کچھ شاعروں کے بارے میں


مولانا ظفر علی خان

٭27 نومبر 1956ء کو مولانا ظفر علی خان نے وفات پائی۔
مولانا ظفر علی خان 1873ء میں ضلع سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے گائوں کوٹ میرتھ میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب علی گڑھ اہل علم سے بھرا ہوا تھا۔ سرسید، شبلی، حالی سبھی اس سے وابستہ تھے اس فضا نے ظفر علی خان کے فکری ارتقا میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔1909ء میں مولانا ظفر علی خان وطن واپس لوٹ آئے۔ اسی زمانے میں ان کے والد مولوی سراج الدین احمد نے اپنے وطن کرم آباد سے ایک ہفت روزہ اخبار زمیندار کے نام سے جاری کیا۔والد کی وفات کے بعد مولانا نے زمیندار کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔1911ء میں وہ زمیندار کو لے کر لاہور آگئے۔ یہاں انہیں ایک بہت بڑا ادبی حلقہ میسر آیا اور یہیں سے ظفر علی خان کی ادبی اور صحافیانہ زندگی اپنے نقطہ ٔ عروج کو پہنچی۔
مولانا ظفر علی خان آزادی تحریر و تقریر کے بہت بڑے مجاہد تھے۔ ان کے اخبار زمیندار کی ضمانت کئی مرتبہ ضبط ہوئی۔کئی مرتبہ اخبار بھی بند ہوا۔ متعدد مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں مگر مولانا کے ثبات قدم میں لغزش نہیں آئی۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا کی سیاست میں ایک ٹہرائو پیدا ہوگیا۔
27 نومبر 1956ء کو مولانا ظفر علی خان انتقال کر گئے۔



مشاہدات زنداں : مولانا حسرت موہانی کی آپ بیتیمشاہدات زنداں : مولانا حسرت موہانی کی آپ بیتی تحریر:انور محمود خالد ”مشاہدات زنداں“ مولانا حسرت موہانی کی آپ بیتی ہے جو ”قید فرنگ‘’ کے نام سے مشہور ہے ۔ اردو کی خود نوشت مختصر سوانح عمریوں میں غالباً یہ سب سے زیادہ مقبول آپ بیتی ہے ، کیونکہ اس میں اردو کے ایک مشہور شاعر، سیاست دان اور صحافی نے اپنی ایک سالہ اسیری کی روداد بیان کی ہے ۔ اپنے رسالہ ماہنامہ ”اردوئے معلی“ کے شمارہ دسمبر 1909 میں اس آپ بیتی کی پہلی قسط شائع کرتے ہوئے مولانا حسرت موہانی نے اپنے نوٹ میں وضاحت کی کہ ”23جون 1908 سے 19جون 1909 تک، بزمان? قید فرنگ، جو کچھ راقم الحروف نے دیکھا یا سنا، اس کے شائع کرنے کا، بہ بوجوہ، چنددرچند، ارادہ نہ تھا لیکن بعض احباب کے اصرار سے مجبور ہوکر اب یہ قصد کرلیا گیا ہے کہ مندرجہ بالا عنوان کے کم از کم دلچسپ واقعات اور حالات ہر ماہ درج رسالہ ہوا کریں۔“ حسرت موہانی کی اسیری کی یہ داستان ”اردوئے معلی“ کے شمارہ جنوری 1910 تک مسلسل شائع ہوتی رہی اور یہ تیرہ قسطوں میں مکمل ہوئی۔ عتیق صدیقی نے اپنی کتاب ”حسر ت موہانی: قید فرنگ میں“ جو انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی کے زیراہتمام 1982میں شائع ہوئی…. میں بتایا ہے کہ رسالہ اردوئے معلی میں ”مشاہدات زنداں“ کی اشاعت کے بعد اس کا ایک ایڈیشن غالباً 1918 میں کتابی شکل میں بھی شائع ہوا تھا لیکن وہ نسخہ انھیں دستیاب نہ ہوسکا، البتہ حسرت موہانی کے انتقال کے بعد نیاز فتح پوری نے اسے ماہنامہ ”نگار“ لکھنوٴ کے شمارہ جون 1952 میں پھر شائع کیا اور وہیں سے اخذ کرکے ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے کراچی سے 1976میں شائع ہونے والے اپنے ماہنامہ ”نگار“کے حسرت نمبر میں چھاپا۔ عتیق صدیقی نے بھی اپنی کتاب ”حسرت موہانی:قید فرنگ میں“ میں ”مشاہدات زنداں“کو اردوئے معلیٰ کی تیرہ اشاعتوں سے نقل کرکے 56 صفحات میں سمیٹ لیا ہے ۔ انھوں نے بتایا ہے کہ مشاہدات زنداں….. حسرت کی پہلی ”جیل یاترا“ کے تجربات کی ہیبت ناک داستان ہے جو زبان و بیان کے اعتبار سے ادبی اہمیت کی اور مواد کے اعتبار سے تاریخی نوعیت کی ہے لیکن یہ افسوس ناک ہے کہ عالمی زندانی ادب میں یا کم از کم ہندوستانی زندانی ادب میں اسے وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا جس کی وہ مستحق ہے ۔ حسرت نے اپنی قیدوبندکی زندگی کا ایک سال جس حال میں بسر کیا تھا اور اس کے دوران ان سے جو وحشیانہ سلوک کیا گیا تھا، اس کو حسرت نے اگرچہ کچھ حد تک تفصیل کے ساتھ ”مشاہدات زنداں“ میں قلم بند کیا ہے لیکن ان کے انداز بیان کا یہ پہلو خصوصیت سے قابل توجہ ہے کہ اس میں کسی جگہ بھی بغض و عناد کا شائبہ نظر نہیں آتا۔“ مولانا حسرت موہانی نے آغاز داستان میں خود بتایا ہے کہ انگریزی حکومت نے انھیں 23 جون 1908 کو اپنے رسالہ ”اردوئے معلی“ میں ایک مضمون شائع کرنے پر بغاوت کے جرم میں گرفتار کیا اور مقدمہ چلا کر دو سال قید با مشقت اور پچاس روپئے جرمانہ کی سزا سنائی۔ اپیل کرنے پر ان کی سزا ایک سال رہ گئی اور جرمانہ کی رقم ان کے بھائی نے ادا کردی۔ گرفتاری کے وقت ان کی شیرخوار بیٹی نعیمہ بے حد علیل تھی اور گھر پر والدہ نعیمہ اور ایک خادمہ کے سوا اور کوئی موجود نہ تھا، لیکن اس موقع پر ان کی اہلیہ نشاط النساء نے بے حد حوصلہ مندی، استقامت اورجرأت کا مظاہرہ کیا اور گرفتاری کے اگلے روز ہی سپرنٹنڈنٹ جیل کے ذریعے سے انھیں ایک خط لکھا جس میں حسرت موہانی کا یہ کہہ کر حوصلہ بڑھایا کہ:”تم پر جو افتاد پڑی ہے ، اسے مردانہ وار برداشت کرو۔ میرا یا گھر کا مطلق خیال نہ کرنا۔ خبردار، تم سے کسی قسم کی کمزوری کا اظہار نہ ہو۔“ مولانا حسرت موہانی نے ”مشاہدات زنداں“ میں جیل کی زندگی کا ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ اس سے قیدیوں پر ہونے والے مظالم اور ان کی بے بسی کی المناک تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”حوالات میں داخل ہونے پر گرفتار ان زنداں کو سب سے زیادہ افسوس ناک نظارہ حوالاتیوں کی حالت زار کا نظر آتا ہے کہ ادنیٰ ملازمین جیل، ناجائز حصول زر کی غرض سے ان کی تذلیل کا کوئی وقیقہ اٹھا نہیں رکھتے ۔ بہت سے لوگ ان میں ناکردہ گناہ پولیس کا شکار اور پہلے ہی سے مظلوم ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ سنگ دلی کا یہ قابل نفرین برتاوٴ دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بعض لوگوں پر بلا ثبوت کافی، محض اس لیے مقدمے قائم تھے کہ انھیں سزا نہ بھی ہو تو کم از کم حوالات میں رہ کر ان کی آبرو تو خاک میں مل جائے گی۔ خود حسرت موہانی کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ ”تقریباً چالیس روز کی کش مکش اور بیکار طوالت کے بعد آخر کار مقدمہ کا وہی فیصلہ ہوا جو اس قسم کے مقدمات میں ہمیشہ ہوا کرتا ہے ، یعنی 4اگست 1908 سے قید سخت کا آغاز اس طور پر ہوا کہ کچہری سے جیل واپس پہنچتے ہی ایک لنگوٹ، جانگیا اور ایک کرتا، ٹوپی، پہننے کے لیے ایک ٹکڑا ٹاٹ اور ایک کمبل بچھانے اوڑھنے کے لیے اور ایک قدح آہنی بڑا اور ایک چھوٹا، جملہ ضروریات کو رفع کرنے کی غرض سے مرحمت ہوا۔ ان چند چیزوں کے سوا قیدیوں کو اور کوئی شے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔“ قید کے پہلے روز سے ہی حسرت موہانی کو چکی کی مشقت کا سامنا کرنا پڑا جس کی طرف انھوں نے اپنے مشہور شعر میں یوں اشارہ کیا ہے : ہے مشق سخن جاری، چکی کی مشقت بھی اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی انھیں روزانہ ایک من گندم پیسنے کی اذیت ناک سزا دی گئی جو یوں تو ایک دو ماہ کے بعد ختم ہوجانی چاہیے تھی لیکن ایک سیاسی قیدی کو زیادہ سے زیادہ تکلیف پہنچانے کے لیے جیل کے حکام نے ، بالائی اشارے پر پورے سال ان سے چکی کی مشقت کرائی۔ حسرت موہانی نے اْف تک نہ کی اور ہر روز صبح سے شام تک، حتیٰ کہ رمضان المبارک کے مہینے میں بھی وہ ایک من گندم جیل کی بھاری بھر کم چکی سے ، اپنے ہاتھوں پیستے رہے ، حالانکہ پڑھے لکھے قیدیوں سے نسبتاً ہلکی مشقت بھی لی جاتی تھی۔ مثلاً ان سے لکھنے پڑھنے کی کوئی خدمت لینا اس زمانے کا عام معمول تھا۔ مولانا حسرت موہانی نے جیل کے اندر، قیدیوں کو فراہم کیے جانے والے گھٹیا لباس، ان کی مضر صحت خوراک، ان کی تکلیف دہ جائے رہائش اور ان کے روزمرہ کے قابل رحم معمولات کا جو نقشہ کھینچا ہے ، اس سے جیل کی زندگی، جیتے جی، جہنم کا ایک نمونہ نظر آتی ہے ۔ البتہ اس آپ بیتی کا سب سے جاندار حصہ وہ ہے جس میں مولانا حسرت موہانی نے اپنے جیل کے قیدی ساتھیوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ ان میں سیاسی زعما، اخلاقی مجرم، جیل کے نچلے اور بالائی عملے کے اراکین اور جیلوں کا معائنہ کرنے والے سرکاری حکام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان میں بے حد دلچسپ کردار بھی ہیں۔ جلاد صفت جیلر اور ڈپٹی جیلر بھی اور ہمدرد قیدی، سیاست دان اور معائنہ کرنے والے بعض اعلیٰ حکام بھی۔ علاوہ ازیں مولانا نے عام قیدیوں اور گورے یایورشین قیدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے دوہرے امتیازی سلوک کی روداد بھی بیان کی ہے اور عام ملکی قیدیوں کے ساتھ ناروابرتاوٴ اور گوروں کو ہر قسم کی سہولیات بہم پہنچانے کے فرق کو واضح کیا ہے ۔ اردو کے زندانی ادب میں حسرت موہانی کی یہ خودنوشت سوانح عمری، مختصر ہونے کے باوجود، جیلوں کے بارے میں گہرے اور سچے مشاہدات پیش کرنے کی وجہ سے ہمیشہ یادگار رہے گا۔ (بشکریہ ”مخزن“ لاہور، جلد 6- شمارہ 12)





فیض احمد فیض کی پیدائش
فیض احمد فیضؔ


٭13 فروری 1911ء اردو کے خوب صورت لب و لہجے والے شاعر فیض احمد فیض کی تاریخ پیدائش ہے۔
فیض احمد فیض سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ بلاشبہ اس عہد کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ ایسے شاعر اور ایسے انسان روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ انہوں نے ساری زندگی ظلم، بے انصافی اور جبر و استبداد کے خلاف جدوجہد کی اور ہمیشہ شاعر کا منصب بھی نبھایا۔ وہ اردو شاعری کی ترقی پسند تحریک کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ ان کی فکر انقلابی تھی، مگر ان کا لہجہ غنائی تھا۔ انہوں نے اپنی غیر معمولی تخلیقی صلاحیت سے انقلابی فکر اور عاشقانہ لہجے کو ایسا آمیز کیا کہ اردو شاعری میں ایک نئی جمالیاتی شان پیدا ہوگئی اور ایک نئی طرز فغاں کی بنیاد پڑی جو انہی سے منسوب ہوگئی۔
فیض نے اردو کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرایا اور انہی کی بدولت اردو شاعری سربلند ہوئی۔ فیض نے ثابت کیا کہ سچی شاعری کسی ایک خطے یا زمانے کے لئے نہیں بلکہ ہر خطے اور ہر زمانے کے لئے ہوتی ہے۔
نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سروادی سینا، شام شہریاراں اور مرے دل مرے مسافر ان کے کلام کے مجموعے ہیں اور سارے سخن ہمارے اور نسخہ ہائے وفا ان کی کلیات۔ اس کے علاوہ نثر میں بھی انہوں نے میزان، صلیبیں مرے دریچے میں، متاع لوح و قلم، ہماری قومی ثقافت اور مہ و سال آشنائی جیسی کتابیں یادگار چھوڑیں۔
فیض احمد فیض20 نومبر 1984ء کووفات پاگئے اور لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔








کلیم عثمانی کی پیدائش
Feb 28, 1928
اردو کے ممتاز شاعر اور ملی و فلمی نغمہ نگار کلیم عثمانی کی تاریخ پیدائش 28 فروری 1928ء ہے۔
کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا اور وہ دیوبند ضلع سہارنپور میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد کلیم عثمانی نے لاہور میں اقامت اختیار کی اور احسان دانش سے اصلاح لینی شروع کی۔ 1955ء میں انہوں نے کراچی میں بننے والی فلم انتخاب سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم کے موسیقار فیروز نظامی تھے۔اس کے بعد انہوں نے ہمایوں مرزا کی فلموں بڑا آدمی، راز، دھوپ چھائوں کے نغمے لکھے۔فلم راز کے لئے تحریر کردہ ان کا نغمہ میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا بے مقبول ہوا۔ یہ نغمہ زبیدہ خانم نے گایاتھا اور اس کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی تھی۔
1966ء میں فلم ہم دونوں میں ان کی غزل ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا نے ان کی شہرت کو بام عروج پر پہنچادیا۔یہ گیت رونا لیلیٰ نے گایا تھا اور اس کی موسیقار نوشاد نے ترتیب دی تھی۔ بعدازاں کلیم عثمانی لاہور منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے متعدد فلموں میں مقبول گیت تحریر کئے۔جن میں ان کی اس زمانے کی فلموں میں عصمت، جوش انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب، نازنین، دوستی، بندگی، نیند ہماری خواب تمہارے اور چراغ کہاں روشنی کے نام شامل ہیں۔ 1973ء میں انہوں نے فلم گھرانہ کے گیت تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا اور 1978ء میں فلم زندگی کے گیت تیرے سنگ دوستی ہم نہ چھوڑیں کبھی پر نگار ایوارڈ حاصل کئے۔ فلم فرض اور مامتا میں انہوں نے ایک ملی گیت ’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘ تحریر کیا۔ روبن گھوش کی موسیقی اور نیرہ نور اور ساتھیوں کی آواز میں گایا ہوا یہ گیت آج بھی بے حد مقبول ہے۔ اس کے علاوہ ان کا تحریر کردہ ایک اور ملی نغمہ ’’یہ وطن تمہارا ہے ، تم ہو پاسباں اس کے‘‘ کا شمار بھی پاکستان کے مقبول ملی نغمات میں ہوتا ہے۔
کلیم عثمانی کی غزلیات کا مجموعہ دیوار حرف اور نعتیہ مجموعہ ماہ حرا کی نام سے شائع ہوا تھا۔ 28 اگست 2000ء کو کلیم عثمانی، لاہور میں وفات پاگئے اور لاہور ہی میں علامہ اقبال ٹائون میں کریم بلاک کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
’’یہ وطن تمہارا ہے ، تم ہو پاسباں اس کے‘‘

’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘






محمد دین تاثیر کی پیدائش
Feb 28, 1902
28 فروری 1902ء اردو کے ایک معروف ادیب‘ شاعر‘ نقاد اورماہر تعلیم ڈاکٹر محمد دین تاثیر کی تاریخ پیدائش ہے۔
ڈاکٹر تاثیرقصبہ اجنالہ امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ایم اے تک تعلیم لاہور سے حاصل کی اور پھر کیمبرج سے انگریزی میں پی ایچ ڈی کیا‘ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے ہندوستانی تھے۔ ڈاکٹر تاثیر ایک طویل عرصے تک درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔ وفات کے وقت وہ اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل تھے۔
وہ ایک اچھے غزل گو تھے۔ ان کا ایک مشہور شعر ہے:
داور حشر! مرا نامہ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
ڈاکٹر تاثیر اردو میں آزاد نظم کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ان کی شاعری کا مجموعہ آتش کدہ اور نثری مجموعے مقالات تاثیر اور نثر تاثیر کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔
30 نومبر 1950ء کوڈاکٹر محمد دین تاثیر نے وفات پائی










نسیم امروہوی کی وفات
Feb 28, 1987
اردو کے نامور مرثیہ نگار شاعر اور ماہر لسانیات جناب نسیم امروہوی کا اصل نام سید قائم رضا نقوی تھا اور وہ 24 اگست 1908ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا گھرانہ علمی اور مذہبی حوالے سے امروہہ میں ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ نسیم امروہوی نے عربی اور فارسی کے علاوہ منطق، فلسفہ، فقہ، علم الکلام، تفسیر، حدیث اور ادبیات کے تحصیل کی۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پہلے خیرپور میں اور پھر کراچی میں اقامت اختیار کی۔
نسیم امروہوی غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی، گیت اور نظم سبھی اصناف پر عبور رکھتے تھے لیکن ان کی اصل شناخت مرثیہ نگاری ہے۔انہوں نے اپنا پہلا مرثیہ 1923ء میں کہا تھا۔ ان کے کہے ہوئے مراثی کی تعداد 200 سے زائد ہے۔
وہ لسانیات پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے، وہ ایک طویل عرصے تک ترقی اردو بورڈ میں اردو لغت کے مدیر کی حیثیت سے وابستہ رہے اس کے علاوہ انہوں نے نسیم اللغات اور فرہنگ اقبال بھی مرتب کیں۔
28 فروری 1987ء کو جناب نسیم امروہوی کراچی میں وفات پاگئے۔
نسیم امروہوی کراچی میں مسجد آل عبا کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔






حبیب جالب کی وفات

Mar 13, 1993
پاکستان کے نامور عوامی اور انقلابی شاعر حبیب جالب 24 مارچ 1928ء کو میانی افغاناں، ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔
حبیب جالب کا اصل نام حبیب احمد تھا۔ انہوں نے زندگی بھر عوام کے مسائل اور خیالات کی ترجمانی کی اور عوام کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہے۔ 1962ء میں انہوں نے صدر ایوب خان کے آئین کے خلاف اپنی مشہور نظم دستور تحریر کی جس کا یہ مصرع ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا پورے ملک میں گونج اٹھا۔ بعدازاں انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی مہم میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ سیاسی اعتبار سے وہ نیشنل عوامی پارٹی کے مسلک سے زیادہ قریب تھے اور انہوں نے عمر کا بیشتر حصہ اسی پارٹی کے ساتھ وابستہ رہ کر بسر کیا۔انہوں نے ہر عہد میں سیاسی اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی جس کی وجہ سے وہ ہر عہد میں حکومت کے معتوب اور عوام کے محبوب رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں ان کی نظم لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو، ضیاء الحق کے دور میں ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا اور بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کی نظم وہی حالات ہیں
فقیروں کے، دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
نے پورے ملک میں مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی۔
ان کے شعری مجموعوں میں برگ آوارہ، سرمقتل، عہد ستم، حرف حق، ذکر بہتے خون کا، عہد سزا، اس شہر خرابی میں، گنبد بے در، گوشے میں قفس کے، حرف سر دار اور چاروں جانب سناٹا شامل ہیں۔
حبیب جالب نے کئی معروف فلموں کے لئے بھی نغمہ نگاری کی جن میں مس 56، ماں بہو اور بیٹا، گھونگھٹ، زخمی، موسیقار، زمانہ، زرقا، خاموش رہو، کون کسی کا، یہ امن، قیدی، بھروسہ، العاصفہ، پرائی آگ، سیما، دو راستے، ناگ منی، سماج اور انسان شامل ہیں۔ انہیں انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے اعلیٰ اعزازات پیش کئے تھے۔ کراچی پریس کلب نے انہیں اپنی اعزازی رکنیت پیش کرکے اپنے وقار میں اضافہ کیا تھا اور ان کی وفات کے بعد 2008ء میں حکومت پاکستان نے انہیں نشان امتیاز کا اعزاز عطا کیا تھا جو خود اس اعزاز کے لئے باعث اعزاز تھا۔
13 مارچ 1993ء کو حبیب جالب لاہور میں وفات پاگئے اور قبرستان سبزہ زار اسکیم میں آسودۂ خاک ہوئے۔






شبنم شکیل:خدا حافظ مرے اے ہم نشینو

دو مارچ 2013ء کی شام اردو دان طبقے کے لیے شام الم ثابت ہوئی ۔اس شام کراچی میں عالمی شہرت کی حامل نامور پاکستانی ادیبہ ،ماہر تعلیم اور شاعرہ شبنم شکیل نے داعیء اجل کو لبیک کہا ۔علم وادب کا وہ تابندہ ماہ منیر جو لاہور میں سید عابد علی عابد کے گھر میں بارہ مارچ 1942کو طلوع ہواپوری دنیا میں اپنی چاندنی بکھیرنے کے بعد عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گیا ۔
اسلام آباد میں واقع F-11کے شہر خموشاں کی زمین نے اردو ادب کے اس آسمان کو اپنے دامن میں ہمیشہ کے لیے چھپا لیا۔شبنم شکیل کی وفات سے اردو شاعری تانیثیت کے ایک دبنگ لہجے کی حامل شاعرہ سے محروم ہو گئی ۔شعبہ تعلیم و تدریس سے ایک عظیم ماہر تعلیم و ماہر نصاب رخصت ہو گئی۔دنیا بھر کی خواتین کے حقوق کے لیے جد و جہد کرنے والی ایک فعال اور مستعد خاتون سماجی کارکن نے داغ مفارقت دیا۔سلطانی ء جمہور کے لیے کام کرنے والی حریت فکر کی ایک توانا آواز ہمیشہ کے لیے خا موش ہو گئی۔زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس رکھنے والی روشن دماغ اور بلند خیال ادیبہ سے فرشتہ ء اجل نے قلم چھین لیا۔اردو شاعری کو زبان و بیان کی ندرت اور پاکیزگی سے ثروت مند بنانے والی زیرک ،فعال ،فطین اور مستعد تخلیق کار دیکھتے ہی دیکھتے ہماری محفل سے رخت سفر باندھ کر جادہ ء راہ فنا پر گامزن ہو گئیں۔زندگی کی درخشاں روایات اور اقدار عالیہ کی باوقار اور بلند حوصلہ محافظ آج ہمارے درمیان موجود نہیں ۔ارد وادب میںصداقت نگاری ،حقیقت نگاری ،حق گوئی و بے باکی کو زندگی بھر اپنا مطمح نظر بنانے والی ادیبہ جس کی گل افشانی ء گفتار پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منو ا لیتی تھی چپکے سے راہ جہاں سے گزر گئی ۔اردو زبان و ادب کا ہنستا بولتا اور مسکراتا ہو ا چمن تقدیر کے ہاتھوں جان لیوا صدموں سے نڈھال ،مہیب سناٹوں کی زد میں آ گیا ہے ۔ان کی شاعری اندھیروں کی دسترس سے دور خورشید جہاں تاب کی شعاعوں کی طرح تا ابد روشنی کا سفر جاری رکھے گی ۔ دنیا بھر میں ان کی شاعری اور اسلوب کے سیکڑوں مداح اس وقت سکتے کے عالم میںہیں ۔اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے شبنم شکیل نے ایک غزل میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
تم سے رخصت طلب ہے مل جائو
کوئی اب جاں بہ لب ہے مل جائو
لوٹ کر اب نہ آ سکیں شاید
یہ مسافت عجب ہے مل جائو
دل دھڑکتے ہوئے بھی ڈرتا ہے
کتنی سنسان شب ہے مل جائو
کون اب اور انتظار کرے
ا تنی مہلت ہی کب ہے مل جائو
اس سے پہلے نہیں ہوا تھا کبھی
دل کا جو حال اب ہے مل جائو
فرشتہ ء اجل نے زمیں کو اہل کمال سے خالی کر دیا ہے ،یہ رنگ آسماں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔تقدیر کی پہچان ہی یہ ہے کہ اس کے چاک کو سوزن تدبیر سے کبھی رفو نہیں کیا جا سکتا ۔شبنم شکیل کی زندگی شمع کے مانند گزری ۔انھوں نے جا نگسل تنہائیوں میں علم و ادب کی محفل سجائے رکھی ،مہیب سناٹوں میں ان کا دبنگ لہجہ حوصلے اور امید کا نقیب ثابت ہوا ،ہولناک تاریکیوں میں ان کی شاعری ستارہ ء سحر بن کر اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کرتی رہی ۔ان کی وفات کی خبر سن کر ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار ہے ۔وہ کشف ذات کے مر حلے سے گزر رہی تھیں،انھوں نے اپنے نہ ہونے کی ہونی کے بارے میں کہا تھا :
میں پڑھ سکتی ہوں ان لکھے کواب بھی
یہ کشف ذات ہے یا اک سزا ہے
کوئی روکے روانی آنسوئوں کی
یہ دریا بہتے بہتے تھک گیا ہے
خدا حافظ مرے اے ہم نشینو
کہ مجھ کو تو بلاوا آ گیا ہے
شبنم شکیل کا تو بلاوا آ گیا اور وہ اس بلاوے پر لبیک کہتے ہوئے راہ رفتگاں پر خاموشی سے چل پڑیں ۔ دنیا بھر میں ان کی شاعری کے لاکھوں مداح ان کو یاد کر کے اپنے دلوں کو ان کی دائمی جدائی کے درد سے سنبھالنے کی سعی کر رہے ہیں۔خدا جانے اردوادب کے چمن کو کس کی نظر کھا گئی کہ ہمارے گھر کی دیواروں پر حسرت ہو یاس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور صحن میں خوف کے سائے بڑھتے چلے جا رہے ہیں ۔زندگی کی اداس راہوں پر چلتے چلتے جب کوئی ایسی شخصیت داغ مفارقت دے جاتی ہے جس کی مثال اس شجر سایہ دار کی ہوتی ہے جو ہمیں آلام روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمارے سر پر سایہ فگن ہوتا ہے تو آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتی ہیں ۔ہم الم نصیب یہ سوچتے ہیں کہ کیا کریں کس طرف جائیں ہر رہ گزر پر تو دائمی مفارقت دینے والوں کے حسن اخلاق پر مبنی یادوں کے سائے موجود ہیں ۔اس جہاں سے گزر جانے والوں کے نقش قدم دیکھ کر ہماری روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو جاتا ہے ۔شبنم شکیل کی شاعری قاری پر گہر ا تاثر چھوڑتی ہے ۔اس کے اعجاز سے ذہنی بالیدگی اور تربیت کے مواقع پیدا ہوتے ہیں ۔یہ شاعری حرکت و عمل کی نقیب ہے ۔اپنے اسلوب شعر میں انھوں نے موضوعات کی ندرت اور طرز اد کی جدت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔وہ چاہتی تھیں کہ قارئین ادب کے فکر و نظر کو اس طرح مہمیز کیا جائے کہ وہ اخلاقیات کی تربیت کے مواقع سے فیض یاب ہو سکیں ۔ان کے افکار میں حسن اور لطافت کا جادو سر چڑھ کر بولتاہے ۔اپنی تخلیقی فعالیت کے ذریعے انھوں نے ہمیشہ یہ کوشش کی ان کی بات جو دل سے نکلتی ہے وہ قاری کے دل میں اترنے کی صلاحیت سے متمتع ہو ۔وہ تصنع اور ریاکاری سے سخت نفرت کرتی تھیں ۔ان کی شاعری میں فکر و خیال کی جو ارفع سطح دکھائی دیتی ہے وہ ان کے کمال فن کی دلیل ہے ۔انھوںنے اپنے عہد کے زندہ ،جاوداں اور اعلیٰ ترین خیالات کو اپنے فکر و فن کی اساس بنایا:
منظر سے کبھی دل کے وہ ہٹتا ہی نہیں ہے
اک شہر جو بستے ہوئے دیکھا ہی نہیں ہے
کچھ منزلیں اب اپناپتا بھی نہیں دیتیں
اورراستہ ایسا ہے کہ کٹتا ہی نہیں ہے
یہ عشق کی وادی ہے ذرا سوچ سمجھ لو
اس راہ پہ پائوں کوئی دھرتا ہی نہیں ہے
اپنی شاعری میں زندہ اور جاوداں خیالات کو پیش کر کے شبنم شکیل نے اردو شاعری کا دامن گل ہائے رنگ رنگ سے بھر دیا۔وہ شعر وادب میں اپنی تخلیقی فعالیت کو رو بہ عمل لا کر ذہنی سکون اور مسرت کے احساس سے سر شار ہوتی تھیں۔وہ خوب جانچ پرکھ کر اپنی شاعری کے موضوعات کا انتخاب کرتی تھیں۔جہد للبقا کے موجودہ زمانے میں ان کی شاعری میں ایک واضح پیغام ہے کہ ہجوم غم میں بھی دل کو سنبھال کر منزل کی جانب سفر جاری رکھاجائے :
قفس کو لے کے اڑنا پڑ رہا ہے
یہ سودا مجھ کو مہنگا پڑ رہا ہے
ہوئی جاتی ہے پھر کیوں دور منزل
مرا پائوں تو سیدھا پڑ رہاہے
میں کن لوگوں سے ملنا چاہتی تھی
یہ کن لوگوں سے ملنا پڑ رہا ہے
شبنم شکیل نے قارئین ادب پر یہ واضح کر دیا کہ حوصلے ،امید ،استقامت اور صبر وتحمل کی مشعل تھا کر زندگی کے کٹھن مراحل کی جانگسل تنہائیوں اور ہولناک تاریکیوں کے مسموم اثرات سے بچ کر منزل تک رسائی ممکن ہے ۔کامیابی اور روشن مستقبل کی امید ہی زندگی کی تمام تر حرکت و حرارت کی نقیب ثابت ہوتی ہے ۔وہ تخلیق ادب کو معاشرتی زندگی کی درخشاں اقدار و روایات کی نمو اور استحکام کے لیے نا گزیر سمجھتی تھیں ۔ان کا خیال تھا کہ ادب کے وسیلے سے معاشرتی زندگی میں ایک مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے ۔ہمارے معاشرے اورسماج میں اس وقت زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کو شدید خطرات کا سامنا ہے ۔اس وقت معاشرہ جس انتشار اور ابتری کی زد میں آ چکا ہے اس کی اصلاح کے لیے ادب کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے ۔مادی دور کی لعنتوں کے باعث معاشرتی زندگی ہوس کے مسموم اثرات کے باعث جان کنی کے عالم میں ہے ۔شبنم شکیل کی شاعری میں سمے کے سم کے ثمر سے نڈھال انسانیت کوسکون قلب فراہم کرنے کا مصمم ارادہ ملتا ہے :
آخری حربہ ہمیں اب آزمانہ چاہیے
جو بچا ہے دائو پر وہ بھی لگانا چاہیے
کھل کے اس کا ذکر کرناچاہیے احباب میں
رفتہ فتہ یوں اسے پھر بھول جانا چاہیے
آخری دم تک نبھانا چاہیئیں آداب عشق
آخری شمعوں کی صورت ٹمٹمانا چاہیے
تو اڑا دے خاک میری جنگلوں صحرائوں میں
اے ہوائے مضطرب مجھ کو ٹھکانہ چاہیے
شبنم شکیل کے والد سید عابد علی عابد عالمی شہرت کے حامل ادیب اور نقاد تھے ۔ان کی وقیع تصنیف ''اصول انتقاد ادبیات ''کواردو تنقید کی اہم کتاب سمجھا جاتا ہے ۔انھوں نے اپنی عزیز بیٹی شبنم شکیل کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دی ۔شبن شکیل کو کینئیر ڈ کالج برائے خواتین ،لاہور (Kinaird College,for women ,Lahore )میں داخل کرایا گیا۔یہاں انھوں نے اپنی قابلیت کی وجہ سے اپنی ہم جماعت طالبات اور اپنی اساتذہ کو بہت متاثر کیا۔ اس عظیم مادر علمی سے انھوں نے تمام امتحانات امتیازی حیثیت سے پاس کیے ۔اس کے بعد وہ اسلامیہ کالج ،لاہور میں داخل ہوئیں اور یہاں سے شاندار نمبر حاصل کرکے گریجویشن مکمل کی ۔گریجویشن کے بعد انھوں نے پنجاب یو نیورسٹی ، اورئینٹل کالج ،لاہور میں ایم ۔اے اردو میں داخلہ لیا ۔ایم ۔اے اردو کرنے کے بعد ان کا تقرر بہ حیثیت لیکچر اردو کوئین میری کالج ،لاہور میں ہوا ۔1967 میں ان کی شادی شکیل احمد سے ہوئی جو پاکستان کی سول سروس میں اہم عہدے پر فائز تھے ۔شبنم شکیل کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے ۔شبنم شکیل نے تیس برس تک تدریسی خدمات انجام دیں ۔انھوں نے لاہور کالج برائے خواتین ،گورنمنٹ کالج برائے خواتین کوئٹہ اور فیڈرل گورنمنٹ کالج برائے خواتین F-7/2اسلام آباد میں اردو زبان و ادب کی تدریس کے فرائض انجام دئیے ۔وہ اصول تعلیم ،تعلیمی نفسیات ،تعلیم انصرام اور نصاب سازی کی ما ہر تھیں ۔تخلیق ادب کا ذوق انھیں ورثے میں ملا تھا ۔ان کی شائع ہونے والی کتب درج ذیل ہیں :
تنقیدی مضامین(1965)،شب زاد :شعری مجموعہ (1987)،اضطراب (1994)،تقریب کچھ تو (2003)،مسافت رائیگاں تھی :شاعری (2008)
شبنم شکیل کی علمی ،ادبی ،تدریسی اور قومی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انھیں 2004میں تمغہء حسن کارکردگی سے نوازا ۔ان کی وفات ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے جس سے اردو زبان و ادب کے فروغ کی مساعی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔اردو ادب میںوہ تانیثت کی اسی کہکشاں کا ایک تابندہ ستارہ تھیں جس میں خدیجہ مستور ،ہاجرہ مسرور ،پروین شاکر ،رضیہ بٹ ،قرة العین حیدر ،ممتاز شیریں ،عصمت چغتائی اور ثمینہ راجا ضو فشاں رہیں ۔اس ادبی کہکشاں کی چکاچوند اب ماضی کاحصہ بن چکی ہے ۔
شبنم شکیل کی شاعری میں معاشرتی زندگی کے تمام موضوعات کو سمو دیا گیاہے۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ہمارا معاشرہ جس بے حسی کا شکار ہے اس پر ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں نے اپنی تشویش کااظہار کیاہے ۔ہماری معاشرتی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ بے لوث محبت اور بے باک صداقت عنقا ہو چکی ہے ۔ابن الوقت عناصر نے اپنے مفادات کے لیے مصلحت کوشی کو شعار بنا رکھاہے ۔ہوس زر نے یہ گل کھلایا ہے کہ ہر شخص نو دولتیا بننے کے چکر میں ہے ۔ہماری معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی متعدد قباحتوں کے پس پردہ ہوس زر کی مذموم عادت ہی کارفرماہے ۔منشیات ،چور بازاری ،دہشت گردی ،لوٹ مار ،آبرو ریزی اور دیگر جرائم نے یہاں رتیں ہی بے ثمر کر دی ہیں ۔ تحمل اور برداشت نا پید ہے اس کے نتیجے میںتشدد اور ہلاکت خیزیوں کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہو چکا ہے جس نے پورے معاشرتی نظام کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں ۔شبنم شکیل کی شاعری میں اس دہرے عذاب کے متعلق نہایت رنج اور کرب سے حقائق بیان کیے گئے ہیں ۔ان کی شاعری میں خلوص اور دردمندی نمایاں ہے:
بسے ہوئے تو ہیں لیکن دلیل کوئی نہیں
کچھ ایسے شہر ہیں جن کی فصیل کوئی نہیں
کسی سے کس طر ح انصاف مانگنے جائوں
عدالتیں تو بہت ہیں عدیل کوئی نہیں
سبھی کے ہاتھوں پہ لکھا ہے ان کانام و نسب
قبیل دار ہیں سب بے قبیل کوئی نہیں
مری شناخت الگ ہے تری شناخت الگ
یہ زعم دونوں کو ،میرا مثیل کوئی نہیں
شبنم شکیل کی شاعری قاری کے قلب اور روح کی گہرائیوں میں اترتی چلی جاتی ہے ۔وہ تقدیرکی شاکی نہیں بل کہ وہ اس امرپر اصرار کرتی ہیں کہ ہر انسان کو اپنا مقدر خود سنوارنے کے لیے جدو جہد کرنی چاہیے ۔جس طرح فطرت لالے کی حنا بندی کے عمل میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہے اسی طرح ایک زیرک تخلیق کار بھی اپنے اسلوب کو عصری آگہی کا آئینہ دار بنانے کی مقدور بھر سعی کرتا ہے ۔ان کا اصرار ہے کہ فرد کو ایام کا مرکب بننے کے بجائے ایام کا راکب بن کر اپنے وجو د کا اثبات کرنا چاہیے ۔انسان کو اپنی حقیقت سے آشنا ہونا چاہیے ۔فکر انسانی کو یہ صلاحیت ودیعت کی گئی ہے کہ وہ اس کائنات کے جملہ مظاہر اور اسرار و رموز کی گرہ کشائی کر سکے ۔شبنم شکیل کی شاعری زندگی کی تمام رعنائیوں کا حقیقی مرقع پیش کرتی ہے ۔وہ زندگی کی حرکت و حرارت اور تاب و تواں کو ہمہ وقت دیکھنے کی متمنی ہیں۔وہ جبر کا ہر اندازمسترد کر کے حریت فکر کا علم بلند رکھنے کو اپنا نصب العین بناتی ہیں۔جبر کے ماحول میں تو طائران خوش نوا بھی بلند پروازی ترک کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اپنے آشیانوں میں دم توڑ دیتے ہیں۔شبنم شکیل کی شاعری میں حریت ضمیر سے جینے کی تمنا قاری کو جرأ ت اظہار عطا کرتی ہے :
سب وا ہیں دریچے تو ہوا کیوں نہیں آتی
چپ کیوں ہے پرندوں کی صدا کیوں نہیں آتی
گل کھلنے کا موسم ہے تو پھر کیوں نہیں کھلتے
خاموش ہیں کیوں پیڑ ،صبا کیوں نہیں آتی
بے خواب کواڑوں پہ ہوا دیتی ہے دستک
سوئے ہوئے لوگوں کو جگا کیوں نہیں آتی
کیوں ایک سے لگتے ہیں یہاں اب سبھی موسم
خوشبوکسی موسم سے جدا کیوں نہیں آتی
زندگی کو زندہ دلی کی ایک قابل فہم صور ت میں دیکھناایک جری تخلیق کار کا اہم ترین وصف ہے ۔شبنم شکیل نے زندگی کو اس کے تمام مسائل کے ساتھ پیش نظر رکھا۔وہ سمجھتی تھیں کہ شگفتہ مزاجی اور زندہ دلی ہی وہ صفات ہیںجو زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ان کا خیا ل تھا کہ ادب کے وسیلے سے دلوں کو مرکز مہر و وفا کیا جا سکتا ہے ۔تخلیق ادب کے اعجاز سے جمو د کا خاتمہ ممکن ہے ۔آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی تخریب میں مصروف ہیں ۔اس سے بڑھ کر بے بصری کیا ہو گی کہ ہمارے کچھ نادان دوست اسی نخل تناور کی جڑیں کھو کھلی کر رہے ہیں جو ان پر سایہ فگن ہے ۔کچھ کو ر مغز لوگ اسی شاخ کو کاٹنے کی مجنونانہ حرکت کر رہے ہیں جس پر وہ خود براجمان ہیں ۔نمود و نمائش کی تمنا میںلوگ حد سے گزر جاتے ہیں ۔شبنم شکیل کی شاعری میں ایسی سوچ پر گرفت کی گئی ہے :
خود ہی اپنے درپئے آزار ہو جاتے ہیں ہم
سوچتے ہیں اس قدر بیمار ہو جاتے ہیں ہم
بھول کر وہ بخش دے گر روشنی کی اک کرن
دائمی شہرت کے دعوے دارہو جاتے ہیں ہم
زندگی سے دور کر دیتاہے اتنا خوف مرگ
آپ اپنی زندگی پر بار ہو جاتے ہیں ہم
شبنم شکیل زندگی بھر قارئین ادب میں خوشیاں تقسیم کرتی رہیں ۔ان کی تخلیقی فعالیت زندگی کو اس کے حقیقی تنا ظر میں پیش کرتی ہے ۔جہد للبقا کے موجودہ زمانے میں وہ افراد کوپر عزم رہنے کی تلقین کرتی ہیں۔وہ یہ بات واضح کر دیتی ہیں کہ افراد ہی اقوام کی تقدیر بدلنے پر قادر ہیں ۔انھوں نے جو بھی خواب دیکھے وہ فردا کے حوالے ہی سے تھے ۔وہ چاہتی تھیں کہ بنی نوع انسان کو اپنے آج کی اصلاح پر اپنی توجہ مرکوز کر دینی چاہیے تاکہ آنے والے کل کو بہتر بنایا جا سکے ۔انھیں اس بات پر تشویش تھی کہ کہیں ہماری بے بصری ہمیں آنے والے کل سے محروم نہ کردے ۔ان کے اسلوب میں جذبہ ء انسانیت نوازی قابل رشک انداز میں جلوہ گر ہے ۔انھوں نے جمالیاتی سوز و سرور کے معجز نما اثر سے اپنی شاعری کو حسن و خوبی کا گنجینہ بنا دیا ہے ۔وہ تہذیبی بقا کو ہمیشہ اہم قرار دیتی تھیں ،اسی لیے انھوں اسلامی تہذیب و تمدن پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔شبنم شکیل کی وفات کی خبر سن کر دل تڑپ اٹھا۔ان کی یاد دل میں ہمیشہ زندہ رہے گی ۔چاند چہرے اب تو شب فرقت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ فرشتہ ء اجل نے ایک ایسی ادیبہ سے قلم چھین لیا جس نے زندگی بھر قلم کی حرمت کو مقدم سمجھا اور اپنے قلم سے دردمندوں ،مظلوموں اور ضعیفوں کی مسیحائی کی ۔جب بھی کوئی قابل صد احترام اور عزیزہستی داغ مفارقت دے جاتی ہے تو دل میںاک ہوک سی اٹھتی ہے اور یہ خیال پختہ تر ہو جاتا ہے کہ یہ دنیا حیرت و حسرت کے سوا کچھ بھی تو نہیں،رفتگاں کی یادوں کے جان لیوا صدموں سے نڈھال ان کے مداح ان کی یادو ں کے سہارے زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔اس عالم آب و گل میں زندگی کی اداس راہوں پر چلتے ہوئے ہم شبنم شکیل کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے ۔بہ قول فراق گورکھ پوری :
بھولیں اگر تمھیں تو کدھر جائیں کیا کریں
ہر رہ گزرپہ تیرے گزرنے کا حسن ہے
تحریر : فضہ پروین ۔ جھنگ ۔ پاکستان




آغا شاعر قزلباش کی وفات

Mar 11, 1940
5 مارچ 1871ء اردو کے نامور شاعر آغا شاعر قزلباش کی تاریخ پیدائش ہے۔
آغا شاعر قزلباش کا اصل نام آغامظفر علی بیگ قزلباش تھا ۔ ابتدا میں وہ طالب دہلوی کے شاگرد تھے پھر حیدرآباد دکن جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کی اور وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جز و لازمی بن گیا۔
آغا شاعر قزلباش ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انہوں نے جو چند ڈرامے لکھے ان میں حور عرب اور قتل بے نظیر زیادہ مشہور ہوئے۔ وہ ترجمہ کرنے میں بھی کمال کا درجہ رکھتے تھے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن پاک کا منظوم ترجمہ ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے عمر خیام کے رباعیات کا بھی منظوم اردو ترجمہ کیا جو خمکدہ ٔ خیام اوررباعیات خیام کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ آپ کی شعری تصانیف میں تیر و نشر، آویزہ گوش، دامن مریم اور پرواز کے نام شامل ہیں۔ آپ کا ایک نثری مجموعہ خمارستان کے نام سے بھی شائع ہواتھا۔
آغاشاعر قزلباش کا ان انتقال 11 مارچ 1940ء کو لاہور میں ہوا۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
یہ کیسے بال کھولے آئے کیوں صورت بنی غم کی
تمہارے دشمنوں کو کیا پڑی تھی میرے ماتم کی



ممتاز شیریں کی وفات

Mar 11, 1973

اردو کی نامور نقاد‘ افسانہ نگار اور مترجم محترمہ ممتاز شیریں 12 ستمبر 1924ء کو ہندو پور (آندھراپردیش) میں پیدا ہوئی تھیں۔ ممتاز شیریں کے افسانوی مجموعوں میں اپنی نگریا‘ حدیث دیگراں اور میگھ ملہار شامل ہیں جب کہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے معیار اور منٹو نہ نوری نہ ناری کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ انہوں نے 1947ء کے فسادات کے موضوع پر لکھے گئے اردو کے نمائندہ افسانوں کا ایک انتخاب ظلمت نیم روز کے نام سے اور جان اسٹین بک کے مشہور دی پرل کا اردو ترجمہ درشہوار کے نام سے کیا تھا۔ وہ اردو کا معروف ادبی جریدہ نیا دور بھی شائع کرتی رہی تھیں۔
محترمہ ممتاز شیریں نے 11 مارچ 1973ء کو اسلام آباد میں وفات پائی اور اسلام آبادکے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئیں۔




عبدالحمید عدم کی پیدائش

Apr 10, 1910
اردو کے ممتاز اور مقبول شاعر عبدالحمید عدم 10 اپریل 1910ء کو تلونڈی موسیٰ خان، ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے تھے۔
وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ وہ شاعری کی ہر صنف پر عبور رکھتے تھے مگر غزل اور رباعی ان کی خاص پہچان تھی۔ ان کی شاعری کے لاتعداد مجموعے شائع ہوئے جن میں نقش دوام، زلف پریشاں، خرابات، قصر شیریں، رم آہو، نگار خانہ، صنم کدہ، قول و قرار، زیر لب، شہر خوباں، گلنار، جنس گراں، گردش جام، عکس جام، ساز و صدف، آب رواں، شہر فرہاد، آب زر، سر و سمن اور بط مے کے نام سرفہرست ہیں۔ ان کے کلام کی کلیات بھی شائع ہوچکی ہے۔
10 مارچ 1981ء کو عبدالحمید عدم طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگئے اور لاہورکینٹ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
عبدالحمید عدم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
آگہی میں ایک خلا موجود ہے
اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے
……٭٭٭……
ہم میکدے کی راہ سے ہو کر گزر گئے
ورنہ سفر حیات کا کتنا طویل تھا
……٭٭٭……
دو ہی باذوق آدمی ہیں عدم
میں ہوا یا مرا رقیب ہوا
……٭٭٭……
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں



منیر نیازی کی پیدائش

Apr 09, 1928
9 اپریل 1928ء اردو اور پنجابی کے صف اوّل کے شاعر منیر نیازی کی تاریخ پیدائش ہے۔
منیر نیازی مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اردو کے 13 اور پنجابی کے 3 شعری مجموعے یادگار چھوڑے جن میں اس بے وفا کا شہر‘ تیز ہوا اور تنہا پھول‘ جنگل میں دھنک‘ دشمنوں کے درمیان شام‘ سفید دن کی ہوا‘آغاز زمستاں میں دوبارہ، سیاہ شب کا سمندر‘ ماہ منیر‘ چھ رنگین دروازے‘ ساعت سیار، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی اور ایک تسلسل کے نام شامل ہیں جبکہ ان کی پنجابی شاعری کے مجموعے چار چپ چیزاں‘ رستہ دسن والے تارے اور سفردی رات کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔انہوں متعدد فلموں کے نغمات بھی تحریر کئے جو بے حد مقبول ہوئے۔
منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔26 دسمبر 2006ء کومنیر نیازی لاہور میں وفات پاگئے۔وہ لاہور میں قبرستان ماڈل ٹائون کے بلاک میں آسودۂ خاک ہیں۔ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

0 comments:

Post a Comment