Sunday, November 30, 2014

فرحت عباس شاہ


دیکھ لینا کہ کسی دُکھ کی کہانی تو نہیں
یہ جو آنسو ہیں، کہیں اُس کی نشانی تو نہیں

دِکھ رہی ہے جو مُجھے صاف تیری آنکھوں میں
تُو نے یہ بات کہیں مُجھ سے چُھپانی تو نہیں

جانتا ہوں کہ سرابوں میں گھرا ہوں یارو
دوڑ پڑتا ہوں مگر پھر بھی کہ پانی تو نہیں

جس طرح شہر سے نکلا ہوں میں بیمار ترا
یہ اُجڑنا ہے، کوئی نقل مکانی تو نہیں

اُس نے چاہا ہے مُجھے اپنے خُدا سے بڑھ کر
میں نے یہ بات زمانے کو بتانی تو نہیں

یہ جو ہر موڑ پہ آ ملتی ہے مُجھ سے فرحت
بدنصیبی بھی کہیں میری دیوانی تو نہیں

کشور ناہید


ہم کہ مغلوبِ گماں تھے پہلے
پھر وہیں ہیں کہ جہاں تھے پہلے

خواہشیں جھریاں بن کرابھریں
زخم سینے میں نہاں تھے پہلے

اب تو ہر بات پہ رو دیتے ہیں
واقفِ سود و زیاں تھے پہلے

دل سے جیسے کوئی کانٹا نکلا
اشک آنکھوں سے رواں تھے پہلے

اب فقط انجمن آرائی ہیں
اعتبارِ دل و جاں تھے پہلے

دوش پہ سر ہے کہ ہے برف جمی
ہم تو شعلوں کی زباں تھے پہلے

اب تو ہر تازہ ستم ہے تسلیم
حادثے دل پہ گراں تھے پہلے

میری ہمزاد ہے تنہائی میری
ایسے رشتے بھی کہاں تھے پہلے

شہزاد قیس



بہار ، شانِ چمن ہے ، وَقار ہے تتلی
بہار کہتی ہے ’’اُوں ہُوں بہار ہے تتلی‘‘

گُلوں کی دید سے ہے خوشگوار رَنگِ چمن
نگاہِ گُل کے لیے خوشگوار ہے تتلی

یہ چومتی نہیں ، گُل اُنگلیوں پہ گنتی ہے
حسین پھولوں کی مردُم شمار ہے تتلی

چمن میں غیر مناسِب مَناظِر اَپنی جگہ
کمالِ ذوق کا اِک شاہکار ہے تتلی

عُدو کو پھول کے بھٹکا کے دُور لے جائے
حسین غنچوں کا دِلکش حِصار ہے تتلی

ذِرا بھی کرتی نہیں اِنحراف فطرت سے
بہشتی پھول ہے ، پرہیز گار ہے تتلی

پروں پہ تتلی کے شہباز واہ واہ کرے
سفید مورنی کا اِفتخار ہے تتلی

جو اِس کو دیکھ لیں دِل باغ کو مچلتا ہے
چمن کا اُڑتا ہُوا اِشتہار ہے تتلی

گُلوں سے گوریاں ، گورے بدن میں رَنگ بھریں
گُلوں کے رُوپ کو سولہ سنگھار ہے تتلی

یہ حُسنِ زَن تو بہت بعد آنکھ کو بھایا
حُضور یاد کریں پہلا پیار ہے تتلی

جو نوچ لیتے ہیں پر زِندہ تتلیوں کے قیسؔ
اے کاش سوچتے کہ جاندار ہے تتلی

ﺍﻣﺮﺗﺎ ﭘﺮﯾﺘﻢ



"ﻣﯿﮟ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﻓﯿﺮ ﻣﻼﮞ ﮔﯽ"

ﻣﯿﮟ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﻓﯿﺮ ﻣﻼﮞ ﮔﯽ
ﮐِﺘﮭﮯ؟ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ؟ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ
ﺷﺎﯾﺪ ﺗﯿﺮﮮ ﺗﺨﯿﻞ ﺩﯼ ﭼﮭﻨﮏ ﺑﻦ ﮐﮯ 
ﺗﯿﺮﮮ ﮐﯿﻨﻮﺱ ﺗﮯ ﺍﺗﺮﺍﮞ ﮔﯽ
ﯾﺎ ﮨﻮﺭﮮ ﺗﯿﺮﮮ ﮐﯿﻨﻮﺱ ﺩﮮ ﺍُﺗﮯ
ﺍﮎ ﺭﮨﺴﻤﺌﯽ ﻟﮑﯿﺮ ﺑﻦ ﮐﮯ 
ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺗﮑﺪﯼ ﺭﻭﺍﮞ ﮔﯽ

ﯾﺎ ﮨﻮﺭﮮﺳﻮﺭﺝ ﺩﯼ ﻟﻮ ﺑﻦ ﮐﮯ
ﺗﯿﺮﮮ ﺭﻧﮕﺎﮞ ﺍﭺ ﮔﮭُﻼ ﮔﯽ 
ﯾﺎ ﺭﻧﮕﺎﮞ ﺩﯾﺎﮞ ﺑﺎﮨﻨﻮﺍﮞ ﺍﭺ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﮯ 
ﺗﯿﺮﮮ ﮐﯿﻨﻮﺱ ﻧﻮ ﻭﻻﮞ ﮔﯽ
ﭘﺘﺎ ﻧﺌﯿﮟ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ، ﮐﺘﮭﮯ
ﭘﺮ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺿﺮﻭﺭ ﻣﻼﮞ ﮔﯽ

ﯾﺎ ﮨﻮﺭﮮ ﺍﮎ ﭼﺸﻤﮧ ﺑﻨﯽ ﮨﻮﻭﺍﮞ ﮔﯽ
ﺗﮯ ﺟﯿﻮﯾﮟ ﺟﮭﺮﻧﯿﺎﮞ ﺩﺍ ﭘﺎﻧﯽ ﺍﮈ ﺩﺍ
ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﺩﯾﺎﮞﺑُﻮﻧﺪﺍﮞ
ﺗﯿﺮﮮ ﭘﻨﮉﮮ ﺗﮯ ﻣَﻼﮞ ﮔﯽ ﺗﮯ 
ﺍﮎ ﭨﮭﻨﮉﮎ ﺟﺌﯽ ﺑﻦ ﮐﮯ ﺗﯿﺮﯼ 
ﭼﮭﺎﺗﯽ ﺩﮮ ﻧﺎﻝ ﻟﮕﺎﮞ ﮔﯽ

ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺭ ﮐﺞ ﻧﺌﯿﮟ ﺟﺎﻧﺪﯼ ﭘﺮ 
ﺍﯾﻨﺎ ﺟﺎﻧﺪﯼ ﺁﮞ ﮐﮧ
ﻭﻗﺖ ﺟﻮ ﻭﯼ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ 
ﺍﮮ ﺟﻨﻢ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺎﻝ ﭨُﺮﮮ ﮔﺎ 

ﺍﮮ ﺟﺴﻢ ﻣُﮑﺪﺍ ﺍﮮ
ﺗﮯ ﺳﺐ ﮐﺞ ﻣُﮏ ﺟﺎﻧﺪﺍ 
ﭘﺮ ﭼﯿﺘﯿﺎﮞ ﺩﮮ ﺗﺎﮔﮯ
ﮐﺎﺋﻨﺎﺗﯽ ﮐﻨﺎ ﺩﮮ ﮨﻮﻧﺪﮮ 
ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﺎﮞ ﮐﻨﺎ ﻧﻮ ﭼﻨﺎﮞ ﮔﯽ
ﺗﺎﮔﯿﺎﮞ ﻧﻮ ﻭﻻﮞ ﮔﯽ

ﺗﮯ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺮ ﻣﻼﮞ ﮔﯽ 

نصیر ترابی



وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی

عداوتیں تھیں تغافل تھا رنجشیں تھیں مگر
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا بیوفائی نہ تھی

بچھڑتے وقت اُن آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی

ترک تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں

کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ کہ آشنائی نہ تھی

نہ اپنا رنج نہ اپنا دکھ نہ اوروں کا ملال
شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی

محبتوں کا سفر کبھی اس طرح بھی گزارا نہ تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی

عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیر
وہاں بھی آگئے آخر جہاں رسائی نہ تھی

جوش ملیح آبادی

ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا
یہی تو ہیں دو ستُونِ محکم انہی پہ قائم ہے نظمِ عالم
یہی تو ہے رازِ خُلد و آدم ،نگاہ میری، شباب تیرا
صبا تصدّق ترےنفس پر ،چمن ترے پیرہن پہ قرباں
شمیمِ دوشیزگی میں کیسا بسا ہوا ہے شباب تیرا
تمام محفل کے رو برو ،گو اُٹھائیں نظریں، ملائیں آنکھیں
سمجھ سکا ایک بھی نہ لیکن، سوال میرا، جواب تیرا
ہزار شاخیں ادا سے لچکیں ، ہوا نہ تیرا سا لوچ پیدا
شفق نے کتنے ہی رنگ بدلے، ملا نہ رنگِ شباب تیرا
اِدھر مرا دل تڑپ رہا ہے، تری جوانی کی جستجو میں
اُدھر مرے دل کی آرزو میں مچل رہا ہے شباب تیرا
کرے گی دونوں کا چاک پردہ، رہے گا دونوں کو کر کے رُسوا
یہ شورشِ ذوقِ دید میری ،یہ اہتمامِ حجاب تیرا
جڑیں پہاڑوں کی ٹوٹ جاتیں، فلک تو کیا، عرش کانپ اُٹھتا
اگر میں دل پر نہ روک لیتا تمام زورِ شباب تیرا
بھلا ہوا جوش نے ہٹایا نگاہ کا چشمِ تر سے پردہ



سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا 
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا 
وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ 
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا 
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا 
جب چلی سرد ہوا، میں نے تجھے یاد کیا
اے میں سو جان سے اس طرزِ تکلّم کے نثار
پھر تو فرمائیے، کیا آپ نے ارشاد کیا
اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا
اتنا مانوس ہوں فطرت سے، کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا، مجھ سے کچھ ارشاد کیا
مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا





مخلوق کو دیوانہ بنائے ہوئے مُردے
یاروں کے دماغوں کو چرائے ہوئے مردے
اوہام کے طوفان اُٹھائے ہوئے مُردے
عقلوں کو مزاروں پہ چڑھائے ہوئے مُردے
آفاق کو سرپر ہیں اُٹھائے ہوئے مُردے
دیکھو کہ ہیں کیا دھوم مچائے ہوئے مُردے
زندوں کا یہاں کوئی طلبگار نہیں ہے
زندوں کا یہاں کوئی مونس وغمخوار نہیں ہے
ایک فرد بھی، زندوں کا خریدار نہیں ہے
زندوں سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے
ہم تو کلیجوں سے لگائے ہوئے مُردے
دیکھو کہ ہیں کیا دھوم مچائے ہوئے مُردے
پہنے ہوئے بوسیدہ روایات کا چوغا
باندھے ہوئے داؤد کی تانوں کا عمامہ
بغلوں میں دبائے ہوئے اقوال کا سونٹا
رقصیدہ ہیں لوبان جلائے ہوئے مُردے
دیکھو کہ ہیں کیا دھوم مچائے ہوئے مُردے
جوشؔ ملیح آبادی

شعیب تنویر


مجھے کیوں نہ آوے ساقی نظر آفتاب الٹا
کہ پڑا ہے آج خُم میں قدحِ شراب الٹا

عجب الٹے ملک کے ہیں اجی آپ بھی کہ تُم سے
کبھی بات کی جو سیدھی تو ملا جواب الٹا

چلے تھے حرم کو رہ میں، ہوئے اک صنم کے عاشق
نہ ہوا ثواب حاصل، یہ ملا عذاب الٹا

یہ شب گذشتہ دیکھا کہ وہ خفا سے کچھ ہیں گویا
کہیں حق کرے کہ ہووے یہ ہمارا خواب الٹا

یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروزِ عیدِ قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا

کھڑے چُپ ہو دیکھتے کیا، مرے دل اجڑ گئے کو
وہ گنہہ تو کہہ دو جس سے یہ وہ خراب الٹا

غزل اور قافیوں میں نہ کہے سو کیونکے انشا
کہ ہوا نے خود بخود آ، ورقِ کتاب الٹا

انشا اللہ خان انشا


مجھے کیوں نہ آوے ساقی نظر آفتاب الٹا

کہ پڑا ہے آج خُم میں قدحِ شراب الٹا



عجب الٹے ملک کے ہیں اجی آپ بھی کہ تُم سے
کبھی بات کی جو سیدھی تو ملا جواب الٹا



چلے تھے حرم کو رہ میں، ہوئے اک صنم کے عاشق
نہ ہوا ثواب حاصل، یہ ملا عذاب الٹا



یہ شب گذشتہ دیکھا کہ وہ خفا سے کچھ ہیں گویا
کہیں حق کرے کہ ہووے یہ ہمارا خواب الٹا



یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروزِ عیدِ قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا



کھڑے چُپ ہو دیکھتے کیا، مرے دل اجڑ گئے کو
وہ گنہہ تو کہہ دو جس سے یہ وہ خراب الٹا



غزل اور قافیوں میں نہ کہے سو کیونکے انشا
کہ ہوا نے خود بخود آ، ورقِ کتاب الٹا




چشم و ادا و غمزہ، شوخی و ناز، پانچوں
دُشمن ہیں میرے جی کے، بندہ نواز! پانچوں
.
کیا رنگِ زرد و گریہ ، کیا ضعف و درد و افغاں
افشا کریں ہیں مِل کر میرا یہ راز، پانچوں
.
نارِ فراق سے ہے، جوں شمع، دِل کو ہر شب
احراق و داغ و گریہ ، سوز و گداز، پانچوں
.
دیکھا ہے جب سے تجھ کو، چھوڑا ہے زاہدوں نے
تقویٰ و ذکر و زہد و صوم و نماز، پانچوں
.
آرام و صبر و طاقت ہوش و حیا کہاں پھر
لے ساتھ دل کے یہ بھی، اے عشوہ ساز، پانچوں
.
فرہاد و قیس و وامق، محمود و ماہ رُو بھی
رکھ بار مجھ پہ سوویں، ہوں پا دراز، پانچوں
.
ہیں تیرے در پہ آ کر ہر ایک سر بسجدہ
لیلیٰ و مہر و عذرا، شیریں، ایاز، پانچوں
.
مت پُوچھ کارِ انشا ہجر و وصال میں کچھ
صبر و جنون و وحشت ،عجز و نیاز، پانچوں





ناصر کاظمی





پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے



پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں
رت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے

پھر کاگا بولا گھر کے سونے آنگن میں
پھر امرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے

پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا
بادل گرجا بجلی چمکی تم یاد آئے

دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا
جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے

ناصر کاظمی 



پتّھر کا وہ شہر بھی کیا تھا
شہر کے نیچے شہر بسا تھا

پیڑ بھی پتّھر، پُھول بھی پتّھر
پتّا پتّا پتّھر کا تھا

چاند بھی پتّھر، جھیل بھی پتّھر
پانی بھی پتّھر لگتا تھا

لوگ بھی سارے پتّھر کے تھے
رنگ بھی اُن کا پتّھر سا تھا

پتّھر کا اک سانپ سنہرا
کالے پتّھر سے لپٹا تھا

پتّھر کی اندھی گلیوں میں
میں تجھے ساتھ لیے پھرتا تھا

گونگی وادی گُونج اُٹھتی تھی
جب کوئی پتّھر گِرتا تھا

ناصر کاظمی 




کلیم عثمانی



رات پھیلی ہے تیرے ، سرمئی آنچل کی طرح 
چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے ، پاگل کی طرح 

خشک پتوں کی طرح ، لوگ اُڑے جاتے ہیں 
شہر بھی اب تو نظر آتا ہے ، جنگل کی طرح 

پھر خیالوں میں ترے قُرب کی خوشبو جاگی
پھر برسنے لگی آنکھیں مری ، بادل کی طرح 

بے وفاؤں سے وفا کرکے ، گذاری ہے حیات 
میں برستا رہا ویرانوں میں ، بادل کی طرح 

عابد ملک

بڑے سکون سے افسردگی میں رہتا ہوں
میں اپنے سامنے والی گلی میں رہتا ہوں

مرے لئے بھی کوئی دوسرا ٹھکانہ نہیں
ترے لئے بھی تری گلی میں رہتا ہوں

بھلا ہو اچھے دنوں کا کہ مجھ سے دور رہے
نتیجتا" بڑی آسودگی میں رہتا ہوں

میں اب بھی دیکھتا رہتا ہوں راہ لوگوں کی
میں اب بھی حالتِ آشفتگی میں رہتا ہوں

انور مسعود



دُنیا بھی عجب قافلہِ تشنہ لباں ہے

ہر شخص سرابوں کے تعاقب میں رواں ہے



تنہا تری محفل میں نہیں ہوں کہ مرے ساتھ
اِک لذتِ پابندیِ اظہار و بیاں ہے



جو دل کے سمندر میں اُبھرتا ہے یقیں ہے
جو ذہن کے ساحل سے گزرتا ہے گُماں ہے



پُھولوں پہ گھٹاؤں کے تو سائے نہیں انور
آوارۂ گلزار نشیمن کا دُھواں ہے




بر سبیلِ تذکرہ اِک روز میڈم نے کہا
اپنے شوخ و شنگ اندازِ تکلم کے بغیر
میرا وعدہ ہے کہ گانا چھوڑ دوں گی میں اگر
مولوی تقریر فرمائے ترنم کے بغیر
____________________________

جو ہے اوروں کی وہی رائے ہماری بھی ہے
ایک ہو رائے سبھی کی، یہ کچھ آسان نہیں
لوگ کہتے ہیں فرشتہ ہیں جنابِ واعظ
ہم بھی کہتے تو یہی ہیں کہ وہ انسان نہیں



عبید اللہ علیم


بنا گلاب تو کانٹے چبُھا گیا اِک شخص
ہُوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اِک شخص

تمام رنگ مرے اور سارے خواب مرے
فسانہ تھے کہ فسانہ بنا گیا اِک شخص

میں کس ہَوا میں اڑوں کس فضا میں لہراؤں
دکھوں کے جال ہر اک سو بچھا گیا اِک شخص

پلٹ سکوں ہی نہ آگے ہی بڑھ سکوں جس پر
مجھے یہ کون سے رستے لگا گیا اِک شخص

محبّتیں بھی عجب اُس کی نفرتیں بھی کمال
مری ہی طرح کا مجھ میں سما گیا اِک شخص

محبّتوں نے کسے کی بھُلا رکھا تھا اُسے
ملے وہ زخم کہ پھر یاد آگیا اِک شخص

کھلا یہ راز کہ آئینہ خانہ ہے دنیا
اور اس میں مجھ کو تماشا بنا گیا اِک شخص

سلیم کوثر


خود کو کردار سے اوجھل نہیں ہونے دیتا
وہ کہانی کو مکمل نہیں ہونے دیتا

سنگ بھی پھینکتا رہتا ہے کہیں ساحل سے
اور پانی میں ہلچل نہیں ہونے دیتا

دھوپ بھی چھاؤں بھی رکھتا ہے سروں پر لیکن 
آسمان پر کبھی بادل نہیں ہونے دیتا 

روز ایک لہر اٹھا لاتا ہے بے خوابی میں
اور پلکوں کو کو بھی بوجھل نہیں ہونے دیتا 

پھول ہی پھول کہلاتا ہے سرِ شاخِ وجود
اور خوشبو کو مسلسل نہیں ہونے دیتا 

عالمِ ذات میں درویش بنا دیتا ہے 
عشق انسان کو پاگل نہیں ہونے دیتا 

حسن رضوی



جیسا جسے چاہا کبھی ویسا نہیں ہوتا
دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہوتا

ملنے کو تو ملتے ہیں بہت لوگ جہاں میں
پر ان میں کوئی بھی تیرے جیسا نہیں ہوتا

دولت سے کبھی پیار کو تولا نہیں جاتا
معیار محبت کبھی پیسہ نہیں ہوتا

جینے کا مزا لیتے ہیں یوں تو سبھی یاں
لیکن یہ مزا پیار کی شے سا نہیں ہوتا

اک بار ہی ہوتا ہے حسن پیار کسی سے
یہ پیار کا نشہ کبھی مے سا نہیں ہوتا

میاں داد خان سیاح


قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

جاں بَلَب دیکھ کے مجھ کو مرے عیسیٰ نے کہا
لا دوا درد ہے یہ، کیا کروں، مر جانے دو

لال ڈورے تری آنکھوں میں جو دیکھے تو کھُلا
مئے گُل رنگ سے لبریز ہیں پیمانے دو

ٹھہرو! تیوری کو چڑھائے ہوئے جاتے ہو کدھر
دل کا صدقہ تو ابھی سر سے اتر جانے دو

منع کیوں کرتے ہو عشقِ بُتِ شیریں لب سے
کیا مزے کا ہے یہ غم دوستو غم کھانے دو

ہم بھی منزل پہ پہنچ جائیں گے مرتے کھپتے
قافلہ یاروں کا جاتا ہے اگر جانے دو

شمع و پروانہ نہ محفل میں ہوں باہم زنہار
شمع رُو نے مجھے بھیجے ہیں یہ پروانے دو

ایک عالم نظر آئے گا گرفتار تمھیں
اپنے گیسوئے رسا تا بہ کمر جانے دو

سخت جانی سے میں عاری ہوں نہایت ارے تُرک
پڑ گئے ہیں تری شمشیر میں دندانے دو

ہمدمو دیکھو، الجھتی ہے طبیعت ہر بار
پھر یہ کہتے ہیں کہ مرتا ہے تو مر جانے دو

حشر میں پیشِ خدا فیصلہ اس کا ہو گا
زندگی میں مجھے اس گبر کو ترسانے دو

گر محبت ہے تو وہ مجھ سے پھرے گا نہ کبھی
غم نہیں ہے مجھے غمّاز کو بھڑکانے دو

جوشِ بارش ہے ابھی تھمتے ہو کیا اے اشکو
دامنِ کوہ و بیاباں کو تو بھر جانے دو

واعظوں کو نہ کرے منع نصیحت سے کوئی
میں نہ سمجھوں گا کسی طرح سے سمجھانے دو

رنج دیتا ہے جو وہ پاس نہ جاؤ سیّاح
مانو کہنے کو مرے دُور کرو جانے دو

راجندر ناتھ رہبر


پیار کی آخری پونجی بھی لٹا آیا ہوں
اپنی ہستی کو بھی لگتا ہے مٹا آیا ہوں
عمر بھر کی جو کمائی تھی گنوا آیا ہوں
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں

تو نے لکھا تھا جلا دوں میں تری تحریریں
تو نے چاہا تھا جلا دوں میں تری تصویریں
سوچ لیں میں نے مگر اور ہی کچھ تدبیریں
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں

تیرے خوشبو میں بسے خط میں جلاتا کیسے
پیار میں ڈوبے ہوئے خط میں جلاتا کیسے
تیرے ہاتھوں کے لکھے خط میں جلاتا کیسے
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں

جن کو دنیا کی نگاہوں سے چھپائے رکھا
جن کو اک عمر کلیجے سے لگائے رکھا
دین جن کو جنہیں ایمان بنائے رکھا

جن کا ہر لفظ مجھے یاد ہے پانی کی طرح
یاد تھے مجھ کو جو پیغامِ زبانی کی طرح
مجھ کو پیارے تھے جو انمول نشانی کی طرح

تو نے دنیا کی نگاہوں سے جو بچ کر لکھے
سالہا سال مرے نام برابر لکھے
کبھی دن میں تو کبھی رات کو اٹھ کر لکھے

تیرے رومال ترے خط ترے چھلے بھی گئے
تیری تصویریں ترے شوخ لفافے بھی گئے
ایک یگ ختم ہوا یگ کے فسانے بھی گئے
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں

کتنا بے چین انہیں لینے کو گنگا جل تھا
جو بھی دھارا تھا انہیں کے لیے وہ بیکل تھا
پیار اپنا بھی تو گنگا کی طرح نرمل تھا
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں

راجندر ناتھ رہبر