Saturday, February 28, 2015

فرزانہ خان نیناںؔ


چاندنی کے ہالے میں کس کو کھوجتی ہو تم
چھپ کے یوں اداسی میں کس کو سوچتی ہو تم
بار بار چوڑی کے سُر کسے سناتی ہو
شور سے صدا کس کی توڑ توڑلاتی ہو
بزم میں بہاروں کی کھوئی کھوئی لگتی ہو
دوستوں کے مجمع میں کیوں اکیلی رہتی ہو
موج موج بہتی ہوآنسوؤں میں رہتی ہو
جھالروں سے پلکوں کی ٹوٹ ٹوٹ جاتی ہو
بلبلے کی صورت میں پھوٹ پھوٹ جاتی ہو
دھند سے لپٹ کر کیوں سونی راہ تکتی ہو
کھڑکیوں سے برکھا کودیکھ کر بلکتی ہو
سارے سپنے آنکھوں سے ایک بار بہنے دو
رات کی ابھاگن کو تارہ تارہ گہنے دو
ماضی، حال ،مستقبل،کچھ تو کورا رہنے دو
پُل کے نیچے بہنے دو آنسوؤں کی یہ ندیاں
وقت چلتا جائے گا بیت جائیں گی صدیاں
بے حسوں کی بستی میں بے حسی کو رہنے دو
دل تو پورا پاگل ہے اس کو پورا رہنے دو
یہ جو کہتا رہتا ہے اس کو بھی وہ کہنے دو
اس کو کورا رہنے دو
تم یہ کورا رہنے دو۔۔۔!!!

0 comments:

Post a Comment