Friday, October 26, 2018

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں



اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں 

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں 


ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی 

یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں 


غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو 

نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں 


تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا 

دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں 


آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر 

کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں 


اب نہ وہ میں نہ وہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فرازؔ 

جیسے دو سائے تمنا کے سرابوں میں ملیں

0 comments:

Post a Comment