Wednesday, June 3, 2015

میر وزیر علی صبا لکھنوی

جلوہ ہے ہر اک رنگ میں اے یار تمہارا
اک نور ہے کیا مختلف آثار تمہارا

ہوتا نہ یہ بندہ جو خریدار تمہارا
رونق نہ پکڑتا کبھی بازار تمہارا

اے منعمو! سامانِ سواری پہ نہ بھولو
اڑ جائے گا اک روز ہوادار تمہارا

تم قتل کرو گے جو مجھے تیغِ نگہ سے
منہ دیکھ کے رہ جائے گی تلوار تمہارا

بوسے لبِ شیریں کے عنایت نہیں ہوتے
پرہیز میں مر جائے گا بیمار تمہارا



گہ آئینہ ہوا، گہ دیدہء پُر آب گھٹا
کبھی بڑھا کبھی دریائے اضطراب گھٹا

عزیز آئے نہ رونے کو میری تربت پر
بہا کے اشک ہوئی داخلِ ثواب گھٹا

تمہاری زلف نہ گردابِ ناف تک پہنچی
ہوئی نہ چشمہء حیواں سے فیض یاب گھٹا

فراقِ یار میں بے کار سب ہیں اے ساقی
پیالہ، شیشہ، گزک، میکدہ، شراب، گھٹا

کسی کو منہ تہہِ زلفِ سیاہ یاد آیا
کبھی جو آ گئ بالائے آفتاب گھٹا 

تری کمر کی لچک پر تڑپتی ہے بجلی
ہوائے زلف میں کھاتی ہے پیچ و تاب گھٹا


ہوائے یار میں کیا دل کو اضطراب رہا
چکور چاند کی خاطر بہت خراب رہا

ہمیشہ کوششِ دنیا میں اضطراب رہا
بہت خراب دلِ خانماں خراب رہا

نہ برشگال میں جب تک شراب پلوا لی
بلا کی طرح سے سر پر مرے سحاب رہا

ہم اپنے حال پہ روتے ہیں اب ضعیفی میں
خوشا وہ عہد کہ طفلی رہی، شباب رہا

وہ بادہ نوش تھے پیری میں بھی نہ توبہ کی
شراب خُم میں رہی، شیشی میں خضاب رہا

ہر اک مقام پہ نشوونما رہی دل کی
چمن میں پھول رہا، بحر میں حباب رہا

خط آ گیا ، نہ رہا عشقِ مصحفِ رخِ یار
نہ وہ کتاب رہی اور نہ وہ حساب رہا

ہمیشہ قلزمِ ہستی میں صورتیں بدلیں
کبھی تو موج رہا اور کبھی حباب رہا

یہ وہ فلک ہے کہ جس کے سبب سے عالم میں
نہ ایک حال پہ دو روز ماہتاب رہا

خوشی وہ کون سی دی جس کے بعد غم نہ دیا
ہمیشہ سر پہ فلک بر سرِ حساب رہا

کمند لے کے وہیں موج ہو گئ موجود
جہاں ذرا سر اٹھائے ہوئے حباب رہا

برنگِ موجِ ہوا اے صبا ہوئے تھے خلق
رہے جہان میں جس دم تک اضطراب رہا



کیوں ان کی چال دیکھی جو یہ حال ہو گیا
میں آپ اہنے ہاتھ سے پامال ہو گیا

کچھ قیس سے بھی بڑھ کے مرا حال ہو گیا
کس قہر کا جنوں مجھے امسال ہو گیا

میں بدنصیب، غیر خوش اقبال ہو گیا
یہ آپ کے مزاج کا کیا حال ہو گیا

دریا بہا مرے عرقِ انفعال کا
کاغز کی ناؤ نامہء اعمال ہو گیا

ہم پِس گئے خرام پہ تو یار نے کہا
پاپوش سے اگر کوئی پامال ہو گیا

مجھ سے فضول خرچ کے ہتھے جو چڑھ گیا
دو دن میں آسمان بھی کنگال ہو گیا



نیا سوانگ لائے ہیں عشقِ صنم میں
ذرا کوئی دیکھے تماشا ہمارا

نکل جائے گی سب کجی آسماں کی
کبھی تو پھرے گا زمانا ہمارا

دلایا گیا فاتحہ جامِ مے پر
ہوا میکدے میں پیالا ہمارا

شبِ ہجر میں عرش تک ہل رہا ہے
بہت دور جاتا ہے نالا ہمارا

ترے ہاتھ سے واشدِ دل نہ ہو گی
کھلے گا نہ تجھ سے معما ہمارا

کدورت نہیں اپنی طبعِ رواں میں
بہت صاف بہتا ہے دریا ہمارا




واعظ کے، میں ضرور ڈرانے سے ڈر گیا
جامِ شراب لائے بھی، ساقی کدھر گیا

بلبل کہاں، بہار کہاں، باغباں کہاں
وہ دن گذر گئے، وہ زمانہ گذر گیا

جھوٹوں کا بادشاہ کہوں، اے صنم تجھے
یہ حال ہے کہ بات کہی اور مکر گیا

ایسی کفن کی قطع پسند آ گئ ہمیں
دل سے ہمارے جامہء ہستی اتر گیا

صورت ہمارے دیدہء حیراں کی دیکھ کر
آئینہ صاف ان کی نظر سے اتر گیا

اچھا ہوا جو ہو گئے وحدت پرست ہم
فتنہ گیا، فساد گیا، شور و شر گیا

کعبے کی سمت سجدہ کیا دل کو چھوڑ کر
تو کس طرف تھا، دھیان ہمارا کدھر گیا

مثلِ حباب بحرِ جہاں میں نہ دم لیا
اک موج تھا کہ میں اِدھر آیا، اُدھر گیا

پھر سیرِ لالہ زار کو ہم اے صبا چلے
آئی بہار، داغِ جنوں پھر ابھر گیا

Monday, May 25, 2015

رفیع رضا

رفیع رضا

گرتے ہُوئے ملبے میں ستارہ تو نہیں ہے
اب یہ میرے جانے کا اشارہ تو نہیں ہے!

جو گُنبدِ خاموش اُٹھایا تھا ازل سے
وُہ بوجھ ابھی سر سے اُتارا تو نہیں ہے

وُہ آخری آرام سڑک پر ہی مِلے گا
فُٹ پاتھ پہ چیخوں کا گُزارہ تو نہیں ہے

شمشان میں رکّھی ہوئی دُنیا کو کروں کیا
اب دیکھنے والا یہ نظارہ تو نہیں ہے

ترتیب سے رکّھے ہیں یہ خوابوں کے جنازے
آ دیکھ لے تیرا کوئی پیارا تو نہیں ہے

کیا پونچھنے والا ہے وُہ آنکھوں سے لہو کو
اُس نیلگوں دامن نے پُکارا تو نہیں ہے!

وحشت نے اُچھالی ہے مری خاک وگرنہ
اُڑنا میری مٹی کو گوارا تو نہیں ہے

کیوں دیدۂ افلاک میں افسوس چمکتا
یہ نظم ہے قُرآں کا سپارہ تو نہیں ہے


گُلِ سیاہ کِھلا ہے سو دیکھنا کیا ہے
یہ پُورے دن کا صِلہ ہے! سو دیکھنا کیا ہے

منڈیر وقت کی خستہ تھی میرے پاؤں تلے
ہوا کا سانس رُکا ہے سو دیکھنا کیا ہے

وُہ جس کو اپنے پروں پر بہت بھروسہ تھا
وُہی پرندہ گِرا ہے سو دیکھنا کیا ہے

اگر اُمنگ نہیں ہے تو میں بھی دنگ نہیں
لہو میں رنگ بچا ہے سو دیکھنا کیا ہے

بگُولہ سا کہیں چکرا رہا ہے وحشت میں
یہ شور دیکھا ہوا ہے سو دیکھنا کیا ہے

عجیب سنگِ حقیقت تھا عین دل پہ لگا
اب عکس ٹوٹ گیا ہے سو دیکھنا کیا ہے

دھُوئیں نے تان لی چادر تو میں ہوا اندھا
یہ "دیکھنا" ہی بُجھا ہے سو دیکھنا کیا ہے

خُود اپنے خواب کی نظروں میں آ گیا ہُوں میں
وُہ مُجھ کو دیکھ رہا ہے سو دیکھنا کیا ہے


جو دن کے ساتھ نکل کر غروب ہوتا ہوں
تو اپنے خُون میں ڈھل کر غروب ہوتا ہوں

غروب ہونے کی کُچھ اور صُورتیں بھی ہیں
مُجھے یہ کیا ہے کہ جل کر غروب ہوتا ہوں

پُکارتا ہے کسی اورکو اُفق لیکن
میں اپنا نام بدل کر غروب ہوتا ہوں

نہ جانے کون مُجھے اپنے پیچھے چھوڑ گیا
میں سارے دشت میں چل کر غروب ہوتا ہوں

پھر آبِ سُرخ کٹاؤ میں ڈھُونڈتا ہے مُجھے
میں آنکھیں زور سے مَل کر غروب ہوتا ہوں

کسے خبر کہ کسی دن کوئی طلوع نہ ہو
کئی دنوں سے سنبھل کر غروب ہوتا ہوں


ایک اس عُمر کا ہی کاٹنا کافی نہیں کیا
عشق کا بوجھ مری جاں پہ اضافی نہیں کیا

تیری اُمید پہ پُورا نہیں اُترا لیکن
میرے آنسو ترے نُقصان کی تلافی نہیں کیا

پسِ دیوار بھی دیوار کھڑی کر دی ہے
آپ ہی کہئیے کہ یہ وعدہ خلافی نہیں کیا

آسماں کی طرف اُمید سے جو دیکھتا ہوں
یہ مرا جُرم سہی اسکی معافی نہیں کیا

معجزے کیا ہُوئے وُہ ساری دُعائیں ہیں کہاں
اب کوئی دستِ مسیحائی بھی شافی نہیں کیا

عہد شکنی ہو خیانت ہو ریاکاری ہو
کُچھ بھی آدابِ سیاست کے مُنافی نہیں کیا

مُنفرد کیسے نہ مانیں گے یہ نقاد مُجھے
سب انوکھے مری غزلوں کے قوافی نہیں کیا



اوروں نے جب زمیں کو وراثت میں لے لیا
میں نے بھی آسمان کو غُربت میں لے لیا

سویا ہوا تھا شہر مگر، یُونہی خوف نے
میں جاگتا تھا، مُجھ کو حراست میں لے لیا

سوچا کہ کُچھ نہیں ہے تو دن ہی نکال لُوں
یہ کام رات میں نے فراغت میں لے لیا

مرکز میں اُس کے تھی کوئی منزل کِھلی ہوئی
جس دائرے نے مُجھ کو مسافت میں لے لیا

شُعلے کا رقص دیکھنے آئے ہوئے ہجوم!
مُجھ سے یہ کام سب نے محبت میں لے لیا

صف خالی ہو گئی سبھی وحشی نکل گئے
میں نے خُدا کا نام جو وحشت میں لے لیا

تُم مل گئے تو دیکھو تُمھاری خُوشی کو پھر
چاروں طرف سے دُکھ نے حفاظت میں لے لیا

پہلے کوئی خلا میرے دل کے قریب تھا
پھر اِس کو میری آنکھ نے وُسعت میں لے لیا

جیسے اُلٹ گئی کہیں ترتیب ِ خدّوخال
ذرّے نے کائنات کو حیرت میں لے لیا


جس طرف آنکھ اُٹھاتا ہوں اُدھر مٹی ہے
خاک دیکھوں مَیں کہ تا حدِّ نظر مٹی ہے

کھینچتا رہتا ہے کوئی مُجھے مٹی سے پرے
پر میں اُس سمت کو کِھنچتا ہُوں جدھر مٹی ہے

ایسے لگتا ہے کہ میں بیٹھ گیا ہوں تھک کر
ایسے لگتا ہے کہ اب محوِ سفر مٹی ہے

سبز ہونے سے حقیقت تو نہیں بدلے گی
لاکھ اِترائے مگر اصلِ شجر مٹی ہے

ہو گا افلاک پہ بھی دُکھ کا مداوا لیکن
کھُلے زخموں کے لئے زُود اثر مٹی ہے


میں نے لیا ہے آنکھ میں بھر اتنا آسمان
کیسے کرے گا دل میں سفر اتنا آسمان

جتنا نکل کے آیا ہے مُجھ کو یقین ہے
اب بھی بچا ہوا ہے اُدھر اتنا آسمان

جا کر مِلے گی پھر تو حدِ وقت سے فصیل
بُنیاد میں لگایا اگر اتنا آ سمان

اتنی کُشادگی سے کہاں پھِر سکے گا یہ
کر دُوں اگر میں آنکھ بدر اتنا آسمان

ظاہر ہے حاشئے میں وُہی لکھ رہا ہوں میں
دیتا ہے مُجھ کو جس کی خبر اتنا آسمان

اب بولنے لگا ہوں زمیں کے خلاف بھی
مُجھ کو بنا رہا ہے نڈر اتنا آسمان

وُہ کون معتبر ہے رضا مَیں بھی دیکھ لُوں
حیرت سے دیکھتا ہے جدھر اتنا آسمان


زمیں و آسماں کا کیا کیا جائے
اور ان کے درمیاں کا کیا کیا جائے

نہ پُوچھو اُس جہاں سے کیا ہوا تھا
یہ پُوچھو اِس جہاں کا کیا کیا جائے

زمیں تو کھوکھلی کر دی ہے ہم نے
اور اب سیّارگاں کا کیا کیا جائے

نہ چلنے دے جو اپنے کارواں کو
تو میرِ کارواں کا کیا کیا جائے

ہماری داستاں میں رو پڑی ہے
تُمھاری داستاں کا کیا کیا جائے

اکیلا ہی جسے میں سُن رہا ہوں
اب اُس شور و فغاں کا کیا کیا جائے

سفر میں اک ستارہ بھی بہت تھا
ہجومِ کہکشاں کا کیا کیا جائے

نتیجہ کُچھ بھی نکلے کُچھ تو نکلے
مسلسل امتحاں کا کیا کیا جائے

مقدس آگ پر ہی مُنحصر ہے!
ہمارے جسم و جاں کا کیا کیا جائے

جسے حیرت نہیں ہے اور شک ہے
اب ایسے بد گُماں کا کیا کیا جائے

نظر آتا ہے سر پر اور نہیں ہے!
رضا اس آسماں کا کیا کیا جائے


کسی صُورت بُلا ہی لیتی ہے
مُجھے شدّت بُلا ہی لیتی ہے

اتنی محنت سُخن میں کرتا ہوں
کہ سہولت بُلا ہی لیتی ہے

کسی آرام سے نہیں رُکتا
کوئی وحشت بُلا ہی لیتی ہے

کُچھ دنوں میں خفاسا پھرتا ہُوں
پھر محبت بُلا ہی لیتی ہے

میں قدامت پسندہوں لیکن
مُجھے جدّت بُلا ہی لیتی ہے

کُچھ تعلق نکل ہی آتا ہے
کوئی حیرت بُلا ہی لیتی ہے

سر سے اُونچی فصیل ہو جائے
تو بغاوت بُلا ہی لیتی ہے

صُورتِ حال ایسی، اپنے لئے
خُود قیامت بُلا ہی لیتی ہے

جہاں کوئی نہیں وکیل رضاؔ
وُہ عدالت بُلا ہی لیتی ہے

رفیع رضا

Wednesday, April 8, 2015

تہذیب حافی

اک تیرا ہجر دائمی ھے مجھے
ورنہ ہر چیز عارضی ھے مجھے
میری آنکھوں پہ دو مقدس ھاتھ
یہ اندھیرہ بھی روشنی ھے مجھے
میں سخن میں ہوں اس جگہ کہ جہاں
سانس لینا بھی شاعری ھے مجھے
اک اداسی جو اتنے لوگوں میں
نام لے کر پکارتی ھے مجھے
میں اسے کب کا بھول بھال چکا
زندگی ھے کہ رو رہی ھے مجھے
ان پرندوں سے بولنا سیکھا
پیڑ سے خامشی ملی ھے مجھے
میں کہ کاغذ کی ایک کشتی ھوں
پہلی بارش ہی آخری ھے مجھے
 

لبوں سے لفظ جھڑیں آنکھ سے نمی نکلے 
کسی طرح تو مرے دل سے بے دلی نکلے
میں چاہتا ہوں پرندے رہا کیے جائیں 
میں چاہتا ہوں ترے ہونٹ سے ہنسی نکلے
میں چاہتاہوں کوئی مجھ سے بات کرتا رہے 
میں چاہتا ہوں کہ اندر کی خامشی نکلے
میں چاہتا ہوں مجھے طاقچوں میں رکھا جائے 
میں چاہتا ہوں جلوں اور روشنی نکلے
میں چاہتا ہوں تجھے مجھ سے عشق ہو جائے 
میں چاہتا ہوں کہ صحرا سے جل پری نکلے
میں چاہتا ہوں ترے ہجر میں عجیب ہو کچھ 
میں چاہتا ہوں چراغوں سے تیرگی نکلے
میں چاہتا ہوں مجھے کوئی درد دان کرے 
شدید اتنا کہ آنسو ہنسی خوشی نکلے



تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا 
اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا
یوں نہیں ہے کہ فقط میں ہی اُسے چاہتا ہوں
جو بھی اُس پیڑ کی چھاؤں میں گیا بیٹھ گیا
اتنا میٹھا تھا وہ غصے بھرا لہجہ مت پوچھ 
اُس نے جس جس کو بھی جانے کا کہا بیٹھ گیا
اپنا لڑنا بھی محبت ہے تمھیں علم نہیں 
چیختی تم رہی اور میرا گلا بیٹھ گیا
اُس کی مرضی وہ جسے پاس بٹھا لے اپنے
اس پہ کیا لڑنا فلاں میری جگہ بیٹھ گیا
بات دریاؤں کی سورج کی نہ تیری ہے یہاں
دو قدم جو بھی مرے ساتھ چلا بیٹھ گیا
بزم . جاناں میں نشستیں نہیں ہوتیں مخصوص
 جو بھی اک بار جہاں بیٹھ گیا بیٹھ گیا



تری قید سے میں یونہی رہا نہیں ہو رہا
مری زندگی ترا حق ادا نہیں ہو رہا
ترے جیتے جاگتے اور کوئی مرے دل میں ہے
مرے دوست کیا یہ بہت برا نہیں ہو رہا
مرا موسموں سے تو پھر گلہ ہی فضول ہے
تجھے چھو کے بھی میں اگر ہرا نہیں ہو رہا
کوئی شعر ہے جو میں چاہ کر بھی نہ لکھ سکا
کوئی واقعہ ہے جو رونما نہیں ہو رہا
یہ جو ڈگمگانے لگی ہے تیرے دیے کی لو 
اسے مجھ سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہو رہا
مجھے علم ہے مری کشتیوں میں سوراخ ہیں
جبھی پار جانے کا حوصلہ نہیں ہو رہا
تہذیب حافی

Monday, March 23, 2015

حفیظ جالندھری


اے دوست مِٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں
اس درد ِ دوستی کی دوا ہو گیا ہوں میں

قائم کیا ہے میں نے فنا کے وجود کو
دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں

نا آشنا ہیں رتبہ دیوانگی سے دوست
کمبخت جانتے نہیں ، کیا ہو گیا ہوں میں

ہنسنے کا اعتبار ، نہ رونے کا اعتبار
کیا زندگی ہے جس پہ فدا ہو گیا ہوں میں

ہمّت بُلند تھی مگر افتاد دیکھنا !
چپ چاپ آج محو ِ دُعا ہو گیا ہوں میں

یہ زندگی فریبِ مسلسل نہ ہو کہیں
شاید اسیرِ دام ِ بَلا ہو گیا ہوں میں

اُٹھا ہوں اک جہان ِ خموشی لیے ہوئے
ٹوٹے ہوئے دِلوں کی صدا ہو گیا ہوں میں

حفیظ جالندھری



حقیقتیں آشکار کر دے صداقتیں بے حجاب کر دے
ہر ایک ذرہ یہ کہہ رہا ہے کہ آ، مجھے آفتاب کر دے

یہ خواب کیا ہے؟ یہ زشت کیا ہے؟ جہاں کی اصلی سرشت کیا ہے؟
بڑا مزہ ہو تمام چہرے اگر کوئی بے نقاب کر دے 

... 
کہو تو رازِ حیات کہہ دوں، حقیقتِ کائنات کہہ دوں
وہ بات کہہ دوں کہ پتھروں کے جگر کو بھی آب آب کر دے

پھر ایک تقصیر کر رہا ہوں پھر ایک تدبیر کر رہا ہوں
خلافِ تقدیر کر رہا ہوں، خدا اگر کامیاب کر دے

ترے کرم کے معاملے کو ترے کرم پر ہی چھوڑتا ہوں
مری خطائیں شمار کر دے، مری سزا کا حساب کر دے

حفیظ جالندھری



اسی کے نام سے آغاز ہے اس شاہنامے کا
ہمیشہ جس کے در پر سر جھکا رہتا ہے خامے کا

اسی نے ایک حرف کُن سے پیدا کر دیا عالم 
کشاکش کی صدائے ہاوہو سے بھر دیا عالم

نظام آسمانی ہے اسی کی حکمرانی میں 
بہار جاودانی ہے اسی کی باغبانی میں

اسی کے نور سے پر نور ہیں شمس و قمر تارے
وہی ثابت ہے جس کے گرد پھرتے ہیں یہ سیارے

زمیں پر جلوہ آرا ہیں مظاہر اس کی قدرت کے 
بچھائے ہیں اسی داتا نے دسترخوان نعمت کے

یہ سرد و گرم خشک و تر اجالا اور تاریکی 
نظر آتی ہے سب میں شان اسی اک ذات باری کی

وہی ہے کائنات اور اس کی مخلوقات کا خالق
نباتات و جمالات اور حیوانات کا خالق

وہی خالق ہے دل کا اور دل کے نیک ارادوں کا
وہی مالک ہمارا ہے اور ہمارے باپ دادوں کا

بشر کو فطرت اسلام پر پیدا کیا جس نے
محمد مصطفٰی کے نام پر شیدا کیا جس نے



حفیظ جالندھری



ہم میں ہی تھی نہ کوئی بات، یاد نہ تُم کو آ سکے
تُم نے ہمیں بُھلا دیا، ہم نہ تمہیں بُھلا سکے

تُم ہی اگر نہ سُن سکے، قِصّۂ غم سُنے گا کون 
کس کی زباں کُھلے گی پھر، ہم نہ اگر سُنا سکے

ہوش میں آ چکے تھے ہم، جوش میں آ چکے تھے ہم
بزْم کا رنگ دیکھ کر سَر نہ مگر اُٹھا سکے

رونقِ بزْم بن گئے، لب پہ حکایتیں رہیں
دل میں شکایتیں رہیں لب نہ مگر ہِلا سکے

شوقِ وصال ہے یہاں، لب پہ سوال ہے یہاں
کِس کی مجال ہے یہاں ہم سے نظر مِلا سکے

ایسا ہو کوئی نامہ بر، بات پہ کان دھر سکے
سُن کے یقین کرسکے، جا کے اُنھیں سُنا سکے

عجْز سے اور بڑھ گئی برہمیِ مزاجِ دوست
اب وہ کرے علاجِ دوست، جس کی سمجھ میں آ سکے

اہلِ زباں تو ہیں بہت، کوئی نہیں ہے اہلِ دل
کون تِری طرح حفیظ، درد کے گیت گا سکے

حفیظ جالندھری


دل ابھی تک جوان ہے پیارے
کس مصیبت میں جان ہے پیارے

رات کم ہے نہ چھیڑ ہجر کی بات
یہ بڑی داستان ہے پیارے

تلخ کردی ہے زندگی جس نے
کتنی میٹھی زبان ہے پیارے

جانے کیا کہہ دیا تھا روزِ ازل
آج تک امتحان ہے پیارے

کب کیا میں نے عشق کا دعویٰ
تیرا اپنا گمان ہے پیارے

میں تجھے بے وفا نہیں‌ کہتا
دشمنوں کا بیان ہے پیارے

تیرے کوچے میں‌ہے سکوں ورنہ
ہر زمین آسمان ہے پیارے

حفیظ جالندھری


اُٹھ اُٹھ کے بیٹھ بیٹھ گئے ، پھر رواں رہے
ہم صُورتِ غبار پسِ کارواں رہے

مشقِ سخن کے اب وہ زمانے کہاں رہے
کیا خوب لوگ تھے جو مرے ہم زباں رہے

وہ بُت ہمارے پاس خُدا ساز بات تھی
ہم مدتوں خُدا کی قسم بدگماں رہے

اچھا جنابِ عشق ہیں؟ تشریف لائیے!!
خوب آئے آپ! آئیے حضرت کہاں رہے

صاحب ہماری توبہ ، ہمیں باز آ گئے
ہاں ہاں کے بعد پھر نہیں ہے تو ہاں رہے

ہم بے کسی کے فیض سے دریائے شوق میں
تِنکے کی طرح موج کے بَل پر رواں رہے

یہ پاسِ وضع تھا کہ انا الحق نہ کہہ سکے
اہلِ زباں تھے ہم بھی مگر بے زباں رہے

سر سینکڑوں جہاں میں سروں کی کمی نہیں
اس آستاں کی خیر ہو وہ آستاں رہے

دیکھیں کسی کی قبر بھی رہتی ہے یا نہیں
ہر اک یہ چاہتا ہے کہ میرا نشاں رہے

پھر بھی رواں ہے جانبِ ساحل جہازِ عمر
لنگر رہا کوئی نہ کہیں بادباں رہے

گزرے ہوئے شباب کے قصے نہ چھیڑئیے
وہ ہم نہیں رہے تو بھلا تم کہاں رہے

بیچارگی سی تھی مری آوارگی حفیظ
جس طرح کوئی خواب میں اُٹھ کر رواں رہے

حفیظ جالندھری


نہیں زخم دل اب دکھانے کے قابل 
یہ ناسور ہے بس چھپانے کے قابل 
تیرے رو برو آوں کس منہ سے پیار 
نہیں اب رہا منہ دکھانے کے قابل 
وفور غم یاس نے ایسا گھیر ا 

نہ چھوڑا کہیں آنے جانے کے قابل 
شب ہجر کی تلخیاں کچھ نہ پوچھو 
نہیں داستاں یہ سنانے کے قابل 
یہ ٹھکرا کے دل پھر کہا مسکرا کر 
نہ تھا دل یہ دل سے لگانے کے قابل 
جو دیکھا مجھے پھیر لیں اپنی آنکھیں 
نہ جانا مجھے منہ لگانے کے قابل 
جو دیکھا مجھے پھیر لیں اپنی آنکھیں 
نہ جانا مجھے منہ لگانے کے قابل 
تیری بزم میںسینکڑوں آئے بیٹھے 
ہمیں ایک تھے کیا اٹھانے کے قابل 
یہ کافر نگاہیں یہ دلکش ادائیں 
نہیں کچھ رہا اب بچانے کے قابل 
دیار محبت کے سلطاں سے کہہ دو 
یہ ویراں کدہ ہے بسانے کے قابل 
کیا ذکر دل کا تو ہنس کر وہ بولے 
نہیں ہے یہ د ل رحم کھانے کے قابل 
نگاہ کرم یونہی رکھنا خدارا 
نہ میں ہوں نہ دل آزمانے کے قابل 
نشان کف پائے جاناں پہ یارب 
ہمارا یہ سر ہو جھکانے کے قا بل 
کبھی قبر مشتاق پر سے جو گزرے 
کہا یہ نشاں ہے مٹانے کے قابل

شاعر حفیظ جالندھری


رنگ بدلا یار کا، وہ پیار کی باتیں گئیں
وہ ملاقاتیں گئیں، وہ چاندنی راتیں گئیں

پی تو لیتا ہوں مگر پینے کی وہ باتیں گئیں
وہ جوانی، وہ سیہ مستی، وہ برساتیں گئیں

اللہ اللہ کہہ کے بس اک آہ کرنا رہ گیا
وہ نمازیں، وہ دعائیں، وہ مناجاتیں گئیں

حضرتِ دل ہر نئی اُلفت سمجھ کر سوچ کر
اگلی باتوں پر نہ بھُولیں آپ وہ باتیں گئیں

راہ و رسمِ دوستی قائم تو ہے، لیکن حفیظ
ابتدائے شوق کی لمبی ملاقاتیں گئیں

(حفیظ جالندھری)

Saturday, March 14, 2015

میثم علی آغا

تو کیا یہ دل سے محبت کا اعتراف نہیں
کسی بھی بات پہ اب تجھ سے اختلاف نہیں
خدا خبر کہ یہ دنیا ہمیں کہاں رکھے
ہمارے دل میں محبت بھی واشگاف نہیں
حروف _ خیر کی خاطر لڑے ہوۓ دشمن
ہمارا قتل قبیلے کو بھی معاف نہیں
میں جانتا تھا بچھڑنا ہے ایک دن آخر
سو تیرا چھوڑنا ایسا بھی انکشاف نہیں
میں کم نصیب خسارے اٹھا رہا ہوں ابھی
وگرنہ تیری محبت سے انحراف نہیں
دیے جلانے کی کوشش گناہ ٹھہری ہے
کوئی نہیں ہے جو میثم مرے خلاف نہیں
میثم علی آغا

شاہین فصیحؔ ربانی


وہ جو دل میں رکھتے ہیں آرزو اذانوں کی
بند کس طرح رکھیں کھڑکیاں مکانوں کی

پرچمِ یقیں ان کو لائے گا نہ خاطر میں
تند و تیز کیسی ہوں آندھیاں گمانوں کی

کیا ہوا زمیں نے گر پاؤں باندھ رکھے ہیں
خواب میں تو کرتے ہیں سیر آسمانوں کی

انقلاب کی دیوی کس طرح سے راضی ہو
بھینٹ چاہیے جس کو صد ہزار جانوں کی

جنگ کا ارادہ ہے، اور حوصلہ دیکھیں
فوج ساتھ رکھتے ہیں کاغذی کمانوں کی

سوچتے ہیں سورج کے سائے میں چلے جائیں
جسم کو جلاتی ہے دھوپ سائبانوں کی

تند و تیز چلتی ہیں، چیر پھاڑ دیتی ہیں
دوستی ہواؤں سے کیا ہو بادبانوں کی

کیا انہیں بھی اردو سے پیار ہے، لگاؤ ہے
جو مثال دیتے ہیں دوسری زبانوں کی

کیوں فصیحؔ چھائی ہے یہ فسردگی تم پر
کھو گئیں کہاں آخر شوخیاں بیانوں کی

شاہین فصیحؔ ربانی

خواجہ میر درد

اگر یوں ہی یہ دل ستاتا رہے گا
تَو اک دن مرا جی ہی جاتا رہے گا

میں جاتا ہوں دل کو تِرے پاس چھوڑے
مری یاد تجھ کو دلاتا رہے گا

گلی سے تری دل کو لے تو چلا ہوں
میں پہنچوں گا جب تک یہ آتا رہے گا

جفا سے غرض امتحانِ وفا ہے
تو کہہ کب تلک آزماتا رہے گا

قَفَس میں کوئی تم سے اے ہم صفیرو
خبر گل کی ہم کو سُناتا رہے گا

خفا ہو کے اے درد مر تَو چلا تُو
کہاں تک غم اپنا چُھپاتا رہے گا

سیما غزل


یہی تو سوچ کر اب خوف آتا ہے مجھے اکثر
ابھی تو ٹھیک ہے لیکن تمہارے بعد کیا ہوگا


ہوائیں ہیں حوادث کی اڑا لے جائیں گی سب کچھ
اگر میں رہ گئی تنہا تو گھر آباد کیا ہوگا

نہ خوشبو ہے نہ سایا ہے نہ اُس کی کوئی آہٹ ہے
اب اس سے بڑھ کے میرا گھر بھلا برباد کیا ہوگا

جہاں اس زندگانی کا آخری اک موڑ آتا ہے
وہاں بھی ہوسکی مجھ سے نہ کچھ فریاد کیا ہوگا


مجھی میں رہ گیا گھُٹ گھُٹ کے میری ذات کا پنچھی
اگر آزاد اب ہوگا تو یہ آزاد کیا ہوگا


سیما غزل

قزلباش دہلوی

جوشِ الفت میں وہ قطرے کا فنا ہو جانا 
اُس پہ دریا کا وہ لب تشنہ سوا ہوجانا

کوئی انداز ہے! رہ رہ کے ، خفا ہوجانا
اپنے بندوں سے، یہ کھچنا کہ خدا ہوجانا

ضبطِ غم سے مری آہوں کے شرارے کجلائے
بے ہوا، کام ہے شعلے کا فنا ہوجانا

اپنے نیرنگیء انداز کا اعجاز تو دیکھ
ابھی شوخی تھی، ابھی اس کا حیا ہوجانا

اس زمانے میں نہیں کوئی کسی کا ہمدرد
دل کے دو حرف ہیں، اُن کو بھی جدا ہوجانا

ضعف سے اُٹھ نہیں سکتا تیرا بیمار فراق!
اے اجل! تو ہی کرم کر کے ذرا ہو جانا

شاعرِ زا ر نہیں کوئی بھی معیار مرا
پھر بھی مشہور ہے کھوٹے کا کھرا ہو جانا
loading...