آخری حربہ ہمیں اب آزمانہ چاہیے
جو بچا ہے دائو پر وہ بھی لگانا چاہیے
کھل کے اس کا ذکر کرناچاہیے احباب میں
رفتہ فتہ یوں اسے پھر بھول جانا چاہیے
آخری دم تک نبھانا چاہیئیں آداب عشق
آخری شمعوں کی صورت ٹمٹمانا چاہیے
تو اڑا دے خاک میری جنگلوں صحرائوں میں
اے ہوائے مضطرب مجھ کو ٹھکانہ چاہیے
شبنم شکیل
میں پڑھ سکتی ہوں ان لکھے کواب بھی
یہ کشف ذات ہے یا اک سزا ہے
کوئی روکے روانی آنسوئوں کی
یہ دریا بہتے بہتے تھک گیا ہے
خدا حافظ مرے اے ہم نشینو
کہ مجھ کو تو بلاوا آ گیا ہے
شبنم شکیل
0 comments:
Post a Comment