Tuesday, January 30, 2018

ایک زمین کئی شاعر


ایک زمین کئی شاعر
میرتقی میر اور احمد علی برقی اعظمی
میر تقی میرؔ
اس کا خیال چشم سے شب خواب لے گیا 
قسمے کہ عشق جی سے مرے تاب لے گیا 
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک 
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا 
آوے جو مصطبہ میں تو سن لو کہ راہ سے 
واعظ کو ایک جام مئے ناب لے گیا 
نے دل رہا بجا ہے نہ صبر و حواس و ہوش 
آیا جو سیل عشق سب اسباب لے گیا 
میرے حضور شمع نے گریہ جو سر کیا 
رویا میں اس قدر کہ مجھے آب لے گیا 
احوال اس شکار زبوں کا ہے جائے رحم 
جس ناتواں کو مفت نہ قصاب لے گیا 
منہ کی جھلک سے یار کے بے ہوش ہو گئے 
شب ہم کو میرؔ پرتو مہتاب لے گیا
احمد علی برقی اعظمی
سرسبز کھیت گلشنِ شاداب لے گیا
سب کچھ بہا کے ساتھ میں گرداب لے گیا
برباد کر نہ دے تجھے تیرا خمارِ خواب
’’ مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا‘‘
مت پوچھ میرے کیسے گذرتے ہیں روز و شب
جو کچھ بچی تھی مُجھ میں تب و تاب لے گیا
گُل ہو نہ جائے شمعِ شبستانِ زندگی
جو روشنی تھی کِرمکِ شبتاب لے گیا
صبر آزما ہے میرے لئے اُس کا انتظار
آنکھوں سے وہ چُرا کے مری خواب لے گیا
آنکھوں کی میری پیاس بجھائے گا کون اب
چشمِ پُر آب سے وہ مری آب لے گیا
وہ اپنے ساتھ لے گیا اس کی متاعِ شوق
برقیؔ سے اس کا گوہرِ نایاب لے گیا

0 comments:

Post a Comment