Friday, January 30, 2015

عزیز لکھنوی

اُلجھن کا عِلاج آہ کوئی کام نہ آیا !
جی کھول کے رویا بھی تو آرام نہ آیا
دل سینے میں جب تک رہا آرام نہ آیا 
کام آئے گا کِس کے جو مِرے کام نہ آیا
کام اُس کے نہ کاش آئے وہ مغرور بھی یونہی 
جیسے دلِ آوارہ مِرے کام نہ آیا
یہ کہہ کے وہ سرہانے سے بیمار کے اُٹّھے 
صد شکر، کہ مجھ پر کوئی الزام نہ آیا
بجلی سی کوئی شے مِرے سینہ میں کبھی تھی
سوچا تو بہت، یاد مگر نام نہ آیا
تا حشر نہ بُھولے گا عزیز اپنی شبِ ہجر 
کیا رات تھی وہ رات، کہ آرام نہ آیا
عزیز لکھنوی

0 comments:

Post a Comment