Wednesday, April 18, 2018

احمد ندیم قاسمی




لبوں پہ نرم تبدّم رچا کے دھل جائیں
,,خدا کرے مرے آنسو کسی کے کام آئیں ,,
جو ابتدائے سفر میں دئے بجھا بیٹھے
وہ بد نصیب کسی کا سراغ کیا پائیں
تلاشِ حسن کہاں لے چلی خدا جانے
امنگ تھی کہ فقط زندگی کو اپنائیں
بلا رہے ہیں افق پر جو زرد رو ٹیلے
کہو تو ہم بھی فسانوں کا راز ہو جائیں
نہ کر خدا کے لئے بار بار ذکرِ بہشت
ہم ّسماں کا مکرر فریب کیوں کھائیں
تمام مے کدے سنسان میگسار اداس
لبوں کو کھول کے کچھ سوچتی ہیں مینائیں

احمد ندیم قاسمی


0 comments:

Post a Comment