Thursday, November 27, 2014

مومن خان مومن

مومن خان مومن
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو لطف مجھ پہ تھے پیش تر، وہ کرم کہ تھا میرے حال پر
مجھے سب یاد ہے ذرا ذرا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی بیٹھے جو سب میں روبرو ، تو اشاروں ہی میں گفتگو
وہ بیان شوق کا برملا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ہوئے اتفاق سے گر بہم ، تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلہ ملامتِ اقرباء ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کوئی ایسی بات ہوئی اگر کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا ،تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی ، کبھی ہم میں تم میں بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جسے آپ گنتے تھے آشنا ، جسے آپ کہتے تھے باوفا
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو




وصل کي شب شام سے ميں سو گيا
جاگنا ہجراں کا بلا ہو گيا


ساتھ نہ چلنے کا بہانہ تو ديکھ
آہ کے مري نعش پہ وہ رو گيا


صبر نہيں شام فراق آ بھي چکو
جس سے کہ بے زار تھے تم سو گيا

ہائے صنم ہائے صنم لب پہ کيوں 
خير ہے مومن تمہيں کيا ہو گيا

مومن خان مومن



قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق 
سچ تو يہ ہے بري بلا ہے عشق


اثر غم ذرا بتا دينا 
وہ بہت پوچھتے ہيں کيا ہے عشق


آفت جاں ہے کوئي پردہ نشيں
مرے دل ميں آ چھپا ہے عشق


کس ملاحت سرشت کو چاہا 
تلخ کامي پہ با مزا ہے عشق


ہم کو ترجيح تم پہ ہے يعني
دل رہا حسن و جاں رہا عشق


ديکھ حالت مري کہيں کافر 
نام دوزخ کا کيوں دھرا ہے عشق


ديکھتے کس جگہ ڈبو دے گا
ميري کشتي کا نا خدا ہے عشق


آپ مجھ سے نباہيں گے سچ ہے
با وفا حسن بے وفا ہے عشق


قيس و فرہاد وامق و مومن
مر گئے سب ہي کيا وبا ہے عشق


مومن خان مومن


نہ کٹتي ہم سے شب جدائي کي
کتين ہي طاقت آزمائي کي


رشک دشمن بہانہ تھا سچ ہے
ميں نے ہي تم سے بے وفائی کی


کيوں برا کہتے ہو بھلا نا صح 
مين نے حضرت سے کيا برائی کی


دام عاشق ہے دل دہي نہ ستم
دل کو چھينا تو دل رہائی کی


گر نہ بگڑو تو کيا بگڑتا ہے
مجھ ميں طاقت نہيں لڑائی کی


گھر تو اس ماہ وش کا دور نہ تھا
ليکن طالع نے نار سائی کی


دل ہوا خوں خيال ناخن يار
تو نے اچھی گرہ کشائی کی


مومن آئو تمہيں بھي دکھلا دوں
سير بت خانے ميں خدائی کی


مومن خان مومن


اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا 
رنج راحت فزا نہیں ہوتا 


تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے 
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا 


ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے 
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا 


تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا 


کیوں سنے عرضِ مضطرب مومن 

صنم آخر خدا نہیں ہوتا


0 comments:

Post a Comment