Saturday, June 2, 2018

عمر میں اس سے بڑی تھی لیکن پہلے ٹوٹ کے بکھری میں



عمر میں اس سے بڑی تھی لیکن پہلے ٹوٹ کے بکھری میں 
ساحل ساحل جذبے تھے اور دریا دریا پہنچی میں

شہر میں اس کے نام کے جتنے شخص تھے سب ہی اچھے تھے 
صبح سفر تو دھند بہت تھی دھوپیں بن کر نکلی میں

اس کی ہتھیلی کے دامن میں سارے موسم سمٹے تھے 
اس کے ہاتھ میں جاگی میں اور اس کے ہاتھ سے اجلی میں

اک مٹھی تاریکی میں تھا اک مٹھی سے بڑھ کر پیار 
لمس کے جگنو پلو باندھے زینہ زینہ اتری میں

اس کے آنگن میں کھلتا تھا شہر مراد کا دروازہ 
کنویں کے پاس سے خالی گاگر ہاتھ میں لے کر پلٹی میں

میں نے جو سوچا تھا یوں تو اس نے بھی وہی سوچا تھا 
دن نکلا تو وہ بھی نہیں تھا اور موجود نہیں تھی میں

لمحہ لمحہ جاں پگھلے گی قطرہ قطرہ شب ہوگی 
اپنے ہاتھ لرزتے دیکھے اپنے آپ ہی سنبھلی میں

0 comments:

Post a Comment