Friday, January 30, 2015

محمد وارث


چھیڑ دل کے تار پر، کوئی نغمہ کوئی دُھن 
امن کی تُو بات کر، آشتی کے گا تُو گُن 
ریشہ ریشہ تار تار، چاہے ہوں ہزار بار 
سُن مرے دلِ فگار، وصل کے ہی خواب بُن 
لوبھیوں کی بستی میں، مایا کے ترازو سے 
فیصلہ کرے گا کون، کیا ہے پاپ کیا ہے پُن؟ 
سانس ہیں یہ چند پَل، آج ہیں نہیں ہیں کل 
ہاں امَر وہ ہو گیا، زہر جام لے جو چُن 
قریہ قریہ شہر شہر، موج موج لہر لہر 
نام تیرا لے اسد، مہرباں کبھی تو سُن




آرزوئے بہار لاحاصِل 
عشقِ ناپائدار لاحاصِل 
قیدِ فطرت میں تُو ہے پروانے 
تیرا ہونا نثار لاحاصِل 
ہے شفاعت اگر بُروں کے لیے 
نیکیوں کا شمار لاحاصِل 
دلِ دنیا ہے سنگِ مرمر کا 
لاکھ کر لو پکار، لاحاصِل 
شعر و گُل میں ڈھلے اسد لمحے 
کب رہا انتظار لاحاصِل




نہ سرا ملا ہے کوئی، نہ سراغ زندگی کا 
یہ ہے میری کوئی ہستی، کہ ہے داغ زندگی کا 
یہی وصل کی حقیقت، یہی ہجر کی حقیقت 
کوئی موت کی ہے پروا، نہ دماغ زندگی کا 
یہ بھی خوب ہے تماشا، یہ بہار یہ خزاں کا 
یہی موت کا ٹھکانہ، یہی باغ زندگی کا 
یہ میں اُس کو پی رہا ہوں، کہ وہ مجھ کو پی رہا ہے 
مرا ہم نفَس ازَل سے، ہے ایاغ زندگی کا 
اسد اُس سے پھر تو کہنا، یہی بات اک پرانی 
میں مسافرِ شبِ ہجر، تُو چراغ زندگی کا





0 comments:

Post a Comment