ایک زمین کئی شاعر
محشر بدایونی اور احمد علی برقی اعظمی
محشر بدایونی
آخر آخر ایک غم ہی آشنا رہ جائے گا
اور وہ غم بھی مجھ کو اک دن دیکھتا رہ جائے گا
سوچتا ہوں اشک حسرت ہی کروں نذر بہار
پھر خیال آتا ہے میرے پاس کیا رہ جائے گا
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
آج اگر گھر میں یہی رنگ شب عشرت رہا
لوگ سو جائیں گے دروازہ کھلا رہ جائے گا
تا حد منزل توازن چاہئے رفتار میں
جو مسافر تیز تر آگے بڑھا رہ جائے گا
گھر کبھی اجڑا نہیں یہ گھر کا شجرہ ہے گواہ
ہم گئے تو آ کے کوئی دوسرا رہ جائے گا
روشنی محشرؔ رہے گی روشنی اپنی جگہ
میں گزر جاؤں گا میرا نقش پا رہ جائے گا
احمد علی برقیؔ اعظمی
نور حق کونین میں جلوہ نما رہ جائے گا
’’ جس دئے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا ‘‘
حُسنِ عالمتاب ہے غارتگرِ ہوش و خرد
تو اگر دیکھے گا اس کو دیکھتارہ جائے گا
خاک میں مِل جائے کا یہ جاہ و حشمت کا نشاں
صفحۂ تاریخ پر تو بدنما رہ جائے گا
کام آئیں گے نہ تیرے حاشیہ بردار یہ
ساتھ تیرے ظلم و جورِ ناروا رہ جائے گا
یہ جہانِ رنگ و بو ہے عالمِ ناپایدار
سب فنا ہوجائے گا دارالبقا رہ جائے گا
ظلم و استحصال کی ہوتی ہے آخر ایک حد
ختم ہوجائے گا سب نامِ خدا رہ جائے گا
خدمتِ نوعِ بشر سے بڑھ کے برقی کچھ نہیں
زیبِ تاریخِ جہاں نامِ وفا رہ جائے گا
0 comments:
Post a Comment