Sunday, February 1, 2015

احمد سلمان


ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کا عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے


وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہی درختوں سے اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے

اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفے کو کوئی نہ سمجھا
جب اس کے کمرے سے لاش نکلی خطوط نکلے تو لوگ سمجھے

وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے سو سب نے حاکم کی کر لی بیت
پھر ایک چنبیلی کی اوٹ میں سے جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے


وہ گاؤں کا اک ضعیف دھقاں سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جب اس کے بچے جو شہر جا کر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے

0 comments:

Post a Comment