Wednesday, January 31, 2018

ترس رہا ہوں مگر تو نظر نہ آ مجھ کو


ترس رہا ہوں مگر تو نظر نہ آ مجھ کو
کہ خود جدا ہے تو مجھ سے نہ کر جدا مجھ کو 

وہ کپکپاتے ہوئے ہونٹ میرے شانے پر
وہ خواب سانپ کی مانند ڈس گیا مجھ کو
چٹخ اٹھا ہو سلگتی چٹان کی صورت
پکار اب تو مرے دیر آشنا مجھ کو
تجھے تراش کے میں سخت منفعل ہوں کہ لوگ
تجھے صنم تو سمجھنے لگے خدا مجھ کو
یہ اور بات کہ اکثر دمک اٹھا چہرہ
کبھی کبھی یہی شعلہ بجھا گیا مجھ کو
یہ قربتیں ہی تو وجہ فراق ٹھہری ہیں
بہت عزیز ہیں یاران بے وفا مجھ کو
ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں
وہ ایک شخص کہ شاعر بنا گیا مجھ کو
اسے فرازؔ اگر دکھ نہ تھا بچھڑنے کا
تو کیوں وہ دور تلک دیکھتا رہا مجھ کو

احمد فراز

محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہو جانا


محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہو جانا
متاعِ جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہو جانا



قدم ہیں راہِ الفت میں‌ تو منزل کی ہوس کیسی؟
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چُور ہو جانا



یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو
کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہوجانا



بَسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجا ہے
پہاڑوں کو توبس آتا ہے جل کر طور ہوجانا



نظر سے دور رہ کر بھی تقی وہ پاس ہیں میرے
کہ میری عاشقی کو عیب ہے مہجور ہوجانا


مفتی تقی عثمانی

نقاب روئے نادیدہ کا از خود دور ہو جانا

Related image


ہزاروں قربتوں پر یوں مرا مہجور ہو جانا 
جہاں سے چاہنا ان کا وہیں سے دور ہو جانا 

نقاب روئے نادیدہ کا از خود دور ہو جانا 
مبارک اپنے ہاتھوں حسن کو مجبور ہو جانا 

سراپا دید ہو کر غرق موج نور ہو جانا 
ترا ملنا ہے خود ہستی سے اپنی دور ہو جانا 

نہ دکھلائے خدا ، اے دیدہ تر دل کی بربادی 
جب ایسا وقت آئے پہلے تو بے نور ہو جانا 

جو کل تک لغزش پائے طلب مسکراتے تھے 
وہ دیکھیں آج ہر نقش قدم کا طور ہو جانا 

محبت کیا ہے ، تاثیر محبت کس کو کہتے ہیں؟ 
ترا مجبور کر دینا،مرا مجبور ہو جانا 

محبت عین مجبوری سہی لیکن یہ کیا باعث 
مجھے باور نہیں آتا مرا مجبور ہو جانا 

نگاہ ناز کو تکلیف جنبش تا کجا آخر 
مجھی پر منحصر کر دو مرا مجبور ہو جانا 

جگر وہ حسن یکسوئی کا منظر یاد ہے اب تک 
نگاہوں کا سمٹنا اور ہجوم نور ہو جانا 

جگر مراد آبادی

مِرا دیوانگی پر اس قدر مغرُور ہو جانا


مِرا دیوانگی پر اس قدر مغرُور ہو جانا
کہ رفتہ رفتہ حدِِّ آگہی سے دُور ہو جانا



پتہ دیتا ہے گُمراہیِ رہگیرِ محبت کا
بِچھڑنا اور بِچھڑ کر قافلے سے دُور ہو جانا



کہیں دنیائے اُلفت کو تہہ و بالا نہ کرڈالے
غرُورِ حُسن کے آئین کا دستُور ہو جانا



ازل سے تیرہ بخت عِشق کے حصے میں آیا ہے
شبِ غم دِل کا جل جل کر چراغِ طُور ہو جانا



مِری دانستِ ناقص میں کمالِ خود نُمائی ہے
زمیں سے آسماں تک آپ کا مشہُور ہو جانا



کسی کا جشنِ آزادی منانا ہے بہت آسان
مگر دُشوار ہے غارت گرِ جمہُور ہو جانا



رگوں کا خون رفتہ رفتہ ٹھنڈا ہو چلا میکشؔ
مِرے دردِ جِگر کو آگیا کافُور ہو جانا۔۔۔!

میکشؔ ناگپوری

ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ محبت لکھنا


ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ محبت لکھنا

زندگی بھر کسی انساں سے نہ نفرت لکھنا
ان کو چاہا تو عجب شان سے چاہا ہم نے
بس انہیں سوچا ہے تاعمر قیامت لکھنا
کچھ ہنر آ نہ سکا مدح سرائی کا ہمیں
اور آیا تو روایت سے بغاوت لکھنا
رہبرِ قوم ملے کیسے ہمیں واہ رے نصیب
,, اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا,,
سر میں سودا لئے پھرتے رہے در در یارو!
الغرض سیکھ گئے نسخۂ وحشت لکھنا
ان دنوں شہر کے لوگوں کا چلن ایسا ہوا
چور ہیں جو بھی انہیں صاحبِ ثروت لکھنا
الاماں بیٹھے ہیں مسند پہ یہ کیسے حاکم
جن کی خصلت ہی نہیں لوگوں کی خدمت لکھنا
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں کب سے یارو!
کون پوری کرے حاجت کیا شکایت لکھنا
ان سے رکھا نہ گیا کچھ بھی محبت کا بھرم
خاک اب خط میں انہیں جانِ محبت لکھنا
ہاتھ میں رکھا ہے بس ہم نے قلم کا ہتھیار
پاس اپنے ہے یہی حرف کی طاقت لکھنا
زندگی بھر ہمیں شہزاد کہاں چین ملا
کاش آجاتا ہمیں غم کو بھی راحت لکھنا

ضیاء شہزاد

اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا


اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا
رو گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا



لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا



نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنّا ہم کو

حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا



ہم نے جو بھول کے بھی شہ کا قصیدہ نہ لکھا

شاید آیا اسی خوبی کی بدولت لکھنا



اس سے بڑھ کر مری تحسین بھلا کیا ہوگی

پڑھ کے ناخوش ہیں مرا صاحبِ ثروت لکھنا



دہر کے غم سے ہوا ربط تو ہم بھول گئے

سرو قامت کو جوانی کو قیامت لکھنا




کچھ بھی کہتے ہیں کہیں شہ کے مصاحب جالب

رنگ رکھنا یہی اپنا اسی صورت لکھنا


حبیب جالب

Tuesday, January 30, 2018

سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی


سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی
دل نے چاہا بھی اگر، ہونٹوں نے جنبش نہیں کی


اہلِ محفل پہ کب احوال کھلا ہے اپنا
ہم بھی خاموش رہے اس نے بھی پُرسش نہیں کی


جس قدر اس سے تعلق تھا چلا جاتا ہے
اس کا کیا رنج کہ جس کی کبھی خواہش نہیں کی


یہ بھی کیا کم ہے کہ دونوں کا بھرم قائم ہے
اس نے بخشش نہیں کی ہم نے گزارش نہیں کی


اک تو ہم کو ادب آداب نے پیاسا رکھا
اس پہ محفل میں صراحی نے بھی گردش نہیں کی


ہم کہ دکھ اوڑھ کے خلوت میں پڑے رہتے ہیں
ہم نے بازار میں زخموں کی نمائش نہیں کی


اے مرے ابرِ کرم دیکھ یہ ویرانۂ جاں
کیا کسی دشت پہ تو نے کبھی بارش نہیں کی


کٹ مرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے
مقتلِ شہر میں ٹھہرے رہے جنبش نہیں کی


وہ ہمیں بھول گیا ہو تو عجب کیا ہے فرازؔ
ہم نے بھی میل ملاقات کی کوشش نہیں کی

احمد فرازؔ

جب بھی لکھنا ہو تمہیں صرف حقیقت لکھنا

Image result



احمد علی برقی اعظمی

جب بھی لکھنا ہو تمہیں صرف حقیقت لکھنا
تم ریاکاری کو ہرگز نہ عبادت لکھنا
اے مورخ رہے ملحوظ قلم کی حُرمت
میرے حالات کو افسانۂ عبرت لکھنا
جس سے وہ صفحۂ تاریخ کی زینت بن جائے
ہو بہو جیسی ہو جس کی وہی صورت لکھنا
ناگہاں موت قیامت سے نہیں کم ہوتی
تم فسادات کو آثارِ قیامت لکھنا
آج ہیں نذرِ فسادات جہاں بھی مظلوم
تم اسے اہلِ حکومت کی شرارت لکھنا
امن کے نام پہ جو جنگ کو دیتے ہیں ہوا
اُن کے اطوار کو شیطان کی خصلت لکھنا
جیسے پہلے تھے نہ ویسے رہے برقی اخبار
آج سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا

ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ محبت لکھنا


ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ محبت لکھنا

زندگی بھر کسی انساں سے نہ نفرت لکھنا
ان کو چاہا تو عجب شان سے چاہا ہم نے
بس انہیں سوچا ہے تاعمر قیامت لکھنا
کچھ ہنر آ نہ سکا مدح سرائی کا ہمیں
اور آیا تو روایت سے بغاوت لکھنا
رہبرِ قوم ملے کیسے ہمیں واہ رے نصیب
,, اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا,,
سر میں سودا لئے پھرتے رہے در در یارو!
الغرض سیکھ گئے نسخۂ وحشت لکھنا
ان دنوں شہر کے لوگوں کا چلن ایسا ہوا
چور ہیں جو بھی انہیں صاحبِ ثروت لکھنا
الاماں بیٹھے ہیں مسند پہ یہ کیسے حاکم
جن کی خصلت ہی نہیں لوگوں کی خدمت لکھنا
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں کب سے یارو!
کون پوری کرے حاجت کیا شکایت لکھنا
ان سے رکھا نہ گیا کچھ بھی محبت کا بھرم
خاک اب خط میں انہیں جانِ محبت لکھنا
ہاتھ میں رکھا ہے بس ہم نے قلم کا ہتھیار
پاس اپنے ہے یہی حرف کی طاقت لکھنا
زندگی بھر ہمیں شہزاد کہاں چین ملا
کاش آجاتا ہمیں غم کو بھی راحت لکھنا

 ضیاء شہزاد

اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا

Image result for habib jalib



حبیب جالب
اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا
رو گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا

نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنّا ہم کو
حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا
ہم نے جو بھول کے بھی شہ کا قصیدہ نہ لکھا
شاید آیا اسی خوبی کی بدولت لکھنا
اس سے بڑھ کر مری تحسین بھلا کیا ہوگی
پڑھ کے ناخوش ہیں مرا صاحبِ ثروت لکھنا
دہر کے غم سے ہوا ربط تو ہم بھول گئے
سرو قامت کو جوانی کو قیامت لکھنا
کچھ بھی کہتے ہیں کہیں شہ کے مصاحب جالب
رنگ رکھنا یہی اپنا اسی صورت لکھنا

شیشہ مرے لا شعور کا ہے


سلیمان خمار
شیشہ مرے لا شعور کا ہے
جس میں ترا عکس جم گیا ہے


یوں ہے کہ معاملہ ہمارا
ہاتھوں کی لکیر سے ورا ہے


تھکتے نہیں اس لئے مرے پانؤ
تُو بھی مرے ساتھ چل رہا ہے


جلتا ہے نہ جانے کیوں زمانہ
جب تُو مجھے ہنس کے دیکھتا ہے


ٹوٹی مری نیند تو کھُلا یہ
میرے لئے کوئی جاگتا ہے


پھر آگئی دل میں یاد اُس کی
صحرا میں گلاب کھِل رہا ہے


تنہائیاں گُنگُنا رہی ہیں
یادوں کا ستار بج رہا ہے


لمحوں کی تِھرکتی تتلیوں پر
میں نے ترا نام لکھ دیا ہے


جادو ہیں تری سمندر آنکھیں
دریا کا بہاؤ رُک گیا ہے

احمد ندیم قاسمی


احمد ندیم قاسمی
ہر لمحہ اگر گریز پا ہے
تُو کیوں مرے دل میں بس گیا ہے


چلمن میں گلاب کھِل رہا ہے
یہ تُو ہے کہ شوخیء صبا ہے


میں نے تجھے دیکھا جب سے پیارے
ہر چیز پہ، پیار آ رہا ہے


میری تیرے کہے سے چپ ہوں لیکن
چپ بھی تو بیانِ مدعا ہے


ہر دیس کی اپنی اپنی بولی
صحرا کا سکوت بھی صدا ہے


اک عمر کے بعد مسکرا کر
تُو نے تو مجھے رُلا دیا ہے


اُس وقت کا میں حساب کیا دوں
جو تیرے بغیر کٹ گیا ہے


رونے کو اب اشک بھی نہیں ہیں
یا عشق کو صبر آ گیا ہے


اب کس کی تلاش میں ہیں جھونکے
میں نے تو دیا بُجھا دیا ہے


کچھ کھیل نہیں ہے عشق کرنا
یہ زندگی بھر کا رت جگا ہے

ایک زمین کئی شاعر
محشر بدایونی اور احمد علی برقی اعظمی
محشر بدایونی
آخر آخر ایک غم ہی آشنا رہ جائے گا 
اور وہ غم بھی مجھ کو اک دن دیکھتا رہ جائے گا 
سوچتا ہوں اشک حسرت ہی کروں نذر بہار 
پھر خیال آتا ہے میرے پاس کیا رہ جائے گا 
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ 
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا 
آج اگر گھر میں یہی رنگ شب عشرت رہا 
لوگ سو جائیں گے دروازہ کھلا رہ جائے گا 
تا حد منزل توازن چاہئے رفتار میں 
جو مسافر تیز تر آگے بڑھا رہ جائے گا 
گھر کبھی اجڑا نہیں یہ گھر کا شجرہ ہے گواہ 
ہم گئے تو آ کے کوئی دوسرا رہ جائے گا 
روشنی محشرؔ رہے گی روشنی اپنی جگہ 
میں گزر جاؤں گا میرا نقش پا رہ جائے گا 
احمد علی برقیؔ اعظمی
نور حق کونین میں جلوہ نما رہ جائے گا
’’ جس دئے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا ‘‘
حُسنِ عالمتاب ہے غارتگرِ ہوش و خرد
تو اگر دیکھے گا اس کو دیکھتارہ جائے گا
خاک میں مِل جائے کا یہ جاہ و حشمت کا نشاں
صفحۂ تاریخ پر تو بدنما رہ جائے گا
کام آئیں گے نہ تیرے حاشیہ بردار یہ
ساتھ تیرے ظلم و جورِ ناروا رہ جائے گا
یہ جہانِ رنگ و بو ہے عالمِ ناپایدار
سب فنا ہوجائے گا دارالبقا رہ جائے گا
ظلم و استحصال کی ہوتی ہے آخر ایک حد
ختم ہوجائے گا سب نامِ خدا رہ جائے گا
خدمتِ نوعِ بشر سے بڑھ کے برقی کچھ نہیں
زیبِ تاریخِ جہاں نامِ وفا رہ جائے گا

ایک زمین کئی شاعر


ایک زمین کئی شاعر
میرتقی میر اور احمد علی برقی اعظمی
میر تقی میرؔ
اس کا خیال چشم سے شب خواب لے گیا 
قسمے کہ عشق جی سے مرے تاب لے گیا 
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک 
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا 
آوے جو مصطبہ میں تو سن لو کہ راہ سے 
واعظ کو ایک جام مئے ناب لے گیا 
نے دل رہا بجا ہے نہ صبر و حواس و ہوش 
آیا جو سیل عشق سب اسباب لے گیا 
میرے حضور شمع نے گریہ جو سر کیا 
رویا میں اس قدر کہ مجھے آب لے گیا 
احوال اس شکار زبوں کا ہے جائے رحم 
جس ناتواں کو مفت نہ قصاب لے گیا 
منہ کی جھلک سے یار کے بے ہوش ہو گئے 
شب ہم کو میرؔ پرتو مہتاب لے گیا
احمد علی برقی اعظمی
سرسبز کھیت گلشنِ شاداب لے گیا
سب کچھ بہا کے ساتھ میں گرداب لے گیا
برباد کر نہ دے تجھے تیرا خمارِ خواب
’’ مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا‘‘
مت پوچھ میرے کیسے گذرتے ہیں روز و شب
جو کچھ بچی تھی مُجھ میں تب و تاب لے گیا
گُل ہو نہ جائے شمعِ شبستانِ زندگی
جو روشنی تھی کِرمکِ شبتاب لے گیا
صبر آزما ہے میرے لئے اُس کا انتظار
آنکھوں سے وہ چُرا کے مری خواب لے گیا
آنکھوں کی میری پیاس بجھائے گا کون اب
چشمِ پُر آب سے وہ مری آب لے گیا
وہ اپنے ساتھ لے گیا اس کی متاعِ شوق
برقیؔ سے اس کا گوہرِ نایاب لے گیا