سحر کے ساتھ ہی سورج کا ہمرکاب ہوا
جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا
میں جاگتا رہا اک خواب دیکھ کر برسوں
پھر اس کے بعد مرا جاگنا بھی خواب ہوا
میں زندگی کے ہر اک مرحلے سے گزرا ہوں
کبھی میں خار بنا اور کبھی گلاب ہوا
سمندروں کا سفر بھی تو دشت ایسا تھا
جسے جزیرہ سمجھتے تھے اک سراب ہوا
وہ پوچھتا تھا کہ آخر ہمارا رشتہ کیا
سوال اس کا مرے واسطے جواب ہوا
ہماری آنکھ میں دونوں ہی ڈوب جاتے ہیں
وہ آفتاب ہوا یا کہ ماہتاب ہوا
نہ اپنا آپ ہے باقی نہ سعد یہ دنیا
یہ آگہی کا سفر تو مجھے عذاب ہوا
مجھ سا جہان میں نادان بھی نہ ہو
کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو
کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا ضرور ہے
بِن میرے شائد آپ کی پہچان بھی نہ ہو
آشفتہ سر جو لوگ ہیں مشکل پسند ہیں
مشکل نہ ہو جو کام تو آسان بھی نہ ہو
محرومیوں کا ہم نے گلہ تک نہیں کیا
لیکن یہ کیا کہ دل میں یہ ارمان بھی نہ ہو
خوابوں سی دلنواز حقیقت نہیں کوئی
یہ بھی نہ ہو تو درد کا درمان بھی نہ ہو
رونا یہی تو ہے کہ اسے چاہتے ہیں ہم
اے سعد جس کے ملنے کا امکان بھی نہ ہو
ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو
یہ بھی کافی نہیںظالم کی پشیمانی کو
کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیںجو ہم نے
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو
شیشہء شوق پہ تُو سنگِ ملامت نہ گرا
عکسِ گل رنگ ہی کافی ہے گراں جانی کو
تُو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا
دل نے در کھول دئیے ہیںتری آسانی کو
دامنِ چشم میں تارا ہے نہ جگنو کوئی
دیکھ اے دوست مری بے سر و سامانی کو
ہاں مجھے خبط ہے سودا ہے جنوں ہے شاید
دے لو جو نام بھی چاہو مری نادانی کو
جس میں مفہوم ہو کوئی نہ کوئی رنگِ غزل
سعد جی آگ لگے ایسی زباں دانی کو
ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو
یہ بھی کافی نہیںظالم کی پشیمانی کو
کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیںجو ہم نے
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو
شیشہء شوق پہ تُو سنگِ ملامت نہ گرا
عکسِ گل رنگ ہی کافی ہے گراں جانی کو
تُو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا
دل نے در کھول دئیے ہیںتری آسانی کو
دامنِ چشم میں تارا ہے نہ جگنو کوئی
دیکھ اے دوست مری بے سر و سامانی کو
ہاں مجھے خبط ہے سودا ہے جنوں ہے شاید
دے لو جو نام بھی چاہو مری نادانی کو
جس میں مفہوم ہو کوئی نہ کوئی رنگِ غزل
سعد جی آگ لگے ایسی زباں دانی کو
0 comments:
Post a Comment