Tuesday, January 30, 2018


ایک زمین کئی شاعر
محشر بدایونی اور احمد علی برقی اعظمی
محشر بدایونی
آخر آخر ایک غم ہی آشنا رہ جائے گا 
اور وہ غم بھی مجھ کو اک دن دیکھتا رہ جائے گا 
سوچتا ہوں اشک حسرت ہی کروں نذر بہار 
پھر خیال آتا ہے میرے پاس کیا رہ جائے گا 
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ 
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا 
آج اگر گھر میں یہی رنگ شب عشرت رہا 
لوگ سو جائیں گے دروازہ کھلا رہ جائے گا 
تا حد منزل توازن چاہئے رفتار میں 
جو مسافر تیز تر آگے بڑھا رہ جائے گا 
گھر کبھی اجڑا نہیں یہ گھر کا شجرہ ہے گواہ 
ہم گئے تو آ کے کوئی دوسرا رہ جائے گا 
روشنی محشرؔ رہے گی روشنی اپنی جگہ 
میں گزر جاؤں گا میرا نقش پا رہ جائے گا 
احمد علی برقیؔ اعظمی
نور حق کونین میں جلوہ نما رہ جائے گا
’’ جس دئے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا ‘‘
حُسنِ عالمتاب ہے غارتگرِ ہوش و خرد
تو اگر دیکھے گا اس کو دیکھتارہ جائے گا
خاک میں مِل جائے کا یہ جاہ و حشمت کا نشاں
صفحۂ تاریخ پر تو بدنما رہ جائے گا
کام آئیں گے نہ تیرے حاشیہ بردار یہ
ساتھ تیرے ظلم و جورِ ناروا رہ جائے گا
یہ جہانِ رنگ و بو ہے عالمِ ناپایدار
سب فنا ہوجائے گا دارالبقا رہ جائے گا
ظلم و استحصال کی ہوتی ہے آخر ایک حد
ختم ہوجائے گا سب نامِ خدا رہ جائے گا
خدمتِ نوعِ بشر سے بڑھ کے برقی کچھ نہیں
زیبِ تاریخِ جہاں نامِ وفا رہ جائے گا

0 comments:

Post a Comment