Wednesday, October 18, 2017

فیض احمد فیض


سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے
بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے

ہاں، جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی!
ہاں، ہم ہی کاربندِ اُصولِ وفا نہ تھے

آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بُھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے  

کیوں دادِ غم ہمیں نے طلب کی، بُرا کیا
ہم سے جہاں میں کشتۂ غم اور کیا نہ تھے

گر فکرِ زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہم
کیوں محوِ مدح خوبیِ تیغِ ادا نہ تھے

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے ، بہت لادوا نہ تھے

لب پر ہے تلخیِ مئے  ایّام، ورنہ فیض
ہم تلخیِ کلام پہ مائل ذرا نہ تھے

فیض احمد فیض 

Friday, May 12, 2017

رونے سے اور عِشق میں بیباک ہوگئے


رونے سے اور عِشق میں بیباک ہوگئے
دھوئے گئے ہم اتنے، کہ بس پاک ہوگئے

صرفِ بہائے مے ہُوئے آلاتِ میکشی !
تھے یہ ہی دو حساب سو یُو ں پاک ہوگئے
رُسوائے دہر گو ہُوئے آوار گی سے تم
بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہوگئے
کہتا ہے کون نالۂ بُلبُل کو بے اثر
پردے میں گُل کے، لاکھ جگر چاک ہوگئے
پُوچھے ہے کیا وجُود و عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہوگئے
کرنے گئے تھے اُس سے تغافل کا ہم گِلہ
کی ایک ہی نِگاہ کہ بس خاک ہوگئے

اِس رنگ سے اُٹھائی کل اُس نے اسد کی نعش
دُشمن بھی جس کو دیکھ کے غمناک ہوگئے
مرزا اسداللہ خاں غالب 

ہم میں ہی تھی نہ کوئی بات، یاد نہ تُم کو آ سکے




ہم میں ہی تھی نہ کوئی بات، یاد نہ تُم کو آ سکے
تُم نے ہمیں بُھلا دیا، ہم نہ تمہیں بُھلا سکے



تُم ہی اگر نہ سُن سکے، قِصّۂ غم سُنے گا کون 
کس کی زباں کُھلے گی پھر، ہم نہ اگر سُنا سکے



ہوش میں آ چکے تھے ہم، جوش میں آ چکے تھے ہم
بزْم کا رنگ دیکھ کر سَر نہ مگر اُٹھا سکے



رونقِ بزْم بن گئے، لب پہ حکایتیں رہیں
دل میں شکایتیں رہیں لب نہ مگر ہِلا سکے



شوقِ وصال ہے یہاں، لب پہ سوال ہے یہاں
کِس کی مجال ہے یہاں ہم سے نظر مِلا سکے



ایسا ہو کوئی نامہ بر، بات پہ کان دھر سکے
سُن کے یقین کرسکے، جا کے اُنھیں سُنا سکے



عجْز سے اور بڑھ گئی  برہمیِ مزاجِ دوست
اب وہ کرے علاجِ دوست، جس کی سمجھ میں آ سکے



اہلِ زباں تو ہیں بہت، کوئی نہیں ہے اہلِ دل
کون تِری طرح حفیظ ، درد کے گیت گا سکے



حفیظ جالندھری

ممکن ہو آپ سے تو بھلا دیجئے مجھے


ممکن ہو آپ سے تو بھلا دیجئے مجھے
پتھر پہ ہوں لکیر مٹا دیجئے مجھے

ہر روز مجھ سے تازہ شکایت ہے آپ کو
میں کیا ہوں، ایک بار بتا دیجئے مجھے

میرے سوا بھی ہے کوئی موضوعِ گفتگو
اپنا بھی کوئی رنگ دکھا دیجئے مجھے

میں کیا ہوں کس جگہ ہوں مجھے کچھ خبر نہیں
ہیں آپ کتنی دور صدا دیجئے مجھے

کی میں نے اپنے زخم کی تشہیر جا بجا
میں مانتا ہوں جرم سزا دیجئے مجھے

قائم تو ہو سکے کوئی رشتہ گہر کے ساتھ
گہرے سمندروں میں بہا دیجئے مجھے

شب بھر کرن کرن کو ترسنے سے فائدہ
ہے تیرگی تو آگ لگا دیجئے مجھے

جلتے دنوں میں خود پسِ دیوار بیٹھ کر
سائے کی جستجو میں لگا دیجئے مجھے

شہزادؔ یوں تو شعلۂ جاں سرد ہو چکا
لیکن سُلگ اٹھیں تو ہوا دیجئے مجھے
شہزاد احمد