Friday, January 30, 2015

آغا حشر



یاد میں تیری جہاں کو بھولتا جاتا ہوں میں 
بھولنے والے، کبھی تجھ کو بھی یاد آتا ہوں میں 
اک دھندلا سا تصور ہے کہ دل بھی تھا یہاں 
اب تو سینے میں فقط اک ٹیس سی پاتا ہوں میں  
آرزؤں کا شباب اور مرگ حسرت ہائے ہائے 
جب بہار آئی گلستاں میں تو مرجھاتا ہوں میں 
حشر میری شعر گوئی ہے فقط فریاد شوق 
اپنا غم دل کی زباں میں، دل کو سمجھاتا ہوں میں




تم اور فریب کھاؤ بیانِ رقیب سے
تم سے تو کم گِلا ہے زیادہ نصیب سے
گویا تمہاری یاد ہی میرا علاج ہے
ہوتا ہے پہروں ذکر تمہارا طبیب سے
بربادِ دل کا آخری سرمایہ تھی امید
وہ بھی تو تم نے چھین لیامجھ غریب سے
دھندلا چلی نگاہ دمِ واپسی ہے اب
آ پاس آ کہ دیکھ لوں تجھ کو قریب سے



0 comments:

Post a Comment