اردو ادب کے مشہور افسانے

آخری آدمی 

(انتظار حسین)

الیاس اس قریے میں آخری آدمی تھا۔ اس نے عہد کیا تھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور میں آدمی ہی کی جون میں مروں گا۔ اور اس نے آدمی کی جون میں رہنے کی آخر دم تک کوشش کی۔
اور اس قریے سے تین دن پہلے بندر غائب ہو گئے تھے۔ لوگ پہلے حیران ہوئے اور پھر خوشی منائی کہ بندر جو فصلیں برباد اور باغ خراب کرتے تھے نابود ہو گئے۔ پر اس شخص نے جو انہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا کرتا تھا یہ کہا کہ بندر تو تمہارے درمیان موجود ہیں مگر یہ کہ تم دیکھتے نہیں۔ لوگوں نے اس کا برا مانا اور کہا کہ کیا تو ہم سے ٹھٹھا کرتا ہے اور اس نے کہا کہ بے شک ٹھٹھا تم نے خدا سے کیا کہ اس نے سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا اور تم نے سبت کے دن مچھلیوں کا شکار کیا اور جان لو کہ وہ تم سے بڑا ٹھٹھا کرنے والا ہے۔
اس کے تیسرے دن یوں ہوا کہ الیعذر کی لونڈی گجر وم الیعذر کی خواب گاہ میں داخل ہوئی اور سہمی ہوئی الیعذر کی جورو کے پاس الٹے پاؤں آئی۔ پھر الیعذر کی جورو خواب گاہ تک گئی اور حیران و پریشان واپس آئی۔ پھر یہ خبر دور دور تک پھیل گئی اور دور دور سے لوگ الیعذر کے گھر آئے اور اس کی خواب گاہ تک جا کر ٹھٹھک ٹھٹھک گئے کہ الیعذر کی خواب گاہ میں الیعذر کی بجائے ایک بڑا بندر آرام کرتا تھا اور الیعذر نے پچھلے سبت کے دن سب سے زیادہ مچھلیاں پکڑی تھیں۔
پھر یوں ہوا کہ ایک نے دوسرے کو خبر دی کہ اے عزیز الیعذر بندر بن گیا ہے۔ اس پر دوسرا زور سے ہنسا۔ "تو نے مجھ سے ٹھٹھا کیا۔" اور وہ ہنستا چلا گیا، حتٰی کہ منہ اس کا سرخ پڑ گیا اور دانت نکل آئے اور چہرے کے خد و خال کھینچتے چلے گئے اور وہ بندر بن گیا۔ تب پہلا کمال حیران ہوا۔ منہ اس کا کھلا کا کھلا رہ گیا اور آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں اور پھر وہ بھی بندر بن گیا۔
اور الیاب ابن زبلون کو دیکھ کر ڈرا اور یوں بولا کہ اے زبلون کے بیٹے تجھے کیا ہوا ہے کہ تیرا چہرا بگڑ گیا ہے۔ ابن زبلون نے اس بات کا برا مانا اور غصے سے دانت کچکچانے لگا۔ تب الیاب مزید ڈرا اور چلا کر بولا کہ اے زبلون کے بیٹے! تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، ضرور تجھے کچھ ہو گیا ہے۔ اس پر ابن زبلون کا منہ غصے سے لال ہو گیا اور دانت کھینچ کر الیاب پر جھپٹا۔ تب الیاب پر خوف سے لرزہ طاری ہوا اور ابن زبلون کا چہرہ غصے سے اور الیاب کا چہرہ خوف سے بگڑتا چلا گیا۔ ابن زبلون غصے سے آپے سے باہر ہوا اور الیاب خوف سے اپنے آپ میں سکڑتا چلا گیا اور وہ دونوں کہ ایک مجسم غصہ اور ایک خوف کی پوت تھے آپس میں گتھ گئے۔ ان کے چہرے بگڑتے چلے گئے۔ پھر ان کے اعضا بگڑے۔ پھر ان کی آوازیں بگڑیں کہ الفاظ آپس میں مدغم ہوتے چلے گئے اور غیر ملفوظ آوازیں بن گئے۔ پھر وہ غیر ملفوظ آوازیں وحشیانہ چیخ بن گئیں اور پھر وہ بندر بن گئے۔
الیاسف نے کہ ان سب میں عقل مند تھا اور سب سے آخر تک آدمی بنا رہا۔ تشویش سے کہا کہ اے لوگو! ضرور ہمیں کچھ ہو گیا ہے۔ آؤ ہم اس شخص سے رجوع کریں جو ہمیں سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کرتا ہے۔ پھر الیاس لوگوں کو ہمراہ لے کر اس شخص کے گھر گیا۔ اور حلقہ زن ہو کے دیر تک پکارا کیا۔ تب وہ وہاں سے مایوس پھرا اور بڑی آواز سے بولا کہ اے لوگو! وہ شخص جو ہمیں سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کیا کرتا تھا آج ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ اور اگر سوچو تو اس میں ہمارے لئے خرابی ہے۔ لوگوں نے یہ سنا اور دہل گئے۔ ایک بڑے خوف نے انہیں آ لیا۔
دہشت سے صورتیں ان کی چپٹی ہونے لگیں۔ اور خد و خال مسخ ہو تے چلے گئے۔ اور الیاسف نے گھوم کر دیکھا اور بندروں کے سوا کسی کونہ پایا۔ جاننا چاہئے کہ وہ بستی ایک بستی تھی۔ سمندر کے کنارے۔اونچے برجوں اور بڑے دروازوں والی حویلیوں کی بستی، بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ کٹورا بجتا تھا۔ پر دم کے دم میں بازار ویران اور اونچی ڈیوڑھیاں سونی ہو گئیں۔ اور اونچے برجوں میں عالی شان چھتوں پر بندر ہی بندر نظر آنے لگے اور الیاسف نے ہر اس سے چاروں سمت نظر دوڑائی اور سوچا کہ میں اکیلا آدمی ہوں اور اس خیال سے وہ ایسا ڈرا کہ اس کا خون جمنے لگا۔ مگر اسے الیاب یاد آیا کہ خوف سے کس طرح اس کی صورت بگڑتی چلی گئی اور وہ بندر بن گیا۔ تب الیاسف نے اپنے خوف پر غلبہ پا یا اور عزم باندھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور آدمی ہی کی جون میں مروں گا اور اس نے ایک احساسِ برتری کے ساتھ اپنے مسخ صورت ہم جنسوں کو دیکھا اور کہا۔ تحقیق میں ان میں سے نہیں ہوں کہ وہ بندر ہیں اور میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا۔ اور الیاسف نے اپنے ہم جنسوں سے نفرت کی۔ اس نے ان کی لال بھبوکا صورتوں اور بالوں سے ڈھکے ہوئے جسموں کو دیکھا اور نفرت سے چہرہ اس کا بگڑنے لگا مگر اسے اچانک زبان کا خیال آیا کہ نفرت کی شدت سے صورت اس کی مسخ ہو گئی تھی۔ اس نے کہا کہ الیاسف نفرت مت کر کہ نفرت سے آدمی کی کایا بدل جاتی ہے اور الیاسف نے نفرت سے کنارہ کیا۔
الیاسف نے نفرت سے کنارہ کیا اور کہا کہ بے شک میں انہی میں سے تھا اور اس نے وہ دن یاد کئے جب وہ ان میں سے تھا اور دل اس کا محبت کے جوش سے منڈنے لگا۔ اسے بنت الاخضر کی یاد آئی کہ فرعون کے رتھ کی دودھیا گھوڑیوں میں سے ایک گھوڑی کی مانند تھی۔ اور اس کے بڑے گھر کے در سرو کے اور کڑیاں صنوبر کی تھیں۔ اس یاد کے ساتھ الیاسف کو بیتے دن یاد آ گئے کہ وہ سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے مکان میں عقب سے گیا تھا اور چھپر کھٹ کے لئے اسے ٹٹولا جس کے لئے اس کا جی چاہتا تھا اور اس نے دیکھا لمبے بال اس کی رات کی بوندوں سے بھیگے ہوئے ہیں اور چھاتیاں ہرن کے بچوں کے موافق تڑپتی ہیں۔ اور پیٹ اس کا گندم کی ڈیوڑھی کی مانند ہے اور پاس اس کے صندل کا گول پیالہ ہے اور الیاسف نے بنت الاخضر کو یاد کیا اور ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیر اور صندل کے گول پیالے کے تصور میں سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے گھر تک گیا۔ ساس نے خالی مکان کو دیکھا اور چھپر کھٹ پر اسے ٹٹولا۔ جس کے لئے اس کا جی چاہتا تھا اور پکارا کہ اے بنت الاخضر! تو کہاں ہے اور اے وہ کہ جس کے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ دیکھ موسم کا بھاری مہینہ گزر گیا اور پھولوں کی کیاریاں ہری بھری ہو گئیں اور قمریاں اونچی شاخوں پر پھڑپھڑاتی ہیں۔ تو کہاں ہے؟ اے اخضر کی بیٹی! اے اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر آرام کرنے والی تجھے دشت میں دوڑتی ہوئی ہرنیوں اور چٹانوں کی دراڑوں میں چھپے ہوئے کبوتروں کی قسم تو نیچے اتر آ۔ اور مجھ سے آن مل کہ تیرے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ الیاسف بار بار پکارتا کہ اس کا جی بھر آیا اور بنت الاخضر کو یاد کر کے رویا۔
الیاسف بنت الاخضر کو یاد کر کے رویا مگر اچانک الیعذر کی جورو یاد آئی جو الیعذر کو بندر کی جون میں دیکھ کر روئی تھی۔ حالانکہ اس کی ہڑکی بند ھ گئی اور بہتے آنسوؤں میں اس کے جمیل نقوش بگڑتے چلے گئے۔ اور ہڑکی کی آواز وحشی ہوتی چلی گئییہاں تک کہ اس کی جون بدل گئی۔ تب الیاسف نے خیال کیا۔ بنت الاخضر جن میں سے تھی ان میں مل گئی۔ اور بے شک جو جن میں سے ہے وہ ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور الیاسف نے اپنے تئیں کہا کہ اے الیاسف ان سے محبت مت کر مبادا تو ان میں سے ہو جائے اور الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے بے تعلق ہو گیا اور الیاسف نے ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کو فراموش کر دیا۔
الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور اپنے ہم جنسوں کی لال بھبوکا صورتوں اور کھڑ ی دم دیکھ کر ہنسا اور الیاسف کو الیعذر کی جورو یاد آئی کہ وہ اس قریے کی حسین عورتوں میں سے تھی۔ وہ تاڑ کے درخت کی مثال تھی اور چھاتیاں اس کی انگور کے خوشوں کی مانند تھیں۔ اور الیعذر نے اس سے کہا تھا کہ جان لے کہ میں انگور کے خوشے توڑوں گا اور انگور کے خوشوں والی تڑپ کر ساحل کی طرف نکل گئی۔
الیعذر اس کے پیچھے پیچھے گیا اور پھل توڑا اور تاڑ کے درخت کو اپنے گھر لے آیا اور اب وہ ایک اونچے کنگرے پر الیعذر کی جوئیں بن بن کر کھاتی تھی۔ الیعذر جھری جھری لے کر کھڑا ہو جاتا اور وہ دم کھڑی کر کے اپنے لجلجے پنجوں پر اٹھ بیٹھی۔ اس کے ہنسنے کی آواز اتنی اونچی ہوتی کہ اسے ساری بستی گونجتی معلوم ہوئی اور وہ اپنے اتنی زور سے ہنسنے پر حیران ہوا مگر اچانک اسے اس شخص کا خیال آیا جو ہنستے ہنستے بندر بن گیا تھا اور الیاسف نے اپنے تئیں کہا۔ اے الیاسف تو ان پر مت ہنس مبادا تو ہنسی کی ایسا بن جائے اور الیاسف نے ہنسی سے کنارہ کیا۔
الیاسف نے ہنسی سے کنارہ کیا۔ الیاسف محبت اور نفرت سے غصہ اور ہمدردی سے رونے اور ہنسنے سے ہر کیفیت سے گزر گیا اور ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے بے تعلق ہو گیا۔ ان کا درختوں پر اچکنا، دانت پیس پیس کر کلکاریاں کرنا، کچے کچے پھلوں پر لڑنا اور ایک دوسرے کو لہو لہان کر دینا۔ یہ سب کچھ اسے آگے کبھی ہم جنسوں پر رلاتا تھا، کبھی ہنساتا تھا۔ کبھی غصہ دلاتا کہ وہ ان پر دانت پیسنے لگا اور انہیں حقارت سے دیکھتا اور یوں ہوا کہ انہیں لڑتے دیکھ کر اس نے غصہ کیا اور بڑی آواز سے جھڑکا۔ پھر خود اپنی آواز پر حیران ہوا۔ اور کسی کسی بندر نے اسے بے تعلقی سے دیکھا اور پھر لڑائی میں جٹ گیا۔ اور الیاسف کے تئیں لفظوں کی قدر کی جاتی رہی۔ کہ وہ اس کے اور اس کے ہم جنسوں کے درمیان رشتہ نہیں رہے تھے اور اس کا اس نے افسوس کیا۔ الیاسف نے افسوس کیا اپنے ہم جنسوں پر، اپنے آپ پر اور لفظ پر۔ افسوس ہے ان پر بوجہ اس کے وہ اس لفظ سے محروم ہو گئے۔ افسوس ہے مجھ پر بوجہ اس کے لفظ میرے ہاتھوں میں خالی برتن کی مثال بن کر رہ گیا۔ اور سوچو تو آج بڑے افسوس کا دن ہے۔ آج لفظ مر گیا۔ اور الیاسف نے لفظ کی موت کا نوحہ کیا اور خاموش ہو گیا۔
الیاسف خاموش ہو گیا اور محبت اور نفرت سے، غصے اور ہمدردی سے، ہنسنے اور رونے سے در گزرا۔ اور الیاسف نے اپنے ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے کنارہ کیا اور اپنی ذات کے اندر پناہ لی۔ الیاسف اپنی ذات کے اندر پناہ گیر جزیرے کے مانند بن گیا۔ سب سے بے تعلق، گہرے پانیوں کے درمیان خشکی کا ننھا سا نشان اور جزیرے نے کہا میں گہرے پانیوں کے درمیان زمین کا نشان بلند رکھو ں گا۔
الیاسف اپنے تئیں آدمیت کا جزیرہ جانتا تھا۔ گہرے پانیوں کے خلاف مدافعت کرنے لگا۔ اس نے اپنے گرد پشتہ بنا لیا کہ محبت اور نفرت، غصہ اور ہمدردی، غم اور خوشی اس پر یلغار نہ کریں کہ جذبے کی کوئی رو اسے بہا کر نہ لے جائے اور الیاسف اپنے جذبات سے خوف کرنے لگا۔ پھر جب وہ پشتہ تیار کر چکا تو اسے یوں لگا کہ اس کے سینے کے اندر پتھری پڑ گئی ہے۔ اس نے فکر مند ہو کر کہا کہ اے معبود میں اندر سے بدل رہا ہوں تب اس نے اپنے باہر پر نظر کی اور اسے گمان ہونے لگا کہ وہ پتھری پھیل کر باہر آ رہی ہے کہ اس کے اعضاء خشک، اس کی جلد بد رنگ اور اس کا لہو بے رس ہوتا جا رہا ہے۔ پھر اس نے مزید اپنے آپ پر غور کیا اور اسے مزید وسوسوں نے گھیرا۔ اسے لگا کہ اس کا بدن بالوں سے ڈھکتا جا رہا ہے۔ اور بال بد رنگ اور سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ تب اسے اپنے بدن سے خوف آیا اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ خوف سے وہ اپنے اندر سمٹنے لگا۔ اسے یوں معلوم ہوا کہ اس کی ٹانگیں اور بازو مختصر اور سر چھوٹا ہوتا جا رہا ہے تب اسے مزید خوف ہوا اور اعضاء اس کے خوف سے مزید سکڑنے لگے اور اس نے سوچا کہ کیا میں بالکل معدوم ہو جاؤں گا۔
اور الیاسف نے الیاب کو یاد کیا کہ خوف سے اپنے اندر سمٹ کر وہ بندر بن گیا تھا۔ تب اس نے کہا کہ میں اندر کے خوف پر اسی طور غلبہ پاؤں گا جس طور میں نے باہر کے خوف پر غلبہ پایا تھا اور الیاسف نے اندر کے خوف پر غلبہ پا لیا۔ اور اس کے سمٹتے ہوئے اعضاء دوبارہ کھلنے اور پھیلنے لگے۔ اس کے اعضاء ڈھیلے پڑ گئے۔ اور اس کی انگلیاں لمبی اور بال بڑے اور کھڑے ہونے لگے۔ اور اس کی ہتھیلیاں اور تلوے چپٹے اور لجلجے ہو گئے اور اس کے جوڑ کھلنے لگے اور الیاسف کو گمان ہوا کہ اس کے سارے اعضاء بکھر جائیں گے تب اس نے عزم کر کے اپنے دانتوں کو بھینچا اور مٹھیاں کس کر باندھا اور اپنے آپ کو اکٹھا کرنے لگا۔
الیاسف نے اپنے بد ہیئت اعضاء کی تاب نہ لا کر آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف نے آنکھیں بند کیں تو اسے لگا کہ اس کے اعضاء کی صورت بدلتی جا رہی ہے۔
اس نے ڈرتے ڈرتے اپنے آپ سے پوچھا کہ میں میں نہیں رہا۔ اس خیال سے دل اس کا ڈھہنے لگا۔ اس نے بہت ڈرتے ڈرتے ایک آنکھ کھولی اور چپکے سے اپنے اعضاء پر نظر کی۔ اسے ڈھارس ہوئی کہ اس کے اعضاء تو جیسے تھے ویسے ہی ہیں۔ اس نے دلیری سے آنکھیں کھولیں اور اطمینان سے اپنے بدن کو دیکھا اور کہا کہ بے شک میں اپنی جون میں ہوں مگر اس کے بعد آپ ہی آپ اسے پھر وسوسہ ہوا کہ جیسے اس کے اعضاء بگڑتے جا رہے ہیں اور اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔
الیاسف نے آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف نے آنکھیں بند کیں تو اس کا دھیان اندر کی طرف گیا اور اس نے جانا کہ وہ کسی اندھیرے کنویں میں دھنستا جا رہا ہے اور الیاسف کنویں میں دھنستے ہوئے ہم جنسوں کی پرانی صورتوں نے اس کا تعاقب کیا۔ اور گزری راتیں محاصرہ کرنے لگیں۔ الیاسف کو سبت کے دن ہم جنسوں کا مچھلیوں کا شکار کرنا یاد آیا کہ ان کے ہاتھوں مچھلیوں سے بھر ا سمندر مچھلیوں سے خالی ہونے لگا۔ اور اس کی ہوس بڑھتی گئی اور انہوں نے سبت کے دن بھی مچھلیوں کا شکار شروع کر دیا۔ تب اس شخص نے جو انہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کرتا تھا کہا کہ رب کی سو گند جس نے سمندر کو گہرے پانیوں والا بنایا اور گہرے پانیوں کی مچھلیوں کا مامن ٹھہرایا سمندر تمہارے دستِ ہوس سے پناہ مانگتا ہے اور سبت کے دن مچھلیوں پر ظلم کرنے سے باز رہو کہ مباد ا تم اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے قرار پاؤ۔ الیاسف نے کہا کہ معبود کی سوگند میں سبت کے دن مچھلیوں کا شکار نہیں کرو ں گا اور الیاسف عقل کا پتلا تھا۔ سمندر سے فاصلے پر ایک گڑھا کھودا اور نالی کھود کر اسے سمندر سے ملا دیا اور سبت کے دن مچھلیاں سطحِ آب پر آئیں تو تیرتی ہوئی نالی کی راہ گڑھے پر نکل گئیں۔ اور سبت کے دوسرے دن الیاسف نے اس گڑھے سے بہت سی مچھلیاں پکڑیں۔ وہ شخص جو سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کرتا تھا۔ یہ دیکھ کر بولا کہ تحقیق جس نے اللہ سے مکر کیا اللہ اس سے مکر کرے گا۔ اور بے شک اللہ زیادہ بڑا مکر کرنے والا ہے اور الیاسف یہ یاد کر کے پچھتایا اور وسوسہ کیا کہ کیا وہ مکر میں گھر گیا ہے۔ اس گھڑی اسے اپنی پوری ہستی ایک مکر نظر آئی۔ تب وہ اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑایا کہ پیدا کرنے والے نے تو مجھے ایسا پیدا کیا جیسے پیدا کرنے کا حق ہے۔ تو نے مجھے بہترین کینڈے پر خلق کیا۔ اور اپنی مثال پر بنایا۔ پس اے پیدا کرنے والے تو اب مجھ سے مکر کرے گا اور مجھے ذلیل بندر کے اسلوب پر ڈھالے گا اور الیاسف اپنے حال پر رویا۔ اس کے بنائے پشت میں دراڑ پڑ گئی تھی اور سمندر کا پانی جزیرے میں آ رہا تھا۔
الیاسف اپنے حال پر رویا اور بندروں سے بھری بستی سے منہ موڑ کر جنگل کی سمت نکل گیا کہ اب اس بستی اسے جنگل سے زیادہ وحشت بھری نظر آتی تھی۔ اور دیواروں اور چھتوں والا گھر اس کے لئے لفظ کی طرح معنی کھو بیٹھا تھا۔ رات اس نے درخت کی ٹہنیوں پر چھپ کر بسر کی۔
جب صبح کو وہ جاگا تو اس کا سارا بدن دکھتا تھا اور ریڑھ کی ہڈی درد کرتی تھی۔ اس نے اپنے بگڑے اعضاء پر نظر کی کہ اس وقت کچھ زیادہ بگڑے بگڑے نظر آ رہے تھے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے سوچا کیا میں میں ہی ہوں اور اس آن اسے خیال آیا کہ کاش بستی میں کوئی ایک انسان ہوتا کہ اسے بتا سکتا کہ وہ کس جون میں ہے اور یہ خیال آنے پر اس نے اپنے تئیں سوال کیا کہ کیا آدمی بنے رہنے کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ آدمیوں کے درمیان ہو۔ پھر اس نے خود ہی جواب دیا کہ بیشک آدم اپنے تئیں ادھورا ہے کہ آدمی آدمی کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ اور جو جن میں سے ہے ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اور جب اس نے یہ سوچا تو روح اس کی اندوہ سے بھر گئی اور وہ پکارا کہ اسے بنت الاخضر تو کہا ں ہے کہ تجھ بن میں ادھورا ہوں۔ اس آن الیاسف کو ہرن کے تڑپتے ہوئے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کی یاد بے طرح آئی۔
جزیرے میں سمندر کا پانی امنڈا چلا آ رہا تھا اور الیاسف نے درد سے صدا کی۔ کہ اے بنت الاخضر اے وہ جس کے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ تجھے میں اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر اور بڑے درختوں کی گھنی شاخوں میں اور بلند برجیوں میں ڈھونڈوں گا۔ تجھے سرپٹ دوڑی دودھیا گھوڑیوں کی قسم ہے۔ قسم ہے کبوتروں کی جب وہ بلندیوں پر پرواز کرے۔ قسم ہے تجھے رات کی جب وہ بھیگ جائے۔ قسم ہے تجھے رات کے اندھیرے کی جب وہ بدن میں اترنے لگے۔ قسم ہے تجھے اندھیرے اور نیند کی۔ اور پلکوں کی جب وہ نیند سے بوجھل ہو جائیں۔ تو مجھے آن مل کہ تیرے لئے میراجی چاہتا ہے اور جب اس نے یہ صدا کی تو بہت سے لفظ آپس میں گڈ مڈ ہو گئے جیسے زنجیر الجھ گئی ہو۔ جیسے لفظ مٹ رہے ہوں۔ جیسے اس کی آواز بدلتی جا رہی ہو اور الیاسف نے اپنی بدلتی ہوئی آواز پر غور کیا اور زبلون اور الیاب کو یاد کیا کہ کیوں کر ان کی آوازیں بگڑتی چلی گئی تھیں۔ الیاسف اپنی بدلتی ہوئی آواز کا تصور کر کے ڈرا اور سوچا کہ اے معبود کیا میں بدل گیا ہوں اور اس وقت اسے یہ نرالا خیال سوجھا کہ اے کاش کوئی ایسی چیز ہوتی کہ اس کے ذریعے وہ اپنا چہرہ دیکھ سکتا۔ مگر یہ خیال اسے بہت انہونا نظر آیا۔ اور اس نے درد سے کہا کہ اے معبود میں کیسے جانوں کہ میں نہیں بد لاہوں۔
انتظار حسین




آپا


(ممتاز مفتی)

جب کبھی بیٹھے بٹھائے، مجھے آپا یاد آتی ہے تو میری آنکھوں کے آگے چھوٹا سا بلوری دیا آ جاتا ہے جو نیم لو سے جل رہا ہو۔
مجھے یاد ہے کہ ایک رات ہم سب چپ چاپ باورچی خانے میں بیٹھے تھے۔ میں، آپا اور امی جان، کہ چھوٹا بدو بھاگتا ہوا آیا۔ ان دنوں بدو چھ سات سال کا ہو گا۔ کہنے لگا۔ "امی جان! میں بھی باہ کروں گا۔"
"واہ ابھی سے؟ اماں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ پھر کہنے لگیں۔ "اچھا بدو تمہارا بیاہ آپا سے کر دیں؟" "اونہوں" بدو نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
اماں کہنے لگیں۔ "کیوں آپ کو کیا ہے؟"
"ہم تو چھاجو باجی سے باہ کریں گے۔" بدو نے آنکھیں چمکاتے ہوئے کہا۔اماں نے آپا کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہنے لگیں۔ "کیوں دیکھو تو آپا کیسی اچھی ہیں۔"
"ہوں بتاؤ تو بھلا۔ " اماں نے پوچھا۔ بدو نے آنکھیں اٹھا کر چاروں طرف دیکھا جیسے کچھ ڈھونڈ رہا ہو۔ پھر اس کی نگاہ چولہے پر آ کر رکی، چولہے میں اوپلے کا ایک جلا ہوا ٹکڑا پڑا تھا۔ بدو نے اس کی طرف اشارہ کیا اور بولا "ایسی!" اس بات پر ہم سب دیر تک ہنستے رہے۔ اتنے میں تصدق بھائی آ گئے۔ اماں کہنے لگیں۔"تصدق بدو سے پوچھنا تو آپا کیسی ہیں؟" آپا نے تصدق بھائی کو آتے ہوئے دیکھا تو منہ موڑ کر یوں بیٹھ گئی جیسے ہنڈیا پکانے میں منہمک ہو۔" "ہاں تو کیسی ہے آپا، بدو؟" وہ بولے۔ "بتاؤں؟" بدو چلا اور اس نے اوپلے کا ٹکڑا اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ غالباً وہ اسے ہاتھ میں لے کر ہمیں دکھانا چاہتا تھا مگر آپا نے جھٹ اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور انگلی ہلاتے ہوئے بولیں۔ "اونہہ۔" بدو رونے لگا تو اماں کہنے لگیں، پگلے اسے ہاتھ میں نہیں اٹھاتے، اس میں چنگاری ہے"وہ تو جلا ہوا ہے اماں!" بدو نے بسورتے ہوئے کہا۔ اماں بولیں" میرے لال تمہیں معلوم نہیں اس کے اندر تو آگ ہے۔ اوپر سے دکھائی نہیں دیتی۔" بدو نے بھولے پن سے پوچھا۔ "کیوں آپا اس میں آگ ہے۔" اس وقت آپا کے منہ پر ہلکی سی سرخی دوڑ گئی۔ "میں کیا جانوں؟" وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی اور پھنکنی اٹھا کر جلتی ہوئی آگ میں بے مصرف پھونکیں مارنے لگی۔
اب میں سمجھتی ہوں کہ آپا دل کی گہرائیوں میں جیتی تھی اور وہ گہرائیاں اتنی عمیق تھیں کہ بات ابھرتی بھی تو بھی نکل نہ سکتی۔ اس روز بدو نے کیسے پتے کی بات کہی تھی مگر میں کہا کرتی تھی۔ "آپا تم تو بس بیٹھ رہتی ہو۔" اور وہ مسکرا کر کہتی۔ "پگلی" اور اپنے کام میں لگ جاتی۔ ویسے وہ سارا دن کام میں لگی رہتی تھی۔ ہر وقت کوئی اسے کسی نہ کسی کام کو کہہ دیتا اور ایک ہی وقت میں اسے کئی کام کرنے پڑ جاتے۔ ادھر بدو چیختا۔ "آپا میرا دلیا۔" ادھر ابا گھورتے "سجادہ ابھی تک چائے کیوں نہیں بنی؟" بیچ میں اماں بول پڑتیں۔ "بیٹا دھوبی کب سے باہر کھڑا ہے؟" اور آپا چپ چاپ سارے کاموں سے نپٹ لیتی۔ یہ تو میں خوب جانتی تھی مگر اس کے باوجود جانے کیوں اسے کام کرتے ہوئے دیکھ کر یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وہ کام کر رہی ہے یا اتنا کام کرتی ہے۔ مجھے تو بس یہی معلوم تھا کہ وہ بیٹھی ہی رہتی ہے اور اسے ادھر ادھر گردن موڑنے میں بھی اتنی دیر لگتی ہے اور چلتی ہے تو چلتی ہوئی معلوم نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ میں نے آپا کو کبھی قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے نہیں سنا تھا۔ زیادہ سے زیادہ وہ مسکرا دیا کرتی تھیں اور بس۔
البتہ وہ مسکرایا اکثر کرتی تھی۔ جب وہ مسکراتی تو اس کے ہونٹ کھل جاتے اور آنکھیں بھیگ جاتیں۔ ہاں تو میں سمجھتی تھی کہ آپا چپکی بیٹھی ہی رہتی ہے۔ ذرا نہیں ہلتی اور بن چلے لڑھک کر یہاں سے وہاں پہنچ جاتی ہے جیسے کسی نے اسے دھکیل دیا ہو۔ اس کے برعکس ساحرہ کتنے مزے میں چلتی تھی جیسے دادرے کی تال پر ناچ رہی ہو اور اپنی خالہ زاد بہن ساجو باجی کو چلتے دیکھ کر تو میں کبھی نہ اکتاتی۔ جی چاہتا تھا کہ باجی ہمیشہ میرے پاس رہے اور چلتی چلتی اس طرح گردن موڑ کر پنچم آواز میں کہے "ہیں جی! کیوں جی؟" اور اس کی کالی کالی آنکھوں کے گوشے مسکرانے لگیں۔ باجی کی بات بات مجھے کتنی پیاری تھی۔
ساحرہ اور ثریا ہمارے پڑوس میں رہتی تھیں۔ دن بھر ان کا مکان ان کے قہقہوں سے گونجتا رہتا جیسے کسی مندر میں گھنٹیاں بج رہی ہوں۔ بس میرا جی چاہتا تھا کہ انہیں کے گھر جا رہوں۔ ہمارے گھر رکھا ہی کیا تھا۔ ایک بیٹھ رہنے والی آپا، ایک "یہ کرو، وہ کرو" والی اماں اور دن بھر حقے میں گڑ گڑ کرنے والے ابا۔
اس روز جب میں نے ابا کو امی سے کہتے ہوئے سنا سچ بات تو یہ ہے مجھے بے حد غصہ آیا۔ "سجاہ کی ماں! معلوم ہوتا ہے ساحرہ کے گھر میں بہت سے برتن ہیں۔"
"کیوں؟" اماں پوچھنے لگیں۔
کہنے لگے۔ "بس تمام دن برتن ہی بجتے رہتے ہیں اور یا قہقہے لگتے ہیں جیسے میلہ لگا ہو۔"
اماں تنک کر بولیں۔ "مجھے کیا معلوم۔ آپ تو بس لوگوں کے گھر کی طرف کان لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔"
ابا کہنے لگے۔ "افوہ! میرا تو مطلب ہے کہ جہاں لڑکی جوان ہوئی برتن بجنے لگے۔ بازار کے اس موڑ تک خبر ہو جاتی ہے کہ فلاں گھر میں لڑکی جوان ہو چکی ہے۔ مگر دیکھو نا ہماری سجادہ میں یہ بات نہیں۔" میں نے ابا کی بات سنی اور میرا دل کھولنے لگا۔ "بڑی آئی ہے۔ سجادہ جی ہاں! اپنی بیٹی جو ہوئی۔ " اس وقت میرا جی چاہتا تھا کہ جا کر باورچی خانے میں بیٹھی ہوئی آپا کا منہ چڑاؤں۔ اسی بات پر میں نے دن بھر کھانا نہ کھایا اور دل ہی دل میں کھولتی رہی۔ ابا جانتے ہی کیا ہیں۔ بس حقہ لیا اور گڑ گڑ کر لیا یا زیادہ سے زیادہ کتاب کھول کر بیٹھ گئے اور گٹ مٹ گٹ مٹ کرنے لگے جیسے کوئی بھٹیاری مکئ کے دانے بھون رہی ہو۔ سارے گھر میں لے دے کے صرف تصدق بھائی ہی تھے جو دلچسپ باتیں کیا کرتے تھے اور جب ابا گھر پر نہ ہوتے تو وہ بھاری آواز میں گایا بھی کرتے تھے۔ جانے وہ کون سا شعر تھاہاں
چپ چپ سے وہ بیٹھے ہیں آنکھوں میں نمی سی ہے
نازک سی نگاہوں میں نازک سا فسانہ ہے
آپا انہیں گاتے ہوئے سن کر کسی نہ کسی بات پر مسکرا دیتی اور کوئی بات نہ ہوئی تو وہ بدو کو ہلکا سا تھپڑ مار کر کہتی۔ "بدو رو نا" اور پھر آپ ہی بیٹھی مسکراتی رہتی۔

تصدق بھائی میرے پھوپھا کے بیٹے تھے۔ انہیں ہمارے گھر آئے یہی دو ماہ ہوئے ہوں گے۔ کالج میں پڑھتے تھے۔ پہلے تو وہ بورڈنگ میں رہا کرتے تھے پھر ایک دن جب پھوپھی آئی ہوئی تھی تو باتوں باتوں میں ان کا ذکر چھڑ گیا۔ پھوپھی کہنے لگی بورڈنگ میں کھانے کا انتظام ٹھیک نہیں۔ لڑکا آئے دن بیمار رہتا ہے۔ اماں اس بات پر خوب لڑیں۔ کہنے لگیں۔ "اپنا گھر موجود ہے تو بورڈنگ میں پڑے رہنے کا مطلب؟" پھر ان دونوں میں بہت سی باتیں ہوئیں۔ اماں کی تو عادت ہے کہ اگلی پچھلی تمام باتیں لے بیٹھتی ہیں۔ غرضیکہ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہفتے کے بعد تصدق بھائی بورڈنگ چھوڑ کر ہمارے ہاں آ ٹھہرے۔
تصدق بھائی مجھ سے اور بدو سے بڑی گپیں ہانکا کرتے تھے۔ ان کی باتیں بے حد دلچسپ ہوتیں۔ بدو سے تو وہ دن بھر نہ اکتاتے۔ البتہ آپا سے وہ زیادہ باتیں نہ کرتے۔ کرتے بھی کیسے، جب کبھی وہ آپا کے سامنے جاتے تو آپا کے دوپٹے کا پلو آپ ہی آپ سرک کر نیم گھونگھٹ سا بن جاتا۔ اور آپا کی بھیگی بھیگی آنکھیں جھک جاتیں اور وہ کسی نہ کسی کام میں شدت سے مصروف دکھائی دیتی۔ اب مجھے خیال آتا ہے کہ آپا ان کی باتیں غور سے سنا کرتی تھیں گو کہتی کچھ نہ تھی۔ بھائی صاحب بھی بدو سے آپا کے متعلق پوچھتے رہتے لیکن صرف اسی وقت جب وہ دونوں اکیلے ہوتے، پوچھتے۔ "تمہاری آپا کیا کر رہی ہے؟"
"آپا؟" بدو لا پرواہی سے دہراتا۔ "بیٹھی ہےبلاؤں؟"
بھائی صاحب گھبرا کر کہتے۔ "نہیں نہیں۔ اچھا بدو، آج تمہیں، یہ دیکھو اس طرف تمہیں دکھائیں۔" اور جب بدو کا دھیان ادھر ادھر ہو جاتا تو وہ مدھم آواز میں کہتے۔ "ارے یار تم تو مفت کا ڈھنڈورا ہو۔"
بدو چیخ اٹھتا۔ "کیا ہوں میں؟" اس پر وہ میز بجانے لگتے۔ ڈگمگ ڈگمگ ڈھنڈورا یعنی یہ ڈھنڈورا ہے، دیکھا؟ جسے ڈھول بھی کہتے ہیں ڈگمگ، ڈگمگ سمجھے؟" اور اکثر آپا آپا چلتے چلتے ان کے دروازے پر رک ٹھہر جاتی اور ان کی باتیں سنتی رہتی اور پھر چولہے کے پاس بیٹھ کر آپ ہی آپ مسکراتی۔ اس وقت اس کے سر سے دوپٹہ سرک جاتا، بالوں کی لٹ پھسل کر گال پر آ گرتی اور وہ بھیگی بھیگی آنکھیں چولہے میں ناچتے ہوئے شعلوں کی طرح جھومتیں۔ آپا کے ہونٹ یوں ہلتے گویا گاڑی ہو مگر الفاظ سنائی نہ دیتے۔ ایسے میں اگر اماں یا ابا باورچی خانے میں آ جاتے وہ ٹھٹھک کر یوں اپنا دوپٹہ، بال اور آنکھیں سنبھالتی گویا کسی بے تکلف محفل میں کوئی بیگانہ آ گھسا ہو۔
ایک دن میں، آپا اور اماں باہر صحن میں بیٹھی تھیں۔ اس وقت بھائی صاحب اندر اپنے کمرے میں بدو سے کہہ رہے تھے۔ "میرے یار ہم تو اس سے بیاہ کریں گے جو ہم سے انگریزی میں باتیں کر سکے، کتابیں پڑھ سکے، شطرنج، کیرم اور چڑیا کھیل سکے۔ چڑیا جانتے ہو؟ وہ گول گول پروں والا گیند بلے سے یوں ڈز، ٹن، ڈز اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں مزے دار کھانے پکا کر کھلا سکے، سمجھے ؟"
بدو بولا، "ہم تو چھاجو باجی سے بیاہ کریں گے۔"
"انہہ!" بھائی صاحب کہنے لگے۔
بدو چیخنے لگا۔ "میں جانتا ہوں تم آپا سے بیاہ کرو گے۔ ہاں!" اس وقت اماں نے مسکرا کر آپا کی طرف دیکھا۔ مگر آپا اپنے پاؤں کے انگوٹھے کا ناخن توڑنے میں اس قدر مصروف تھی جیسے کچھ خبر ہی نہ ہو۔ اندر بھائی صاحب کہہ رہے تھے۔ "واہ تمہاری آپا فرنی پکاتی ہے تو اس میں پوری طرح شکر بھی نہیں ڈالتی۔ بالکل پھیکی۔ آخ تھو!"
بدو نے کہا "ابا جو کہتے ہیں فرنی میں کم میٹھا ہونا چاہئے۔"
"تو وہ اپنے ابا کے لئے پکاتی ہے نا۔ ہمارے لئے تو نہیں!"
"میں کہوں آپا سے؟" بدو چیخا۔
بھائی چلائے۔ "او پگلا۔ ڈھنڈورا۔ لو تمہیں ڈھنڈورا پیٹ کر دکھائیں۔ یہ دیکھو اس طرف ڈگمگ ڈگمگ۔" بدو پھر چلانے لگا۔ "میں جانتا ہوں تم میز بجا رہے ہو نا؟"۔ "ہاں ہاں اسی طرح ڈھنڈورا پٹتا ہے نا۔" بھائی صاحب کہہ رہے تھے "کشتیوں میں، اچھا بدو تم نے کبھی کشتی لڑی ہے، آؤ ہم تم کشتی لڑیں۔ میں ہوں گاما اور تم بدو پہلوان۔ لو آؤ، ٹھہرو، جب میں تین کہوں۔ " اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے مدھم آواز میں کہا۔ "ارے یار تمہاری دوستی تو مجھے بہت مہنگی پڑتی ہے۔"میرا خیال ہے آپا ہنسی نہ روک سکی اس لئے وہ اٹھ کر باورچی خانے میں چلی گئی۔ میرا تو ہنسی کے مارے دم نکلا جا رہا تھا اور اماں نے اپنے منہ میں دوپٹہ ٹھونس لیا تھا تاکہ آواز نہ نکلے۔
میں اور آپا دونوں اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ بھائی صاحب آ گئے۔ کہنے لگے "کیا پڑھ رہی ہو جہنیا؟" ان کے منہ سے جہنیا سن کر مجھے بڑی خوشی ہوتی تھی۔
حالانکہ مجھے اپنے نام سے بے حد نفرت تھی۔ نور جہاں کیسا پرانا نام ہے۔ بولتے ہی منہ میں باسی روٹی کا مزا آنے لگتا ہے۔ میں تو نور جہاں سن کر یوں محسوس کیا کرتی تھی جیسے کسی تاریخ کی کتاب کے بوسیدہ ورق سے کوئی بوڑھی اماں سونٹا ٹیکتی ہوئی آ رہی ہوںمگر بھائی صاحب کو نام بگاڑ کر اسے سنوار دینے میں کمال حاصل تھا۔ ان کے منہ سے جہنیا سن کر مجھے اپنے نام سے کوئی شکایت نہ رہتی اور میں محسوس کرتی گویا ایران کی شہزادی ہوں۔ آپا کو وہ سجادہ سے سجدے کہا کر تھے مگر وہ تو بات تھی، جب آپا چھوٹی تھی۔ اب تو بھائی جان اسے سجد ے نہ کہتے بلکہ اس کا پورا نام تک لینے سے گھبراتے تھے۔ خیر میں نے جواب دے دیا۔ "سکول کا کام کر ہی ہوں۔"
پوچھنے لگے۔ "تم نے کوئی برنارڈ شا کی کتاب پڑھی ہے کیا؟"
میں نے کہا۔ "نہیں!"
انہوں نے میرے اور آپا کے درمیان دیوار پر لٹکی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔"تمہاری آپا نے تو ہارٹ بریک ہاؤس پڑھی ہو گی۔" وہ کنکھیوں سے آپا کی طرف دیکھ رہے تھے۔
آپا نے آنکھیں اٹھائے بغیر ہی سر ہلا دیا اور مدھم آواز میں کہا "نہیں!" اور سویٹر بننے میں لگی رہی۔
بھائی جان بولے "اوہ کیا بتاؤں جہنیا کہ وہ کیا چیز ہے، نشہ ہے نشہ، خالص شہد، تم اسے ضرور پڑھو بالکل آسان ہے یعنی امتحان کے بعد ضرور پڑھنا۔ میرے پاس پڑی ہے۔"
میں نے کہا۔"ضرور پڑھوں گی۔"
پھر پوچھنے لگے۔ "میں کہتا ہوں تمہاری آپا نے میٹرک کے بعد پڑھنا کیوں چھوڑ دیا؟"
میں نے چڑ کر کہا "مجھے کیا معلوم آپ خود ہی پوچھ لیجیئے۔" حالانکہ مجھے اچھی طرح سے معلوم تھا کہ آپا نے کالج جانے سے کیوں انکار کیا تھا۔ کہتی تھی میرا تو کالج جانے کو جی نہیں چاہتا۔ وہاں لڑکیوں کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے گویا کوئی نمائش گاہ ہو۔ درسگاہ تو معلوم ہی نہیں ہوتی جیسے مطالعہ کے بہانے میلہ لگا ہو۔" مجھے آپا کی یہ بات بہت بری لگی تھی۔ میں جانتی تھی کہ وہ گھر میں بیٹھ رہنے کے لئے کالج جانا نہیں چاہتی۔ بڑی آئی نکتہ چین۔ اس علاوہ جب کبھی بھائی جان آپا کی بات کرتے تو میں خواہ مخواہ چڑ جاتی۔ آپا تو بات کا جواب تک نہیں دیتی اور یہ آپا آپا کر رہے ہیں اور پھر آپا کی بات مجھ سے پوچھنے کا مطلب؟ میں کیا ٹیلی فون تھی؟ خود آپا سے پوچھ لیتے اور آپا، بیٹھی ہوئی گم سم آپا، بھیگی بلی۔
شام کو ابا کھانے پر بیٹھے ہوئے چلا اٹھے۔ "آج فیرنی میں اتنی شکر کیوں ہے؟ قند سے ہونٹ چپکے جاتے ہیں۔ سجادہ! سجادہ بیٹی کیا کھانڈ اتنی سستی ہو گئی ہے۔ ایک لقمہ نگلنا بھی مشکل ہے۔" شام آپا کی بھیگی بھیگی آنکھیں جھوم رہی تھیں۔ حالانکہ جب کبھی ابا جان خفا ہوتے تو آپا کا رنگ زرد پڑ جاتا۔ مگر اس وقت اس کے گال تمتما رہے تھے، کہنے لگی۔"شاید زیادہ پر گئی ہو۔" یہ کہہ کر وہ تو باورچی خانے میں چلی گئی اور میں دانت پیس رہی تھی۔ "شاید۔ کیا خوب۔ شاید۔"
ادھر ابا بدستور بڑبڑا رہے تھے۔ "چار پانچ دن سے دیکھ رہا ہوں کہ فیرنی میں قند بڑھتی جا رہی ہے۔" صحن میں اماں دوڑی دوڑی آئیں اور آتے ہی ابا پر برس پڑیں، جیسے ان کی عادت ہے۔ "آپ تو نا حق بگڑتے ہیں۔ آپ ہلکا میٹھا پسند کرتے ہیں تو کیا باقی لوگ بھی کم کھائیں؟ اللہ رکھے گھر میں جوان لڑکا ہے اس کا تو خیال کرنا چاہئے۔ "ابا کو جان چھڑانی مشکل ہو گئی، کہنے لگے۔ "ارے یہ بات ہے مجھے بتا دیا ہوتا میں کہتا ہوں سجادہ کی ماں" اور وہ دونوں کھسر پھسر کرنے لگے۔ آپا، ساحرہ کے گھر جانے کو تیار ہوئی تو میں بڑی حیران ہوئی۔ آپا اس سے ملنا تو کیا بات کرنا پسند نہیں کرتی تھی۔ بلکہ اس کے نام پر ہی ناک بھوں چڑھایا کرتی تھی۔ میں نے خیال کیا ضرور کوئی بھید ہے اس بات میں۔
کبھی کبھار ساحرہ دیوار کے ساتھ چارپائی کھڑی کر کے اس پر چڑھ کر ہماری طرف جھانکتی اور کسی نہ کسی بہانے سلسلۂ گفتگو کو دراز کرنے کی کوشش کرتی تو آپا بڑی بے دلی سے دو ایک باتوں سے اسے ٹال دیتی۔ آپ ہی آپ بول اٹھی۔ "ابھی تو اتنا کام پڑا ہے اور میں یہاں کھڑی ہوں۔" یہ کہہ کر وہ باورچی خانے میں جا بیٹھتی۔ خیر اس وقت تو میں چپ چاپ بیٹھی رہی مگر جب آپا لوٹ چکی تو کچھ دیر کے بعد چپکے سے میں بھی ساحرہ کے گھر جا پہنچی۔ باتوں ہی باتوں میں نے ذکر چھیڑ دیا۔ "آج آپا آئی تھی؟"
ساحرہ نے ناخن پر پالش لگاتے ہوئے کہا۔ "ہاں کوئی کتاب منگوانے کو کہہ گئی ہے نہ جانے کیا نام ہے اس کا ہاں! ہارٹ بریک ہاؤس۔"
آپا اس کتاب کو مجھ سے چھپا کر دراز میں رکھتی تھی۔ مجھے کیا معلوم نہ تھا۔ رات کو وہ بار بار کبھی میری طرف اور کبھی گھڑی کی طرف دیکھتی رہتی۔ اسے یوں مضطرب دیکھ کر میں دو ایک انگڑائیاں لیتی اور پھر کتاب بند کر کے رضائی میں یوں پڑ جاتی جیسے مدت سے گہری نیند میں ڈوب چکی ہوں۔ جب اسے یقین ہو جاتا کہ میں سو چکی ہوں تو دراز کھول کر کتاب نکال لیتی اور اسے پڑھنا شروع کر دیتی۔ آخر ایک دن مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے رضائی سے منہ نکال کر پوچھ ہی لیا۔ "آپا یہ ہارٹ بریک ہاؤس کا مطلب کیا ہے۔ دل توڑنے والا گھر؟ اس کے کیا معنی ہوئے؟" آپا پہلے تو ٹھٹھک گئی، پھر وہ سنبھل کر اٹھی اور بیٹھ گئی۔ مگر اس نے میری بات کا جواب نہ دیا۔ میں نے اس کی خاموشی سے جل کر کہا۔
"اس لحاظ سے تو ہمارا گھر واقعی ہارٹ بریک ہے۔"
کہنے لگی۔ "میں کیا جانوں؟"
میں نے اسے جلانے کہ کہا۔ "ہاں! ہماری آپا بھلا کیا جانے؟" میرا خیال ہے یہ بات ضرور اسے بری لگی۔ کیونکہ اس نے کتاب رکھ دی اور بتی بجھا کر سو گئی۔
ایک دن یونہی پھرتے پھرتے میں بھائی جان کے کمرے میں جا نکلی۔ پہلے تو بھائی جان ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ پھر پوچھنے لگے۔ "جہنیا، اچھا یہ بتاؤ کیا تمہاری آپا کو فروٹ سلاد بنانا آتا ہے؟" میں نے کہا "میں کیا جانوں؟ جا کر آپا سے پوچھ لیجئے۔" ہنس کر کہنے لگے۔ "آج کیا کسی سے لڑ کر آئی ہو۔"
"کیوں میں لڑاکا ہوں؟" میں نے کہا۔
بولے "نہیں ابھی تو لڑکی ہو شاید کسی دن لڑاکا ہو جاؤ۔" اس پر میری ہنسی نکل گئی۔ وہ کہنے لگے۔ "دیکھو جہنیا مجھے لڑنا بے حد پسند ہے۔ میں تو ایسی لڑکی سے بیاہ کروں گا جو باقاعدہ صبح سے شام تک لڑ سکے، ذرا نہ اکتائے۔" جانے کیوں میں شرما گئی اور بات بدلنے کی خاطر پوچھا۔ "فروٹ سلاد کیا ہوتا ہے بھائی جان؟"
بولے۔ "وہ بھی ہوتا ہے۔ سفید سفید، لال لال، کالا کالا، نیلا نیلا سا۔"میں ان کی بات سن کر بہت ہنسی، پھر کہنے لگے۔ "مجھے وہ بے حد پسند ہے، یہاں تو جہنیا ہم فیرنی کھا کر اکتا گئے۔ "میرا خیال ہے یہ آپا نے ضرور سن لی ہو گی۔ کیونکہ اسی شام کو وہ باورچی خانے میں بیٹھی "نعمت خانہ" پڑھ رہی تھی۔ اس دن کے بعد روز بلا ناغہ وہ کھانے پکانے سے فارغ ہو کر فروٹ سلاد بنانے کی مشق کیا کرتی اور ہم میں کوئی اس کے پاس چلا جاتا تو جھٹ فروٹ سلاد کی کشتی چھپا دیتی۔ ایک روز آپا کو چھیڑنے کی خاطر میں نے بدو سے کہا۔"بدو بھلا بوجھو تو وہ کشتی جو آپا کے پیچھے پڑی ہے اس میں کیا ہے؟"
بدو ہاتھ دھو کر آپا کے پیچھے پڑ گیا۔ حتیٰ کہ آپا کو وہ کشتی بدو کو دینی ہی پڑی۔ پھر میں نے بدو کو اور بھی چمکا دیا۔ میں نے کہا۔ "بدو جاؤ، بھائی جان سے پوچھو اس کھانے کا کیا نام ہے" بدو بھائی جان کے کمرے کی طرف جانے لگا تو آپا نے اٹھ کر وہ کشتی اس سے چھین لی اور میری طرف گھور کر دیکھا۔
اس روز پہلی مرتبہ آپا نے مجھے یوں گھورا تھا۔ اسی رات آپا شام ہی سے لیٹ گئی، مجھے صاف دکھائی دیتا تھا کہ وہ رضائی میں پڑی رو رہی ہے۔ اس وقت مجھے اپنی بات پر بہت افسوس ہوا۔ میرا جی چاہتا تھا کہ اٹھ کر آپا کے پاؤں پڑ جاؤں اور اسے خوب پیار کروں مگر میں ویسے ہی چپ چاپ بیٹھی رہی اور کتاب کا ایک لفظ تک نہ پڑھ سکی۔
انہی دنوں میری خالہ زاد بہن ساجدہ جسے ہم سب ساجو باجی کہا کرتے تھے، میٹرک کا امتحان دینے ہمارے گھر آ ٹھہری۔ ساجو باجی کے آنے پر ہمارے گھر میں رونق ہو گئی۔ ہمارا گھر بھی قہقہوں سے گونج اٹھا۔ ساحرہ اور ثریا چارپائیوں پر کھڑی ہو کر باجی سے باتیں کرتی رہتیں۔ بدو چھاجو باجی، چھاجو باجی چیختا پھرتا اور کہتا۔ "ہم تو چھاجو باجی سے باہ کریں گے۔"
باجی کہتی۔ "شکل تو دیکھو اپنی، پہلے منہ دھو آؤ۔" پھر وہ بھائی صاحب کی طرف یوں گردن موڑتی کہ کالی کالی آنکھوں کے گوشے مسکرانے لگتے اور پنچم تان میں پوچھتی۔ "ہے نا بھئی جا آن کیوں جی؟"
باجی کے منہ سے "بھئی جا آن" کچھ ایسا بھلا سنائی دیتا کہ میں خوشی سے پھولی نہ سماتی۔ اس کے برعکس جب کبھی آپا "بھائی صاحب" کہتی تو کیسا بھدا معلوم ہوتا۔ گویا وہ واقعی انہیں بھائی کہہ رہی ہو اور پھر "صاحب" جیسے حلق میں کچھ پھنسا ہوا ہو مگر باجی "صاحب" کی جگہ "جا آن" کہہ کر اس سادے سے لفظ میں جان ڈال دیتی تھی۔ "جا آن" کی گونج میں بھائی دب جاتا اور یہ محسوس ہی نہ ہوتا کہ وہ انہیں بھائی کہہ رہی ہے۔
اس کے علاوہ "بھائی جا آن" کہہ کر وہ اپنی کالی کالی چمکدار آنکھوں سے دیکھتی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں مسکراتی تو سننے والے کو قطعی یہ گمان نہ ہوتا کہ اسے بھائی کہا گیا ہے۔ آپا کے "بھائی صاحب" اور باجی کے "بھائی جا آن" میں کتنا فرق تھا۔
باجی کے آنے پر آپا کا بیٹھ رہنا بالکل بیٹھ رہنا ہی رہ گیا۔ بدو نے بھائی جان سے کھیلنا چھوڑ دیا۔ وہ باجی کے گرد طواف کرتا رہتا اور باجی بھائی جان سے کبھی شطرنج کبھی کیرم کھیلتی۔
باجی کہتی۔ "بھئی جا آن ایک بورڈ لگے گا" یا بھائی جان اس کی موجودگی میں بدو سے کہتے"کیوں میاں بدو! کوئی ہے جو ہم سے شطرنج میں پٹنا چاہتا ہو؟" باجی بول اٹھتی۔ آپا سے پوچھئے۔ "بھائی جان کہتے۔ "اور تم؟" باجی جھوٹ موٹ کی سوچ میں پڑ جاتی، چہرے پر سنجیدگی پیدا کر لیتی، بھویں سمٹا لیتی اور تیوری چڑھا کر کھڑی رہتی پھر کہتی۔ "انہہ مجھ سے آپ پٹ جائیں گے۔" بھائی جان کھلکھلا کر ہنس پڑتے اور کہتے۔ "کل جو پٹی تھیں بھول گئیں کیا؟" وہ جواب دیتی۔ "میں نے کہا چلو بھئی جان کا لحاظ کرو۔ ورنہ دنیا کیا کہے گی کہ مجھ سے ہار گئے۔ اور پھر یوں ہنستی جیسے گھنگھرو بج رہے ہوں۔
رات کو بھائی جان باورچی خانے میں ہی کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ آپا چپ چاپ چولھے کے سامنے بیٹھی تھی۔ بدو چھاجو باجی چھاجو باجی کہتا ہوا باجی کے دوپٹے کا پلو پکڑے اس کے آس پاس گھوم رہا تھا۔ باجی بھائی جان کو چھیڑ رہی تھی۔ کہتی تھی۔ "بھئی جا آن تو صرف ساڑھے چھ پھلکے کھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فیرنی کی پلیٹ مل جائے تو قطعی مضائقہ نہیں۔ کریں بھی کیا۔ نہ کھائیں تو ممانی ناراض ہو جائیں۔ انہیں جو خوش رکھنا ہوا، ہے نا بھائی جا آن۔" ہم سب اس بات پر خوب ہنسے۔ پھر باجی ادھر ادھر ٹہلنے لگی اور آپا کے پیچھے جا کھڑ ی ہوئی۔ آپا کے پیچھے فروٹ سلاد کی کشتی پڑی تھی۔ باجی نے ڈھکنا سرکا کر دیکھا اور کشتی کو اٹھا لیا۔ پیشتر اس کے کہ آپا کچھ کہہ سکے۔ باجی وہ کشتی بھائی جان کی طرف لے آئی۔ "لیجئے بھائی جا آن" اس نے آنکھوں میں ہنستے ہوئے کہا۔ "آپ بھی کیا کہیں گے کہ ساجو باجی نے کبھی کچھ کھلایا ہی نہیں۔"
بھائی جان نے دو تین چمچے منہ میں ٹھونس کر کہا "خدا کی قسم بہت اچھا بنا ہے، کس نے بنایا ہے؟" ساجو باجی نے آپا کی طرف کنکھیوں سے دیکھا اور ہنستے ہوئے کہا۔ "ساجو باجی نے اور کس نے بھئی جا آن کے لئے۔ "بدو نے آپا کی منہ کی طرف غور سے دیکھا۔ آپا کا منہ لال ہو رہا تھا۔ بدو چلا اٹھا۔ "میں بتاؤں بھائی جان؟"آپا نے بدو کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور اسے گود میں اٹھا کر باہر چلی گئی۔ باجی کے قہقہوں سے کمرہ گونج اٹھا اور بدو کی بات آئی گئی ہو گئی۔
بھائی جان نے باجی کی طرف دیکھا۔ پھر جانے انہیں کیا ہوا۔ منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ آنکھیں باجی کے چہرے پر گڑ گئیں۔ جانے کیوں میں نے محسوس کیا جیسے کوئی زبردستی مجھے کمرے سے باہر گھسیٹ رہا ہو۔ میں باہر چلی آئی۔ باہر آپا، الگنی کے قریب کھڑی تھی۔ اندر بھائی صاحب نے مدھم آواز میں کچھ کہا۔ آپا نے کان سے دوپٹہ سرکا دیا۔ پھر باجی کی آواز آئی۔ "چھوڑئیے چھوڑئیے" اور پھر خاموشی چھا گئی۔
اگلے دن ہم صحن میں بیٹھے تھے۔ اس وقت بھائی جان اپنے کمرے میں پڑھ رہے تھے۔ بدو بھی کہیں ادھر ادھر کھیل رہا تھا۔ باجی حسبِ معمول بھائی جان کے کمرے میں چلی گئی، کہنے لگی۔"آج ایک دھندناتا بورڈ کر کے دکھاؤں۔ کیا رائے ہے آپ کی ؟" بھائی جان بولے۔ "واہ، یہاں سے کک لگاؤں تو جانے کہاں جا پڑو۔" غالباً انہوں نے باجی کی طرف زور سے پیر چلا یا ہو گا۔ وہ بناوٹی غصے سے چلائی۔ "واہ آپ تو ہمیشہ پیر ہی سے چھیڑتے ہیں!" بھائی جان معاً بول اٹھے "تو کیا ہاتھ سے"، "چپخاموش۔" باجی چیخی۔ اس کے بھاگنے کی آواز آئی۔ ایک منٹ تک تو پکڑ دھکڑ سنائی دی۔ پھر خاموشی چھا گئی۔
اتنے میں کہیں سے بدو بھاگتا ہوا آیا، کہنے لگا۔ "آپا اندر بھائی جان سے کشتی لڑے رہے ہیں۔ چلو دکھاؤں تمہیں چلو بھی۔" وہ آپا کا بازو پکڑ کر گھسیٹنے لگا۔ آپا کا رنگ ہلدی کی طرح زرد ہو رہا تھا اور وہ بت بنی کھڑی تھی۔ بدو نے آپا کو چھوڑ دیا۔ کہنے لگا۔ "اماں کہا ں ہے؟" اور وہ ماں کے پاس جانے کے لئے دوڑا۔ آپا نے لپک کر اسے گود میں اٹھا لیا۔ "آؤ تمہیں مٹھائی دوں۔" بدو بسورنے لگا۔ آپا بولیں "آؤ دیکھو تو کیسی اچھی مٹھائی ہے میرے پاس۔" اور اسے باورچی خانے میں لے گئی۔
اسی شام میں نے اپنی کتابوں کی الماری کھولی تو اس میں آپا کی ہارٹ بریک ہاؤس پڑی تھی۔ شاید آپا نے اسے وہاں رکھ دیا ہو۔ میں حیران ہوئی کہ بات کیا ہے مگر آپا باورچی خانے میں چپ چاپ بیٹھی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس کے پیچھے فروٹ سلاد کی کشتی خالی پڑی تھی۔ البتہ آپا کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔
بھائی تصدق اور باجی کی شادی کے دو سال بعد ہمیں پہلی بار ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ اب باجی وہ باجی نہ تھی۔ اس کے وہ قہقہے بھی نہ تھے۔ اس کا رنگ زرد تھا اور ماتھے پر شکن چڑھی تھی۔ بھائی صاحب بھی چپ چاپ رہتے تھے۔ ایک شام اماں کے علاوہ ہم سب باورچی خانے میں بیٹھے تھے۔ بھائی کہنے لگے۔ بدو ساجو باجی سے بیاہ کرو گے؟
"اونہہ!" بدو نے کہا۔ "ہم باہ کریں گے ہی نہیں۔"
میں نے پوچھا۔ "بھائی جان یاد ہے جب بدو کہا کر تا تھا۔ ہم تو چھاجو باجی سے باہ کریں گے۔ " اماں نے پوچھا "آپا سے کیوں نہیں؟" تو کہنے لگا "بتاؤں آپا کیسی ہے؟" پھر چولھے میں جلے ہوئے اوپلے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا۔ "ایسی!" اور چھاجو باجی؟ میں نے بدو کی طرح بجلی کے روشن بلب کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔"ایسی!" عین اسی وقت بجلی بجھ گئی اور کمرے میں انگاروں کی روشنی کے سوا اندھیرا چھا گیا۔ "ہاں یاد ہے!" بھائی جان نے کہا۔ پھر جب باجی کسی کام کے لئے باہر چلی گئی تو بھائی کہنے لگے۔ "نہ جانے اب بجلی کو کیا ہو گیا۔ جلتی بجھتی رہتی ہے۔" آپا چپ چاپ بیٹھی چولھے میں راکھ سے دبی ہوئی چنگاریوں کو کرید رہی تھی۔ بھائی جان نے مغموم سی آواز میں کہا "اف کتنی سردی ہے۔" پھر اٹھ کر آپا کے قریب چولہے کے سامنے جا بیٹھے اور ان سلگتے ہوئے اوپلوں سے آگ سینکنے لگے۔ بولے۔ "ممانی سچ کہتی تھیں کہ ان جھلسے ہوئے اوپلوں میں آگ دبی ہوتی ہے۔ اوپر سے نہیں دکھائی دیتی۔ کیوں سجدے؟" آپا پرے سرکنے لگی تو چھن سی آواز آئی جیسے کسی دبی ہوئی چنگاری پر پانی کی بوند پڑی ہو۔ بھائی جان منت بھری آواز میں کہنے لگے۔ "اب اس چنگاری کو تو نہ بجھاؤ سجدے، دیکھو تو کتنی ٹھنڈ ہے۔

ممتاز مفتی




آنندی

(غلام عبّاس)
بلدیہ کا اجلاس زوروں پر تھا۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور خلافِ معمول ایک ممبر بھی غیر حاضر نہ تھا۔ بلدیہ کے زیرِ بحث مسئلہ یہ تھا کہ زنان بازاری کو شہر بدر کر دیا جائے کیونکہ ان کا وجود انسانیت، شرافت اور تہذیب کے دامن پر بد نما داغ ہے۔
بلدیہ کے ایک بھاری بھرکم رکن جو ملک و قوم کے سچے خیر خواہ اور دردمند سمجھے جاتے تھے نہایت فصاحت سے تقریر کر رہے تھے
۔
"اور پھر حضرات آپ یہ بھی خیال فرمائیے کہ ان کا قیام شہر کے ایک ایسے حصے میں ہے جو نہ صرف شہر کے بیچوں بیچ عام گزر گا ہ ہے بلکہ شہر کا سب سے بڑا تجارتی مرکز بھی ہے چنانچہ ہر شریف آدمی کو چار و ناچار اس بازار سے گزرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں شرفاء کی پاک دامن بہو بیٹیاں اس بازار کی تجارتی اہمیت کی وجہ سے یہاں آنے اور خرید و فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ صاحبان! یہ شریف زادیاں ان آبرو باختہ، نیم عریاں بیسواؤں کے بناؤ سنگار کو دیکھتی ہیں تو قدرتی طور پران کے دل میں بھی آرائش و دلربائی کی نئی نئی امنگیں اور ولولے پیدا ہوتے ہیں اور وہ اپنے غریب شوہروں سے طرح طرح کے غازوں، لونڈروں، زرق برق ساریوں اور قیمتی زیوروں کی فرمائشیں کرنے لگتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا پُر مسرت گھر، ان کا راحت کدہ ہمیشہ کے لئے جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے۔"
"اور صاحبان پھر آپ یہ بھی تو خیال فرمائیے کہ ہمارے نونہالانِ قوم جو درسگاہوں میں تعلیم پا رہے ہیں اور ان کی آئندہ ترقیوں سے قوم کی امیدیں وابستہ ہیں اور قیاس چاہتا ہے کہ ایک نہ ایک دن قوم کی کشتی کو بھنور سے نکالنے کا سہرا ان ہی کے سر بندھے گا، انہیں بھی صبح شام اسی بازار سے ہو کر آنا جاتا پڑتا ہے۔ یہ قحبائیں ہر وقت ابھرن سولہ سنگار کئے راہرو پر بے حجابانہ نگاہ و مژہ کے تیر و سناں برساتی اور اسے دعوتِ حسن دیتی ہیں۔ کیا انہیں دیکھ کر ہمارے بھولے بھالے نا تجربہ کار جوانی کے نشے میں محو، سود و زیاں سے بے پرو اہ نو نہالانِ قوم اپنے جذبات و خیالات اور اپنی اعلیٰ سیرت کو معصیت کے مسموم اثرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ صاحبان! کیا ان کا حسنِ زاہد فریب ہمارے نونہالانِ قوم کو جادۂ مستقیم سے بھٹکا کر، ان کے دل میں گناہ کی پر اسرار لذتوں کی تشنگی پیدا کر کے ایک بے کلی، ایک اضطراب، ایک ہیجان برپا نہ کر دیتا ہو گا"
اس موقع پر ایک رکن بلدیہ جو کسی زمانے میں مدرس رہ چکے تھے اور اعداد و شمار سے خاص شغف رکھتے تھے بول اٹھے:
"صاحبان، واضح رہے کہ امتحانوں میں ناکام رہنے والے طلبہ کا تناسب پچھلے پانچ سال کی نسبت ڈیوڑھا ہو گیا ہے۔"
ایک رکن نے جو چشمہ لگائے تھے اور ہفتہ وار اخبار کے مدیرِ اعزازی تھے، تقریر کرتے ہوئے کہا "حضرات ہمارے شہر سے روز بروز غیرت، شرافت، مردانگی، نیکو کاری و پرہیز گاری اٹھتی جا رہی ہے اور اس کی بجائے بے غیرتی، نا مردی، بزدلی، بدمعاشی، چوری اور جعل سازی کا دور دورہ ہو تا جا رہا ہے۔ منشیات کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ قتل و غارت گری، خودکشی اور دیوالیہ نکلنے کی وارداتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس کا سبب محض ان زنانِ بازاری کا نا پاک وجود ہے کیونکہ ہمارے بھولے بھالے شہری ان کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہو کر ہوش و خرد کھو بیٹھتے ہیں اور ان کی بارگاہ تک رسائی کی زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کرنے کے لئے ہر جائز و ناجائز طریقہ سے زر حاصل کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ اس سعی و کوشش میں جامۂ انسانیت سے باہر ہو جاتے ہیں اور قبیح افعال کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جانِ عزیزی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا جیل خانوں میں پڑے سڑتے ہیں۔"
ایک پنشن یافتہ معمر رکن جو ایک وسیع خاندان کے سرپرست تھے اور دنیا کا سرد و گرم دیکھ چکے تھے اور اب کش مکش حیات سے تھک کر باقی ماندہ عمر سستانے اور اپنے اہل و عیال کو اپنے سایہ میں پنپتا ہوا دیکھنے کے متمنی تھے، تقریر کرنے اٹھے۔۔ان کی آواز لرزتی ہوئی تھی اور لہجہ فریاد کا انداز لئے ہوئے تھا۔ بولے: صاحبان رات رات بھر ان لوگوں کے طبلے کی تھاپ، ان کی گلے بازیاں، ان کے عشاق کی دھینگا مشتی، گالی گلوچ، شور و غل ہا ہا ہا ہو ہو ہو، سن سن کر آس پاس کے رہنے والے شرفا کے کان پک گئے ہیں۔ رات کی نیند حرام ہے تو دن کا چین مفقود۔ علاوہ ازیں ان کے قرب سے ہماری بہو بیٹیوں کے اخلاق پر جو اثر پڑتا ہے اس کا اندازہ ہر صاحب اولاد خود کر سکتا ہے۔ آخری فقرہ کہتے کہتے ان کی آواز بھرا گئی اور وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکے۔ سب اراکین بلدیہ کو ان سے ہمدردی تھی کیونکہ بدقسمتی سے ان کا مکان اس بازار حسن کے عین وسط میں واقع تھا۔ ان کے بعد ایک رکن بلدیہ نے جو پرانی تہذیب کے علمبردار تھے اور آثار قدیمہ کو اولاد سے زیادہ عزیز رکھتے تھے تقریر کرتے ہوئے کہا۔
"حضرات! باہر سے جو سیاح اور ہمارے احباب اس مشہور اور تاریخی شہر کو دیکھنے آتے ہیں جب وہ اس بازار سے گزرتے ہیں اور اس کے متعلق استفسار کرتے ہیں تو یقین کیجئے کہ ہم پر گھڑوں پانی پڑ جاتا ہے۔"
اب صدر بلدیہ تقریر کرنے اٹھے۔ گو قد ٹھگنا اور ہاتھ پاؤں چھوٹے چھوٹے تھے مگر سر بڑا تھا۔ جس کی وجہ سے بردبار آدمی معلوم ہوتے تھے۔ لہجہ میں حد درجہ متانت تھی، بولے: "حضرات! میں اس امر میں قطعی طور پر آپ سے متفق ہوں کہ اس طبقہ کا وجود ہمارے شہر اور ہمارے تہذیب و تمدن کے لئے باعثِ صد عار ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کا تدارک کس طرح کیا جائے۔ اگر ان لوگوں کو مجبور کیا جائے کہ یہ اپنا ذلیل پیشہ چھوڑ دیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ کھائیں گے کہاں سے؟" ایک صاحب بول اٹھے۔ "یہ عورتیں شادی کیوں نہیں کر لیتیں؟"
اس پر ایک طویل فرمائشی قہقہہ پڑا اور ہال کی ماتمی فضا میں یکبارگی شگفتگی کے آثار پیدا ہو گئے۔ جب اجلاس میں خاموشی ہوئی تو صاحب صدر بولے۔ "حضرات یہ تجویز با رہا ان لوگوں کے سامنے پیش کی جا چکی ہے۔ اس کا ان کی طرف سے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ آسودہ اور عزت دار لوگ خاندانی حرمت و ناموس کے خیال سے انہیں اپنے گھروں میں گھسنے نہ دیں گے اور مفلس اور ادنیٰ طبقہ کے لوگوں کو جو محض ان کی دولت کے لئے ان سے شادی کرنے پر آمادہ ہوں گے، یہ عورتیں خود منہ نہیں لگائیں گی۔"
اس پر ایک صاحب بولے۔ "بلدیہ کو ان کے نجی معاملوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ بلدیہ کے سامنے تو یہ مسئلہ ہے کہ یہ لوگ چاہے جہنم میں جائیں مگر اس شہر کو خالی کر دیں۔"
صدر نے کہا "صاحبان یہ بھی آسان کام نہیں ہے۔ ان کی تعداد دس بیس نہیں سینکڑوں تک پہنچتی ہے اور پھر ان میں سے بہت سی عورتوں کے ذاتی مکانات ہیں۔"
یہ مسئلہ کوئی مہینے بھر تک بلدیہ کے زیر بحث رہا اور بالآخر تمام اراکین کی اتفاق رائے یہ امر قرار پایا کہ زنان بازاری کے مملوکہ مکانوں کو خرید لینا چاہئے اور انہیں رہنے کے لئے شہر سے کافی دور کوئی الگ تھلگ علاقہ دے دینا چاہئے۔ ان عورتوں نے بلدیہ کے اس فیصلہ کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ بعض نے نا فرمانی کر کے بھاری جرمانے اور قیدیں بھگتیں مگر بلدیہ کی مرضی کے آگے ان کی کوئی پیش نہ چل سکی اور چار و ناچار صبر کر کے رہ گئیں۔

اس کے بعد ایک عرصہ تک ان زنان بازاری کے مملوکہ مکانوں کی فہرستیں اور نقشے تیار ہو تے رہے اور مکانوں کے گاہک پیدا کئے جاتے رہے۔ بیشتر مکانوں کو بذریعۂ نیلام فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان عورتوں کو چھ مہینے تک شہر میں اپنے پرانے ہی مکانوں میں رہنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ اس عرصہ میں وہ نئے علاقہ میں مکان وغیرہ بنوا سکیں۔
ان عورتوں کے لئے جو علاقہ منتخب کیا گیا وہ شہر سے چھ کوس دور تھا۔ پانچ کوس تک پکی سڑک جاتی تھی اور اس سے آگے کوس بھر کا کچا راستہ تھا۔ کسی زمانہ میں وہاں کوئی بستی ہو گی مگر اب تو کھنڈروں کے سوا کچھ نہ رہا تھا۔ جن میں سانپوں اور چمگادڑوں کے مسکن تھے اور دن دہاڑے اُلّو بولتا تھا۔ اس علاقے کے نواح میں کچے گھروندوں والے کئی چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے۔ مگر کسی کا فاصلہ بھی یہاں سے دو ڈھائی میل سے کم نہ تھا۔ ان گاؤں کے بسنے والے کسان دن کے وقت کھیتی باڑی کرتے، یا یونہی پھرتے پھراتے ادھر نکل آتے ورنہ عام طور پر اس شہر خموشاں میں آدم زاد کی صورت نظر نہ آتی تھی۔ بعض اوقات روز روشن ہی میں گیدڑ اس علاقے میں پھرتے دیکھے گئے تھے۔
پانچ سو کچھ اوپر بیسواؤں میں سے صرف چودہ ایسی تھیں جو اپنے عشاق کی وابستگی یا خود اپنی دلبستگی یا کسی اور وجہ سے شہر کے قریب آزادانہ رہنے پر مجبور تھیں اور اپنے دولت مند چاہنے والوں کی مستقل مالی سرپرستی کے بھروسے بادل نا خواستہ اس علاقہ میں رہنے پر آمادہ ہو گئی تھیں ورنہ باقی عورتوں نے سوچ رکھا تھا کہ وہ یا تو اسی شہر کے ہوٹلوں کو اپنا مسکن بنائیں گی یا بظاہر پارسائی کا جامہ پہن کر شہر کے شریف محلوں کی کونوں کھدروں میں جا چھپیں گی یا پھر اس شہر کو چھوڑ کر کہیں اور نکل جائیں گی۔
یہ چودہ بیسوائیں اچھی خاصی مالدار تھیں۔ اس پر شہر میں ان کے جو مملوکہ مکان تھے،، ان کے دام انہیں اچھے وصول ہو گئے تھے اور اس علاقہ میں زمین کی قیمت برائے نام تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے ملنے والے دل و جان سے اس کی مالی امداد کرنے کی لئے تیا ر تھے۔ چنا نچہ انہوں نے اس علاقے میں جی کھول کر بڑے بڑے عالیشان مکان بنوانے کی ٹھانی۔ ایک اونچی اور ہموار جگہ جو ٹوٹی پھوٹی قبروں سے ہٹ کر تھی "منتخب کی گئی۔ زمین کے قطعے صاف کرائے اور چابک دست نقشہ نویسوں سے مکان کے نقشے بنوائے گئے اور چند ہی روز میں تعمیر کا کام شروع ہو گیا۔ دن بھر اینٹ، مٹی، چونا، شہتیر، گارڈر اور دوسرا عمارتی سامان گاڑیوں، چھکڑوں، خچروں، گدھوں اور انسانوں پر لد کر اس بستی میں آ تا اور منشی صاحب حساب کتاب کی کاپیا ں بغلوں میں دبائے انہیں گنواتے اور کاپیوں میں درج کرتے۔۔۔ میر صاحب معماروں کو کام کے متعلق ہدایات دیتے۔ معمار مزدوروں کو ڈانٹتے ڈپٹتے مزدور ادھر ادھر دوڑتے پھرتے۔ مزدور نیوں کو چلا چلا کر پکارتے اور اپنے ساتھ کام کرنے کے لئے بلاتے۔ غرض سارا دن ایک شور ایک ہنگامہ رہتا۔ اور سارا دن آ س پاس کے گاؤں کے دیہاتی اپنے کھیتوں میں اور دیہاتنیں اپنے گھروں میں ہوا کے جھو نکوں کے ساتھ دور سے آ تی ہوئی کھٹ کھٹ کی دھیمی آوازیں سنتی رہتیں۔
اس بستی کے کھنڈروں میں ایک جگہ مسجد کے آ ثار تھے اور اس کے پاس ہی ایک کنواں تھا جو بند پڑا تھا۔ راج مزدوروں نے کچھ تو پانی حاصل کرنے اور بیٹھ کر سستانے کی غرض سے اور کچھ ثواب کمانے اور اپنے نمازی بھائیوں کی عبادت گزاری کے خیال سے سب سے پہلے اس کی مرمت کی چونکہ یہ فائدہ بخش اور ثواب کا کام تھا، اس لئے کسی نے کچھ اعتراض نہ کیا چنانچہ دو تین روز میں مسجد تیار ہو گئی۔
دن کو بارہ بجے جیسے ہی کھانا کھانے کی چھٹی ہوئی دو ڈھائی سو راج، مزدور، میرِ عمارت، منشی اور ان بیسواؤں کے رشتے دار یا کارندے جو تعمیر کی نگرانی پر مامور تھے، اس مسجد کے آ س پاس جمع ہو جاتے اور اچھا خاصا میلہ سا لگ جاتا۔
ایک دن ایک دیہاتی بڑھیا جو پاس کے کسی گاؤں میں رہتی تھی، اس بستی کی خبر سن کر آ گئی۔ اس کے ساتھ ایک خورد سال لڑکا تھا۔ دونوں نے مسجد کے قریب ایک درخت کے نیچے گھٹیا سگریٹ، بیڑی، چنے اور گڑ کی بنی ہوئی مٹھائیوں کا خوانچہ لگا دیا۔ بڑھیا کو آئے ابھی دو دن بھی نہ گزرے تھے کہ ایک بوڑھا کسان کہیں سے ایک مٹکا اٹھا لایا اور کنویں کے پاس اینٹوں کا ایک چھو ٹا سا چبوترا بنا پیسے کے دو دو شکر کے شربت کے گلاس بیچنے لگا۔ ایک کنجڑے کو جو خبر ہوئی وہ ایک ٹوکرے میں خربوزے بھر کر لے آ یا اور خوانچہ والی بڑھیا کے پاس بیٹھ کر "لے لو خربوزے، شہد سے میٹھے خربوزے!" کی صدا لگانے لگا۔ ایک شخص نے کیا کیا، گھر سے سری پائے پکا، دیگچی میں رکھ، خوانچہ میں لگا، تھوڑی سی روٹیاں، مٹی کے دو تین پیالے اور ٹین کا ایک گلاس لے آ موجود ہو ا اور اسی بستی کے کارکنوں کو جنگل میں گھر کی ہنڈیا کا مزا چکھانے لگا۔
ظہر اور عصر کے وقت، میر عمارت، منشی، معمار اور دوسرے لوگ مزدوروں سے کنویں سے پانی نکلوا نکلوا کر وضو کرتے نظر آ تے۔ ایک شخص مسجد میں جا کر اذان دیتا، پھر ایک کو امام بنا دیا جاتا اور دوسرے لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھتے۔ کسی گاؤں میں ایک ملا کے کان میں جو یہ بھنک پڑی کہ فلاں مسجد میں امام کی ضرورت ہے وہ دوسرے ہی دن علی الصبح ایک سبز جزدان میں قرآن شریف، پنجسورہ، رحل اور مسئلے مسائل کے چند چھوٹے چھوٹے رسالے رکھ آ موجود ہوا اور اس مسجد کی امامت باقاعدہ طور پر اسے سونپ دی گئی۔
ہر روز تیسرے پہر گاؤں کا ایک کبابی سر پر اپنے سامان کا ٹوکرا اٹھائے آ جاتا اور خوانچہ والی بڑھیا کے پاس زمین پر چولہا بنا، کباب، کلیجی، دل اور گردے سیخوں پر چڑھا، بستی والوں کے ہاتھ بیچتا۔ ایک بھٹیاری نے جو یہ حال دیکھا تو اپنے میاں کو ساتھ لے کر مسجد کے سامنے میدان میں دھوپ سے بچنے کے لئے پھونس کا ایک چھپر ڈال کر تنور گرم کرنے لگی۔ کبھی کبھی ایک نوجوان دیہاتی نائی، پھٹی پرانی کسبت گلے میں ڈالے جوتوں کی ٹھوکروں سے راستہ روڑوں کو لڑھکاتا ادھر ادھر گشت کرتا دیکھنے میں آ جاتا۔
ان بیسواؤں کے مکانوں کی تعمیر کی نگرانی ان کے رشتہ دار یا کارندے تو کرتے ہی تھے، کسی کسی دن وہ دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو کر اپنے عشاق کے ہمراہ خود بھی اپنے اپنے مکانوں کو بنتا دیکھنے آ جاتیں اور غروب آفتاب سے پہلے یہاں سے نہ جاتیں۔ اس موقع پر فقیروں اور فقیرنیوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں نہ جانے کہاں سے آ جاتیں اور جب تک خیرات نہ لے لیتیں اپنی صداؤں سے برابر شور مچاتی رہتیں اور انہیں بات نہ کرنے دیتیں۔ کبھی کبھی شہر کے لفنگے، اوباش و بیکار مباش کچھ کیا کرو، کے مصداق شہر سے پیدل چل کر بیسواؤں کی اس نئی بستی کی سن گن لینے آ جاتے اور اگر اس دن بیسوائیں بھی آئی ہوتیں تو ان کی عید ہو جاتی۔ وہ ان سے دور ہٹ کر ان کے گردا گرد چکر لگاتے رہتے۔ فقرے کستے، بے تکے قہقہے لگاتے۔ عجیب عجیب شکلیں بناتے اور مجنونانہ حرکتیں کرتے۔ اس روز کبابی کی خوب بکری ہوتی۔
اس علاقے میں جہاں تھوڑے ہی دن پہلے ہو کا عالم تھا اب ہر طرف گہما گہمی اور چہل پہل نظر آنے لگی۔ شروع شروع میں اس علاقہ کی ویرانی میں ان بیسواؤں کو یہاں آ کر رہنے کے خیال سے جو وحشت ہوتی تھی، وہ بڑی حد تک جاتی رہی تھی اور اب وہ ہر مرتبہ خوش خوش اپنے مکانوں کی آرائش اور اپنے مرغوب رنگوں کے متعلق معماروں کو تاکیدیں کر جاتی تھیں۔
بستی میں ایک جگہ ایک ٹوٹا پھوٹا مزار تھا جو قرائن سے کسی بزرگ کا معلوم ہوتا تھا۔ جب یہ مکان نصف سے زیادہ تعمیر ہو چکے تو ایک دن بستی کے راج مزدوروں نے کیا دیکھا کہ مزار کے پاس دھواں اٹھ رہا ہے اور ایک سرخ سرخ آنکھوں والا لمبا تڑنگا مست فقیر، لنگوٹ باندھے چار ابرو کا صفایا کرائے اس مزار کے ارد گرد پھر رہا ہے اور کنکر پتھر اٹھا اٹھا کر پرے پھینک رہا ہے۔ دوپہر کو وہ فقیر ایک گھڑا لے کر کنویں پر آیا اور پانی بھر بھر کر مزار پر لے جانے اور اسے دھونے لگا۔ ایک دفعہ جو آیا تو کنویں پر دو تین راج مزدور کھڑے تھے۔ وہ نیم دیوانگی اور نیم فرزانگی کے عالم میں ان سے کہنے لگا۔ "جانتے ہو وہ کس کا مزار ہے؟ کڑک شاہ پیر بادشاہ کا! میرے باپ دادا، ان کے مجاور تھے۔" اس کے بعد اس نے ہنس ہنس کر اور آنکھوں میں آنسو بھر بھر کر پیر کڑک شاہ کی کچھ جلالی کراماتیں بھی ان راج مزدوروں سے بیان کیں۔
شام کو یہ فقیر کہیں سے مانگ تانگ کر مٹی کے دو دئے اور سرسوں کا تیل لے آیا اور پیر کڑک شاہ کی قبر کے سرہانے اور پائنتی چراغ روشن کر دئے۔ رات کو پچھلے پہر کبھی کبھی اس مزار سے اللہ ہو کا مست نعرہ سنائی دے جاتا۔
چھ مہینے گزرنے نہ پائے تھے کہ یہ چودہ مکان بن کر تیار ہو گئے۔ یہ سب کے سب دو منزلہ اور قریب قریب ایک ہی وضع کے تھے۔ سات ایک طرف اور سات دوسری طرف۔ بیچ میں چوڑی چکلی سڑک تھی۔ ہر ایک مکان کے نیچے چار چار دکانیں تھیں۔ مکان کی بالائی منزل میں سڑک کے رخ وسیع برآمدہ تھا۔ اس کے آگے بیٹھنے کے لئے کشتی نما شہ نشین بنائی گئی تھی۔ جس کے دونوں سروں پر یا تو سنگ مرمر کے مور رقص کر تے ہوئے بنائے گئے تھے اور یا جل پریوں کے مجسمے تراشے گئے تھے، جن کا آ دھا دھڑ مچھلی کا اور آدھا انسان کا تھا۔ برآ مدہ کے پیچھے جو بڑا کمرہ بیٹھنے کے لئے تھا۔ اس میں سنگ مر مر کے نازک نازک ستون بنائے گئے تھے۔۔ دیواروں پر خوش نما پچی کاری کی گئی تھی۔ فرش چمکدار پتھر کا بنایا گیا تھا۔ جب سنگ مر مر کے ستونو ں کے عکس اس فرش زمردیں پر پڑتے تو ایسا معلوم ہوتا گویا سفید براق پروں والے راج ہنسوں نے اپنی لمبی لمبی گردنیں جھیل میں ڈبو دی ہیں۔
بدھ کا شبھ دن، اسی بستی میں آنے کے لئے مقرر کیا گیا۔ اس روز اس بستی کی سب بیسواؤں نے مل کر بہت بھاری نیاز دلوائی۔ بستی کے کھلے میدان میں زمین کو صاف کرا کر شامیانے نصب کر دئے گئے۔ دیگیں کھڑکنے کی آواز اور گوشت اور گھی کی خوشبو، بیس بیس کوس سے فقیروں اور کتوں کو کھینچ لائی۔ دوپہر ہوتے ہوتے پیر کڑک شاہ کے مزار کے پاس جہاں لنگر تقسیم کیا جاتا تھا اس قدر فقیر جمع ہو گئے کہ عید کے روز کسی بڑے شہر کی جامع مسجد کے پاس بھی نہ ہوئے ہوں گے۔ پیر کڑک شاہ کے مزار کو خوب صاف کروایا اور دھلوایا گیا اور اس پر پھولوں کی چادر چڑھائی گئی اور اس مست فقیر کو نیا جوڑا سلوا کر پہنایا گیا، جسے اس نے پہنتے ہی پھاڑ ڈالا۔
شام کو شامیانے کے نیچے دودھ سی اجلی چاندنی کا فرش کر دیا گیا۔ گاؤ تکئے، پان دان، پیک دان، پیچواں دانی اور گلاب پاس رکھ لئے گئے اور راگ رنگ کی محفل سجائی گئی۔ دور دور سے بہت سی بیسواؤں کو بلوایا گیا جو ان کی سہیلیاں یا برادری کی تھیں۔ ان کے ساتھ ان کے بہت سے ملنے والے بھی آئے جن کے لئے ایک الگ شامیانے میں کرسیوں کا انتظام کیا گیا اور ان کے سامنے کے رخ چقیں ڈال دی گئیں۔ بے شمار گیسوں کی روشنی سے یہ جگہ بقعۂ نور بنی ہوئی تھی۔ ان بیسواؤں کے توندل سیاہ فام سازندے زربفت اور کمخواب کی شیروانیاں پہنے، عطر میں بسے ہوئے پھوئے کانوں میں رکھے، ادھر ادھر مونچھوں کو تاؤ دیتے پھرتے اور زرق برق لباسوں اور تتلی کے پر سے باریک ساریوں میں ملبوس، غازوں اور خوشبوؤں میں بسی ہوئی نازنین اٹھکیلیوں سے چلتیں۔ رات بھر رقص اور سرور کا ہنگامہ برپا رہا اور جنگل میں منگل ہو گیا۔
دو تین دن کے بعد جب اس جشن کی تھکاوٹ اتر گئی تو یہ بیسوائیں ساز و سامان کی فراہمی اور مکانوں کی آرائش میں مصروف ہو گئیں۔ جھاڑ، فانوس، ظروفِ بلّوری، قد آدم آئینے، نواڑی پلنگ، تصویریں اور قطعاتِ سنہری، چوکٹھوں میں جڑے ہوئے لائے گئے اور قرینے سے کمروں میں لگائے گئے اور کوئی آٹھ روز میں جا کر یہ مکان کیل کانٹے سے لیس ہوئے۔ یہ عورتیں دن کا بیشتر حصہ تو استادوں سے رقص و سرود کی تعلیم لینے، غزلیں یاد کرنے، دھنیں بٹھانے، سبق پڑھنے، تختی لکھنے، سینے پرونے، کاڑھنے، گراموفون سننے، استادوں سے تاش اور کیرم کھیلنے، ضلع جگت، نوک جھونک سے جی بہلانے یا سونے میں گزارتیں اور تیسرے پہر غسل خانوں میں نہانے جاتیں، جہاں ان کے ملازموں نے دستی پمپوں سے پانی نکال نکال کر ٹب بھر رکھے ہوتے۔ اس کے بعد وہ بناؤ سنگھار میں مصروف ہو جاتیں۔
جیسے ہی رات کا اندھیرا پھیلتا، یہ مکان گیسوں کی روشنی سے جگمگا اٹھتے جو جا بجا سنگ مر مر کے آدھے کھلے ہوئے کنولوں میں نہایت صفائی سے چھپائی گئے تھے اور ان مکانوں کی کھڑکیوں اور دروازوں کے کواڑوں کے شیشے جو پھول پتیوں کی وضع کے کاٹ کر جڑے گئے تھے ان کی قوسِ قزح کے رنگوں کی سی روشنیاں دور سے جھلمل جھلمل کرتی ہوئی نہایت بھلی معلوم ہوتیں۔ یہ بیسوائیں، بناؤ سنگار کئے برآمدوں میں ٹہلتی، آس پاس والیوں سے باتیں کرتیں، ہنستیں کھکھلاتیں۔ جب کھڑے کھڑے تھک جاتیں تو اندر کمرے میں چاندنی کے فرش پر گاؤ تکیوں سے لگ کر بیٹھ جاتیں۔ ان کے سازندے ساز ملاتے رہتے اور یہ چھالیہ کترتی رہتیں۔ جب رات ذرا بھیگ جاتی تو ان کے ملنے والے ٹوکروں میں شراب کی بوتلیں اور پھل پھلاری لئے اپنے دوستوں کے ساتھ موٹروں یا تانگوں میں بیٹھ کر آتے۔ اس بستی میں جن کے قدم رکھتے ہی ایک خاص گہما گہمی اور چہل پہل ہونے لگتی۔ نغمہ و سرود، ساز کے سر، رقص کرتی ہوئی نازنینوں کے گھنگھروؤں کی آواز، قلقلِ مینا میں مل کر ایک عجیب سرور کی سی کیفیت پیدا کر دیتی۔ عیش و مستی کے ان ہنگاموں میں معلوم بھی نہ ہوتا اور رات بیت جاتی۔
ان بیسواؤں کو اس بستی میں آئے ہوئے چند روز ہی ہوئے تھے کہ دکانوں کے کرایہ دار پیدا ہو گئے۔ جن کا کرایہ اس بستی کو آباد کرنے کے خیال سے بہت ہی کم رکھا گیا تھا۔ سب سے پہلے جو دکان دار آیا وہ وہی بڑھیا تھی جس نے سب سے پہلے مسجد کے سامنے درخت کے نیچے خوانچہ لگایا تھا۔ دکان کو پر کرنے کے لئے بڑھیا اور اس کا لڑکا سگریٹوں کے بہت سے ڈبے اٹھا لائے اور اسے منبر کے طاقوں میں سجا کر رکھ دیا گیا۔ بوتلوں میں رنگ دار پانی بھر دیا گیا تاکہ معلوم ہو کہ شربت کی بوتلیں ہیں۔
بڑھیا نے اپنے بساط کے مطابق کاغذی پھولوں اور سگریٹ کی ڈبیوں سے بنائی ہوئی بیلوں سے دکان کی کچھ آرائش بھی کی، بعض ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی تصویریں بھی پرانے رسالوں سے نکال کر لئی سے دیواروں پر چپکا دیں۔ دکان کا اصل مال دو تین قسم کے سگریٹ کے تین تین چار چار پیکٹوں، بیڑی کے آٹھ دس بنڈلوں یا دیا سلائی کی نصف درجن ڈبیوں، پانی کی ڈھولی، پینے کے تمباکو کی تین چار ٹکیوں اور موم بتی کے نصف بنڈل سے زیادہ نہ تھا۔
دوسری دکان میں ایک بنیا، تیسری میں حلوائی اور شیر فروش، چوتھی میں قصائی، پانچویں میں کبابی اور چھٹی میں ایک کنجڑا آ بسے۔ کنجڑا آس پاس کے دیہات سے سستے داموں چار پانچ قسم کی سبزیاں لے آتا اور یہاں خاصے منافع پر بیچ دیتا۔ ایک آدھ ٹوکرا پھلوں کا بھی رکھ لیتا چونکہ دکان خاصی کھلی تھی۔ ایک پھول والا اس کا ساجھی بن گیا۔ وہ دن بھر پھولوں کے ہار، گجرے اور طرح طرح کے گہنے بناتا رہتا اور شام کو انہیں چنگیر میں ڈال کر ایک ایک مکان پر لے جاتا اور نہ صرف پھول ہی بیچ آتا بلکہ ہر جگہ ایک ایک دو دو گھڑی بیٹھ، سازندوں سے گپ شپ بھی ہانک لیتا اور حقے کے دم بھی لگا آتا۔ جس دن تماش بینوں کی کوئی ٹولی اس کی موجودگی میں ہی کوٹھے پر چڑھ آتی اور گانا بجانا شروع ہو جاتا تو وہ سازندوں کے ناک بھوں چڑھانے کے باوجود گھنٹوں اٹھنے کا نام نہ لیتا، مزے مزے سے گانے پر سر دھنتا اور بیوقوفوں کی طرح ایک ایک کی صورت تکتا رہتا۔ جس دن رات زیادہ گزر جاتی اور کوئی ہار بچ جاتا تو اسے اپنے گلے میں ڈال لیتا اور بستی کے باہر گلا پھاڑ پھاڑ کر گاتا پھرتا۔
ایک دن ایک بیسوا کا باپ اور بھائی جو درزیوں کا کام جانتے تھے، سینے کی ایک مشین رکھ کر بیٹھ گئے۔ ہوتے ہوتے ایک حجام بھی آگیا اور اپنے ساتھ ایک رنگریز کو بھی لیتا آیا۔ اس کی دکان کے باہر الگنی پر لٹکتے ہوئے طرح طرح کے رنگوں کے دوپٹے ہوا میں لہراتے ہوئے آنکھوں کو بھلے معلوم ہونے لگے۔
چند ہی روز گزرے تھے کہ ایک ٹٹ پونجئے بساطی نے جس کی دکان شہر میں چلتی نہ تھی، بلکہ اسے دکان کا کرایہ نکالنا بھی مشکل ہو جاتا تھا شہر کو خیر باد کہہ کر اس بستی کا رخ کیا۔ یہاں پر اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اس کے طرح طرح کے لونڈر، قسم قسم کے پاؤڈر، صابن، کنگھیاں، بٹن، سوئی، دھاگا، لیس، فیتے، خوشبودار تیل، رومال، منجن وغیرہ کی خوب بکری ہونے لگی۔
اس بستی کے رہنے والوں کی سرپرستی اور ان کے مربیانہ سلوک کی وجہ سے اسی طرح دوسرے تیسرے روز کوئی نہ کوئی ٹٹ پونجیا دکاندار کوئی بزاز، کوئی پنساری، کوئی نیچہ بند، کوئی نانبائی مندے کی وجہ سے یا شہر کے بڑھتے ہوئے کرائے سے گھبرا کر اس بستی میں آ پناہ لیتا۔
یک بڑے میاں عطار جو حکمت میں بھی کسی قدر دخل رکھتے تھے، ان کا جی شہر کی گنجان آبادی اور حکیموں اور دوا خانوں کی افراط سے جو گھبرایا تو وہ اپنے شاگردوں کو ساتھ لے کر شہر سے اٹھ آئے اور اس بستی میں ایک دکان کرایہ پر لے لی۔ سارا دن بڑے میاں اور ان کے شاگرد دواؤں کے ڈبوں، شربت کی بوتلوں اور مربے، چٹنی، اچار کے بویاموں کو الماریوں اور طاقوں میں اپنے اپنے ٹھکانے پر رکھتے رہے۔ ایک طاق میں طبِ اکبر، قرابادین قادری اور دوسری طبی کتابیں جما کر رکھ دیں۔ کواڑوں کی اندرونی جانب اور دیواروں کے ساتھ جو جگہ خالی بچی وہاں انہوں نے اپنے خاص الخاص مجربات کے اشتہارات سیاہ روشنائی سے جلی لکھ کر اور دفتیوں پر چپکا کر آویزاں کر دئے۔ ہر روز صبح کو بیسواؤں کے ملازم گلاس لے لے کر آ موجود ہوتے اور شربتِ بزوری، شربتِ بنفشہ، شربتِ انار اور ایسے ہی اور نزہت بخش، روح افزا شربت و عرق، خمیرہ گاؤ زبان اور تقویت پہنچانے والے مربے مع ورق ہائے نقرہ لے جاتے۔
جو دکانیں بچ رہیں، ان میں بیسواؤں کے بھائی بندوں اور سازندوں نے اپنی چارپائیاں ڈال دیں۔ دن بھر یہ لوگ ان دکانوں میں تاش چوسر اور شطرنج کھیلتے، بدن پر تیل ملواتے، سبزی گھوٹتے، بٹیروں کی پالیاں کراتے، تیتروں سے "سبحان تیری قدرت" کی رٹ لگواتے اور گھڑا بجا بجا کر گاتے۔
ایک بیسوا کے سازندے نے ایک دکان خالی دیکھ کر اپنے بھائی کو جو ساز بنانا جانتا تھا اس میں لا بٹھایا۔ دکان کی دیواروں کے ساتھ ساتھ کیلیں ٹھونک کر ٹوٹی پھوٹی مرمت طلب سارنگیاں، ستار، طنبورے، دلربا وغیرہ ٹانگ دئے گئے۔ یہ شخص ستار بجانے میں بھی کمال رکھتا تھا۔ شام وہ اپنی دکان میں ستار بجاتا، جس کی میٹھی آواز سن کر آس پاس کے دکان دار اپنی دکانوں سے اٹھ اٹھ کر آ جاتے اور دیر تک بت بنے ستار سنتے رہتے۔ اس ستار نواز کا ایک شاگرد تھا جو ریلوے کے دفتر میں کلرک تھا۔ اسے ستار سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ جیسے ہی دفتر سے چھٹی ہوئی، سیدھا سائیکل اڑاتا ہوا اس بستی کا رخ کرتا اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ دکان ہی میں بیٹھ کر مشق کیا کرتا، غرض اس ستار نواز کے دم سے بستی میں خاصی رونق رہنے لگی۔
مسجد کے ملّا جی، جب تک تو یہ بستی زیر تعمیر رہی رات کو دیہات اپنے گھر چلے جاتے رہے۔ مگر اب جب کہ انہیں دونوں وقت مرغن کھانا بافراط پہنچنے لگا تو وہ رات کو بھی یہیں رہنے لگے۔ رفتہ رفتہ بعض بیسواؤں کے گھروں سے بچے بھی مسجد میں پڑھنے آنے لگے، جس سے ملا جی کو روپے پیسے کی آمدنی بھی ہو نے لگی۔
ایک شہر شہر گھومنے والی گھٹیا درجہ کی تھیٹریکل کمپنی کو جب زمین کے چڑھتے ہوئے کرایہ اور اپنی بے مائیگی کے باعث شہرمیں کہیں جگہ نہ ملی تو اس نے اس بستی کا رخ کیا اور ان بیسواؤں کے مکانوں سے کچھ فاصلہ پر میدان میں تنبو کھڑے کر کے ڈیرے ڈال دئے۔ اس کے ایکٹر ایکٹری کے فن سے محض نا بلد تھے۔ ان کے ڈریس پھٹے پرانے تھے جن کے بہت سے ستارے جھڑ چکے تھے اور یہ لوگ تماشہ بھی بہت دقیانوسی دکھاتے تھے مگر اس کے باوجود یہ کمپنی چل نکلی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ٹکٹ کے دام بہت کم تھے۔ شہر کے مزدور پیشہ لوگ، کارخانوں میں کام کرنے والے اور غریب غربا جو دن بھر کی کڑی محنت مشقت کی کسر شور و غل، خر مستیوں اور ادنیٰ عیاشیوں سے نکالنا چاہتے تھے، پانچ پانچ چھ چھ کی ٹولیاں بنا کر، گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے، ہنستے بولتے، بانسری اور الغوزے بجاتے، راہ چلتوں پر آوازے کستے، گالی گلوچ بکتے، شہر سے پیدل چل کر تھیٹر دیکھنے آتے اور لگے ہاتھوں بازارِ حسن کی سیر بھی کر جاتے۔ جب تک ناٹک شروع نہ ہوتا تھیٹر کا ایک مسخرہ تنبو کے باہر ایک سٹول پر کھڑا کبھی کولہو ہلاتا، کبھی منہ پھلاتا، کبھی آنکھیں مٹکاتا، عجیب عجیب حیا سوز حرکتیں کرتا جنہیں دیکھ کر یہ لوگ زور زور سے قہقہے لگاتے اور گالیوں کی صورت داد دیتے۔
رفتہ رفتہ دوسرے لوگ بھی اس بستی میں آنے شروع ہوئے۔ چنانچہ شہر کے بڑے بڑے چوکوں میں تانگے والے صدائیں لگانے لگے "آؤ، کوئی نئی بستی کو " شہر سے پانچ کوس تک جو پکی سڑک جاتی تھی اس پر پہنچ کر تانگے والے سواریوں سے انعام حاصل کرنے کے لالچ میں یا ان کی فرمائش پر تانگوں کی دوڑیں کراتے۔ منہ سے ہارن بجاتے اور جب کوئی تانگہ آگے نکل جاتا تو اس کی سواریاں نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیتیں۔ اس دوڑ میں غریب گھوڑوں کا برا حال ہو جاتا اور ان کے گلے میں پڑے ہوئے پھولوں کے ہاروں سے بجائے خوشبو کے پسینے کی بدبو آنے لگتی۔ رکشا والے، تانگے والوں سے کیوں پیچھے رہتے۔ وہ ان سے کم دام پر سواریاں بٹھا، طرارے بھرتے اور گھنگھرو بجاتے اس بستی کو جانے لگے۔ علاوہ ازیں ہر ہفتے کی شام کو اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ ایک ایک سائیکل پر دو دو لدے، جوق در جوق اس پُر اسرار بازار کی سیر دیکھنے آتے، جس سے ان کے خیال کے مطابق ان کے بڑوں نے خواہ مخواہ محروم کر دیا تھا۔
رفتہ رفتہ اس بستی کی شہرت چاروں طرف پھیلنے اور مکانوں اور دکانوں کی مانگ ہونے لگی۔ وہ بیسوائیں جو پہلے اس بستی میں آنے پر تیار نہ ہوتی تھیں اب اس کی دن دگنی رات چوگنی ترقی دیکھ کر اپنی بیوقوفی پر افسوس کرنے لگیں۔ کئی عورتوں نے تو جھٹ زمینیں خرید۔ ان بیسواؤں کے ساتھ اسی وضع قطع کے مکان بنوانے شروع کر دئے۔ علاوہ ازیں شہر کے بعض مہاجنوں نے بھی اس بستی کے آس پاس سستے داموں زمینیں خرید خرید کر کرایہ پر اٹھانے کے لئے چھوٹے چھوٹے کئی مکان بنوا ڈالے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ فاحشہ عورتیں جو ہوٹلوں اور شریف محلوں میں روپوش تھیں، مور و ملخ کی طرح اپنے نہال خانوں سے باہر نکل آئیں اور ان مکانوں میں آباد ہو گئیں۔ بعض چھوٹے چھوٹے مکانوں میں اس بستی کے وہ دکان دار آ بسے جو عیال دار تھے اور رات کو دکانوں میں سو نہ سکتے تھے۔
اس بستی میں آبادی تو خاصی ہو گئی تھی مگر ابھی تک بجلی کی روشنی کا انتظام نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ ان بیسواؤں اور بستی کے تمام رہنے والوں کی طرف سے سرکار کے پاس بجلی کے لئے درخواست بھیجی گئی، جو تھوڑے دنوں بعد منظور کر لی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ایک ڈاکخانہ بھی کھول دیا گیا۔ ایک بڑے میاں ڈاکخانہ کے باہر ایک صندوقچے میں لفافے، کارڈ اور قلم دوات رکھ، بستی کے لوگوں کے خط پتر لکھنے لگے۔
ایک دفعہ بستی میں شرابیوں کی دو ٹولیوں کا فساد ہو گیا جس میں سوڈا واٹر کی بوتلوں، چاقوؤں اور اینٹوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا اور کئی لوگ سخت مجروح ہوئے۔ اس پر سرکار کو خیال آیا کہ اس بستی میں ایک تھانہ بھی کھول دینا چاہئے۔
تھیٹریکل کمپنی دو مہینے تک رہی اور اپنی بساط کے مطابق خاصا کما لے گئی۔ اس شہر کے ایک سینما مالک نے سوچا کیوں نہ اس بستی میں بھی ایک سینما کھول دیا جائے۔ یہ خیال آنے کی دیر تھی کہ اس نے جھٹ ایک موقع کی جگہ چن کر خرید لی اور جلد جلد تعمیر کا کام شروع کرا دیا۔ چند ہی مہینوں میں سینما ہال تیار ہو گیا۔ اس کے اندر ایک چھوٹا سا باغیچہ بھی لگوایا گیا تاکہ تماشائی اگر بائیسکوپ شروع ہونے سے پہلے آ جائیں تو آرام سے باغیچہ میں بیٹھ سکیں۔ ان کے ساتھ لوگ یونہی سستانے یا سیر دیکھنے کی غرض سے آ کر آ کر بیٹھنے لگے۔ یہ باغیچہ خاصی سیر گاہ بن گیا۔ رفتہ رفتہ سقے کٹورا بجاتے اس باغیچے میں آنے اور پیاسوں کی پیاس بجھانے لگے۔ سر کی تیل مالش والے نہایت گھٹیا قسم کے تیز خوشبو والے تیل کی شیشیاں واسکٹ کی جیبوں میں ٹھونسے، کاندھے پر میلا کچیلا تولیہ ڈالے، دل پسند، دل بہار مالش کی صدا لگاتے دردِ سر کے مریضوں کو اپنی خدمات پیش کرنے لگے۔
سینما کے مالک نے سینما ہال کی بیرونی جانب دو ایک مکان اور کئی دکانیں بھی بنوائیں۔ مکان میں تو ہوٹل کھل گیا جس میں رات کو قیام کرنے کے لئے کمرے بھی مل سکتے تھے اور دکانوں میں ایک سوڈا واٹر کی فیکٹری والا، ایک فوٹو گرافر، ایک سائیکل کی مرمت والا، ایک لانڈری والا، دو پنواڑی، ایک بوٹ شاپ والا اور ایک ڈاکٹر مع اپنے دوا خانہ کے آ رہے۔ ہوتے ہوتے پاس ہی ایک دکان میں کلال خانہ کھلنے کی اجازت مل گئی۔ فوٹوگرافر کی دکان کے باہر ایک کونے میں ایک گھڑی ساز نے آ ڈیرا جمایا اور ہر وقت محدب شیشہ آنکھوں پر چڑھائے گھڑیوں کے کل پرزوں میں غلطاں و پیچاں رہنے لگا۔
اس کے کچھ ہی دن بعد بستی میں نل، روشنی اور صفائی کے باقاعدہ انتظام کی طرف توجہ کی جانے لگی۔ سرکاری کارندے سرخ جھنڈیاں، جریبیں اور اونچ نیچ دیکھنے والے آلے لے کر آ پہنچے اور ناپ ناپ کر سڑکوں اور گلی کوچوں کی داغ بیل ڈالنے لگے اور بستی کی کچی سڑکوں پر سڑک کوٹنے والا انجن چلنے لگا۔
اس واقعہ کو بیس برس گزر چلے ہیں۔ یہ بستی اب ایک بھرا پرا شہر بن گئی ہے جس کا اپنا ریلوے سٹیشن بھی ہے اور ٹاؤن ہال بھی، کچہری بھی اور جیل خانہ بھی، آبادی ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ شہر میں ایک کالج، دو ہائی سکول، ایک لڑکوں کے لئے، ایک لڑکیوں کے لئے اور آٹھ پرائمری سکول ہیں جن میں میونسپلٹی کی طرف سے مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ چھ سینما ہیں اور چار بنک جن میں سے دو دنیا کے بڑے بڑے بنکوں کی شاخیں ہیں۔
شہر سے دو روزانہ، تین ہفتہ وار اور دس ماہانہ رسائل و جرائد شائع ہوتے ہیں۔ ان میں چار ادبی، دو اخلاقی و معاشرتی و مذہبی، ایک صنعتی، ایک طبی، ایک زنانہ اور ایک بچوں کا رسالہ ہے۔ شہر کے مختلف حصوں میں بیس مسجدیں، پندرہ مندر اور دھرم شالے، چھ یتیم خانے، پانچ اناتھ آشرم اور تین بڑے سرکاری ہسپتال ہیں جن میں سے ایک صرف عورتوں کے لئے مخصوص ہے۔
شروع شروع میں کئی سال تک یہ شہر اپنے رہنے والوں کے نام کی مناسبت سے "حُسن آباد" کے نام سے موسوم کیا جاتا رہا مگر بعد میں اسے نامناسب سمجھ کر اس میں تھوڑی سی ترمیم کر دی گئی۔ یعنی بجائے "حُسن آباد" کے "حَسن آباد" کہلانے لگا۔ مگر یہ نام چل نہ سکا کیونکہ عوام حُسن اور حسن میں امتیاز نہ کرتے۔ آخر بڑی بڑی بوسیدہ کتابوں کی ورق گردانی اور پرانے نوشتوں کی چھان بین کے بعد اس کا اصلی نام دریافت کیا گیا جس سے یہ بستی آج سے سینکڑوں برس قبل اجڑنے سے پہلے موسوم تھی اور وہ نام ہے "آنندی۔"
یوں تو سارا شہر بھرا پرا، صاف ستھرا اور خوش نما ہے مگر سب سے خوبصورت، سب سے با رونق اور تجارت کا مرکز وہی بازار ہے جس میں زنانِ بازاری رہتی ہیں۔
آنندی بلدیہ کا اجلاس زوروں پر ہے، ہال کھچا کھچ بھرا ہوا ہے اور خلافِ معمول ایک ممبر بھی غیر حاضر نہیں۔ بلدیہ کے زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ زنانِ بازاری کو شہر بدر کر دیا جائے کیونکہ ان کا وجود انسانیت، شرافت اور تہذیب کے دامن پر بد نما داغ ہے۔
ایک فصیح البیان مقرر تقریر کر رہے ہیں۔ "معلوم نہیں وہ کیا مصلحت تھی جس کے زیرِ اثر اس ناپاک طبقے کو ہماری اس قدیمی اور تاریخی شہر کے عین بیچوں بیچ رہنے کی اجازت دی گئی" اس مرتبہ ان عورتوں کے لئے جو علاقہ منتخب کیا گیا وہ شہر سے بارہ کوس دور تھا۔
1940ء

0 comments:

Post a Comment