Monday, March 23, 2015

حفیظ جالندھری


اے دوست مِٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں
اس درد ِ دوستی کی دوا ہو گیا ہوں میں

قائم کیا ہے میں نے فنا کے وجود کو
دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں

نا آشنا ہیں رتبہ دیوانگی سے دوست
کمبخت جانتے نہیں ، کیا ہو گیا ہوں میں

ہنسنے کا اعتبار ، نہ رونے کا اعتبار
کیا زندگی ہے جس پہ فدا ہو گیا ہوں میں

ہمّت بُلند تھی مگر افتاد دیکھنا !
چپ چاپ آج محو ِ دُعا ہو گیا ہوں میں

یہ زندگی فریبِ مسلسل نہ ہو کہیں
شاید اسیرِ دام ِ بَلا ہو گیا ہوں میں

اُٹھا ہوں اک جہان ِ خموشی لیے ہوئے
ٹوٹے ہوئے دِلوں کی صدا ہو گیا ہوں میں

حفیظ جالندھری



حقیقتیں آشکار کر دے صداقتیں بے حجاب کر دے
ہر ایک ذرہ یہ کہہ رہا ہے کہ آ، مجھے آفتاب کر دے

یہ خواب کیا ہے؟ یہ زشت کیا ہے؟ جہاں کی اصلی سرشت کیا ہے؟
بڑا مزہ ہو تمام چہرے اگر کوئی بے نقاب کر دے 

... 
کہو تو رازِ حیات کہہ دوں، حقیقتِ کائنات کہہ دوں
وہ بات کہہ دوں کہ پتھروں کے جگر کو بھی آب آب کر دے

پھر ایک تقصیر کر رہا ہوں پھر ایک تدبیر کر رہا ہوں
خلافِ تقدیر کر رہا ہوں، خدا اگر کامیاب کر دے

ترے کرم کے معاملے کو ترے کرم پر ہی چھوڑتا ہوں
مری خطائیں شمار کر دے، مری سزا کا حساب کر دے

حفیظ جالندھری



اسی کے نام سے آغاز ہے اس شاہنامے کا
ہمیشہ جس کے در پر سر جھکا رہتا ہے خامے کا

اسی نے ایک حرف کُن سے پیدا کر دیا عالم 
کشاکش کی صدائے ہاوہو سے بھر دیا عالم

نظام آسمانی ہے اسی کی حکمرانی میں 
بہار جاودانی ہے اسی کی باغبانی میں

اسی کے نور سے پر نور ہیں شمس و قمر تارے
وہی ثابت ہے جس کے گرد پھرتے ہیں یہ سیارے

زمیں پر جلوہ آرا ہیں مظاہر اس کی قدرت کے 
بچھائے ہیں اسی داتا نے دسترخوان نعمت کے

یہ سرد و گرم خشک و تر اجالا اور تاریکی 
نظر آتی ہے سب میں شان اسی اک ذات باری کی

وہی ہے کائنات اور اس کی مخلوقات کا خالق
نباتات و جمالات اور حیوانات کا خالق

وہی خالق ہے دل کا اور دل کے نیک ارادوں کا
وہی مالک ہمارا ہے اور ہمارے باپ دادوں کا

بشر کو فطرت اسلام پر پیدا کیا جس نے
محمد مصطفٰی کے نام پر شیدا کیا جس نے



حفیظ جالندھری



ہم میں ہی تھی نہ کوئی بات، یاد نہ تُم کو آ سکے
تُم نے ہمیں بُھلا دیا، ہم نہ تمہیں بُھلا سکے

تُم ہی اگر نہ سُن سکے، قِصّۂ غم سُنے گا کون 
کس کی زباں کُھلے گی پھر، ہم نہ اگر سُنا سکے

ہوش میں آ چکے تھے ہم، جوش میں آ چکے تھے ہم
بزْم کا رنگ دیکھ کر سَر نہ مگر اُٹھا سکے

رونقِ بزْم بن گئے، لب پہ حکایتیں رہیں
دل میں شکایتیں رہیں لب نہ مگر ہِلا سکے

شوقِ وصال ہے یہاں، لب پہ سوال ہے یہاں
کِس کی مجال ہے یہاں ہم سے نظر مِلا سکے

ایسا ہو کوئی نامہ بر، بات پہ کان دھر سکے
سُن کے یقین کرسکے، جا کے اُنھیں سُنا سکے

عجْز سے اور بڑھ گئی برہمیِ مزاجِ دوست
اب وہ کرے علاجِ دوست، جس کی سمجھ میں آ سکے

اہلِ زباں تو ہیں بہت، کوئی نہیں ہے اہلِ دل
کون تِری طرح حفیظ، درد کے گیت گا سکے

حفیظ جالندھری


دل ابھی تک جوان ہے پیارے
کس مصیبت میں جان ہے پیارے

رات کم ہے نہ چھیڑ ہجر کی بات
یہ بڑی داستان ہے پیارے

تلخ کردی ہے زندگی جس نے
کتنی میٹھی زبان ہے پیارے

جانے کیا کہہ دیا تھا روزِ ازل
آج تک امتحان ہے پیارے

کب کیا میں نے عشق کا دعویٰ
تیرا اپنا گمان ہے پیارے

میں تجھے بے وفا نہیں‌ کہتا
دشمنوں کا بیان ہے پیارے

تیرے کوچے میں‌ہے سکوں ورنہ
ہر زمین آسمان ہے پیارے

حفیظ جالندھری


اُٹھ اُٹھ کے بیٹھ بیٹھ گئے ، پھر رواں رہے
ہم صُورتِ غبار پسِ کارواں رہے

مشقِ سخن کے اب وہ زمانے کہاں رہے
کیا خوب لوگ تھے جو مرے ہم زباں رہے

وہ بُت ہمارے پاس خُدا ساز بات تھی
ہم مدتوں خُدا کی قسم بدگماں رہے

اچھا جنابِ عشق ہیں؟ تشریف لائیے!!
خوب آئے آپ! آئیے حضرت کہاں رہے

صاحب ہماری توبہ ، ہمیں باز آ گئے
ہاں ہاں کے بعد پھر نہیں ہے تو ہاں رہے

ہم بے کسی کے فیض سے دریائے شوق میں
تِنکے کی طرح موج کے بَل پر رواں رہے

یہ پاسِ وضع تھا کہ انا الحق نہ کہہ سکے
اہلِ زباں تھے ہم بھی مگر بے زباں رہے

سر سینکڑوں جہاں میں سروں کی کمی نہیں
اس آستاں کی خیر ہو وہ آستاں رہے

دیکھیں کسی کی قبر بھی رہتی ہے یا نہیں
ہر اک یہ چاہتا ہے کہ میرا نشاں رہے

پھر بھی رواں ہے جانبِ ساحل جہازِ عمر
لنگر رہا کوئی نہ کہیں بادباں رہے

گزرے ہوئے شباب کے قصے نہ چھیڑئیے
وہ ہم نہیں رہے تو بھلا تم کہاں رہے

بیچارگی سی تھی مری آوارگی حفیظ
جس طرح کوئی خواب میں اُٹھ کر رواں رہے

حفیظ جالندھری


نہیں زخم دل اب دکھانے کے قابل 
یہ ناسور ہے بس چھپانے کے قابل 
تیرے رو برو آوں کس منہ سے پیار 
نہیں اب رہا منہ دکھانے کے قابل 
وفور غم یاس نے ایسا گھیر ا 

نہ چھوڑا کہیں آنے جانے کے قابل 
شب ہجر کی تلخیاں کچھ نہ پوچھو 
نہیں داستاں یہ سنانے کے قابل 
یہ ٹھکرا کے دل پھر کہا مسکرا کر 
نہ تھا دل یہ دل سے لگانے کے قابل 
جو دیکھا مجھے پھیر لیں اپنی آنکھیں 
نہ جانا مجھے منہ لگانے کے قابل 
جو دیکھا مجھے پھیر لیں اپنی آنکھیں 
نہ جانا مجھے منہ لگانے کے قابل 
تیری بزم میںسینکڑوں آئے بیٹھے 
ہمیں ایک تھے کیا اٹھانے کے قابل 
یہ کافر نگاہیں یہ دلکش ادائیں 
نہیں کچھ رہا اب بچانے کے قابل 
دیار محبت کے سلطاں سے کہہ دو 
یہ ویراں کدہ ہے بسانے کے قابل 
کیا ذکر دل کا تو ہنس کر وہ بولے 
نہیں ہے یہ د ل رحم کھانے کے قابل 
نگاہ کرم یونہی رکھنا خدارا 
نہ میں ہوں نہ دل آزمانے کے قابل 
نشان کف پائے جاناں پہ یارب 
ہمارا یہ سر ہو جھکانے کے قا بل 
کبھی قبر مشتاق پر سے جو گزرے 
کہا یہ نشاں ہے مٹانے کے قابل

شاعر حفیظ جالندھری


رنگ بدلا یار کا، وہ پیار کی باتیں گئیں
وہ ملاقاتیں گئیں، وہ چاندنی راتیں گئیں

پی تو لیتا ہوں مگر پینے کی وہ باتیں گئیں
وہ جوانی، وہ سیہ مستی، وہ برساتیں گئیں

اللہ اللہ کہہ کے بس اک آہ کرنا رہ گیا
وہ نمازیں، وہ دعائیں، وہ مناجاتیں گئیں

حضرتِ دل ہر نئی اُلفت سمجھ کر سوچ کر
اگلی باتوں پر نہ بھُولیں آپ وہ باتیں گئیں

راہ و رسمِ دوستی قائم تو ہے، لیکن حفیظ
ابتدائے شوق کی لمبی ملاقاتیں گئیں

(حفیظ جالندھری)

Saturday, March 14, 2015

میثم علی آغا

تو کیا یہ دل سے محبت کا اعتراف نہیں
کسی بھی بات پہ اب تجھ سے اختلاف نہیں
خدا خبر کہ یہ دنیا ہمیں کہاں رکھے
ہمارے دل میں محبت بھی واشگاف نہیں
حروف _ خیر کی خاطر لڑے ہوۓ دشمن
ہمارا قتل قبیلے کو بھی معاف نہیں
میں جانتا تھا بچھڑنا ہے ایک دن آخر
سو تیرا چھوڑنا ایسا بھی انکشاف نہیں
میں کم نصیب خسارے اٹھا رہا ہوں ابھی
وگرنہ تیری محبت سے انحراف نہیں
دیے جلانے کی کوشش گناہ ٹھہری ہے
کوئی نہیں ہے جو میثم مرے خلاف نہیں
میثم علی آغا

شاہین فصیحؔ ربانی


وہ جو دل میں رکھتے ہیں آرزو اذانوں کی
بند کس طرح رکھیں کھڑکیاں مکانوں کی

پرچمِ یقیں ان کو لائے گا نہ خاطر میں
تند و تیز کیسی ہوں آندھیاں گمانوں کی

کیا ہوا زمیں نے گر پاؤں باندھ رکھے ہیں
خواب میں تو کرتے ہیں سیر آسمانوں کی

انقلاب کی دیوی کس طرح سے راضی ہو
بھینٹ چاہیے جس کو صد ہزار جانوں کی

جنگ کا ارادہ ہے، اور حوصلہ دیکھیں
فوج ساتھ رکھتے ہیں کاغذی کمانوں کی

سوچتے ہیں سورج کے سائے میں چلے جائیں
جسم کو جلاتی ہے دھوپ سائبانوں کی

تند و تیز چلتی ہیں، چیر پھاڑ دیتی ہیں
دوستی ہواؤں سے کیا ہو بادبانوں کی

کیا انہیں بھی اردو سے پیار ہے، لگاؤ ہے
جو مثال دیتے ہیں دوسری زبانوں کی

کیوں فصیحؔ چھائی ہے یہ فسردگی تم پر
کھو گئیں کہاں آخر شوخیاں بیانوں کی

شاہین فصیحؔ ربانی

خواجہ میر درد

اگر یوں ہی یہ دل ستاتا رہے گا
تَو اک دن مرا جی ہی جاتا رہے گا

میں جاتا ہوں دل کو تِرے پاس چھوڑے
مری یاد تجھ کو دلاتا رہے گا

گلی سے تری دل کو لے تو چلا ہوں
میں پہنچوں گا جب تک یہ آتا رہے گا

جفا سے غرض امتحانِ وفا ہے
تو کہہ کب تلک آزماتا رہے گا

قَفَس میں کوئی تم سے اے ہم صفیرو
خبر گل کی ہم کو سُناتا رہے گا

خفا ہو کے اے درد مر تَو چلا تُو
کہاں تک غم اپنا چُھپاتا رہے گا

سیما غزل


یہی تو سوچ کر اب خوف آتا ہے مجھے اکثر
ابھی تو ٹھیک ہے لیکن تمہارے بعد کیا ہوگا


ہوائیں ہیں حوادث کی اڑا لے جائیں گی سب کچھ
اگر میں رہ گئی تنہا تو گھر آباد کیا ہوگا

نہ خوشبو ہے نہ سایا ہے نہ اُس کی کوئی آہٹ ہے
اب اس سے بڑھ کے میرا گھر بھلا برباد کیا ہوگا

جہاں اس زندگانی کا آخری اک موڑ آتا ہے
وہاں بھی ہوسکی مجھ سے نہ کچھ فریاد کیا ہوگا


مجھی میں رہ گیا گھُٹ گھُٹ کے میری ذات کا پنچھی
اگر آزاد اب ہوگا تو یہ آزاد کیا ہوگا


سیما غزل

قزلباش دہلوی

جوشِ الفت میں وہ قطرے کا فنا ہو جانا 
اُس پہ دریا کا وہ لب تشنہ سوا ہوجانا

کوئی انداز ہے! رہ رہ کے ، خفا ہوجانا
اپنے بندوں سے، یہ کھچنا کہ خدا ہوجانا

ضبطِ غم سے مری آہوں کے شرارے کجلائے
بے ہوا، کام ہے شعلے کا فنا ہوجانا

اپنے نیرنگیء انداز کا اعجاز تو دیکھ
ابھی شوخی تھی، ابھی اس کا حیا ہوجانا

اس زمانے میں نہیں کوئی کسی کا ہمدرد
دل کے دو حرف ہیں، اُن کو بھی جدا ہوجانا

ضعف سے اُٹھ نہیں سکتا تیرا بیمار فراق!
اے اجل! تو ہی کرم کر کے ذرا ہو جانا

شاعرِ زا ر نہیں کوئی بھی معیار مرا
پھر بھی مشہور ہے کھوٹے کا کھرا ہو جانا
loading...

خالد یوسف


ھجوم شہر تو بس نظارہ دیکھتا رھا
ڈوبنے والا دیر تک کنارہ دیکھتا رھا

کسی کی دسترس میں سبھی چاند تھے
کسی کا مقدر اک ستارہ دیکھتا رھا

بارشیں تو کسی اور آنگن کا مقدر ٹہریں
مدت سے اک شخص ابر آوارہ دیکھتا رھا

اک میرا ھی حال برا نہیں شرف دیدار کے بعد
جس نے بھی اسے دل میں اتارا دیکھتا رھا

خالد یوسف

شبنم شکیل


آخری حربہ ہمیں اب آزمانہ چاہیے
جو بچا ہے دائو پر وہ بھی لگانا چاہیے

کھل کے اس کا ذکر کرناچاہیے احباب میں
رفتہ فتہ یوں اسے پھر بھول جانا چاہیے

آخری دم تک نبھانا چاہیئیں آداب عشق
آخری شمعوں کی صورت ٹمٹمانا چاہیے

تو اڑا دے خاک میری جنگلوں صحرائوں میں
اے ہوائے مضطرب مجھ کو ٹھکانہ چاہیے

شبنم شکیل



میں پڑھ سکتی ہوں ان لکھے کواب بھی
یہ کشف ذات ہے یا اک سزا ہے

کوئی روکے روانی آنسوئوں کی
یہ دریا بہتے بہتے تھک گیا ہے

خدا حافظ مرے اے ہم نشینو
کہ مجھ کو تو بلاوا آ گیا ہے

شبنم شکیل

شیخ امام بخش ناسخ

واعظا مسجد سے اب جاتے ہیں مے خانے کو ہم
پھینک کر ظرفِ وضو لیتے ہیں پیمانے کو ہم

کیا مگس بیٹھا بھلا اس شعلہ رو کے جسم پر
اپنے داغوں سے جلا دیتے ہیں پروانے کو ہم

تیرے آگے کہتے ہیں گل کھول کر بازوئے برگ
گلشنِ عالم سے ہیں تیار اڑ جانے کو ہم

کون کرتا ہے بتوں کے آگے سجدہ زاہدا
سر کو دے دے مار کر توڑیں گے بتخانے کو ہم

جب غزالوں کے نظر آ جاتے ہیں چشمِ سیاہ
دشت میں کرتے ہیں یاد اپنے سیہ خانے کو ہم

بوسہءِ خالِ زنخداں سے شفا ہو گی ہمیں
کیا کریں گے اے طبیب اس تیرے بہدانے کو ہم

باندھتے ہیں اپنے دل میں زلفِ جاناں کا خیال
اس طرح زنجیر پہناتے ہیں دیوانے کو ہم

پنجہءِ وحشت سے ہوتا ہے گریباں تار تار
دیکھتے ہیں کاکلِ جاناں میں جب شانے کو ہم

عقل کھو دی تھی جو اے ناسخ جنونِ عشق نے
آشنا سمجھا کیے اک عمر بیگانے کو ہم

سبیلہ انعام صدیقی

مجھے شاعری سے عداوت نہیں ہے 
مگر حد سے بڑھ کر محبت نہیں ہے

دکھاوے کی جتنی نمازیں پڑھیں ہیں
تسلی فقط ہے عبادت نہیں ہے

مری باتیں تم کو بری تو لگیں گی
مگر میرے دل میں کدورت نہیں ہے

جونظریں ہی تم نے بدل لیں ہیں مجھ سے
تو پھر ساتھ چلنا رفاقت نہیں ہے

اگر ہے گلہ ، تو وہ اتنا سا جاناں
تمھا رے بیا ں میں صدا قت نہیں ہے

نہ سمجھا نہ پرکھا نہ مجھ سے کہا کچھ
مرا پیار کوئی حماقت نہیں ہے

یہ دنیا تو ہے چار دن کا ہی میلہ
کہ گم اس میں رہنا شرا فت نہیں ہے

خدایا تو ہم پر کرم خاص کردے
مسلماں میں اب وہ بصیرت نہیں ہے

سبیلہ انعام صدیقی

مولاناابوالکلام آزاد


کیوں اسیرِ گیسوئے خم دار قاتل ہوگیا
ہائے کیا بیٹھے بٹھائے تجھ کو اے دل ہوگیا

کوئی نالاں ، کوئی گریاں ، کوئی بسمل ہوگیا
اس کے اٹھتے ہی دِ گر گوں رنگِ محفل ہوگیا

انتظار اُس گل کا اس درجہ کیا گلزار میں
نور آخر دیدۂ نرگس کا زائل ہوگیا

اُس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے
دل کا ہر ارماں فدائے دستِ قاتل ہوگیا

قیس مجنوں کا تصور بڑھ گیا جب نجد میں
ہر بگولہ دشت کا لیلیٰ کا محمل ہوگیا

یہ بھی قیدی ہوگیا آخر کمندِ زلف کا
لے اسیروں میں ترے آزادؔ شامل ہوگیا

مولاناابوالکلام آزاد

میجر شہزاد نیر


تو بنا کے پھر سے بگاڑ دے ، مجھے چاک سے نہ اُتارنا
رہوں کو زہ گر ترے سامنے، مجھے چاک سے نہ اُتارنا


تری ”چوبِ چاک “ کی گردشیں مرے آب وگِل میں اُتر گئیں
مرے پاﺅں ڈوری سے کاٹ کے مجھے چاک سے نہ اُتارنا
تری اُنگلیاں مرے جسم میں یونہی لمس بن کے گڑی رہیں
کفِ کوزہ گر مری مان لے مجھے چاک سے نہ اُتارنا
مجھے رکتا دیکھ کے کرب میں کہیں وہ بھی رقص نہ چھوڑ دے
کسی گردباد کے سامنے، مجھے چاک سے نہ اُتارنا
ترا زعم فن بھی عزیز ہے، بڑے شوق سے تُو سنوار لے
مرے پیچ و خم ، مرے زاوئیے ، مجھے چاک سے نہ اُتارنا
ترے ’ ’ سنگِ چاک“ پہ نرم ہے مری خاک ِ نم، اِسے چھوتا رہ
کسی ایک شکل میں ڈھال کے مجھے چاک سے نہ اُتارنا
مجھے گوندھنے میں جو گُم ہوئے ترے ہاتھ، اِن کا بدل کہاں
کبھی دستِ غیر کے واسطے مجھے چاک سے نہ اتارنا


ترا گیلا ہاتھ جو ہٹ گیا مرے بھیگے بھیگے وجود سے

مجھے ڈھانپ لینا ہے آگ نے، مجھے چاک سے نہ اتارنا
میجر شہزاد نیر

محسن بھوپالی

جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے

میخانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

ہے خوئے ایازی ہی سزاوار ملامت
محمود کو کیوں طعنہ اکرام دیا جائے

ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو
الزام جو دینا ہو، سر عام دیا جائے

بہتر ہے اس بزم سے اٹھ آئیے محسن
سرقے کو جہاں رتبۂ الہام دیا جائے

محسن بھوپالی