Friday, January 30, 2015

ابراھیم ذوق


اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
سامنے چشم گہر بار کے کہہ دو دریا
چڑھ کے گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے
لائے جو مست ہیں تربت پہ گلابی آنکھیں
اور اگر کچھ نہیں دو پھول تو دھر جائیں گے
بچیں گے رہ گزر یار تلک کیونکر ہم
پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جائیں گے
آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی
جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے
ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ سے
بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے
رخِ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم
مہر و مہ نظروں سے یاروں کی اتر جائیں گے
شعلہ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں
پر یہی ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے
ذوق جو مدرسہ کے بگڑے ہوئے ہیں مُلا
ان کو مہ خانہ میں لے آؤ سنور جائیں گے



لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے 
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے 
بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے 
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے 
ہو عمرِ خضر بھی تو کہیں گے بوقتِ مرگ 
ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے 
دنیا نے کس کا راہِ فنا میں دیا ہے ساتھ 
تم بھی چلے چلو یونہی جب تک چلی چلے 
نازاں نہ ہو خِرد پہ جو ہونا ہے وہ ہی ہو 
دانش تری نہ کچھ مری دانشوری چلے 
کم ہوں گے اس بساط پہ ہم جیسے بدقمار 
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے 
جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوق 
اپنی بلا سے بادِ صبا اب کبھی چلے




پھرتا لیے چمن میں ہے دیوانہ پن مجھے
زنجیرِ پا ہے موجِ نسیمِ چمن مجھے
ہوں شمع یا کہ شعلہ خبر کچھ نہیں مگر
فانوس ہو رہا ہے میرا پیراہن مجھے
کوچے میں تیری کون تھا لیتا بھلا خبر
شب چاندنی نے آ کے پہنایا کفن مجھے
دکھلاتا اک ادا میں ہے سو سو بناؤ
کس سادہ پن کے ساتھ تیرا بانکپن مجھے
آیا ہوں نور لے کے میں بزمِ سخن میں ذوق
آنکھوں پہ سب بٹھائیں گے اہلِ سخن مجھے



0 comments:

Post a Comment