Tuesday, January 30, 2018

شیشہ مرے لا شعور کا ہے


سلیمان خمار
شیشہ مرے لا شعور کا ہے
جس میں ترا عکس جم گیا ہے


یوں ہے کہ معاملہ ہمارا
ہاتھوں کی لکیر سے ورا ہے


تھکتے نہیں اس لئے مرے پانؤ
تُو بھی مرے ساتھ چل رہا ہے


جلتا ہے نہ جانے کیوں زمانہ
جب تُو مجھے ہنس کے دیکھتا ہے


ٹوٹی مری نیند تو کھُلا یہ
میرے لئے کوئی جاگتا ہے


پھر آگئی دل میں یاد اُس کی
صحرا میں گلاب کھِل رہا ہے


تنہائیاں گُنگُنا رہی ہیں
یادوں کا ستار بج رہا ہے


لمحوں کی تِھرکتی تتلیوں پر
میں نے ترا نام لکھ دیا ہے


جادو ہیں تری سمندر آنکھیں
دریا کا بہاؤ رُک گیا ہے

0 comments:

Post a Comment