Saturday, April 21, 2018

ايک زمين کئي شاعر


Image may contain: 2 people, text

غم عاشقی تیرا شکریہ…….عرش ملسیانی
کبھی اس مکاں سے گزر گیا کبھی اس مکاں سے گزر گیا
........
کبھی اس مکاں سے گزر گیا کبھی اس مکاں سے گزر گیا
تیرے آستان کی تلاش میں میں ہر آستاں سے گزر گیا

جسے لوگ کہتے ہیں، زندگی وہ تو حادثوں کا ہجوم ہے
یہ تو کہیے میرا ہی کام تھا کہ میں درمیاں سے گزر گیا

یہ تو میرا ذوق کمال ہے مگر اس کو دیکھ میرے خدا
تو نے روکا مجھ کو جہاں جہاں میں وہاں وہاں سے گزر گیا

کبھی تیرا در کبھی دربدر کبھی عرش پر کبھی فرش پر
غم عاشقی تیرا شکریہ میں کہاں کہاں سے گزر گیا
....
محمد امیر اعظم قریشی
کبھی مہر و ماہ و نجوم سے کبھی کہکشاں سے گزر گیا
میں تری تلاش میں آخرش حد لا مکاں سے گزر گیا

یہ تفاوت صنم و حرم ہے تبھی کہ جب بھی نشہ ہو کم
جو بھی غرق بادۂ حق ہوا غم این و آں سے گزر گیا

کبھی شہر حسن خیال سے کبھی دشت حزن و ملال سے
ترے عشق میں تیرے پیار میں میں کہاں کہاں سے گزر گیا

تری رہ گزر مری رہ گزر ترے نقش پا مری راہ پر
تو جہاں جہاں سے گزر گیا میں وہاں وہاں سے گزر گیا

رہ زندگی میں مقام وہ مجھے بارہا ملے دوستو
کہ خرد کا پاؤں پھسل گیا ہے جنوں جہاں سے گزر گیا

مرا جسم کیا مری روح کیا نہیں کوئی زخموں کی انتہا
اے امیرؔ تیر نگاہ حسن کہاں کہاں سے گزر گیا
.....
وقار بجنوری
رہ کہکشاں سے گزر گیا ہمہ این و آں سے گزر گیا
کوئی بزم ناز و نیاز میں میں حد و کماں سے گزر گیا

نہ کوئی جہاں سے گزر سکے یہ وہاں وہاں سے گزر گیا
ترے عشق میں دل مبتلا ہر اک امتحاں سے گزر گیا

ترے عشق سینہ فگار کا یہ شعور قابل داد ہے
وہی تیر دل سے لگا لیا جو تری کماں سے گزر گیا

ترے حسن سجدہ نواز کا یہ کرم جبین نیاز پر
کہ ملے حرم ہی حرم مجھے میں جہاں جہاں سے گزر گیا

مرے ناصحا ترا شکریہ مرے حال پر مجھے چھوڑ دے
جو تری زمیں پر محیط ہے میں اس آسماں سے گزر گیا

یہ نظام بزم حیات کا ابھی خلفشار کی نذر تھا
وہ تو شکر ہے کہ فسانہ خواں مری داستاں سے گزر گیا

رہے قید و بند کی لذتیں کہ اذیتیں بھی ہیں راحتیں
میں قفس میں آتے ہی سرحد غم آشیاں سے گزر گیا

نہ وقارؔ دیر سے واسطہ نہ حرم سے مجھ کو کوئی غرض
کسی بے نشاں کی تلاش میں میں ہر اک نشاں سے گزر گیا
....



مقبول نقش
تری جستجو میں بتاؤں کیا ، میں کہاں کہاں سے گزر گیا
کہیں دل کی دھڑکنیں رُک گئیں، کہیں وقت جیسے ٹھہر گیا

ترے غم کی عمر دراز ہو، مرا فن اسی سے سنور گیا
یہی درد بن کے چمک گیا، یہی چوٹ بن کے اُبھر گیا

یہ تو اپنا اپنا ہے حوصلہ ، کہیں عزم اور کہیں گِلہ
کوئی بارِ دوشِ زمیں رہا، کوئی کہکشاں سے گزر گیا

یہ اختلافِ مذاق ہے، یہی فرقِ وصل و فراق ہے
کوئی پائمالِ نشاط ہے، کوئی غم بھی پا کے سنور گیا

ترا لطف ہو کہ تری جفا، مِرے غم کی یہ تو نہیں دوا
مجھے اب تو اپنی تلاش ہے، میں تری طلب سے گزر گیا

وہ اُمنگ اور وہ ہما ہمی، جسے نقشؔ کہتے ہیں زندگی
دلِ نامُراد کے دَم سے تھی، دلِ نامُراد تو مر گیا

0 comments:

Post a Comment