Thursday, April 19, 2018

ایک زمین


Image may contain: 2 people, text
ایک زمین
قلندر بخش جراتؔ
انشاءاللہ خان انشاؔ
نظیرؔ اکبر آبادی
۔۔۔۔۔
مِصرَع اُولٰی جراتؔ
مِصرَع ثانی انشاؔ

اُس زُلف پہ پھبتی شبِ دیجُور کی سُوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دُور کی سُوجھی

۔۔۔۔۔
انشاؔ

پھبتی تِرے مُکھڑے پہ مُجھے حُور کی سُوجھی
لا ہاتھ اِدھر دے کہ بہت دُور کی سُوجھی

ٹک دیکھئے گا جُبّہ و عَمّامہ زاہد
ہے اِس پہ مُجھے بلعم باعُور کی سُوجھی

کیوں مَیں دِل پر آبلہ پر تاک نہ باندُھوں
ہے اِس پہ مُجھے خوشۂ انگُور کی سُوجھی

ہے شیخ سیہ چہرہ جو مجلِس میں پُھدکتا
یاروں کو یہاں رُوئی کے لنگُور کی سُوجھی

واعظ جو پڑھا جن مُتَبختِر ہے نہایت
اِس پر مُجھے شیطان کی ہے پُور کی سُوجھی

ہاتھ اپنے سے جب چُھٹ گئی اُس ڈنڈ کی مچھلی
تب اُس کے تڑپنے پہ سَقَنقُور کی سُوجھی

ہاں اے شفقِ صُبح تِری دیکھ کے رنگت
شَنجرَف کی سُوجھی مُجھے کافُور کی سُوجھی

جب پُھول جھڑے نُور کے اِس آہ سے میری
اِس پر مُجھے انشاؔ شجرِ طُور کی سُوجھی

۔۔۔۔۔
نظیرؔ

دیکھ عقدِ ثُریّا ہمیں انگُور کی سُوجھی
کیوں بادہ کشاں ہم کو بھی کیا دُور کی سُوجھی

غش کھا کے گِرا پہلے ہی شُعلے کی جھلک سے
موسیٰ کو بھلا کہئے تو کیا طُور کی سُوجھی

ہم نے تو اُسے دیکھ یہ جانا کہ پری ہے
پریوں نے جو دیکھا تو اُنہیں حُور کی سُوجھی

دیکھا جو نہانے میں وہ گورا بدن اُس کا
بِلُور کی چوکی پہ جھلک نُور کی سُوجھی

سر پاؤں سے جب پھنس گئے اُس زُلفِ سیہ میں
جب ہم کو سیاہی شبِ دیجُور کی سُوجھی

جنّت کے لئے شیخ جو کرتا ہے عِبادت
کی غور جو خاطِر میں تو مزدُور کی سُوجھی

مَصنُوع میں صانِع نظر آوے تو نظیرؔ آہ
نزدیک کی پھر کیا ہے جہاں دُور کی سُوجھی



0 comments:

Post a Comment