سلیمان خمار
شیشہ مرے لا شعور کا ہے
جس میں ترا عکس جم گیا ہے
یوں ہے کہ معاملہ ہمارا
ہاتھوں کی لکیر سے ورا ہے
تھکتے نہیں اس لئے مرے پانؤ
تُو بھی مرے ساتھ چل رہا ہے
جلتا ہے نہ جانے کیوں زمانہ
جب تُو مجھے ہنس کے دیکھتا ہے
ٹوٹی مری نیند تو کھُلا یہ
میرے لئے کوئی جاگتا ہے
پھر آگئی دل میں یاد اُس کی
صحرا میں گلاب کھِل رہا ہے
تنہائیاں گُنگُنا رہی ہیں
یادوں کا ستار بج رہا ہے
لمحوں کی تِھرکتی تتلیوں پر
میں نے ترا نام لکھ دیا ہے
جادو ہیں تری سمندر آنکھیں
دریا کا بہاؤ رُک گیا ہے
0 comments:
Post a Comment