Saturday, March 14, 2015

شیخ امام بخش ناسخ

واعظا مسجد سے اب جاتے ہیں مے خانے کو ہم
پھینک کر ظرفِ وضو لیتے ہیں پیمانے کو ہم

کیا مگس بیٹھا بھلا اس شعلہ رو کے جسم پر
اپنے داغوں سے جلا دیتے ہیں پروانے کو ہم

تیرے آگے کہتے ہیں گل کھول کر بازوئے برگ
گلشنِ عالم سے ہیں تیار اڑ جانے کو ہم

کون کرتا ہے بتوں کے آگے سجدہ زاہدا
سر کو دے دے مار کر توڑیں گے بتخانے کو ہم

جب غزالوں کے نظر آ جاتے ہیں چشمِ سیاہ
دشت میں کرتے ہیں یاد اپنے سیہ خانے کو ہم

بوسہءِ خالِ زنخداں سے شفا ہو گی ہمیں
کیا کریں گے اے طبیب اس تیرے بہدانے کو ہم

باندھتے ہیں اپنے دل میں زلفِ جاناں کا خیال
اس طرح زنجیر پہناتے ہیں دیوانے کو ہم

پنجہءِ وحشت سے ہوتا ہے گریباں تار تار
دیکھتے ہیں کاکلِ جاناں میں جب شانے کو ہم

عقل کھو دی تھی جو اے ناسخ جنونِ عشق نے
آشنا سمجھا کیے اک عمر بیگانے کو ہم

0 comments:

Post a Comment