Monday, May 25, 2015

رفیع رضا

رفیع رضا

گرتے ہُوئے ملبے میں ستارہ تو نہیں ہے
اب یہ میرے جانے کا اشارہ تو نہیں ہے!

جو گُنبدِ خاموش اُٹھایا تھا ازل سے
وُہ بوجھ ابھی سر سے اُتارا تو نہیں ہے

وُہ آخری آرام سڑک پر ہی مِلے گا
فُٹ پاتھ پہ چیخوں کا گُزارہ تو نہیں ہے

شمشان میں رکّھی ہوئی دُنیا کو کروں کیا
اب دیکھنے والا یہ نظارہ تو نہیں ہے

ترتیب سے رکّھے ہیں یہ خوابوں کے جنازے
آ دیکھ لے تیرا کوئی پیارا تو نہیں ہے

کیا پونچھنے والا ہے وُہ آنکھوں سے لہو کو
اُس نیلگوں دامن نے پُکارا تو نہیں ہے!

وحشت نے اُچھالی ہے مری خاک وگرنہ
اُڑنا میری مٹی کو گوارا تو نہیں ہے

کیوں دیدۂ افلاک میں افسوس چمکتا
یہ نظم ہے قُرآں کا سپارہ تو نہیں ہے


گُلِ سیاہ کِھلا ہے سو دیکھنا کیا ہے
یہ پُورے دن کا صِلہ ہے! سو دیکھنا کیا ہے

منڈیر وقت کی خستہ تھی میرے پاؤں تلے
ہوا کا سانس رُکا ہے سو دیکھنا کیا ہے

وُہ جس کو اپنے پروں پر بہت بھروسہ تھا
وُہی پرندہ گِرا ہے سو دیکھنا کیا ہے

اگر اُمنگ نہیں ہے تو میں بھی دنگ نہیں
لہو میں رنگ بچا ہے سو دیکھنا کیا ہے

بگُولہ سا کہیں چکرا رہا ہے وحشت میں
یہ شور دیکھا ہوا ہے سو دیکھنا کیا ہے

عجیب سنگِ حقیقت تھا عین دل پہ لگا
اب عکس ٹوٹ گیا ہے سو دیکھنا کیا ہے

دھُوئیں نے تان لی چادر تو میں ہوا اندھا
یہ "دیکھنا" ہی بُجھا ہے سو دیکھنا کیا ہے

خُود اپنے خواب کی نظروں میں آ گیا ہُوں میں
وُہ مُجھ کو دیکھ رہا ہے سو دیکھنا کیا ہے


جو دن کے ساتھ نکل کر غروب ہوتا ہوں
تو اپنے خُون میں ڈھل کر غروب ہوتا ہوں

غروب ہونے کی کُچھ اور صُورتیں بھی ہیں
مُجھے یہ کیا ہے کہ جل کر غروب ہوتا ہوں

پُکارتا ہے کسی اورکو اُفق لیکن
میں اپنا نام بدل کر غروب ہوتا ہوں

نہ جانے کون مُجھے اپنے پیچھے چھوڑ گیا
میں سارے دشت میں چل کر غروب ہوتا ہوں

پھر آبِ سُرخ کٹاؤ میں ڈھُونڈتا ہے مُجھے
میں آنکھیں زور سے مَل کر غروب ہوتا ہوں

کسے خبر کہ کسی دن کوئی طلوع نہ ہو
کئی دنوں سے سنبھل کر غروب ہوتا ہوں


ایک اس عُمر کا ہی کاٹنا کافی نہیں کیا
عشق کا بوجھ مری جاں پہ اضافی نہیں کیا

تیری اُمید پہ پُورا نہیں اُترا لیکن
میرے آنسو ترے نُقصان کی تلافی نہیں کیا

پسِ دیوار بھی دیوار کھڑی کر دی ہے
آپ ہی کہئیے کہ یہ وعدہ خلافی نہیں کیا

آسماں کی طرف اُمید سے جو دیکھتا ہوں
یہ مرا جُرم سہی اسکی معافی نہیں کیا

معجزے کیا ہُوئے وُہ ساری دُعائیں ہیں کہاں
اب کوئی دستِ مسیحائی بھی شافی نہیں کیا

عہد شکنی ہو خیانت ہو ریاکاری ہو
کُچھ بھی آدابِ سیاست کے مُنافی نہیں کیا

مُنفرد کیسے نہ مانیں گے یہ نقاد مُجھے
سب انوکھے مری غزلوں کے قوافی نہیں کیا



اوروں نے جب زمیں کو وراثت میں لے لیا
میں نے بھی آسمان کو غُربت میں لے لیا

سویا ہوا تھا شہر مگر، یُونہی خوف نے
میں جاگتا تھا، مُجھ کو حراست میں لے لیا

سوچا کہ کُچھ نہیں ہے تو دن ہی نکال لُوں
یہ کام رات میں نے فراغت میں لے لیا

مرکز میں اُس کے تھی کوئی منزل کِھلی ہوئی
جس دائرے نے مُجھ کو مسافت میں لے لیا

شُعلے کا رقص دیکھنے آئے ہوئے ہجوم!
مُجھ سے یہ کام سب نے محبت میں لے لیا

صف خالی ہو گئی سبھی وحشی نکل گئے
میں نے خُدا کا نام جو وحشت میں لے لیا

تُم مل گئے تو دیکھو تُمھاری خُوشی کو پھر
چاروں طرف سے دُکھ نے حفاظت میں لے لیا

پہلے کوئی خلا میرے دل کے قریب تھا
پھر اِس کو میری آنکھ نے وُسعت میں لے لیا

جیسے اُلٹ گئی کہیں ترتیب ِ خدّوخال
ذرّے نے کائنات کو حیرت میں لے لیا


جس طرف آنکھ اُٹھاتا ہوں اُدھر مٹی ہے
خاک دیکھوں مَیں کہ تا حدِّ نظر مٹی ہے

کھینچتا رہتا ہے کوئی مُجھے مٹی سے پرے
پر میں اُس سمت کو کِھنچتا ہُوں جدھر مٹی ہے

ایسے لگتا ہے کہ میں بیٹھ گیا ہوں تھک کر
ایسے لگتا ہے کہ اب محوِ سفر مٹی ہے

سبز ہونے سے حقیقت تو نہیں بدلے گی
لاکھ اِترائے مگر اصلِ شجر مٹی ہے

ہو گا افلاک پہ بھی دُکھ کا مداوا لیکن
کھُلے زخموں کے لئے زُود اثر مٹی ہے


میں نے لیا ہے آنکھ میں بھر اتنا آسمان
کیسے کرے گا دل میں سفر اتنا آسمان

جتنا نکل کے آیا ہے مُجھ کو یقین ہے
اب بھی بچا ہوا ہے اُدھر اتنا آسمان

جا کر مِلے گی پھر تو حدِ وقت سے فصیل
بُنیاد میں لگایا اگر اتنا آ سمان

اتنی کُشادگی سے کہاں پھِر سکے گا یہ
کر دُوں اگر میں آنکھ بدر اتنا آسمان

ظاہر ہے حاشئے میں وُہی لکھ رہا ہوں میں
دیتا ہے مُجھ کو جس کی خبر اتنا آسمان

اب بولنے لگا ہوں زمیں کے خلاف بھی
مُجھ کو بنا رہا ہے نڈر اتنا آسمان

وُہ کون معتبر ہے رضا مَیں بھی دیکھ لُوں
حیرت سے دیکھتا ہے جدھر اتنا آسمان


زمیں و آسماں کا کیا کیا جائے
اور ان کے درمیاں کا کیا کیا جائے

نہ پُوچھو اُس جہاں سے کیا ہوا تھا
یہ پُوچھو اِس جہاں کا کیا کیا جائے

زمیں تو کھوکھلی کر دی ہے ہم نے
اور اب سیّارگاں کا کیا کیا جائے

نہ چلنے دے جو اپنے کارواں کو
تو میرِ کارواں کا کیا کیا جائے

ہماری داستاں میں رو پڑی ہے
تُمھاری داستاں کا کیا کیا جائے

اکیلا ہی جسے میں سُن رہا ہوں
اب اُس شور و فغاں کا کیا کیا جائے

سفر میں اک ستارہ بھی بہت تھا
ہجومِ کہکشاں کا کیا کیا جائے

نتیجہ کُچھ بھی نکلے کُچھ تو نکلے
مسلسل امتحاں کا کیا کیا جائے

مقدس آگ پر ہی مُنحصر ہے!
ہمارے جسم و جاں کا کیا کیا جائے

جسے حیرت نہیں ہے اور شک ہے
اب ایسے بد گُماں کا کیا کیا جائے

نظر آتا ہے سر پر اور نہیں ہے!
رضا اس آسماں کا کیا کیا جائے


کسی صُورت بُلا ہی لیتی ہے
مُجھے شدّت بُلا ہی لیتی ہے

اتنی محنت سُخن میں کرتا ہوں
کہ سہولت بُلا ہی لیتی ہے

کسی آرام سے نہیں رُکتا
کوئی وحشت بُلا ہی لیتی ہے

کُچھ دنوں میں خفاسا پھرتا ہُوں
پھر محبت بُلا ہی لیتی ہے

میں قدامت پسندہوں لیکن
مُجھے جدّت بُلا ہی لیتی ہے

کُچھ تعلق نکل ہی آتا ہے
کوئی حیرت بُلا ہی لیتی ہے

سر سے اُونچی فصیل ہو جائے
تو بغاوت بُلا ہی لیتی ہے

صُورتِ حال ایسی، اپنے لئے
خُود قیامت بُلا ہی لیتی ہے

جہاں کوئی نہیں وکیل رضاؔ
وُہ عدالت بُلا ہی لیتی ہے

رفیع رضا