Friday, January 30, 2015

لیاقت علی عاصم



دشت کی تیز ہواؤں میں بکھر جاؤگے کیا 
ایک دن گھر نہیں جاؤ گے تو مر جاؤ گے کیا 
پیڑ نے چاند کو آغوش میں لے رکھا ہے 
میں تمھیں روکنا چاہوں تو ٹھہر جاؤگے کیا 
یہ زمستانِ تعلق یہ ہوائے قربت 
آگ اوڑھو گے نہیں یونہی ٹھٹھر جاؤگے 
یہ تکلم بھری آنکھیں، یہ ترنّم بھرے ہونٹ 
تم اسی حالتِ رسوائی میں گھر جاؤگے کیا 
لوٹ آؤگے مرے پاس پرندے کی طرح 
مری آواز کی سرحد سے گزر جاؤگے کیا 
چھوڑ کر ناؤ میں تنہا مجھے عاصم تم بھی 
کسی گمنام جزیرے پہ اُتر جاؤگے کیا

0 comments:

Post a Comment