Saturday, March 14, 2015

شبنم شکیل


آخری حربہ ہمیں اب آزمانہ چاہیے
جو بچا ہے دائو پر وہ بھی لگانا چاہیے

کھل کے اس کا ذکر کرناچاہیے احباب میں
رفتہ فتہ یوں اسے پھر بھول جانا چاہیے

آخری دم تک نبھانا چاہیئیں آداب عشق
آخری شمعوں کی صورت ٹمٹمانا چاہیے

تو اڑا دے خاک میری جنگلوں صحرائوں میں
اے ہوائے مضطرب مجھ کو ٹھکانہ چاہیے

شبنم شکیل



میں پڑھ سکتی ہوں ان لکھے کواب بھی
یہ کشف ذات ہے یا اک سزا ہے

کوئی روکے روانی آنسوئوں کی
یہ دریا بہتے بہتے تھک گیا ہے

خدا حافظ مرے اے ہم نشینو
کہ مجھ کو تو بلاوا آ گیا ہے

شبنم شکیل

0 comments:

Post a Comment