Monday, February 2, 2015

راحت اندوری

لوگ ھر موڑ پہ رُک رُک کے سنبھلتے کیوں ھیں
اتنا ڈرتے ھیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ھیں

میں نہ جگنوھوں، دیا ھوں نہ کوئی تارا ھوں
روشنی والے میرے نام سے جلتے کیوں ھیں

نیند سے میرا تعلق ھی نہیں برسوں سے
خواب آ آ کے مری چھت پہ ٹہلتے کیوں ھیں

موڑ ھوتا ھے جوانی کا سنبھلنے کے لیئے
اور سب لوگ یہیں آ کے پھسلتے کیوں ھیں

میکدہ ظرف کے معیار کا پیمانہ ہے
خالی شیشوں کی طرح لوگ اُچھلتے کیوں ھیں

راحت اندوری

0 comments:

Post a Comment