Wednesday, June 3, 2015

میر وزیر علی صبا لکھنوی

جلوہ ہے ہر اک رنگ میں اے یار تمہارا
اک نور ہے کیا مختلف آثار تمہارا

ہوتا نہ یہ بندہ جو خریدار تمہارا
رونق نہ پکڑتا کبھی بازار تمہارا

اے منعمو! سامانِ سواری پہ نہ بھولو
اڑ جائے گا اک روز ہوادار تمہارا

تم قتل کرو گے جو مجھے تیغِ نگہ سے
منہ دیکھ کے رہ جائے گی تلوار تمہارا

بوسے لبِ شیریں کے عنایت نہیں ہوتے
پرہیز میں مر جائے گا بیمار تمہارا



گہ آئینہ ہوا، گہ دیدہء پُر آب گھٹا
کبھی بڑھا کبھی دریائے اضطراب گھٹا

عزیز آئے نہ رونے کو میری تربت پر
بہا کے اشک ہوئی داخلِ ثواب گھٹا

تمہاری زلف نہ گردابِ ناف تک پہنچی
ہوئی نہ چشمہء حیواں سے فیض یاب گھٹا

فراقِ یار میں بے کار سب ہیں اے ساقی
پیالہ، شیشہ، گزک، میکدہ، شراب، گھٹا

کسی کو منہ تہہِ زلفِ سیاہ یاد آیا
کبھی جو آ گئ بالائے آفتاب گھٹا 

تری کمر کی لچک پر تڑپتی ہے بجلی
ہوائے زلف میں کھاتی ہے پیچ و تاب گھٹا


ہوائے یار میں کیا دل کو اضطراب رہا
چکور چاند کی خاطر بہت خراب رہا

ہمیشہ کوششِ دنیا میں اضطراب رہا
بہت خراب دلِ خانماں خراب رہا

نہ برشگال میں جب تک شراب پلوا لی
بلا کی طرح سے سر پر مرے سحاب رہا

ہم اپنے حال پہ روتے ہیں اب ضعیفی میں
خوشا وہ عہد کہ طفلی رہی، شباب رہا

وہ بادہ نوش تھے پیری میں بھی نہ توبہ کی
شراب خُم میں رہی، شیشی میں خضاب رہا

ہر اک مقام پہ نشوونما رہی دل کی
چمن میں پھول رہا، بحر میں حباب رہا

خط آ گیا ، نہ رہا عشقِ مصحفِ رخِ یار
نہ وہ کتاب رہی اور نہ وہ حساب رہا

ہمیشہ قلزمِ ہستی میں صورتیں بدلیں
کبھی تو موج رہا اور کبھی حباب رہا

یہ وہ فلک ہے کہ جس کے سبب سے عالم میں
نہ ایک حال پہ دو روز ماہتاب رہا

خوشی وہ کون سی دی جس کے بعد غم نہ دیا
ہمیشہ سر پہ فلک بر سرِ حساب رہا

کمند لے کے وہیں موج ہو گئ موجود
جہاں ذرا سر اٹھائے ہوئے حباب رہا

برنگِ موجِ ہوا اے صبا ہوئے تھے خلق
رہے جہان میں جس دم تک اضطراب رہا



کیوں ان کی چال دیکھی جو یہ حال ہو گیا
میں آپ اہنے ہاتھ سے پامال ہو گیا

کچھ قیس سے بھی بڑھ کے مرا حال ہو گیا
کس قہر کا جنوں مجھے امسال ہو گیا

میں بدنصیب، غیر خوش اقبال ہو گیا
یہ آپ کے مزاج کا کیا حال ہو گیا

دریا بہا مرے عرقِ انفعال کا
کاغز کی ناؤ نامہء اعمال ہو گیا

ہم پِس گئے خرام پہ تو یار نے کہا
پاپوش سے اگر کوئی پامال ہو گیا

مجھ سے فضول خرچ کے ہتھے جو چڑھ گیا
دو دن میں آسمان بھی کنگال ہو گیا



نیا سوانگ لائے ہیں عشقِ صنم میں
ذرا کوئی دیکھے تماشا ہمارا

نکل جائے گی سب کجی آسماں کی
کبھی تو پھرے گا زمانا ہمارا

دلایا گیا فاتحہ جامِ مے پر
ہوا میکدے میں پیالا ہمارا

شبِ ہجر میں عرش تک ہل رہا ہے
بہت دور جاتا ہے نالا ہمارا

ترے ہاتھ سے واشدِ دل نہ ہو گی
کھلے گا نہ تجھ سے معما ہمارا

کدورت نہیں اپنی طبعِ رواں میں
بہت صاف بہتا ہے دریا ہمارا




واعظ کے، میں ضرور ڈرانے سے ڈر گیا
جامِ شراب لائے بھی، ساقی کدھر گیا

بلبل کہاں، بہار کہاں، باغباں کہاں
وہ دن گذر گئے، وہ زمانہ گذر گیا

جھوٹوں کا بادشاہ کہوں، اے صنم تجھے
یہ حال ہے کہ بات کہی اور مکر گیا

ایسی کفن کی قطع پسند آ گئ ہمیں
دل سے ہمارے جامہء ہستی اتر گیا

صورت ہمارے دیدہء حیراں کی دیکھ کر
آئینہ صاف ان کی نظر سے اتر گیا

اچھا ہوا جو ہو گئے وحدت پرست ہم
فتنہ گیا، فساد گیا، شور و شر گیا

کعبے کی سمت سجدہ کیا دل کو چھوڑ کر
تو کس طرف تھا، دھیان ہمارا کدھر گیا

مثلِ حباب بحرِ جہاں میں نہ دم لیا
اک موج تھا کہ میں اِدھر آیا، اُدھر گیا

پھر سیرِ لالہ زار کو ہم اے صبا چلے
آئی بہار، داغِ جنوں پھر ابھر گیا