ادبی لطیفے

ایک بار داغ دہلوی اجمیر گئے جب وہاں سے رخصت ہونے لگے تو ان کے شاگرد نواب عبداللہ خان مطلب نے کہا: استاد آپ جا رہے ہیں جاتے ہوئے اپنی کوئی نشانی تو دیتے جائیے

یہ سن کر داغ نے بلا تامل کہا: داغ کیا کم ہے نشانی کا یہی یاد رہے
 





فیض احمد فیض کے انتقال کے بعد اخبار کے رپورٹر نے منیر نیازی سے کہا:
"فیض احمد فیض کے انتقال سے جو خلا پیدا ہو گیا ہے اسے پر کرنے کی ذمہ داری اب آپ پر عائد ہو گئی ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟"
اس پر منیر نیازی نے انکساری سے جواب دیا:
"یہ تو آپ لوگوں کی عنایت ہے ورنہ میں تو فیض صاحب کی زندگی میں ہی ان کا خلا پورا کرتا رہا ہوں"






حفیظ جالندھری کی روایت ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ایک روز کسی جلسے سے خطاب کے بعد علامہ اندرون لاہور کی گلیوں سے ہوتے ہوئے پیدل واپس آ رہے تھے۔ چونکہ امیدوار تھے، ا س لیے راستے میں جو بھی ملتا اُسے سلام کرتے۔ ایک شخص کو علامہ نے سلام کیا۔ وہ شاید ان کے مخالف امیدوار ملک محمد دین کاحمایتی تھا، اس نے جواب میں دھوتی اُٹھا دی او ر ننگا ہو گیا۔

اقبال جب موٹر کار میں بیٹھے تھکے ہارے گھر جا رہے تھے تو نہایت بجھے ہوئے لہجے میں حفیظ سے کہنے لگے: ’’اس قوم کے مصائب کے سبب میری راتوں کی نیند اچاٹ ہے لیکن اس کے افراد اخلاق اور مروت کی دولت سے کیوں محروم ہیں؟‘‘

حفیظ نے اپنے مخصوص جالندھری انداز میں علامہ کو تسلی دیتے ہوئے جواب دیا: ’’ڈاکٹر صاحب! قوم کے پاس جو کچھ ہے وہ اس نے آپ کو دکھلا دیا۔ اس میں مغموم ہونے کی کیا بات ہے؟ ‘‘

ڈاکٹر جاوید اقبال نے لکھا ہے کہ حفیظ کی یہ بات سن کر اقبال کھلکھلا دیے اور ساری کدورت دور ہو گئی۔

(حرفِ بے آمیز روزنامہ خبریں۱۴/ نومبر۲۰۰۸ء)



پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ایس پی سنگھا کے گیارہ بچوں کے نام کا آخری حصہ“ سنگھا” تھا۔جب ان کے ہاں بارہواں لڑکا پیدا ہواتو شوکت تھانوی سے مشورہ کیا کہ اس کا کیا نام رکھوں۔اس پر شوکت صاحب نے بے ساختہ کہا:آپ اس کا نام بارہ سنگھا رکھ دیجیے۔






ایک ناشر نے کتابوں کے نئے گاہک سے شوکت تھانوی کا تعارف کراتے ہوئے کہا: آپ جس شخص کا ناول خرید رہے ہیں وہ یہی ذات شریف ہیں۔لیکن یہ چہرے سے جتنے بے وقوف معلوم ہوتے ہیں اتنے ہیں نہیں۔
شوکت تھانوی نے فوراً کہا: جناب مجھ میں اور میرے ناشر میں یہی بڑا فرق ہے۔یہ جتنے بے وقوف ہیں،چہرے سے معلوم نہیں ہوتے۔







سر کے بالوں کے سلسلہ میں حفیظ صاحب ‘‘فارغ البال’’ تھے
کسی خوش فکر دوست نے کہا: ‘‘حفیظ صاحب! سر کے بال نہ ہونے سے کوئی تکلیف تو نہیں ہوتی؟’’
‘‘تکلیف کیا ہو گی حضرت ‘‘البتہ وضو کرتے وقت یہ معلوم نہیں ہوتا کہ منہ کو کہاں تک دھونا ہے اور سر کا مسح کہاں سے شروع ہوتا ہے’’





پطرس بخاری (1) کرنل مجید نے ایک دفعہ پطرس بخاری سے کہا: اگر آپ اپنے مضامین کا مجموعہ چھپوائیں تو اس کا نام صحیح بخاری رکھیں۔ پطرس نے جواب دیا: اور اگر آپ اپنی نظموں کا مجموعہ چھپوائیں تو اس کانام کلام مجیدرکھیں۔
جوش ملیح آبادی (۱) عبدالحمید عدم کو کسی صاحب نے ایک بار جوش سے ملایا اور کہا:یہ عدم ہیں۔عدم کافی جسامت والے آدمی تھے۔جوش نے ان کے ڈیل ڈول کو بغور دیکھا اور کہنے لگے: عدم یہ ہے تو وجود کیا ہو گا؟ (۲) جوش نے پاکستان میں ایک بہت بڑے وزیر کو اردو میں خط لکھا۔لیکن اس کا جواب انہوں نے انگریزی میں دیا۔جواب میں جوش نے انہیں لکھا:جنابِ والا،میں نے تو آپ کو اپنی مادری زبان میں خط لکھا تھا۔لیکن آپ نے اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تحریر فرمایا ہے۔ (۳)ایک مولانا کے جوش صاحب کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔کئی روز کی غیر حاضری کے بعد ملنے آئے تو جوش صاحب نے وجہ پوچھی۔کہنے لگے:کیا بتاؤں جوش صاحب،پہلے ایک گردے میں پتھری تھی اس کا آپریشن ہوا۔اب دوسرے گردے میں پتھری ہے۔ میں سمجھ گیا۔جوش صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔الله تعالیٰ آپ کو اندر سے سنگسار کر رہا ہے۔ (۴) کسی مشاعرے میں ایک نو مشق شاعر اپنا غیر موزوں کلام پڑھ رہے تھے۔اکثر شعراء آدابِ محفل کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموش تھے لیکن جوش صاحب پورے جوش و خروش سے ایک ایک مصرعے پر دادو تحسین کی بارش کیے جا رہے تھے۔گوپی ناتھ امن نے ٹوکتے ہوئے پوچھا: قبلہ، یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ جوش صاحب نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا: منافقت۔اور پھر داد دینے میں مصروف ہو گئے۔

0 comments:

Post a Comment