ہوئے تو ہمیں عجیب سا لگنے لگا کہ محلے کے باقی بچے بچیاں تو نئے نئے رنگوں کے الگ الگ چمکیلے سے کپڑے پہنتے ہیں مگر ہمارے گھر میں سب ایک ہی طرح کے کپڑے پہنتے ہیں- مگر امّاں کے اس جواب سے ہم مطمئن ہوجاتے کہ ایک سے کپڑے پہننے سے کنبے میں محبت قائم رہتی ہے- اور پھر ایسے چٹک مٹک کپڑے بنانے کا آخر کیا فائدہ جنہیں تم عید کے بعد استعمال ہی نہ کر سکو-
چھوٹی عید یوں بھی واحد تہوار تھا جس پر سب بچوں کو ابّا ایک ایک روپے کا چاند تارے والا بڑا سکہ دیتے تھے- اس کے انتظار اور خرچ کرنے کی منصوبہ بندی میں چاند رات آنکھوں میں ہی کٹ جاتی- صبح صبح نماز کے بعد ہم بچوں کی شاپنگ شروع ہوجاتی- سب سے پہلے ہر بہن بھائی کوڈو کے ٹھیلے سے ایک ایک پنی والی گول عینک خریدتا جسے پہن کر چال میں اتراہٹ سی آجاتی- پھر سب کے سب چاندی کے ورق لگی میٹھی املی اس لالچ میں خریدتے کہ رفیق افیمچی ہر ایک کو املی دیتے ہوئے تیلی جلا کر املی میں سے شعلہ نکالے گا-
پھر خانہ بدوشوں کے خوانچے میں بھرے مٹی کے کھلونوں اور رنگین کاغذ اور بانس کی لچکدار تیلیوں سے بنے گھگو گھوڑے کی باری آتی- آخر میں بس اتنے پیسے بچتے کہ سوڈے کی بوتل آ سکے- چنانچہ ایک بوتل خرید کر ہم پانچوں بہن بھائی اس میں سے باری باری ایک ایک گھونٹ لیتے اور نظریں گاڑے رہتے کہ کہیں کوئی بڑا گھونٹ نہ بھر جائے-
پیسے ختم ہونے کے بعد ہم دوسرے بچوں کو پٹھان کی چھر٘ے والی بندوق سے رنگین اور مہین کاغذ سے منڈھے چوبی کھانچے پر لگے غبارے پھوڑتے بڑی حسرت سے دیکھتے رہتے- بندر یا ریچھ کا تماشا بھی اکثر مفت ہاتھ آ جاتا اور اوپر نیچے جانے والے گول چوبی جھولے میں بیٹھنے سے تو ہم سب بہن بھائی ڈرتے تھے اور اس کا ٹکٹ بھی مہنگا تھا-
بقر عید پر سب کے ہاں قربانی ہوتی سوائے ہمارے- مگر یہاں بھی امّاں کی منطق دل کو لگتی کہ جو لوگ کسی وجہ سے دنیا میں قربانی نہیں کر سکتے ان کے بکرے اللہ میاں اوپر جمع کرتا رہتا ہے- جب ہم اوپر جائیں گے تو ایک ساتھ سب جانور قربان کریں گے، انشااللہ!
ایک دفعہ گڑیا نے پوچھا کہ امّاں کیا ہم جلدی اوپر نہیں جاسکتے؟ ہر سوال پر مطمئن کر دینے والی امّاں چپ سی ہوگئیں اور ہمیں صحن میں چھوڑ کر اکلوتے کمرے میں چلی گئیں- ہم بچوں نے پہلی بار کمرے سے سسکیوں کی آوازیں آتی سنیں مگر جھانکنے کی ہمت نہ ہوئی- سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر گڑیا کی بات پر رونے کی کیا بات تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
(اماں کا دل ایسا ہی تھا)






منیجر نے اپنے ایک ملازم سے پوچھا کیا 2+2=5 ہوتے ہیں؟
ملازم نے کہا؛ جناب کیوں نہیں، بالکل پانچ ہوتے ہیں۔
منیجر نے دوسرے ملازم سے پوچھا کیا 2+2=5 ہوتے ہیں؟
ملازم نے کہا، سر بالکل ہو سکتے ہیں اگر ان میں 1 جمع کر دیا جائے۔
منیجر نے تیسرے ملازم سے پوچھا کیا 2+2=5 ہوتے ہیں؟
اس تیسرے ملازم نے کہا؛ نہیں جناب 2+2 کبھی بھی 5 نہیں ہو سکتے۔
-
دوسرے دن دفتر میں تیسرا ملازم موجود ہی نہیں تھا، پوچھنے پر پتہ چلا کہ اسے ملازمت سے نکال دیا گیا ہے۔
-
اسسٹنت منیجر کو یہ سن کر بہت افسوس ہوا، منیجر کے کمرے میں گیا اور پوچھا آپ نے اس تیسرے ملازم کو کیوں نکال دیا؟
منیجر نے کہا: پہلے والا ملازم جھوٹا ہے اور اُسے پتہ بھی ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ ایسے لوگوں کی آجکل ضرورت ہے۔
دوسرے والا ملازم عقلمند ہے اور اسے خود بھی پتہ ہے کہ وہ دانا اور عقلمند ہے۔ ایسے لوگ بھی ہر جگہ پسند کیئے جاتے ہیں۔
جبکہ تیسرے والا ملازم سچا تھا اور اسے خود بھی پتہ تھا کہ وہ سچا ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ گزارا کرنا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے، اس لیئے اُسے کام سے نکالنا پڑا ہے۔
منیجر نے پینترا بدلتے ہوئے اسسٹنٹ منیجر سے پوچھا، اب تم تو سب کے بارے میں میری رائے جان چکے ہو، اب تم مجھے بتاؤ کہ کیا 2+2=5 ہوتے ہیں؟
اسسٹنٹ منیجر نے کہا؛ جناب، آپ کی باتیں سُن سُن کر میں تو اب خود تذبذب اور مخمصے میں ہوں اور مجھے پتہ ہی نہیں چل رہا کہ آپ کو کیا جواب دوں؟
منیجر نے کہا تم چوتھی قسم کے لوگوں میں سے ہو جو منافق ہوتے ہیں، اور ایسے لوگ بھی خوب پسند کیئے جاتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے تم اس نوکری پر موجود ہو۔





ﺧﻮﺩ ﺍﺣﺘﺴﺎﺑﯽ __________!!!


ﺍﻳﮏ نوعمر ﻟﮍﻛﺎ "ﭘﯽ۔ﺳﯽ۔ﺍﻭ "ﻣﻴﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮ ﻛﺮ ﭨﻴﻠﻴﻔﻮﻥ ﻛﻴﺒﻦ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮬﺎ۔ ﺍُﺱ ﻧﮯﺭﯾﺴﯿﻮﺭ ﮐﺎﻥ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ، ﻧﻤﺒﺮ ﮈﺍﺋﻞ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﺷﺎﺋﺴﺘﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮨﻮﺍ۔ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺍﺗﻨﺎ ﻧﺮﺍﻟﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﯽ۔ﺳﯽ۔ﺍﻭ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺳﮯ ﺭﮨﺎ ﻧﮧ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍُﺱ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﯽ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺑﮍﮮ ﺍﻧﮩﻤﺎﮎ ﺳﮯ ﺳﻨﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔
ﻟﮍﻛﺎ ﮐﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ":ﻣﻴﮉﻡ! ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﻏﻴﭽﮯ ﻛﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﺳﺘﮭﺮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﻳﻜﮫ ﺑﮭﺎﻝ ﻛﻴﻠﺌﮯ ﻣﻼﺯﻡ ﺭﻛﮫ ﻟﯿﺠﺌﮯ، ﭘﻠﯿﺰ۔"!
ﺟﺒﮑﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﻛﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺗﮭﺎ ﻛﮧ "ﻓﯽ ﺍﻟﺤﺎﻝ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﻛﮯ ﭘﺎﺱ ﺍِﺱ ﻛﺎﻡ ﻛﻴﻠﺌﮯ ﺍﻳﮏ ﻣﻼﺯﻡ ﮨﮯ"۔ ﻟﮍﻛﮯ ﻧﮯ ﺍِﺻﺮﺍﺭ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍُﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﻛﮩﺎ ﻛﮧ "ﻣﻴﮉﻡ! ﻣﻴﮟ ﺁﭘﻜﺎ ﻛﺎﻡ، ﺁﭘﻜﮯ ﻣﻮﺟﻮﺩﻩ ﻣﻼﺯﻡ ﺳﮯ ﺁﺩﮬﯽ ﺍُﺟﺮﺕ ﭘﺮ ﻛﺮﻧﮯ ﻛﻴﻠﺌﮯ ﺗﻴﺎﺭ ﮨﻮﮞ"۔
ﺍُﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﻛﮧ "ﻭﻩ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻼﺯﻡ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﻜﻞ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻛﺴﯽ ﻗﻴﻤﺖ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺍُﺳﮯ ﺗﺒﺪﻳﻞ ﻧﮩﻴﮟ ﻛﺮﻧﺎﭼﺎﮨﺘﯽ"۔ ﺍﺏ ﻟﮍﻛﺎ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﻩ ﺍﻟﺘﺠﺎﺀ ﭘﺮ ﮨﯽ ﺍُﺗﺮ ﺁﻳﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﺟﺰﯼ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ ﻛﮧ" :ﻣﻴﮉﻡ! ﻣﻴﮟ ﺑﺎﻏﻴﭽﮯ ﻛﮯ ﻛﺎﻡ ﻛﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺁﭘﮑﺎ ﮔﮭﺮ، ﮔﮭﺮ ﻛﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮔﺰﺭﮔﺎﮦ ﺍﻭﺭ ﻓﭧ ﭘﺎﺗﮫ ﻛﯽ ﺑﮭﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮐﺮﻭﻧﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﭘﻜﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﻭﻧﮕﺎ، ﺑﺲ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻮﻗﻊ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ۔"!
ﺍﻭﺭ ﺍِﺱ ﺑﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﺍُﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﻛﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﻔﯽ ﻣﻴﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﻟﮍﻛﮯ ﻛﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺍﻳﮏ ﻣﺴﻜﺮﺍﮨﭧ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﻓﻮﻥ ﺑﻨﺪ ﻛﺮﺩﻳﺎ۔
ﭘﯽ۔ﺳﯽ۔ﺍﻭ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﺟﻮ ﻳﮧ ﺳﺎﺭﯼ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺳﻦ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﺭﮨﺎ ﻧﮧ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻟﮍﻛﮯ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﻛﮩﺎ:
"ﺑﯿﭩﺎ! ﻣﻴﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﻯ ﺑﻠﻨﺪ ﮨﻤﺖ ﮐﯽ ﺩﺍﺩ ﺩﻳﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻟﮕﻦ، ﻣﺜﺒﺖ ﺳﻮﭺ ﺍﻭﺭ ﺍُﻣﻨﮕﻮﮞ ﻛﺎ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ، ﻣﻴﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻛﮧ ﺗﻢ ﻣﻴﺮﯼ ﺍﺱ ﺩﻛﺎﻥ ﭘﺮ ﻛﺎﻡ ﻛﺮﻭ۔۔"!
ﻟﮍﻛﮯ ﻧﮯ ﺍُﺳﮑﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ،"ﺍﻧﮑﻞ! ﺁﭖ ﻛﯽ ﭘﯿﺸﮑﺶ ﻛﺎ ﺑﮩﺖ ﺷﻜﺮﻳﮧ، ﻣﮕﺮ ﻣﺠﮭﮯﻛﺎﻡ ﻧﮩﻴﮟ ﭼﺎﮨﻴﺌﮯ۔ ﻣﻴﮟ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﺍِﺱ ﺑﺎﺕ ﻛﯽ ﺗﺼﺪﻳﻖ ﻛﺮﻧﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻛﮧ ﻣﻴﮟ ﺁﺟﻜﻞ ﺟﻮ ﻛﺎﻡ ﻛﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﻛﻴﺎ ﺍُﺱ ﻛﺎ ﻣﻌﻴﺎﺭ ﻗﺎﺑﻞِ ﻗﺒﻮﻝ ﮨﮯ ﺑﮭﯽ ﻳﺎ ﻧﮩﻴﮟ؟"
"ﺍﻭﺭ ﻣﻴﮟ ﺍِﺳﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﻛﮯ ﭘﺎﺱ ﻣﻼﺯﻡ ﮨﻮﮞ ﺟِﺲ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻴﮟ ﭨﻴﻠﻴﻔﻮﻥ ﭘﺮ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﻛﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔۔"!
ﺍﮔﺮ ﺁﭘﻜﻮ ﺑﮭﯽﺍﭘﻨﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ، ﺍﺧﻼﻕ، ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﻨﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﻟﮏِ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﮐﻮ ﻓﻮﻥ ﻣﻼﺋﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮫ ﻟﯿﺠﺌﮯ ﮐﮧ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻣﻌﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔کیونکہ جلد ہی ہم سب یہ دھوکے کا گھر چھوڑ جائیں گے !! ﻓﻮﻥ ﻧﻤﺒﺮ یہ ہے 2۔۔4۔۔4۔۔3۔۔4 ﺟنہیں ﺳﻤﺠﮫ ﺁ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﮐﺎﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺮ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﻦ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﻭﮦ ﻣﺰﯾﺪ ﻏﻮﺭ ﻭ ﺧﻮﺽ ﮐﺮﯾﮟ...اپنا محاسبہ کیجئے، اس سے پہلے کے دیر ہوجائے....!!!




میرے پچاس روپے

سڑک کے کنارے کھمبے پر چپکے کاغذ پر لکھا ہوا تھا
میرے پچاس روپے گم ہو گئے ہیں، جس کو ملیں وہ میرے گھر واقع فلاں گلی پہنچا دے، میں ایک بہت ہی غریب اور بوڑھی عورت ہوں، میرا کوئی کمانے والا نہیں، روٹی خریدنے کیلئے بھی محتاج رہتی ہوں۔
ایک آدمی نے یہ تحریر پڑھی تو وہ کاغذ پر لکھے ہوئے پتے پر پہنچانے چلا گیا۔
جیب سے پچاس روپے نکال کر بُڑھیا کو دیئے تو وہ پیسے لیتے ہوئے رو پڑی۔
کہنے لگی: بیٹے آج تم بارہویں آدمی ہو جسے میرے پچاس روپے ملے ہیں اور وہ مجھے پہنچانے چلا آیا ہے۔
آدمی پیسے دیکر مسکراتے ہوئے جانے لگا تو بُڑھیا نے اُسے پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا:
بیٹے، جاتے ہوئے وہ کاغذ جہاں لگا ہوا ہے اُسے پھاڑتے جانا
کیونکہ ناں تو میں پڑھی لکھی ہوں اور ناں ہی میں نے وہ کاغذ اُدھر چپکایا ہے۔
( وفي السماء رزقكم وما توعدون – آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے






گنجے: از: عبدالباسط احسان


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں خود بھی معمولی گنجا ہوں ' اس لیے میں اپنی ذات کو سامنے رکھ کر یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔
سر کے بال جھڑنے کے کئ اسباب ہوسکتے ہیں، کسی کو مورثی بیماری ہوتی ہے کہ آباءو اجداد بھی چاند کی طرح روشن ہوتے ہیں، تو کچھ لوگوں کو پریشانیوں کی وجہ سے بیماری لاحق ہوتی ہے کہ ان کے سر کے بال یوں غائب ہونے لگتے ہیں' جیسے غریب کے گھر سے راشن ۔۔۔ ۔ گنجے پن کی تین اقسام دریافت ہوئ ہیں۔ معمولی گنجا' نیم گنجا اور گنجا ۔۔۔۔
آخری قسم ایسے ہی ہے جیسے چودھویں کا چاند ہو ۔۔آج کل کے معاشی عدم استحکام کے دور میں ' جب غربت اپنی انتہا کو ہے' بے روزگاری کی وجہ سے لوگ خودکشی کر رہے ہیں ، وہاں ' گنجا پن دور کرنے کی ادویات باکثرت فروخت ہورہی ہیں۔ شکر ہے کہ پاکستان میں یہ کاربار منافع بخش ہے ورنہ' بالوں کے آجانے سے وہ لوگ بھی بے روزگار ہوسکتے ہیں' جن کا کاروبار ہی لوگوں کا گنجا پن دور کرنے سے متعلق ہے۔ ٹی وی کے اشتہار میں ' ہر کمپنی دعوی کرتی ہے کہ اس کی پروڈکٹ نے حیرت انگیز ' کارنامے انجام دئیے ہیں، ایک شخص جس نے عارف لوہار کی طرح کے بال رکھے ہوتے ہیں' اسے سیلز مین' متعارف کروانے کے بعد انکشاف کرتا ہے کے' یہ پہلے گنجا تھا۔ لوگوں کی آنکھیں یوں حیرت سے باہر نکل آتی ہیں ' جیسے کسی پھانسی کے مجرم کی ' پھانسی لگنے کےبعد باہر کو آتی ہیں۔
ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہوئے حضرات جو اپنے گنجے پن سے' پریشان ہوتے ہیں ' فورا فون کرکے پروڈکٹ کا آرڈر دیتے ہیں اور خیالات کی دنیا میں سہانے خواب دیکھتے ہیں کہ جب ان کے بال ' ایسے ہونگے جیسے ' طاہر شاہ کے ہیں ،کئ تو
ساتھ ساتھ طاہر شاہ کا نغمہ" آئ ٹو آئ " بھی گنگنانے لگتے ہیں ' جو کہ بالوں کے ساتھ آنکھوں کے لیے بھی مفید ہے ۔
دو تین ماہ کے مسلسل استعمال کے بعد' جب ان کو اپنے' سر پر ہریالی آنے کے آثار نظر نہیں آتے' تو اس کمپنی کو لعن طعن کرتے ہیں، مگر اس کمپنی کی صحت پہ کوئ فرق نہیں پڑتا،بلکہ کمپنی نئے نام سے ایسی ہی پروڈکٹ متعارف کروا کے ' گنجے حضرات کے لیے' خوشیوں کا پیغام لے کر آتی رہتی ہے۔
ایک لطیفہ یاد آگیا کہ " ایک شخص ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ پریشانی کی وجہ سے میرے بال جھڑتے ہیں، ڈاکٹر نے پوچھا آخر پریشانی کیا ہے؟ اس شخص نے کہا یہ ہی پریشانی ہے کہ بال جھڑتے ہیں"۔
ہماری فلم انڈسٹری نے آج تک کسی گنجے کو ھیرو بنا کر پیش نہیں کیا' جبکہ مغرب کی طرف دیکھیں وہاں کی فلم
انڈسٹری میں گنجے حضرات یوں نمایاں ہوتے ہیں جیسے' پھلوں کی ریڑھی پہ تربوز نظر آتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں گنجے حضرات کو تمسخر کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے اس لیے اکثر حضرات کی کوشش ہوتی ہے کہ جلدی سے وہ کسی نہ کسی طرح اپنا سر ڈھک لیں' ویسے بھی سنا ہے کہ ننگے سر پر شیطان ٹھونگیں مارتا ہے۔
کچھ امیر حضرات تو مصنوعی بال لگوا کر اپنے سر پہ پال سجا لیتے ہیں، اور جن بیچاروں کے پاس پیسے نہیں ہوتے ' وہ وگ سے کام چلاتے ہیں۔ وگ کو سنبھالنا اتنا ہی مشکل کام ہے' جیسے تیز ہوا میں چھتری کو سنبھالنا کہ کبھی اڑ کر ادھر ' تو کبھی ادھر جھولتی رہتی ہے۔
سنا ہے کہ گنجے حضرات پر دولت یوں مہربان ہوتی ہے' جیسے مقناطیس لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے ، لوہے سے میری مراد ' دولت ہے، اور مقناطیس سے کیا مراد ہے اسے تو آپ سمجھ ہی سکتے ہیں۔
ہمارے پنجاب کی طرف ہی دیکھ لیں' جتنے بڑے بڑے سرمائے دار ہیں' ان کے سر کے بال غائب ہیں، اب اس بات کا مجھے علم نہیں ہے کہ سرمایہ آنے سے پہلے ہی غائب ہوتے ہیں یا بعد میں ہوئے ہیں۔
میرا ایک دوست تھا' بیچارہ گنجے پن کی وجہ سے شدید پریشان تھا، میں نے اسے سمجھایا کہ دیکھو یہ کوئ اتنی بڑی بات نہیں ' دنیا کی مشہور شخصیات ' جن میں گاندھی جی بھی تھے' کی مثالیں دیں ' مگر وہ مطمئن نہ ہوا، آخر میں نے اسے بتایا کہ ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہے' اللہ نے اس کے ہاتھ میں شفاء رکھی ہے' ہوسکتا ہے کہ اس کے علم میں ہو' شاید کوئ دوائ ایجاد ہوچکی ہے جس سے تمھارے کھوئے بال دوبارہ آسکتے ہوں۔
میں اس کو لے کر ڈاکٹر کے پاس چلا گیا' ڈاکٹر نے جب وجہ دریافت کی تو اس نے شرمندگی سے بتانے سے انکار کردیا' میں نے ہمت کرکے وجہ بتائ کہ اپنے گنجے پن سے پریشان ہے۔ بس اتنی بات کرنی تھی کہ ڈاکٹر کو غصہ آگیا' وہ سمجھا کہ ہم مذاق کرنے ادھر کو آئے ہیں۔ میں نے جب دماغ پر زور دیا کہ ڈاکٹر کے غصے میں آنے کی وجہ کیا تھی ' تو سمجھ آئ کہ ڈاکٹر خود بھی گنجا تھا۔
نیم گنحے حضرات کے لیے بالوں کا اسٹائل چیلنج سے کم نہیں ہوتا 'بڑی مشکل سے پیچھے سے بال کھینچ کر آگے کی طرف لاتے ہیں کئ تو کمال خوبی سے وحید مراد مرحوم جیسا پف نکالنے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں، ایسے حضرات جب موٹر سائیکل کا تھوڑا سا سفر طے کرتے ہیں تو بال یوں ' اوپر کی طرف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں' جیسے کسی مظلوم کے ہاتھ ' آسمان کی طرف اٹھے ہوں۔
گنجے پن کا شکار لوگ ' قدرتی طور پر رومینٹک ہوتے ہیں' کیونکہ خود ان کے اوپر چاند سوار ہوتا ہے۔
ہمارے دانشور ' بھی عجیب ہیں ' عجیب محاورے نکال لیے جیسے " خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔" خدا گنجے کو کیوں ناخن نہ دے ' کیا گنجے انسان نہیں ہیں۔ آخر میں اتنا کہوں گا کہ گنجوں کا احترام سب پر لازم ہے ۔




زندگی کے انمول سبق


ایک روز جلال الدین رومیؒ اپنے شاگردوں کو ساتھ لے کر ایک کھیت میں پہنچے۔ یہ ان کے پڑھانے اورعلم سکھا نے کا انداز تھا۔ وہ زندہ مقالوں کے ذریعے اپنے شاگردوں کو بڑی سے بڑی بات آسانی سے سمجھا دیا کرتے تھے، اس لیے آج وہ اپنے شاگردوں کو لے کر ایک کھیت میںآئے تھے۔ ان کے شاگرد سوچ رہے تھے کہ آخر ایسا کو ن سا سبق ہے جو ہم مدرسے میں حاصل نہیں کر سکتے تھے اور جسے حاصل کرنے کے لیے ہم اتنی دور اس کھیت میں آئے ہیں۔ لیکن کھیت میں پہنچ کر جو سبق انہوں نے حاصل کیا اس نے تمام شاگردوں کو یہ سمجھا دیا کہ وہ غلط تھے اور ان کے استاددُرست۔ اس کھیت میں ایک کسان بالکل کسی پاگل آدمی کی طرح زمین کھودنے میں مصروف تھا۔ دراصل وہ اپنے کھیت کے لیے ایک کنواں کھودنا چاہتا تھا مگر جب تھوڑی گہرائی تک زمین کھود کر پانی نہ نکلتا تو وہ اس جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ زمین کھودنے میں لگ جاتا اور اس طرح اُس کسان نے آٹھ جگہوں سے زمین کھود ڈالی تھی مگر حاصل اسے کچھ بھی نہ ہوا تھا۔ مولانا جلال الدین رومیؒ نے اپنے شاگردوں سے پوچھا:کیا تم کچھ سمجھ سکتے ہو؟۔ تھوڑے وقفے کے بعد اپنے شاگردوں کی جانب دیکھ کر دوبارہ گویا ہوئے۔ ’’اگر یہ آدمی اپنی پوری طاقت، قوت اور وقت صرف ایک ہی کنواں کھودنے میں صرف کرتا تو ابھی تک کافی گہرائی میں جا کر اسے اپنی محنت کا پھل مل چکا ہوتا۔ ایک ہی جگہ اگر یہ کسان زمین کھودتا رہتا تو اب تک وہ پانی حاصل کر چکا ہوتا لیکن اس نے اس قدر محنت بھی کی اور حاصل حصول کچھ نہ ہوا جبکہ الٹا اس نے اپنا کھیت خود ہی اجاڑ دیا اوراُسے مایوسی الگ ہوئی۔ اگر ایسی محنت وہ صرف ایک ہی کنواں کھودنے میں صرف کرتا تو کب کا پانی حاصل کر چکا ہوتا۔‘‘ پھر وہ اپنے شاگردوں کی جانب پلٹے اور کہا :’ کیا تم لوگ بھی اس کسان کی پیروی کرنا چاہو گے کہ کبھی ایک راستے پر کبھی دوسرے راستے پر؟ کبھی ایک کی مانو گے کبھی دوسرے کی؟ کبھی کسی کی بات سنو گے کبھی کسی کی؟ اس طرح شاید تم بہت علم تو حاصل کر لو گے مگر وہ سارا علم بے کار ہوگا کیونکہ وہ علم نہ تو تمہیں روشن خیال بنا پائے گا اور نہ ہی تمہیں بصیرت دے پائے گا‘‘۔ ایک چھوٹے سے عمل سے مولانا جلال الدین رومیؒ نے اپنے شاگردوں کو ایک بہت بڑا سبق دیا ہے۔ یہی حقیقت ہے کہ اگر واقعی آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو ایک جگہ اپنا ذہن اور اپنی توجہ مرکوز کرنا ہوگی جبھی آپ کامیابی کی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے آس پاس بے شمار ایسے لوگ دکھائی دیتے ہیں جن کے پاس بے شمار علم ہے لیکن وہ علم ان کی اپنی زندگی میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ وہ بظاہر تو خود کو علامہ ظاہر کرتے ہیں لیکن اندر سے بالکل کھوکھلے ہوتے ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگی کا ایک مقصد بنائیں گے تو اطپنی تمام قوتیں اسی مقصد کو حاصل کرنے میں صرف کریں گے، لیکن جب آپ کا مقصد ہی شفاف نہیں ہوگا تو آپ کی قوت، طاقت، ذہانت سب بکھر جائیں گی اور آپ کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔ 


''ماں کھو گئی ہے''

سمیع اللہ ملک، لندن

کائنات کا اسرار ہی یہی ہے ۔ سب ایک طرح دیکھتے ہیں نہ سوچتے۔ ہر بات کے ہزار مطالب، ہر منظر کے لاکھ رنگ۔ ''پیاری بیٹیاں'' پر آپ نے میری ایک بہن کے خیالات پڑھے جو اس معاشرے میں مردوں کے کردار پر ایک بھرپور احتجاج تھا۔ اس کالم کے شائع ہونے کے بعد حسبِ معمول بہت سی آراء موصول ہوئیں، ان میں بہت سے جذباتی پیغامات بھی تھے، معاشرے کے بگاڑ پر بہت سے کرداروں کو کوسنے بھی دیے گئے اور اب تک مسلسل پیغامات موصول ہو رہے ہیں لیکن اب ایک اور میری بہن نے اس کے جواب میں اپنے جن جذبات کا اظہار کیا ہے، وہ بھی آپ کی خدمت میں پیش ہے! 
’’کہاں ہیں آج کی فاطمائیں بھائی؟ بہت قابلِ احترام ہیں آپ کی قاریہ بہن، جن کے سامنے آپ نے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کیا، ان کے دکھائے ہوئے آئینہ میں نہ معلوم آپ نے اپنے چہرے کے کیا خدوخال دیکھے کہ فوراً اُن سے رہنمائی کی درخواست کر بیٹھے۔ ان کی آراء پڑھ کر میرا تو جذبہ جنون میں بدلنے لگا کہ کہاں دیکھوں انہیں اور ہاتھ چوموں ان کی فاطماؤں کے، جن کیلیے ان کے دیدہ تر علی کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ درندوں کے ہجوم میں وہ تنہا ہیں اپنی فاطماؤں کے ساتھ، اور ایک خوف اور دکھ نے انہیں سولی پر لٹکا رکھا ہے۔ قربان جائیے اس ماں کے جذبات پر۔ میں بھی ماں ہوں تین بیٹیوں کی، ایک یونیورسٹی میں استاد بھی ہوں، سولی پر میں بھی چڑھی ہوئی ہوں لیکن درندوں کے ہا تھوں نہیں، بلکہ اس قوم کی ''ماؤں'' کے ہاتھوں! جو کچھ دیکھتی ہوں میں شب و روز، اور دکھ یہ کہ لب پر لا بھی نہیں سکتی۔ مجھے کہنے دیجیے کہ اس قوم سے''ماں کھو گئی ہے‘‘۔ 
اگر آج ماں زندہ ہوتی تو بیٹیاں یوں سرِ بازار اپنی عزتوں کے جنازے نہ کاندھوں پر لیے پھرتیں۔ اب تو یونیورسٹی کسی تعلیمی درسگاہ کی بجائے کوئی فیشن میلہ کا منظر دکھائی دیتی ہے۔ ہر روز سینکڑوں طالبات میری نظروں سے گزرتی ہیں۔ پہلے تو آستینیں مختصر ہوتے ہوتے غائب ہوگئیں تھیں اور اب شلواریں اور پاجامے دن بدن یوں اوپر چڑھ رہے ہیں کہ پنڈلیاں کھلتی ہی چلی جا رہی ہیں۔ مجھے ذرا غصہ نہیں آتا ان بچیوں پر، مجھے غصہ آتا ہے ان ''ماؤں'' پر جن کے سامنے یہ بچیاں تیار ہو کر نوک پلک سنوار کر گھروں سے نکلتیں ہیں۔ کیا یہ مائیں سمجھتی ہیں کہ یوں ان کے بہتر رشتے دستیاب ہو سکیں گے؟ تو بھول ہے یہ ان کی۔ ایسے وہ کتنی ہوسناک نظروں کی تسکین کا سامان بنتی ہیں، کیا گھر واپس آنے والی بچیوں کی مائیں یہ سوچتی ہیں؟
میں درزی سے بضد تھی کہ میری بچی کی آستین ''٢١'' انچ کی ہو گی' وہ کہہ رہا تھا: اس کپڑے میں صرف ''١٦'' انچ کی بن سکتی ہے۔ میں نے کہا کہ''میری بیٹی نہیں پہنے گی!'' اس پر اس نے جل کر دوکان کے دوسرے سلے ہوئے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا اور بولا ''یہ سب قمیضیں بغیر آستینوں کے ہیں، یہ آپ ہی کی بیٹیوں کی ہیں''۔ بھائی! آپ یقین کریں اس نے نیم خواندہ ہونے کے باوجود وہ طمانچہ مارا تھا قوم کی ماؤں کے منہ پر کہ میں مارے شرم کے کچھ بھی تو نہ کہہ سکی اور کپڑا اٹھا کر بوجھل قدموں سے دوکان سے نکل گئی۔ طارق روڈ پر اپنی بارہ سالہ بیٹی کیلیے لباس کی تلاش میں گئی کہ کسی شادی میں پہننے کیلیے اس کو نیا جوڑا درکار تھا۔ آپ یقین کریں کسی دوکان پر آستینوں والے کپڑے نہ مل سکے۔ ایک دوکاندار بولا: 
’’آستینیں علیحدہ رکھی ہیں ’’آپ کنٹراس کر سکتی ہیں''۔ میں نے کہا کہ آستینیں قمیض سے علیحدہ کیسے ہو گئیں؟ بولا ''مائیں پسند نہیں کرتیں آستینوں والے کپڑے! ہم تو وہی پروڈکٹس لاتے ہیں جن کی ڈیمانڈ ہوتی ہے''۔
کیا بچیاں اپنی خریداری خود کرتی ہیں؟ کیا ان کا ’’ٹیسٹ‘‘ ان کا ذوق ان کی مائیں ترتیب نہیں دیتیں؟ اکثر بس میں سفر کرنے کا اتفاق ہوتا ہے مجھے۔ میرے قریب بیٹھی ہوئی میری ہی یونیورسٹی کی طالبات کے ہاتھ مسلسل موبائل پر مصروف ہوتے ہیں یا موبائل کو کان سے لگائے وہ خوابوں کی دنیا میں پہنچی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کے چہرے پر آتے جاتے رنگ خوب عکاسی کرتے ہیں کہ وہ کس سے باتیں کر رہی ہیں لیکن وہ اپنے اطراف کی دنیا سے بے خبر افسانوی دنیا کا حصہ ہوتی ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں جب ہم نے موبائل دیا تو کوئی چیک اینڈ بیلنس رکھا؟ اس ماں کے آنسو مجھے نہیں بھولتے جو انتہائی معزز اور متمول خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور اس نے بیٹی کی شادی مجبوراً اس نوجوان سے کی جو اس کے گھر انٹرنیٹ کنکشن دینے آیا تھا۔ اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ نیٹ پر یہ دوستی اتنی مضبوط ہو جائے گی۔
میں نے اس خاتون سے کہا کہ''بیٹی پر نظر کیوں نہیں رکھی؟ بولیں ''ہاں یہ اندھا اعتماد تھا میرا، میں نے اس وقت سوچا ہی نہ تھا کہ میرے گھر میں یہ سب کچھ ہو جائے گا۔ اب جی چاہتا ہے کہ چیخ چیخ کر سارا معاشرہ سر پر اٹھا لوں کہ اے میری طرح کی بدنصیب ماؤ! خدارا ہوش میں آؤ۔'' بازار میں چلتے چلتے قدم ٹھٹھک سے جاتے ہیں جب وہ ادھیڑ عمر کی ماں جس نے خود کو عبایا سے ڈھانپا ہوا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اس کی ٹین ایج کی بچی مختصر یا بغیر آستینوں اور نیم عریاں پنڈلیوں کے ساتھ اٹھلا اٹھلا کر چل رہی ہوتی ہے۔ میری میٹرک کی طالبہ بیٹی مجھے نام گنواتی رہی کہ عید پر اس کی کن کن سہیلیوں کی ماؤں نے بیٹیوں کو ''جینز ٹراؤزر'' (پتلونیں) لیکر دی ہیں۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ اچھی مائیں وہ ہوتی ہیں جو بچیوں کی خواہشات کا خیال رکھتی ہیں۔
بھائی! مجھے بتائیں، میں وہ دن کیسے بھول جاؤں جب میری بیٹی کی میٹرک کی الوداعی تقریب تھی جس میں والدین مدعو تھے۔ مائیں پنڈال میں تھیں اور باپ باہر گاڑیوں کے پاس موجود، اور بچیاں جب والدین کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر گھروں کو روانہ ہونے لگیں تو میرا مضطرب دل دہائی دیتا رہ گیا کہ قوم سے ''ماں'' تو کھوئی تھی 'اکبر الہ آبادی کی روح بھی تڑپ گئی ہو گی کہ سچ مچ آج کے باپ کی غیرت بھی عزتِ سادات کی طرح رخصت ہوگئی کہ نیم عریاں بازو، نظر آتی ہوئی پنڈلیوں، اسکرٹس کے ساتھ چست بلاؤز، خاصے اونچے لہنگے، رنگے ہوئے بال۔ آپ یقین کیجیے یہ کسی ٹی وی ڈرامے کی ریکارڈنگ کا منظر میں آپ کو نہیں بتا رہی، یہ وہ سولہ اور سترہ سالہ دوشیزائیں تھیں جو مستقبل کی ''مائیں'' ہیں۔ میرا جی چاہا کہ جا کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں کہ حال کی ''ماں'' کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے جس نے مستقبل کو یہ ''ماں'' دی ہے‘‘!!!!
زبردست بحث سن کر میں کمرے میں داخل ہوئی تو ایک ٹی وی پروگرام چل رہا تھا، جس میں پروگرام کی میزبان نے بغیر آستین کے ٹی شرٹ اور شارٹس پہن رکھی تھی جس میں اس کے گھٹنے تک برہنہ نظر آ رہے تھے۔ جب میں نے افسوس کا اظہار کیا تو میری بیٹی میرے کان میں کہنے لگی کہ''امی! شارٹس کا یہی سائز ہوتا ہے؟'' بھائی! دل تھام کر میری یہ بات سنیں کہ یہ تقریب میری ہی یونیورسٹی میں ہو رہی تھی جہاں صوبے کا وزیرِ تعلیم دوسری مقامی سیاسی قیادت کے ساتھ موجود تھا۔ مجھ جیسے کچھ اساتذہ نے آج سے کچھ برس پہلے جب دلائل کے ساتھ ایسی مجالس کے انعقاد کو روکنے کی سفارشات پیش کی تو ہمارا منہ بند کرنے کیلیے ایک تنظیم کے سربراہ نے اپنے ٹیلیفونک خطاب میں اپنی روشن خیالی کا اس طرح اظہار فرمایا کہ ہماری ملازمتوں کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی جانوں کو بچانا بھی مشکل ہو گیا۔
ایک مرتبہ میں نے اپنے درزی سے مدد مانگی، اپنی بچیوں کے کپڑوں کے ڈیزائن کیلیے۔ آپ یقین کیجیے، اس نے جس کتاب کی میرے سامنے ورق گردانی کی، وہ کسی یورپ کے معاشرے کی تصاویر نہیں تھیں۔ وہ پاکستانی مسلمان لڑکیاں تھیں لیکن ان کے لباس، ان کے کلوز اپ، کسی انڈین عریاں فلم سے کم نہیں تھے! کون سا گھر ہے جہاں مائیں ایک چھت کے نیچے بیٹیوں کے ساتھ انڈین ڈرامے اور فلمیں نہیں دیکھتیں! حیا کو ہم نے خود رخصت کیا، اپنی بیٹیوں کو بازار کی جنس بنا دیا۔ کوئی اور بعد میں، قصوروار پہلے میں خود ہوں، اس لیے کہ میں ایک ''ماں'' ہوں۔ زمانے کی رو میں بہنے والی، عقل و شعور سے عاری، خوفِ خدا سے دور اس معاشرے کی ''ماں''۔ ایک مسلمان ماں نہیں، 'صرف ''ماں''۔ 
آجکل ہمارے لیے یہ بہت آسان ہو گیا کہ اس سارے طوفانِ بدتمیزی کی ذمہ داری نت نئے ٹی وی چینلز پر ڈال کر خود کو معصوم اور بے بس ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہمارے ان سیاسی حکمرانوں نے اپنے مغربی اور صہیونی آقاؤں کی خدمت بجا لاتے ہوئے اپنی آئندہ نسل کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ بھائی! آپ ہر نقصان کا ازالہ کر سکتے ہیں لیکن جس قوم کے اخلاق تباہ کر دیے جائیں اس قوم کو پستی اور انحطاط کی اندھیری کھائیوں میں گرنے سے آپ کبھی نہیں بچا سکتے۔ آپ جیسے کالم نویس ہر روز ملک کو دشمن کی سازشوں سے باخبر رکھنے کیلیے کوئی نہ کوئی موضوع ضرور ڈھونڈ لاتے ہیں لیکن اب تک آپ نے قوم کی اس ابتری کا ذکر کبھی نہیں کیا؟ ہم یہ بات بھی بڑی آسانی کے ساتھ کہہ دیتے ہیں کہ ملک کی ترقی کیلیے خواتین کو ان دقیانوسی خیالات سے آزادی دلانے کی ضرورت ہے اور اس کیلیے مغربی عورت کی مثال دی جاتی ہے کہ کس طرح آج وہ ملک کے ہر محکمے اور ادارے میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے اور ہم نے عورتوں کو گھروں میں قید کر رکھا ہے۔
بھائی! یہ حقیقت نہیں ہے 'میں یہ بات اس لیے یقین سے کہہ رہی ہوں کہ میں نے بھی برطانیہ کی سب سے بڑی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لے رکھی ہے اور میں نے بھی اپنی زندگی کے کچھ قیمتی سال وہاں گزارے ہیں اور اب بھی مجھے کئی دفعہ امریکہ اور یورپ کے مختلف تعلیمی اداروں سے رابطے کی دعوت ملتی رہتی ہے اور میں اپنے ملک کی نمائندگی بھی ایک مسلمان پاکستانی عورت اور استاد کے ناطے کر چکی ہوں۔ مغربی ممالک کی پڑھی لکھی خواتین کی آراء اس سے بہت مختلف ہیں جن کا پرچار ہمارے یہ کچھ بگڑے ہوئے ضمیر فروش سیاسی رہنما اور ان کی تائید کرنے والے قلمکار کر رہے ہیں۔ مغرب کے کئی دانشور جن سے مجھے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے وہ پاکستان کی مسلم خواتین کیلیے تعلیم کو تو بہت ضروری سمجھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ مغرب کے معاشرے کی بے راہروی سے بچنے کا ذکر بھی بڑی دلسوزی کے ساتھ کرتے ہیں۔ اب میں اس کی تفصیل بتانے بیٹھ گئی تو اس کیلیے کئی اوراق درکار ہوں گے۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ آپ معاشرے کی اس بیماری کو اجاگر کر کے ملک کی ماؤں کی توجہ اس طرف ضرور دلائیں گے۔ اللہ آپ کو خوش رکھے اور اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ'' کی دعا سے اجازت لیتی ہوں۔
میری بہن! اللہ تعالیٰ آپ کو دونوں جہانوں کی نعمتوں سے سرفراز فرمائے۔ میرا مالک آپ کو سدا خوش رکھے اور اپنی مخلوق میں سے کسی کا بھی محتاج نہ بنائے اور آپ کا ہاتھ تھامے رکھے۔ میری اللہ سے دعا ہے کہ ان کور بصری قلمکاروں کو بھی حقیقت کا ادراک ہو جائے تاکہ ہم آخرت کی نجات کا کوئی تو وسیلہ اپنے دامن میں بچا کر رکھ سکیں۔ثم آمین! کچھ بھی تو نہیں رہے گا،بس نام رہے گا میرے رب کا جو الحیی القیوم ہے۔
ؔمجھے نہیں ہیں شکایات نونہالوں سے
گُہر کہاں سے بنیں جب ہوئی صدف نایاب


کیا اسلام جدیدیت اور سائنسی ترقی کا مخالف ہے ۔ ۔ ؟

اسلام نہ صرف جدید کاری کو قبول کرتا ہے بلکہ ا س کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے ، صرف جدیدیت کے لادین اور مادہ پرست مندرجات کو ہضم نہیں کرپاتا۔اسلام جدیدیت کے بے مہار اسراف و تبذیر ، یا ایسی حدود ناآشنا انفرادیت کو جو سوسائٹی کی ترجیحات کو خاطر میں نہیں لاتی، ہر قسم کی قید اور حد چاہے وہ بنیادی اخلاقیات کے متعلق بھی کیوں نا ہو ' سے آزادی ، کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ۔ اسی طرح سوقیانہ بازاری پن اور بہیمانہ نفس پرستی کی علم بردار مغربی تاجرانہ ثقافت کو اسلام ناقابل برداشت سمجھتا ہے۔شراب نوشی، نشہ بازی، بے مہار جنسی طرز عمل، غیر شادی شدہ ماؤں اور ناجائز اولاد کی بھرمار، جنسی امراض خبیثہ، برہنگی کا رواج اور نفسیاتی امراض ۔ ۔ یقینا یہ سب کچھ جدیدیت کا کوئی خوبصورت روپ نہیں دکھاتے ۔مسلمان معاشرے میں یہ ناہنجار جدیدیت بالکل بار نہیں پاتی اور مردود سمجھی جاتی ہے ، اب کسی کا دل چاہے تو اسے ' تنگ نظری' کہہ لے یا ' عقل پرستی' سے اجتناب۔
اگر جدیدیت سے مراد جدت پسندی اور نئے تخلیقی افق ہیں یا اس سے مراد حسن کارکردگی ہے جس سے معاشرہ کی پیداواری صلاحیت بڑھے یا یہ کہ جدیدیت سے مراد انتظام انصرام کے وہ مختلف النوع نظام ہیں کہ جن سے یہ اہداف حاصل ہوسکیں تو پھر اسلام کو اس سے کوئی ضد نہیں۔
اسی طرح جدیدیت اگر سائنس کی افزودگی اور نمو کا انجن سمجھتی ہے یا خالص عقلیت کا تقاضا کرتی ہے تو اسلام کو یہ بھی قبول ہے ۔ شرط صرف ایک ہے کہ جدیدیت اس الہامی دائرے کے اندر رہ کر یہ ساری تگ و تاز کرے جس کا احترام ایک مسلمان معاشرہ لازمی قرار دیتا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے جدیدیت پسند اس قسم کی کسی جدیدیت سے واقف نہیں بلکہ اسی کو جدیدیت اور ترقی پسندی سمجھ بیٹھے ہیں جسکا ہم نے شروع میں تذکرہ کیا۔انکا اصرار ہے کہ جدیدیت اور مغربیت لازم ملزوم ہیں اور کسی معاشرے کے جدید بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مغربیت کو بھی اپنائے۔ چونکہ اسلام اس مادرپدر آزاد مغربیت بنام جدیدیت کا مخالف ہے اس لیے یہ اسلام کو اپنی ان حیوانی خواہشات کے پورا ہونے میں رکاوٹ سمجھتے اور پھر اس کو بدنام کرنے اس کی توہین و تحقیر کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ان کے علاوہ کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو علمی لائن سے ہمارے معاشرے میں لادینیت اور باطل نظاموں کی قدروں کی کاشت کرنے میں مصروف ہیں ان حضرات کی کوشش یہ ہے کہ وہ جدیدیت کے اس غیر اسلامی فکر اور منہج علم و کلچر کو اس طرح مسلمان معاشرے میں پیش کریں کہ لادینیت بھی چھپ جائےا ور مقصد بھی پورا ہوجائے۔
تحریر: بنیاد پرست



مولوی نامہ


ایک گاؤں کا قصہ ہے، ایک مولوی صاحب قصائی کی دکان سے گوشت لے کر گھر آ رہے تھے، راستے میں کوّے نے ان کا گوشت اچک لیا۔ مولوی صاحب فوراً چلائے، اے کوّے، اگر اپنی خیریت نیک مطلوب ہے تو فوراً گوشت واپس کر دے ورنہ مسجد میں اعلان کر دوں گا کہ کوّا حلال ہے۔ اب اس بارے میں کوئی روایت موجود نہیں ہے کہ اس کوے نے گوشت کا کیا کیا۔ چونکہ اب تک کوا حرام ہے اس لیے گمان کیا جا سکتا ہے کہ اس شریف النفس کوے نے گوشت واپس کر دیا ہو گا ورنہ کوّے:
ؔملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
کی عملی تفسیر بنے ہوئے ہوتے۔
مولویوں کے کارناموں کی فہرستیں زبان زدِ عام ہیں۔ ان کے لطیفے، حماقتیں، بیچارگی، غربت، کم مائیگی، جہالت ہر چیز کو عیاں کرنا ہماری محفلوں کا ایک لازمی جزو بنتا جا رہا ہے، معاشرے کے لیے غیر موزوں، کفر کے فتوے لگانے والا، غیر اہم اور دہشت گردی کے فروغ کا ذریعہ کہلانے والے یہ مولوی مسلمان معاشرے کا چارلی چپلن اور مسٹر بین ہے۔ جس کا کسی پر بس نہ چلے، اس کا مولوی پر چلتا ہے۔ مولوی پر رائے دینا سب سے آسان ہے۔ اس پر طعنہ زنی سب سے دلچسپ لگتی ہے۔ یہ ایک کھلونا ہے، جس سے ہر کوئی کھیل سکتا ہے، ایک بچہ اپنے قاری صاحب کی نقل اتارنے سے یہ سلسلہ شروع کرتا ہے، باپ اس کی ادا پر مسکراتا ہے اور ماں صدقے واری جاتی ہے اور یوں مولوی فٹبال بن جاتا ہے اور مختلف عمروں کے ڈیوڈ بیکھیم اس کو کھیلتے رہتے ہیں۔ سویڈن کے عارف کسانہ نے کچھ عرصہ قبل مسلم معاشرے کے اس رجحان سے متاثر ہو کر اس قومی کھیل کو کھیلا اور علمائے سو کی اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے دل کے جلے پھپھولے خوب پھوڑے۔ کسانہ صاحب کے قلم کی کسک سے راقم کے دل میں یہ خیال جاگا کہ اس مولوی فوبیا معاشرے کو مولوی کی ایک اور تصویر دکھائی جائے۔ خدانخواستہ مولوی کی شان میں قصیدہ خوانی کا ارادہ نہیں ہے کہ آپ حضرات کے قلوب پر گراں گزرے۔ بس یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ مضحکہ خیز اور معاشرے کا غیر موزوں طبقہ تمام تر تیر و نشتر سہنے کے باوجود کتنا مضبوط ہے۔
سلطنت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ ہی مولوی نامہ کھل گیا تھا۔ پہلے پہل تو چند لوگوں کو بنیاد بنا کر سب کی تحقیر کی جاتی تھی، پھر علما کی تضحیک کی جانے لگی اور اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ جس نے ڈاڑھی رکھ لی، وہ مولوی ہے اور اس کا تمسخر اڑانا لازمی۔۔۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صدی بیت گئی، مولوی کی ہجو میں کیا کیا نہیں کہا گیا؟ مولوی آج بھی اسی شان سے مسجد میں آذان دیتا ہے، اسی آن بان سے جمعے کا خطبہ دیتا ہے، نہ اس کے معمول میں فرق آیا ہے اور نہ انداز میں۔۔۔بقول قدرت اللہ شہاب: ’’یہ مولوی ہی ہے جس نے گاؤں کی ٹوٹی مسجد میں بیٹھ کر چند ٹکڑوں کے عوض عوام کا رشتہ اسلام سے جوڑا ہوا ہے۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم ہے، نہ کوئی فنڈ ہے اور نہ کوئی تحریک۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ ملّا نے ہی اس کی راکھ کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔۔ دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد ہیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا رہتا ہے اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سر چھپا کر بیٹھا ہے۔ کوئی شخص وفات پا جاتا ہے، تو یہ اسکا جنازہ پڑھا دیتا ہے، نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دے دیتا ہے، کوئی شادی طے ہوتی ہے تو نکاح پڑھوا دیتا ہے۔ اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی اسے جمعراتی، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درودی کہتا ہے۔ یہ ملّا ہی کا فیض ہے کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار ہیں۔ برِّصغیر کے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسانِ عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہو سکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔
اعتراض کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ل ُو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں محلے کی تنگ مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟ نکاح اور جنازے کا مسئلہ ہو تو تمسخر اڑانے والوں کے لہجوں کا سارا جھاگ بیٹھ جاتا ہے، انگلیاں ٹیڑھی کر کر کے مذاق اڑانے والے منہ جھکا کر مولوی صاب مولوی صاب کر رہے ہوتے ہیں اور یہ مولوی کا ظرف ہے کہ اس نے معاشرے کے ان نابالغوں کی نادانیوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا ہے کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ اس کا نعم البدل کوئی نہیں، وہ انمول ہے‘‘ ۔
عارف کسانہ صاحب نے اپنی تحریر میں لکھا ہے کہ مولویوں کے کفر کے فتووں کی وجہ سے مسلمانوں کا خون سب سے زیادہ بہا ہے۔ کسانہ صاحب نے کسی تاریخی واقعے کی جانب اشارہ نہیں کیا اور تیر بھی چلا دیا۔ شاید ہٹلر کے مشیرِ خاص گوئبلز نے اسی اندازِ گفتگو کو پروپیگنڈے سے تعبیر کیا ہے۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم پر مولویوں نے کفر کے فتوے لگائے مگر کوئی ان کفر کے فتوے لگانے والے مولویوں کے نام بھی جانتا ہے؟ لوگ تو اشرف علی تھانوی کو جانتے ہیں، سلیمان ندوی کو جانتے ہیں، شبیر احمد عثمانی کو جانتے ہیں جنہوں نے تحریکِ پاکستان میں قائدِ اعظم کا ساتھ دیا۔ اگر کوئی شعبدے باز، مفاد پرست، چال باز، دشمن ایجنٹ مولوی کے روپ میں کوئی ایسا کام کرے جو مسلم امہ کے مفاد میں نہ ہو تو بجائے یہ کے اس کام پر تنقید کرتے ہوئے ایسے لوگوں کی نشان دہی کر کے صفوں سے باہر کیا جائے، اپنے ہی علما پر تنقید نابالغی اور مضحکہ خیزی کے زمرے میں آتی ہے۔ مولویوں کا تشخص استعمال کر کے لوگوں کو گمراہ کرنا اسلام دشمن قوتوں کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے۔ ہم لارنس آف عریبیہ جیسے کرداروں کو کیسے بھول سکتے ہیں، اگر کوئی استاد کرپشن کرے تو پورے نظامِ تعلیم کو ہی کیوں داغدار نہیں کیا جاتا؟ ایک فوجی کرپشن کر کے خود کرپٹ ہے، ایک سرکاری افسر مال ہڑپ کرنے میں خود اکیلا مجرم ہے مگر یہ کیسا معاشرہ ہے جو ایک مولوی کے جرم کی سزا پورے نظام کو دینا شروع کر دیتا ہے؟ علماء میں اختلافات ہیں، فرقے موجود ہیں مگر سیاسی اختلاف کی موجودگی کے باوجود سیاسی جماعتوں کی موجودگی قابلِ اعتراض نہیں تو مختلف مذاہب میں مختلف مکاتبِ فکر پر اعتراض کیوں؟ کیا رائے کا اختلاف بھی مولویوں کا حق نہیں ہے؟ اگر شیعہ سنی اختلاف ہے تو اس میں بہت سے تاریخی اور علمی مسائل ہیں اور ان مسائل پر اختلاف ایک فطری تقاضہ ہے۔ دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث علمی بنیادوں پر ایک دوسرے سے ا ختلاف کرتے ہیں، ان کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں اور علمی اختلاف ہونا تو باعثِ رحمت ہے، جاہلوں کی طرح ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے تو اچھا ہے کہ خلافت و امامت، حاضر ناظر اور تقلید جیسے مسائل پر اختلاف کر لیا جائے، کم از کم یہ اختلاف فکر ی ترقی کا باعث تو بنتا ہے۔ انسان کی ذہنی نشونما اور تحقیق و جستجو کی تو نمو کرتا ہے اور ایسے میں اگر کوئی انتہا پسندی پر اتر آئے تو یہ اس کا اسی طرح ذاتی فعل ہے جیسے ستونت سنگھ نے اندرا گاندھی کو گولی مار دی تھی۔ اس کے گولی مار دینے سے پوری ہندوستانی فوج قاتل قرار نہیں دی گئی تھی۔
ہمارے یہاں ایک اصطلاحِ عام ہے، علمائے سو کی۔۔۔علمائے سو کے فریم میں فٹ کر کے مولویوں کو جو بولنا ہے بول ڈالیے، کوئی پوچھے تو کہہ دیں گے کہ علمائے حق الگ ہیں، یہ بہانے بازیاں دراصل ہمارے احساسِ کمتری کی نشانیاں ہیں، ایک فوجی ہی عسکری معاملات میں رائے دینے کا اہل ہوتا ہے، علماء کے بارے میں بھی رائے دینا اہلِ علم کا کام ہے، ہر ایرا غیرا نتھو خیرا درانتی اٹھائے مولویوں کی جانب دوڑا چلا آ رہا ہے۔ جناب اپنی علمی حیثیت تو جانچیں۔۔چار الفاظ لکھنے کا علم کسی کو ارسطو نہیں بنا دیتا!




میں پردیس میں جس جگہ رہتا ہوں وہاں قطار میں پردیسی دوستوں کے متعدد کمرے ہیں۔چند دن قبل جب میں اپنے کمرے سے نکلا تو وہ حسبِ معمول باہر صوفے پر براجمان تھا۔مجھے دیکھ کر مسکرایا اور وہی بات دہرائی جو اکثر کہتا رہتاہے۔۔ میں نے بھی وہی جواب دیا جسکی اسے توقع تھی،، یعنی مسکرا کر ہاتھ سے 'نہ' کا اشارہ۔۔ اور میں مسجد میں عشاء کی نماز کیلئے داخل ہو گیا۔
نماز کے بعد میں مسجد سے کمرے میں جانے لگا تو اُس نے مجھے زبردستی روک لیا اور پوچھا، "یار تم آخر میرے لئے دعا کیوں نہیں کرتے، اور ہمیشہ انکار میں ٹال جاتے ہو؟"
میں نے کہا: "کیا دعا کروں تمہارے لئے؟"
کہنے لگا: "یہی کہ اللہ مجھے بھی نماز کی توفیق دے، اور تم ہر دفعہ 'ناں بھئی' کہہ دیتے ہو۔ دعا کرنے میں کیا حرج ہے بھلا؟"
میں نے کہا: "کس سے دعا کروں؟"
وہ حیرانگی سے بولا: "دعا کس سے کرتے ہیں؟ ظاہر ہے اللہ سے کرو"
میں نے کہا: "کس اللہ سے؟ اُسی اللہ سے جس کا حکم ماننے سے تم نے انکار کیا ہوا ہے؟"
وہ چونکا۔۔ 
میں نے اپنی بات جاری رکھی: "فرض کرو تمہارا منیجر تمہیں کوئی اہم کام سونپے، تو تم کیا کرو گے؟ کیا اسکی بات فوراً مان لو گے، اس ڈر سے کہ کہیں وہ تمہیں کمپنی سے نکال ہی نہ دے۔۔ یا پھر میرے پاس آؤ گے کہ بھئی منیجر نے مجھے فلاں کام کہا ہے،تو یار، تم منیجر کو کہو کہ ، منیجر صاحب۔۔جمیل یہ کام نہیں کرنا چاہتا، اسے کہو کہ جمیل یہ کام کر لے"
"کیا مطلب ہے تمہارا؟" وہ جھنجھلا کربولا۔
میں نے کہا: "مجھے بات مکمل تو کر لینے دو یار "
وہ ہنس کر بولا: "اچھا اچھا ، جھاڑو اپنی فلا سفی۔۔"
میں بولا: "ہاں تو، ظاہر ہے کہ تم مجھے ایسا کبھی نہیں کہو گے کہ میں جا کر دوبارہ منیجر سے کہوں کہ منیجر صاحب !جمیل آپکا حکم نہیں ماننا چاہ رہا، اسے فلاں کام کیلئے دوبارہ کہیں۔۔۔ تو کیا سوچے گا منیجر، اور تمہارا کیا حشر کرے گا۔۔"
وہ میری'منطق' سن کر دلچسپی سے کہنے لگا: "اپنی بات کُھل کر کہو، میرا دماغ اتنا کام نہیں کرتا"
میں فلاسفی کو سہل کرتے ہوئے اسے اصل پوائنٹ پر لے آیا: "دیکھو، بات سیدھی سی ہے۔۔ اللہ نے تمہیں ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ نماز پڑھنے کا کہا ہے قرآن میں، حالانکہ ایک دفعہ کہہ دینا ہی تمہارے لئے کافی ہونا چاہئے تھا، لیکن وہ اتنا کریم ہے کہ اس سب کے باوجود بھی تمہیں ہردن میں20 دفعہ اپنے گھر میں بلاتا ہے، نماز کیلئے۔۔ تمہاری فلاح کیلئے۔۔"
وہ اب مکمل سنجیدہ ہو کر سُن رہا تھا۔۔
"تم نے کلمہ طیبہ پڑھ کر خود ہی تو اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ یا اللہ تُو ہی میرا معبود ہے، میں اب ہمیشہ تیری عبادت کروں گا۔ یہ وعدہ بھول گئے ہو کیا؟
اب تم ہی مجھے بتاؤ کہ میں کس منہ سے اللہ سے کہوں کہ وہ تمہیں نماز کی توفیق دے؟ جبکہ وہ تمہیں توفیق دے چکا ہے۔ یعنی تم آذان سن سکتے ہو، تمہارے پاؤں سلامت ہیں، ہاتھ موجود ہیں، اللہ نے دیکھنے اور چلنے کی قوت بھی دی ہوئی ہے،، جا کر وضو کر سکتے ہو۔۔ تو پھر اور کیا توفیق دے تمہیں؟؟ اب آسمان سے فرشتے تو آنے سے رہے جو تمہیں اُٹھا کر مسجد میں چھوڑنے جائیں گے۔"
وہ اپنا سر جھکائے جا رہا تھا۔۔
"میں اسی وجہ سے ہی کہتا ہوں کہ بھئی میں تمہارے لئے یہ دعا نہیں کر سکتا،، کہ کہیں گستاخی نہ کر بیٹھوں اُسکی بارگاہ میں۔۔"
اپنی تقریر جھاڑ کر میں کمرے میں چلا گیا اور وہ وہیں بُت بنا کھڑا رہا۔
کمرے میں جاکر میں نے اللہ کریم سے سرگوشی کی، 'اے اللہ، میں نے اپنا فرض ادا کردیا، اب تُو ہی کرم فرما کر اسکا ہاتھ تھام لے اور اسکے قلب کی اصلاح فرما'
تھوڑی دیر بعد جب میں ڈریس چینج کرکے گراؤنڈ جانے کیلئے باہر نکلا تو وہ نمازِ عشاء کیلئے وضو کر کے آسمان کی طرف منہ اُٹھا کے وضو کے بعد کی دعا پڑھ رہا تھا،،
" اَشہدُ اَن لّا اِلٰہ اِلّااللہُ وَ اَشہدُ اَنَّ مُحمداً عبدہُ و رَسُولُہ "
میں گراؤنڈ کی طرف چلتا جا رہا تھا، اور میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔۔!
(تحریر: محمدنعمان بخاری)




ایک اہم تحریر

خواتین مرد حضرات کو بھائی کہہ کر اور خود کو بہن کہلواکر مطمئن ہو جاتی ہیں... مگر انھیں خبر ہی نہیں ہوتی کہ ان سے گفتگو کے بعد ہی سے مرد کس غلاظت سے نبرد آزما ہوجاتا ہے... شیطان تاک کے بیٹھا ہوا ہوتا ہے...! وہ تو اس وقت بھی موجود ہوتا ہے جب یہ پاکیزہ رشتہ قائم ہو رہا ہوتا ہے... کیونکہ نامحرموں کے درمیان شیطان کی استراحت گاہ ہے... خواتین اس بات کا گمان بھی نہیں کر سکتیں کہ اتنے پاکیزہ رشتے سے پکارنے پر بھی مرد کچھ غلاظت کی کھچڑی پکائے گا ذہن میں... مگر بات تو یہ ہے کہ مرد کو خود بھی رشتے اور زبان کا پاس ہوتا ہے... شیطان کو نہیں ہوتا...! ہمیں یہ سمجھنا ہوگا...! جب دو نامحرم قریب آتے ہیں... چاہے جسمانی طور پر یا دماغی طور پر اکیلے میں فون پر یا میسجز کے دوران... تو ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے... اتنا تو ہمیں پتا ہے... جو ہمیں نہیں پتا وہ یہ ہے کہ جب وہ جدا ہوتے ہیں تو شیطان ان سے جدا نہیں ہوتا...! وہ مرد کے ذہن کو یا عورت کے ذہن کو غلاظت کی دُھونی لازمی دے دیتا ہے... اسی وجہ سے لوگ آپکا یقین نہیں کرتے جب آپ سے ایسے کسی غیر شرعی 'بہن بھائی' رشتے کی بابت استفسار کیا جاتا ہے اور آپ کہتے ہیں "میں نے اسکے بارے میں کبھی 'اس' طرح نہیں سوچا..!"... اور مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ بھی اپنی اس سوچ کے ذمہ دار نہیں ہوتے... پتا ہے کون ہوتا ہے...!؟ شیطان... جی ہاں... آپ کو ابھی تک نہیں معلوم کہ یہ شیطان کیا ہے... یقین مانیے... اس نے وعدہ کیا تھا رب سے کہ میں ضرور بالضرور تاقیامت بہکاؤں گا لوگوں کو...!
ادھر میں نفس کے بارے میں بھی بتاتا چلوں... اس کے بارے میں جتنا میں سمجھ سکا ہوں... نفس ایک ایسا طالبِ علم ہے جس کا استاد یا تو شیطان ہوگا یا آپ خود... آپ خود اس کو تعلیم کر کے اچھا کر دیں یا وہ اس کو خراب کردے گا... اور اس کی خصلت بالکل طلباء جیسی ہے... یہ بھول جاتا ہے جو کچھ اسے پڑھایا جاتا ہے... اس وجہ سے اس کو سدھایا بھی جا سکتا ہے اور اس پر کڑی نظر رکھنا پڑتی ہے اور بار بار تعلیم کرنا پڑتا ہے... کچھ لوگ جو ہمیشہ سوچتے ہی غلط ہیں ان کا نفس شیطان سے تعلیم یافتہ ہوتا ہے... پھر شیطان ان پر محنت ختم کر کے ان کو نفس کے حوالے کر دیتا ہے جسکو وہ خود ہی غلط طریقے پر تعلیم کرتے رہتے ہیں... اور جنابِ شیطان نئے شکار پر جت جاتا ہے... ایک نئے طریقے سے... نئے انداز میں... نئی عیاری سے... نئی فنکاری سے... مگر اسکے دھوکے میں نہیں آتے... نیکو کار اور تقوی دار... پرہیز گار اور ابرار...!
(تحریر: رؤف الرحمٰن)





کہانی ایک ڈاڑھی والے کی.......سانحہ لاہور کے تناظر میں

جب میں اپنے ہم وطنوں کو تلاش روزگار میں دیار غیر جاتے دیکهتا ہوں تو یک گونہ حسرت مجهے بهی ترک وطن پر آمادہ کرتی ہے......سوچوں کی لگام کس لیتا ہوں تو قرعہ فال افریقہ کے نام نکل آتا ہے.....میں افریقہ جانے کا سوچتا ہوں تو میرے خیر خواہ مجھے ڈراتے ہیں کہ وہاں لوگ جب جب ڈکیتی کرتے ہیں تو ہاتھ سے گهڑی اتارنے کے بجائے ہاتھ ہی کاٹ کر لے جاتے ہیں...یہ سن کر میرے بچوں کی حسرت بھری نگاہیں میرا راستہ روک دیتی ہیں....
پهر سوچتا ہوں سوئے یورپ چل پڑوں......وہاں سے خبر آتی ہے کہ ہے کہ وہاں ڈاڑھی والوں کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے....یہ سن کر بوڑھے ماں باپ بے سہارا نظر آنے لگتے ہیں....میں یہ خیال بهی ترک کر دیتا ہوں....
پهر خیال آتا ہے کہ کسی عرب ریاست میں چلا جائوں....اچانک سعودی عرب سے آئے ہوئے دوست سے سنتا ہوں کہ وہاں خارجیوں کو انسان نہیں جانور تصور کیا جاتا ہے.....یہ سن کر دل مسوس کر رہ جاتا ہوں...یہ سب باتیں سن کر اپنا وطن مجھے جنت معلوم ہوتا ہے.. میں اپنے وطن میں جینے مرنے کی قسم کهاکر اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتا ہوں...
اس کے بعد میں اپنی جنت کی فضائوں میں ایک آزاد پنچھی کی طرح اڑتا پھرتا ہوں.....اپنے وطن کی محبت سے روح کو سرشار کرتا ہوں.....ہروقت اپنی دھرتی کے لیے کچھ کر گزرنے کے عزم کا اعادہ کرتا ہوں....میرے وطن کی بنیادوں میں بارود بھرنے والا ہر شخص میری آنکھوں کا کانٹا بن جاتا ہے....وطن کی آبیاری کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنا باعث سعادت سمجھتا ہوں....وطن کی مٹی کو حقارت سے دیکھنے والے کو سبق سکھانے کا عزم کرتا ہوں.....ناموس وطن کی چنگاری ہردم میرے دل میں سلگتی رہتی ہے....روزانہ صبح اس نیت سے اٹھتا ہوں کہ جس وطن کی مٹی میں سر چھپانے کو آشیانہ میسر ہے..اس کے لیے کچھ کر گزر جائوں....
صبح اٹھ کر میں اپنے آفس کے لیے نکلتا ہوں....کچھ فاصلے پر مجھے ایک ہجوم نظر آتا ہے.....میں دیکھتا ہوں کہ وہاں قیامت صغریٰ کا منظر ہے...خون میں لت پت لاشیں ہیں....ہر طرف انسانوں کے کٹے ہاتھ اور جلے ہوئے پائوں دهرے ہیں.....
وطن سے محبت کا احساس میرے دل و دماغ پہ ہتھوڑے برساتا ہے.....غصے سے کانپنے لگتا ہوں کہ ظالموں نے میرے وطن کو پهر خون میں نہلادیا.....
میں اپنے دماغ میں ان دہشت گردوں کی سرکوبی کے تانے بانے بننے لگتا ہوں....اچانک ایک شخص میرے کان میں سرگوشی کرتا ہے......چرچ میں دھماکہ ہوا ہے.....کئی افراد ہلاک و زخمی ہوئے ہیں.....آپ کی ڈاڑھی ہے....آپ یہاں سے بھاگ جائیں....ورنہ کچھ بهی ہوسکتا ہے.....یہ خبر سن کر میرے اندر کا انسان جاگ جاتا ہے....اور میں تیز قدم اٹھاتے ہوئے ہجوم کی طرف سر پٹ بھاگتا ہوں....
کیونکہ میں ایک مسلمان ہوں....مجهے اسلام نے انسانیت سے ہمدردی کا سبق دیا ہے......میں ہجوم کے پاس پہنچ کر کسی زخمی کو سہارا دینے کی کوشش کرتا ہوں.....اچانک ایک ہجوم مجهے پہ چڑھ دوڑتا ہے......
پهر مجهے کچھ یاد نہیں رہتا......سوائے اس کے کہ مجهے اپنی جنت میں میں ہی دوزخ کا عذاب دیا جاتا ہے....اور میں جل کر راکھ ہوجاتا ہوں.....!
(تحریر: شکیل رانا)

0 comments:

Post a Comment