Saturday, March 14, 2015

خواجہ میر درد

اگر یوں ہی یہ دل ستاتا رہے گا
تَو اک دن مرا جی ہی جاتا رہے گا

میں جاتا ہوں دل کو تِرے پاس چھوڑے
مری یاد تجھ کو دلاتا رہے گا

گلی سے تری دل کو لے تو چلا ہوں
میں پہنچوں گا جب تک یہ آتا رہے گا

جفا سے غرض امتحانِ وفا ہے
تو کہہ کب تلک آزماتا رہے گا

قَفَس میں کوئی تم سے اے ہم صفیرو
خبر گل کی ہم کو سُناتا رہے گا

خفا ہو کے اے درد مر تَو چلا تُو
کہاں تک غم اپنا چُھپاتا رہے گا

0 comments:

Post a Comment