تاریخ کے اوراق سے

اگست15 کو آسٹریا کے رفیق جرمنی کی فوجیں ہالینڈ ، بیلجیم کے ممالک کو روندتی ہوئی فرانس کی سرزمین تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھیں۔جرمنوں نے فرانس پر حملہ آور ہونے کے لیے جو منصوبہ تیار کیا تھا۔ اس میں یہ قرار پایا تھا کہ فرانس کے شمالی ساحل کے ساتھ ساتھ ہو کر فرانس کے دارلخلافہ پیرس پر اس طرح حملہ کیا جائے جیسے پھیلے ہوئے بازو کی درانتی وار کرتی ہے۔ فرانسیسی فوج کا اعلی کمان اس منصوبے کو بھانپ نہ سکا اور اس نے اپنی مشرقی سرحد پر سے جرمنوں پر 14 اگست کو حملہ کر دیا۔ یہ حملہ تدبیر و منصوبہ کے تحت نہیں ہوا تھا- لہٰذا جرمنوں نے جو پہلے ہی گھات لگائے بیٹھے تھے، ایک بھرپور وار کیا اور فرانسیسی واپس ہٹنے پر مجبور ہوگئے۔
Australian infantry.jpg
اس کے بعد جرمنوں نے اپنے حملے کی سکیم کو ، جسے شلفن منصوبہ کہتے ہیں اور جو 1905ء سے تیار پڑا تھا ۔ عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا۔ جلد ہی فرانس کے دارالحکومت کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ فرانس کی بدقسمتی سے اس وقت اس کی بے نظیر افواج کی قیادت جافرے کے ہاتھوں میں تھی۔ جو مدبر سپہ سالار ثابت نہ ہوا۔ انگریزوں کا جرنیل ہیگ بھی جرمنوں کے جرنیلوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ لہذا ایسا معلوم ہونے لگا کہ پیرس چند دنوں میں ہی ہار جائے گا۔ مگر عین اس وقت ایک ہوشمند فرانسیسی جرنیل گلینی نمودار ہوا۔ جس نے جرمنوں پر وہ کاری وار کیا کہ انھیں پریشانی کے عالم میں پیچھے ہٹتے ہی بنی۔ اس کے بعد جرمنوں کی پیش قدمی رک گئی اور آئندہ چار برسوں تک بھی تھوڑا جرمن بڑھ آتے تو کبھی فرانسیسی ۔ مگر انگریزوں نے کوئی خاص کارنمایاں انجام نہ دیا۔ نہ انھوں نے س وقت تک فاش جیسا جرنیل پیدا کیا تھا جس کے زیر قیادت اتحادیوں کو بالآخر فتح نصیب ہوئی ۔ نہ ان کے سپاہیوں نے وردن جیسی خونریز لڑائی لڑی جس میں فرانس کے 315000 آدمی بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔ جرمن جرنیلوں میں سب سے زیادہ نام جن اشخاص نے پایا وہ لوڈنڈارف اور ہنڈنبرگ تھے۔ فرانسیسی جرنیلوں میں فاش اور پتیان قابل ذکر ہیں۔ انگرزیوں میں لارڈ ایلن بائی ہے۔

پہلی عالمی جنگ بیسویں صدی کا پہلا بڑا عالمی تنازعہ تھا۔ اس تنازعے کی ابتدا ھبزبرگ آرکڈیوک ٖفرانز فرڈنینڈ کے قتل سے ہوئی جو اگست 1914 میں شروع ہوا اور اگلی چار دہائیوں تک مختلف محاذوں پر جاری رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادی قوتوں۔۔برطانیہ، فرانس، سربیا اور روسی بادشاہت (بعد میں اٹلی، یونان، پرتگال، رومانیہ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ بھی شامل ہو گئے)۔۔جرمنی اور آسٹریہ۔ہنگری پر مشتمل مرکزی قوتوں کے خلاف لڑیں جن کے ساتھ بعد میں سلطنت عثمانیہ کا مرکز ترکی اور بلغاریہ بھی شامل ہو گئے۔ جنگ کا ابتدائی جوش و جزبہ اس وقت ماند پڑ گیا جب لڑائی ایک انتہائی مہنگی اور خندقوں کی جنگ جیسی شکل اختیار کر گئی۔ مغربی محاذ پر خندقوں اور قلعہ بندیوں کا سلسلہ 475 میل تک پھیل گیا۔ مشرقی محاذ پر وسیع تر علاقے کی وجہ سے بڑے پیمانے کی خندقوں کی لڑائی ممکن نہ رہی لیکن تنازعے کی سطح مغربی محاذ کے برابر ہی تھی۔ شمالی اٹلی، بالکن علاقے اور سلطنت عثمانیہ کے ترکی میں بھی شدید لڑائی ہوئی۔ لڑائی سمندر کے علاوہ پہلی مرتبہ ہوا میں بھی لڑی گئی۔
پہلی عالمی جنگ جدید تاریخ کی سب سے زیادہ تباہ کن لڑائی تھی۔ اس جنگ میں تقریباً ایک کروڑ فوجی ہلاک ہو گئے۔ یہ تعداد اس سے پہلے کے ایک سو برس میں ہونے والی لڑائیوں کی مجموعی ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہے۔ اس جنگ میں دو کروڑ دس لاکھ کے لگھ بھگ افراد زخمی بھی ہوئے۔ ہلاکتوں کی اتنی بڑی تعداد کی وجہ مشین گن جیسے نئے ہتھیاروں کو متعارف کرانا اور گیس کے ذریعے کی گئی ہلاکتیں تھی۔ جنگ کے دوران یکم جولائی 1916 کو ایک دن کے اندر سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں جب سومے میں موجود برطانوی فوج کے 57 ھزار فوجی مارے گئے۔ سب سے زیادہ جانی نقصان جرمنی اور روس کو اُٹھانا پڑا جب جرمنی کے 17 لاکھ 73 ھزار 7 سو اور روس کے 17 لاکھ فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ فرانس کو اپنی متحرک فوج کے 16 فیصد سے محروم ہونا پڑا۔ محققین کے اندازے کے مطابق اس جنگ میں براہ راست یا بالواسطہ طور ہلاک ہونے والے غیر فوجی افراد کی تعداد ایک کروڑ تیس لاکھ ہے۔ اتنی بڑی ہلاکتوں کی وجہ سے "اسپینش فلو" پھیل گیا جو تاریخ کی سب سے موذی انفلوئنزا کی وباء ہے۔ لاکھوں کروڑوں افراد بے گھر ہو گئے یا اپنے گھروں سے بے دخل ہو گئے۔ جائیداد اور صنعتوں کا نقصان بہت خطیر تھا، خاص طور پر فرانس اور بیلجیم میں، جہاں لڑائی خاص طور پر شدید تھی۔
نومبر 11, 1918 کو صبح کے 11 بجے مغربی محاذ پر جنگ بند ہو گئی۔ اُس زمانے کے لوگ اس جنگ کو "جنگ عظیم" کے نام سے منصوب کرتے تھے۔ یہ بند ہو گئی لیکن اس کے اثرات بین الاقوامی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی حلقوں میں آنے والی کئی دہائیوں تک جاری رہے۔
[ترمیم]
اس جنگ میں ایک طرف جرمنی ، آسٹریا ، خنگری سلطنت ، ترکی اور بلغاریہ ، اور دوسری طرف برطانیہ ، فرانس ، روس ، اٹلی ، رومانیہ ، پرتگال ، جاپان اور امریکاتھے۔ 11 نومبر 1918ء کو جرمنی نے جنگ بند کردی ۔ اور صلح کی درخواست کی ۔28 جون 1919 کو فریقین کے مابین معاہدہ ورسائی ہوا۔ مسلمان دنیا پر اس کا بہت برا اثر پڑا۔چونکہ ترکی جرمنی کا اتحادی رہا اس لیے اسے اس جنگ کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ انگریزوں نے عربوں کو ترکوں کے خلاف جنگ پر اکسایا اس طرح مسلمانوں میں قومیت کی بنیاد پر جنگ لڑی گئی۔ اور ترکی کے بہت سے عرب مقبوضات ترکی سلطان کے ہاتھ سے چلے گئے۔ بعد میں انگریزوں نے ترکی پر بھی قبضہ کر لیا اور ترقی کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔ لیکن کمال اتاترک جیسی عظیم شخصیت نے برطانیہ اور یونان کو ایسا کرنے سے باز رکھا۔ اسی جنگ کے نتیجے میں مسلمانوں کی عظیم خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔ جنگ عظیم میں دونوں فریقوں کے تقریباً ایک کروڑ آدمی کام آئے اور دو کروڑ کے لگ بھگ ناکارہ ہوگئے۔
پہلی جنگ 95 برس پہلے نومبر کے مہینے میں ختم ھوئی تھی۔ مگر یہ جنگ آج بھی ظلم و برداشت کے داستانوں اور برداشت و رواداری کے جزبوں کو مزید کم سے کم تر کرتی چلی گئی۔ دنیا کے بیشتر اقوام اس جنگ میں آہستہ آہستہ حصہ بنتے گئے۔ اور یوں پوری دنیا اس جنگ کی آگ جھلستی چلی گئی۔ دنیا میں پہلی بار جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔ پہلی بار دنیا نے کیمیائی اور زہریلی گیس کا استعمال دیکھا۔ یہ انسانی تاریخ کی تباہ کن جنگ تھی۔ جس میں تقریباً 90 لاکھ مرد میدان جنگ میں ہلاک ھوئے۔ اور اتنے ہی افراد غربت ، بھوک اور بیماری کی نزر ھوگئے۔ تاریخ کے مطابق 19 ویں صدی کے آواخر میں یورپ میں اتحاد بننے لگے تھے۔ 1904 میں فرانس اور برطانیہ نے ایک معاہدہ کیا جو باقاعدہ اتحاد تو نہیں تھا۔ تاہم قریبی تعلقات کے لیے بے حد اہمیت کا حامل تھا۔ اسی طرح ایک معاہدہ برطانیہ اور روس کے مابین 1907 میں (TRIPLE ENTENTE) کے نام سے ایک معاہدہ ھوا تھا۔ جس میں روس ، فرانس اور برطانیہ شامل تھے۔ اب یورپ تقسیم ھوگیا۔ ایک طرف جرمنی ، آسٹریا ، ھنگری ، سربیا اور اٹلی جبکہ دوسری طرف روس ، فرانس اور برطانیہ تھے۔ جاپان بھی 1902 میں برطانیہ سے معاہدہ کر چکا تھا۔ اس لیے اس نے برطانیہ کی طرفداری کرتے ھوئے اعلان جنگ کیا۔ اسی خوف اور طاقت کے نشے میں دنیا کے بیشتر ممالک اس جنگ کا حصہ بنتے چلے گئے۔ پہلی عالمی جنگ بیسویں صدی کا پہلا بڑا تنازعہ تھا۔ اس تنازعے کی بظاہر ابتدا ایک قتل سے ھوئی۔ لیکن جنگ کے سائے کافی عرصے سے ان علاقوں پر منڈلا رھے تھے۔ لیکن اس کا باقاعدہ آغاز 1914 میں قتل کے بعد ھوا۔ پہلی جنگ عظیم جدید تاریخ کی سب سے زیادہ تباہ کن لڑائی تھی۔ اس جنگ میں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ ایک کروڑ فوجی بھی ہلاک ھوئے۔ ہلاکتوں کی اتنی تعداد اس وجہ سے تھی کیونکہ بری ، بحری اور فضائی لحاظ سے جدید سے جدید تر ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال ھوا۔ اس جنگ میں ایک طرف برطانیہ اوور اس کے حواری تھے۔ جبکہ دوسری طرف جرمنی اور ترکی کے آخری سلطان کی فوجیں صف آرا تھیں۔ اس جنگ میں جانی اور مالی لحاظ سے اتنا نقصان ھوا۔ کہ دنیا کی تاریخ میں اسکی مثال مشکل سے ملے گی۔ بلکہ اگر یہ کھا جائے تو غلط نہ ھوگا۔ کہ دنیا میں اس جنگ سے پہلے کی جتنی اموات ھوئی تھیں ، کو اگر ایک طرف رکھاجائے اور اس جنگ میں جتنی اموات ھوئیں۔ یہ اموات اُن تمام جنگوں سے زیادہ تھیں۔ پہلی عالمی جنگ میں دو کروڑ سے زیادہ افراد ہلاک ، لاکھوں غربت ، بھوک ، بیماریوں کی نزر ھوگئےتھے۔ ان تمام میں ہلاک فوجیوں کی تعداد الگ تھی۔ جوکہ ایک کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ پہلی عالمگیر جنگ اس بات کی غمازھے۔ کہ دنیا چاہے جتنی بھی ترقی کرے۔ اور انسان جتنا بھی اپنے آپ کو مہذب کہلائے، وہ نظریئے اور زہنیت سے اب بھی ایک وحشی درندے سے کم نہیں۔ اور اُس نے اکثر مواقع پر یہ بات ثابت کی ہے۔ پچھلی صدی کی یہ جنگ عالمی امن و برداشت کے لیے کام کرنے والے لوگوں اور اس نظریئے کے لیے ایک زہر قاتل کی حثیت رکھتی ہے۔ انسان اب بھی اگر عالمی امن وبرداشت کے حوالے سے کوئی قدم اٹھاتا ہے۔ تو اُسے اپنے اسلاف اور آباواجداد کے ہاتھوں لڑی گئی اس جنگ کی طرف بھی ایک بار دیکھنا پڑتاھے۔ کیونکہ مہذب دنیا کے منہ پریہ جنگ ایک زوردار تمانچہ ہے








ہلاکو خان کی بیٹی اورایک مسلمان عالم کادلچسپ مکالمہ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بیان کیا جاتا ہے کہ بغداد پر تاتاری فتح کے بعد، ہلاکو خان کی بیٹی بغداد میں گشت کررہی تھی کہ ایک ہجوم پر اس کی نظر پڑی۔ پوچھا گیا لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہیں؟ جواب آیا: ایک عالم کے پاس کھڑے ہیں۔ دخترِ ہلاکو نے عالم کو اپنے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا۔ عالم کو تاتاری شہزادی کے سامنے لا حاضر کیا گیا۔
شہزادی مسلمان عالم سے سوال کرنے لگی: کیا تم لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے...؟
عالم: یقیناً ہم ایمان رکھتے ہیں.
شہزادی: کیا تمہارا ایمان نہیں کہ اللہ جسے چاہے غالب کرتا ہے..؟
عالم: یقیناً ہمارا اس پر ایمان ہے۔
شہزادی: تو کیا اللہ نے آج ہمیں تم لوگوں پر غالب نہیں کردیا ہے..؟
عالم: یقیناً کردیا ہے۔
شہزادی: تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ خدا ہمیں تم سے زیادہ چاہتا ہے؟
عالم: نہیں
شہزادی: کیسے؟
عالم: تم نے کبھی چرواہے کو دیکھا ہے؟
شہزادی: ہاں دیکھا ہے.
عالم: کیا اس کے ریوڑ کے پیچھے چرواہے نے اپنے کچھ کتے بھی رکھ چھوڑے ہوتے ہیں...؟
شہزادی: ہاں رکھے ہوتے ہیں۔
عالم: اچھا تو اگر کچھ بھیڑیں چرواہے کو چھوڑ کو کسی طرف کو نکل کھڑی ہوں، اور چرواہے کی سن کر دینے کو تیار ہی نہ ہوں، تو چرواہا کیا کرتا ہے..؟
شہزادی: وہ ان کے پیچھے اپنے کتے دوڑاتا ہے تاکہ وہ ان کو واپس اس کی کمان میں لے آئیں۔
عالم: وہ کتے کب تک ان بھیڑوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں..؟
شہزادی: جب تک وہ فرار رہیں اور چرواہے کے اقتدار میں واپس نہ آجائیں۔
عالم: تو آپ تاتاری لوگ زمین میں ہم مسلمانوں کے حق میں خدا کے چھوڑے ہوئے کتے ہیں، جب تک ہم خدا کے در سے بھاگے رہیں گے اور اس کی اطاعت اور اس کے منہج پر نہیں آجائیں گے، تب تک خدا تمہیں ہمارے پیچھے دوڑائے رکھے گا، تب تک ہمارا امن چین تم ہم پر حرام کیے رکھوگے؛ ہاں جب ہم خدا کے در پر واپس آجائیں گے اُس دن تمہارا کام ختم ہوجائے گا۔




دوسری جنگِ

دوسری جنگِ عظیم میں 61 ملکوں نے حصہ لیا۔ ان کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا 80 فیصد تھی۔ اور فوجوں کی تعداد ایک ارب سے زائد۔ تقریباً 40 ملکوں کی سرزمین جنگ سے متاثر ہوئی۔ اور 5 کروڑ کے لگ بھگ لوگ ہلاک ہوئے۔ سب سے زیادہ نقصان روس کا ہوا۔ تقریباً 2 کروڑ روسی مارے گئے۔ اور اس سے اور کہیں زیادہ زخمی ہوئے۔ روس کے 1710 شہر اور قصبے ۔ 70000 گاؤں اور 32000 کارخانے تباہ ہوئے۔ پولینڈ کے 600،000 ، یوگوسلاویہ کے 1700000 فرانس کے 600000 برطانیہ کے 375000 ، اور امریکا کے 405000 افراد کام آئے۔ تقریباً 6500000 جرمن موت کے گھات اترے اور 1600000 کے قریب اٹلی اور جرمنی کے دوسرے حلیف ملکوں کے افراد مرے۔ جاپان کے 1900000 آدمی مارے گئے۔ جنگ کا سب سے ظالمانہ پہلو ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا ایٹمی حملہ تھا۔ جاپان تقریباً جنگ ہار چکا تھا لیکن دنیا میں انسانی حقوق کے ٹھیکے دار امریکہ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔






چنگیز خان


چنگیز خان کوتاریخ میں بہت ہی ظالم اور جابر حکمران کے نام سے یاد کیا جاتا ہے لیکن حال ہی میں کی گئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایشیاءکے 16فیصد لوگوں میں وہی کروموسوم پایا گیا ہے جو کہ چنگیز خان میں تھا۔1227ءمیں فوت ہونے والے منگولین بادشاہ نے ظلم و بربریت کی کئی داستانیں چھوڑیں اور جہاں بھی گیا وہاں لوگوں کی زندگیاں ہی ختم کردیں۔


تجارتی قافلہ لوٹنے والے گورنر کو چنگیز خان نےکیا سزا دی؟جان کر آپ کانپ اٹھیں گے
برطانوی ماہر جنیات کریس ٹیلر سمتھ نے اپنی 2003ءمیں چنگیز خان اور اس کی وراثت پر کی گئی تحقیق میں کہا ہے کہ ایشاءکی 16فیصد آبادی یعنی 0.5فیصددنیا کے مردوں میں چنگیز خان کے کروموسومز سے ملتے جلتے Yکروموسومز ملے ہیں۔اس کا کہنا تھا کہ ان کے کرموسومز میں جو چیز مشترک تھی وہ یہ ہے کہ ان کی شروعات تقریباًایک ہزار سال قبل منگولیا سے ہوئی تھی۔ایک اور برطانوی ماہر جنیات مارک جابلنگ جنہوں نے حال ہی میں اس سے ملتی جلتی تحقیق کی ہے نے کہا ہے کہ چنگیز خان بے شمار بچے بچوں کا باپ تھا اور یہ بات سامنے آئی کہ موجودہ ایشیائی آبادی میں چنگیز خان کا DNAموجود ہے۔اس کا کہنا تھا چنگیز خان کے علاوہ دو اور لوگ ایسے ہیں جن کے کروموسومز آج بھی لوگوں میں پائے جاتے ہیں ان میں ایک چینی بادشاہGiocanggaہے جس کا انتقال 1582ءمیں ہوا اور ایک آئرلینڈ کی Uí Néill ملوکیت کا بادشاہ تھا۔
جابلنگ نے اپنی تحقیق میں ایشیاءکی 127مختلف قوموں سے پانچ ہزار لوگوں کے کروموسومز کا مطالعہ کیا ۔تحقیقاتی ٹیم نے مشاہدہ کیا کہ ان میں 11کروموسومز کے تو ملتے جلتے ہیں اور مزید تحقیق سے علم ہوا کہ ان تمام افراد کے والدین ایک مخصوص علاقہ میں رہتے تھے اور ان کے مشترکہ والدین میں چنگیز خان اور Giocangga کی وراثت پائی گئی

1 comments: