Saturday, January 31, 2015

سراج اورنگ آبادی

گلشنِ عالم میں آسائش نہیں
یہاں گلِ عشرت کی پیدائش نہیں


صاف دل کوں ہے نمد پوشی سیں کام
آرسی کوں ذوقِ آرائش نہیں

کیوں نہ تجھ قد کوں کہوں سرو سہی
راست ہے کچھ اس میں بالائش نہیں

رحم کر تقصیر میری کر معاف
کیا گنہہ گاروں کو بخشایش نہیں

دل میں رہتا ہے خیال اُس یار کا
غیر کوں اِس گھر میں گنجائش نہیں


کون سا دم ہے کہ جاناں بن سراج
شوق کے شعلوں کوں افزائش نہیں

منظر بھوپالی

ان کو آنسو بھی جو مل جائیں تو مسکاتی ہیں
بٹیاں تو بڑی معصوم ہیں جذباتی ہیں


اپنی خدمت سے اُتر جاتی ہیں دل میں سب کے
ہر نئی نسل کو تہذیب یہ سکھلاتی ہیں

ان سے قائم ہے تقدس بھی ہمارے گھر کا
صبح کو اپنی نمازوں سے یہ مہکاتی ہیں

لوگ بیٹوں سے ہی رکھتے ہیں توقع لیکن
بٹیاں اپنی برے وقت میں کام آتی ہیں

بٹیاں ہوتی ہیں پُرنور چراغوں کی طرح
روشنی کرتی ہیں جس گھر میں چلی جاتی ہیں

اپنی سسرال کا ہر زخم چھپا لیتی ہیں
سامنے ماں کے جب آتی ہیں تو مسکاتی ہیں

بٹیوں کی ہے زمانے میں انوکھی خوشبو
یہ وہ کلیاں ہیں جو صحرا کو بھی مہکاتی ہیں

ایک بیٹی ہو تو کھل اُٹھتا ہے گھر کا آنگن 
گھر وہی ہوتا ہے پر رونقیں بڑھ جاتی ہیں

فاطمہ زہرا کی تعظیم کو اُٹھتے تھے رسول
محترم بٹیاں اس واسطے کہلاتی ہیں


اپنے بابا کے کلیجے سے لپٹ کر منظر
زندگی جینے کا احساس دلا جاتی ہیں

رحمان فارس


اِدھر اُدھر کہیں کوئی نشاں تو ھوگا ھی

یہ رازِ بوسۂ لب ھے، عیاں تو ھوگا ھی !!




تمام شہر جو دھندلا گیا تو حیرت کیوں ؟؟؟
دِلوں میں آگ لگی ھے ، دھواں تو ھوگا ھی
بروزِ حشر مِلے گا ضرور صبر کا پھل
یہاں تُو ھو نہ ھو میرا ، وھاں تو ھوگا ھی
یہ بات نفع پرستوں کو کون سمجھائے ؟؟
کہ کاروبارِ جنُوں میں زیاں تو ھو گا ھی
ھم اس اُمید پہ نکلے ھیں جھیل کی جانب
کہ چاند ھو نہ ھو ، آبِ رواں تو ھوگا ھی
مَیں کُڑھتا رھتا ھوں یہ سوچ کر کہ تیرے پاس
فُلاں بھی بیٹھا ھو شاید ، فُلاں تو ھوگا ھی !
یہ بات مدرسۂ دل میں کھینچ لائی مجھے
کہ درس ھو کہ نہ ھو ، امتحاں تو ھو گا ھی
مگر وہ پھول کے مانند ھلکی پُھلکی ھے !!!
سو اُس پہ عشق کا پتھر گراں تو ھو گا ھی
غزل کے روپ میں چمکے کہ آنکھ سے چھلکے
یہ اندرونے کا دکھ ھے ، بیاں تو ھوگا ھی




بڑی اُمیدیں لگا بیٹھے تھے سو اب فارس !
ملالِ بے رخئ دوستاں تو ھو گا ھی


کیفیؔ اعظمی


تُم اِتنا جو مُسکرا رہے ہو
کيا غم ہے جِس کو چُھپا رہے ہو

آنکھوں ميں نمی، ہنسی لبوں پر
کيا حال ہے، کيا دِکھا رہے ہو
بن جائيں گے زہر پيتے پيتے
يہ اشک جو پيتے جا رہے ہو
جِن زخموں کو وقت بھر چلا ہے
تم کيوں انہیں چھيڑے جا رہے ہو

ريکھاؤں کا کھيل ہے مقدّر
ريکھاؤں سے مات کھا رہے ہو

انور جاوید ہاشمی

غروروتمکنت وشوق میں، جو تن کے گئے
دریدہ رُوح ہوئی، اور لباس تن کے گئے


عجیب طور سے ہم مبتلائے عشق ہوئے
گلی میں یار کی، ا کثر فقیر بن کے گئے

نہ مانی دل نےکوئی بات، لاکھ سمجھایا
کہ وہ زمانے میاں قیس وکوہکن کے گئے

رہے کہاں، وہ پرانے عزیز دوست سبھی
جو ہمکلام ہمارے تھے انجمن کے، گئے


بجزمذاق، کوئی ماحصل نہ دیکھو گے
قرینے ہاتھ سے گر، ہاشمی سخن کے گئے

اکبرالٰہ آبادی

اے بُتو بہرِخُدا درپئے آزار نہ ہو
خیرراحت نہ سہی، زیست تو دشوار نہ ہ


یا رب ایسا کوئی بت خانہ عطا کر جس میں
ایسی گزرے کہ تصوّر بھی گنہگار نہ ہو

مُعترِض ہو نہ مِری عُزلت و خاموشی پر
کیا کروں جبکہ کوئی محرمِ اسرار نہ ہو

کیا وہ مستی، کہ دَمِ چند میں تکلیف شُمار
مست وہ ہے کہ قیامت میں بھی ہشیار نہ ہو

جان فرقت میں نہ نکلے تومجھے کیوں ہوعزیز
دوست وہ کیا جو مُصیبت میں مددگار نہ ہو

ناز کہتا ہے کہ زیور سے ہو تزئینِ جمال
نازکی کہتی ہے سُرمہ بھی کہیں بار نہ ہو

دل وہ ہے جس کو ہو سودائے جمالِ معنی
آنکھ وہ ہے کہ جو صُورت کی خریدار نہ ہو

دلِ پُر داغ کو ارماں، کہ گلے اُن کے لگے
اُن کو یہ ڈر، کہ گلے کا یہ کہِیں ہار نہ ہو

عاشقِ چشم سیہ مست تو زنہار نہ ہو
دیکھ اُس جان کی گاہک کا خریدار نہ ہو

ہرغُبارِ رہِ اُلفت ہے مِرا سُرمۂ چشم
دل یہ کہتا ہے کہ یہ خاکِ درِ یار نہ ہو

لن ترانی کی خبر عشق نے سُن رکھّی ہے
پھربھی مشکل ہے کہ وہ طالبِ دیدار نہ ہو

تم کوسودائے ستم کیوں ہے جو ہے شوقِ فُروغ
کیا تلَطُّف سببِ گرمئیِ بازار نہ ہو


قیمتِ دل تو گھٹانے کا نہیں میں اکبر
بے بصیرت نہیں ہوتا جوخریدار نہ ہو


پیر نصیرالدین شاہ نصیر

کبھی اُن کا نام لینا کبھی اُن کی بات کرنا
مِرا ذوق اُن کی چاہت مِرا شوق اُن پہ مرنا


وہ کسی کی جھیل آنکھیں وہ مِری جُنوں مِزاجی
کبھی ڈُوبنا اُبھر کر کبھی ڈُوب کر اُبھرنا

تِرے منچلوں کا جگ میں یہ عجب چلن رہا ہے
نہ کِسی کی بات سُننا نہ کِسی سے بات کرنا

شبِ غم نہ پُوچھ کیسے تِرے مُبتلا پہ گُزری
کبھی آہ بھر کے گِرنا کبھی گِر کے آہ بھرنا

وہ تِری گلی کے تیور، وہ نظر نظر پہ پہرے
وہ مِرا کِسی بہانے تُجھے دیکھتے گُزرنا

کہاں میرے دِل کی حسرت، کہاں میری نارسائی
کہاں تیرے گیسوؤں کا تِرے دوش پر بِکھرنا

چلے لاکھ چال دُنیا ہو زمانہ لاکھ دُشمن
جو تِری پناہ میں ہو اُسے کیا کِسی سے ڈرنا


وہ کریں گے ناخُدائی تو لگے گی پار کشتی
ہے نصیر ورنہ مُشکل تِرا پار یوں اُترنا

مفتی تقی عثمانی

محبت کیا ہے دل کا درد سے معمورہوجانا
متاعِ جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہوجانا


قدم حیراں ہیں اُلفت میں تو منزل کی ہوس کیسی
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چُور ہوجانا

یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یاروں
کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہوجانا

بَسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجا ہے
پہاڑوں کو توبس آتا ہے جل کر طور ہوجانا


نظر سے دور رہ کر بھی تقی وہ پاس ہیں میرے
کے میری عاشقی کو عیب ہے مہجور ہوجانا.....

پروازؔ جالندھری

جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاؤں میں چھالے ہوں گے
ہاں وہی لوگ تمہیں ڈھونڈنے والے ہوں گے


مے برستی ہے، فضاؤں پہ نشہ طاری ہے
میرے ساقی نے کہیں جام اچھالے ہوں گے

شمع وہ لائے ہیں ہم جلوہ گہِ جاناں سے
اب دو عالم میں اجالے ہی اجالے ہوں گے

جن کے دل پاتے ہیں آسائشِ ساحل سے سکوں
اِک نہ اک روز طلاطم کے حوالے ہوں گے

ہم بڑے ناز سے آئے تھے تیری محفل میں
کیا خبر تھی لبِ اظہار پہ تالے ہوں گے


اُن سے مفہومِ غمِ زیست ادا ہو شاید
اشک جو دامنِ مژگاں نے سنبھالے ہوں گے


پروازؔ جالندھری

راحت اندوری

اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے


لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے

ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے

جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے


سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

مظفر وارثی

کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے ، وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے ، نظر بھی جو آرہا ہے وہی خدا ہے


تلاش اُس کو نہ کر بتوں میں ، وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے ، وہی خدا ہے

وہی ہے مشرق وہی ہے مغرب ، سفر کریں سب اُسی کی جانب
ہر آئینے میں جو عکس اپنا دکھا رہا ہے ، وہی خدا ہے

کسی کو سوچوں نے کب سراہا ، وہی ہوا جو خدا نے چاہا
جو اختیارِ بشر پہ پہرے بٹھا رہا ہے ، وہی خدا ہے

نظر بھی رکھے ،سماعتیں بھی ، وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی
جو خانہء لاشعور میں جگمگا رہا ہے ، وہی خدا ہے

کسی کو تاجِ وقار بخشے ، کسی کو ذلت کے غار بخشے
جو سب کے ماتھے پہ مہرِ قدرت لگا رہا ہے ، وہی خدا ہے


سفید اُس کا سیاہ اُس کا ، نفس نفس ہے گواہ اُس کا
جو شعلہء جاں جلا رہا ہے ، بُجھا رہا ہے ، وہی خدا ہے

Friday, January 30, 2015

وصی شاہ



ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﮭﯽ ﺣﺎﻝ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺍَﺷﮏ ﺭﻭﮐﻨﺎ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺤﺎﻝ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ
ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﻟﺐ ﭘﮧ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﻭﻓﺎ ﮐﮯ ﺍﻓﺴﺎﻧﮯ
ﺗﺮﮮ ﺳﺘﻢ ﮐﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﻻﺯﻭﺍﻝ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ
ﺑﺠﺎ ﮐﮯ ﺧﺎﺭ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﮩﺎﺭ ﮐﯽ ﺭُﺕ ﻣﯿﮟ
ﯾﮧ ﻃﮯ ﮨﮯ ﺍَﺏ ﮐﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﺎﻝ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺧﺒﺮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻢ ﺗﻮ ﻟﻮﭦ ﺟﺎﺋﻮ ﮔﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮨﺠﺮ ﻣﯿﮟ ﻟﻤﺤﮧ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﻝ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺭُﻭﺡ ﭘﮧ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻋﺬﺍﺏ ﺍُﺗﺮﯾﮟ ﮔﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﯾﺎﺩ ﮐﻮ ﺍِﺱ ﺩِﻝ ﮐﯽ ﮈﮬﺎﻝ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻮ ﺭﻭﺋﮯ ﮔﺎ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﻧﮩﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﮨﻨﺴﯽ ﮐﻮ ﺯﻭﺍﻝ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ
ﻣﻠﯿﮟ ﮔﯽ ﮨﻢ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺼﯿﺐ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ
ﺑﺲ ﺍِﻧﺘﻈﺎﺭ ﮨﮯ ﮐﺐ ﯾﮧ ﮐﻤﺎﻝ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ
ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﭼﻠﮯ ﮔﺎ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﭘﺮ
ﻣﺤﺒﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﮟ ﻭﮦ ﻣﺜﺎﻝ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ
ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺧﻢ ﻭ ﭘﯿﭻ ﻣﯿﮟ ﺍُﻟﺠﮫ ﺟﺎﺋﮯ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺫﺍﺕ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﺳﻮﺍﻝ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ
ﻭﺻﯽؔ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﮯ ﻣُﺠﮫ ﮐﻮ ﻭﮦ ﻟﻮﭦ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ
ﺍُﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﯿﮯ ﮐﺎ ﻣﻼﻝ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ

افتخار عارف


سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں
جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں

ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے
ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں

سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مدد کیلئے پکارا نہیں

جو ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سرِ بازار
جو کہہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارا نہیں

ہم اہلِ دل ہیں محبت کی نسبتوں کے امیں
ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارہ نہیں

افتخار عارف

آسمانوں پر نظر کر انجم و مہتاب دیکھ
صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ


ہم بھی سوچیں گے دعائے بے اثر کے باب میں
اِک نظر تو بھی تضادِ منبر و محراب دیکھ

دوش پر ترکش پڑا رہنے دے، پہلے دل سنبھال
دل سنبھل جائے تو سوئے سینہٴ احباب دیکھ

موجہٴ سرکش کناروں سے چھلک جائے تو پھر
کیسی کیسی بستیاں آتی ہیں زیرِ آب دیکھ


بوند میں سارا سمندر آنکھ میں کل کائنات
ایک مشتِ خاک میں سورج کی آب وتاب دیکھ


افتحار عارف

اعتبار ساجد

تجھ سے بچھڑ کر آنکھوں کو نم کس لئے کریں
تجھ کو نہیں ملال تو ہم کس لئے کریں

دنیا کی بے رُخی تونہیں ہے کوئی جواز
اس شدتِ خلوص کو کم کس لئے کریں

تا عمر قربتوں کو تو امکان ہی ناں تھا
آنکھیں فراقِ یار کا غم کس لئے کریں

اپنا جنوں داد و ستائش سے بے نیاز
پھر بے خودی کا حال رقم کس لئے کریں

جن کے لئے افق پہ چمکتے ہیں راستے
مٹی پہ ثبت نقشِ قدم کس لئے کریں

مانوس ہو چکے ہیں اندھیروں سے اپنے لوگ
اب احتجاجِ صبحِ کرم کس لئے کریں

ساجد کوئی نئی تو نہیں ہے یہ تیرگی
آخر ملا لِ شامِ الم کس لئے کریں

اعتبار ساجد



ہم بھی شکستہ دل ہیں، پریشان تم بھی ہو
اندر سے ریزہ ریزہ میری جان تم بھی ہو

ہم بھی ہیں ایک اجڑے ہوئے شہر کی طرح
آنکھیں بتا رہی ہیں کہ ویران تم بھی ہو

درپیش ہے ہمیں بھی کڑی دھوپ کا سفر
سائے کی آرزو میں پریشان تم بھی ہو

ہم بھی خزاں کی شام کا آنگن ہیں، بے چراغ
بیلیں ہیں جس کی زرد وہ دالان تم بھی ہو

جیسے کسی خیال کا سایہ ہیں دو وجود
ہم بھی اگر قیاس ہیں، امکان تم بھی ہو

مل جائیں ہم تو کیسا سہانا سفر کٹے
گھائل ہیں ہم بھی، سوختہ سامان تم بھی ہو

اعتبار ساجد



ہر درد پہن لینا ، ہر خواب میں کھو جانا
کیا اپنی طبیعت ہے ، ہر شخص کا ہو جانا

اک شہر بسا لینا بچھڑے ہوئے لوگوں کا
پھر شب کے جزیرے میں دل تھام کے سو جانا

موضوعِ سخن کچھ ہو ، تا دیر اسے تکنا
ہر لفظ پہ رک جانا ، ہر بات پہ کھو جانا

آنا تو بکھر جانا سانسوں میں مہک بن کر
جانا تو کلیجے میں کانٹے سے چبھو جانا

جاتے ہوئے چپ رہنا ان بولتی آنکھوں کا
خاموش تکلم سے پلکوں کو بھگو جانا

لفظوں میں اتر آنا ان پھول سے ہونٹوں کا
اک لمس کی خوشبو کا پوروں میں سمو جانا

ہر شام عزائم کے کچھ محل بنا لینا
ہر صبح ارادوں کی دہلیز پہ سو جانا

اعتبار ساجد



عزیز لکھنوی

اُلجھن کا عِلاج آہ کوئی کام نہ آیا !
جی کھول کے رویا بھی تو آرام نہ آیا
دل سینے میں جب تک رہا آرام نہ آیا 
کام آئے گا کِس کے جو مِرے کام نہ آیا
کام اُس کے نہ کاش آئے وہ مغرور بھی یونہی 
جیسے دلِ آوارہ مِرے کام نہ آیا
یہ کہہ کے وہ سرہانے سے بیمار کے اُٹّھے 
صد شکر، کہ مجھ پر کوئی الزام نہ آیا
بجلی سی کوئی شے مِرے سینہ میں کبھی تھی
سوچا تو بہت، یاد مگر نام نہ آیا
تا حشر نہ بُھولے گا عزیز اپنی شبِ ہجر 
کیا رات تھی وہ رات، کہ آرام نہ آیا
عزیز لکھنوی

اختر شیرانی


وہ کہتے ہيں رنجش کي باتيں بھُلا ديں 

محبت کريں، خوش رہيں، مسکراديں 
غرور اور ہمارا غرور محبت 
مہ و مہر کو ان کے در پر جھکا ديں 
جواني ہوگر جاوداني تو يا رب 
تري سادہ دنيا کو جنت بناديں 
شب وصل کي بےخودي چھارہي ہے 
کہوتو ستاروں کي شمعيں بجھاديں 
بہاريں سمٹ آئيں کِھل جائيں کلياں 
جو ہم تم چمن ميں کبھي مسکراديں 
وہ آئيں گے آج اے بہار محبت 
ستاروں کے بستر پر کلياں بچھاديں 
بناتا ہے منہ تلخئ مے سے زاہد 
تجھے باغ رضواں سے کوثر منگا ديں 
تم افسانہ قيس کيا پوچھتے ہو 
آؤ ہم تم کوليليٰ بنا ديں 
انہيں اپني صورت پہ يوں کب تھا 
مرے عشق رسوا کو اختر دعا ديں



اے عشق نہ  چھیڑ آ آ کے ہمیں، ہم  بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر 

پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم ، تو  اور ہمیں ناشاد نہ کر 
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ ، یہ تازہ ستم  ایجاد نہ  کر

یوں ظلم نہ کر، بیداد  نہ کر 

اے عشق ہمیں برباد نہ  کر

جس دن سے  ملے  ہیں  دونوں  کا، سب  چین گیا، آرام گیا 

چہروں سے بہار صبح گئی، آنکھوں سے فروغ شام گیا 
ہاتھوں سے خوشی کا جام چھٹا، ہونٹوں سے ہنسی  کا نام گیا

غمگیں نہ بنا،  ناشاد  نہ  کر 

اے عشق ہمیں برباد نہ کر

راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں، رو رو کے دعائیں کر تے ہیں 

آنکھوں میں تصور، دل میں خلش، سر دھنتے ہیں آہیں بھرتےہیں 
اے عشق! یہ کیسا روگ لگا، جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں؟

یہ ظلم تو اے جلاد نہ کر 

اے عشق ہمیں برباد نہ کر

یہ روگ لگا ہے جب  سے  ہمیں، رنجیدہ ہوں میں بیمار ہے وہ 

ہر وقت تپش، ہر  وقت  خلش بے خواب ہوں میں،بیدار ہے وہ 
جینے سے  ادھر بیزار ہوں میں،  مرنے  پہ ادھر تیار ہے وہ

اور ضبط  کہے  فریاد نہ کر 

اے عشق ہمیں برباد نہ کر

جس دن سے بندھا  ہے دھیان ترا، گھبرائےہوئے سے رہتے ہیں 

ہر وقت تصور کر  کر  کے شرمائے  ہوئے  سے رہتے  ہیں 
کملائے ہوئے پھولوں  کی طرح  کملائے ہوئے سے رہتے ہیں

پامال  نہ کر، برباد نہ  کر 

اے عشق  ہمیں  برباد نہ کر

بیددر!  ذرا  انصاف تو  کر! اس عمر میں اور مغموم  ہے وہ 

پھولوں کی طرح نازک ہے ابھی ، تاروں  کی طرح معصوم ہے وہ 
یہ حسن ، ستم! یہ رنج، غضب! مجبور ہوں میں! مظلوم ہے وہ

مظلوم  پہ  یوں  بیداد  نہ  کر 

اے عشق ہمیں  برباد نہ کر

اے  عشق خدارا دیکھ کہیں ، وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو 

وہ ماہ لقا بدنام نہ  ہو، وہ  زہرہ جبیں بدنام نہ  ہو 
ناموس کا اس  کے  پاس  رہے،  وہ پردہ نشیں  بدنام نہ ہو

اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر 

اے عشق ہمیں برباد  نہ  کر

امید کی جھوٹی جنت کے، رہ  رہ  کے  نہ  دکھلا خواب ہمیں 

آئندہ کی فرضی عشرت  کے، وعدوں  سے نہ کر بیتاب  ہمیں 
کہتا ہے  زمانہ  جس کو خوشی ، آتی  ہے نظر کمیاب ہمیں

چھوڑ ایسی خوشی کویادنہ کر 

اے  عشق  ہمیں برباد نہ کر

کیا سمجھےتھےاور تو کیا نکلا، یہ سوچ کے ہی حیران ہیں ہم 

ہے پہلے  پہل کا  تجربہ  اور کم عمر ہیں ہم،  انجان ہیں ہم 
اے عشق ! خدارا رحم و کرم! معصوم ہیں ہم، نادان ہیں ہم

نادان  ہیں  ہم، ناشاد نہ  کر 

اے عشق ہمیں برباد  نہ کر

وہ راز ہے یہ غم آہ جسے، پا  جائے کوئی تو خیر نہیں 

آنکھوں سےجب آنسو بہتے ہیں، آجائے کوئی تو خیر نہیں 
ظالم ہے یہ  دنیا، دل کو یہاں، بھا جائے کوئی تو  خیر نہیں

ہے ظلم مگر  فریاد  نہ  کر 

اے عشق ہمیں بر باد نہ کر

دو دن  ہی میں عہد طفلی  کے، معصوم زمانے بھول گئے 

آنکھوں سےوہ خوشیاں مٹ سی گئیں، لب کووہ ترانےبھول گئے 
ان  پاک بہشتی خوابوں  کے،  دلچسپ فسانے بھول گئے

ان خوابوں سے یوں آزادنہ کر 

اے عشق ہمیں برباد نہ کر

اس جان حیا  کا بس نہیں کچھ، بے بس ہے پرائے بس میں ہے 

بے درد دلوں کو کیا ہے خبر، جو  پیار  یہاں آپس میں ہے 
ہے  بے بسی زہر  اور  پیار ہے  رس، یہ زہر چھپا اس رس میں ہے

کہتی ہے حیا  فریاد  نہ  کر 

اے عشق ہمیں  برباد نہ کر

آنکھوں کو  یہ  کیا آزار ہوا ، ہر  جذب نہاں پر رو دینا 

آہنگ  طرب پر جھک جانا، آواز فغاں  پر  رو دینا 
بربط کی صدا پر رو دینا، مطرب کے  بیاں پر رو دینا

احساس کو غم بنیاد نہ کر 

اے عشق ہمیں برباد نہ کر

ہر دم ابدی راحت  کا سماں  دکھلا کے ہمیں دلگیر نہ کر 

للہ حباب  آب رواں  پر  نقش بقا تحریر نہ  کر 
مایوسی کے رمتے بادل  پر  امید کے گھر تعمیر نہ  کر

تعمیر نہ کر، آباد نہ کر 

اے عشق ہمیں بر باد نہ کر

جی چاہتا ہے اک دوسرے کو  یوں  آٹھ  پہر ہم  یاد  کریں 

آنکھوں  میں  بسائیں خوابوں کو، اور دل میں خیال آباد کریں 
خلوت میں بھی ہوجلوت کاسماں، وحدت کودوئی سےشادکریں

یہ آرزوئیں ایجاد نہ کر 

اے عشق ہمیں برباد نہ کر

دنیا کا  تماشا  دیکھ  لیا، غمگین  سی ہے ، بے  تاب سی ہے 

امید یہا ں اک وہم سی ہے‘ تسکین یہاں اک خواب  سی ہے 
دنیا میں خوشی کا نام نہیں‘ دنیا میں خوشی نایاب  سی ہے

دنیا میں خوشی کو یاد نہ کر 

اے عشق ہمیں  برباد نہ کر