Thursday, April 19, 2018

ايک رديف دو شاعر

Image may contain: 2 people, people smiling, text




شکیل بدایونی
اب وہ خود محوِ علاج دردِ پنہاں ہو گئے
اے خوشا قسمت کہ پھر جینے کے ساماں ہو گئے

سوچ تو لیتے آئینے میں کس کا عکس ہے

اک ذرا سی بات پر اس درجہ حیراں ہو گئے
میں تو سمجھا تھا کہ یہ بھی اک فریبِ حسن ہے

اُف رے غیرت وہ تو سچ مچ پیشیماں ہو گئے
دید کے قابل ہے فیضِ رہ نور دانِ جنون

خارد دامن سے اُلجھ کر گل بداماں ہو گئے
صدقہ جاں سوز ی فرقت تو مجھ پر بار تھا

میری حالت دیکھ کر تم کیوں پریشاں ہو گئے
کون رکھے گا جہاں میں کفرِ سامانی کی لاج

عشق میں ہم جیسے کافر جب مسلماں ہو گئے
حضرت واعظ جہاں کی لذتوں سے کیوں ہو دور

وہ فرشتہ خصلتی کیسی ، جب انساں ہو گئے
عہدِ فروا ، اک بہانہ ہی سہی لیکن شکیل

اس بہانے سے سکونِِ دل کے ساماں ہو گئے





عرفان احمد میر

خندگی خوش لب تبسم مثل ارماں ہو گئے 
عہد بے غم جوں ہی آیا ہم پریشاں ہو گئے

آگے تھی ہم کو قرابت شب سے شب کو ہم سے تھی 

ان کو تھی خلوت سے رغبت ہم شبستاں ہو گئے
ہائے یہ عجز و نیاز مے کشاں بھی کم نہیں 

آہ کیا بھر لی کہ ہم خاک‌‌ گلستاں ہو گئے
کیا تری محفل کی ہے یہ ارتجالی اے خدا 

سانس کی فرصت نہ دی اور عہد و پیماں ہو گئے
کیا کریں شکوہ تری بے اعتدالی سے رقیب 

وہ بلائے بھی نہ آئے آپ مہمان ہو گئے
یاد ہے ہم کو جنون لا فنا کی لغزشیں 

ہم میں تھی موجیں کبھی اب دشت ویراں ہو گئے
رکھ لیا ساقی نے میری خستگی کا یہ بھرم 

شیخ کی مجلس میں ہم پستی کا ساماں ہو گئے
تیرے کاکل کی درازی ہو کہ زلفوں کا ستم 

ہم نے آنکھیں ان سے موندیں بھی تو زنداں ہو گئے


تیری قامت پر فدا ہو کیا کہ لب پر افتخار 

تیری انگشت حنائی پر ہی قرباں ہو گئے


آہ وہ بالغ ترا مشہور فہوائے کلام 

بلبلوں نے ہم کو دیکھا کل تو حیراں ہو گئے




0 comments:

Post a Comment