Saturday, January 31, 2015

کیفیؔ اعظمی


تُم اِتنا جو مُسکرا رہے ہو
کيا غم ہے جِس کو چُھپا رہے ہو

آنکھوں ميں نمی، ہنسی لبوں پر
کيا حال ہے، کيا دِکھا رہے ہو
بن جائيں گے زہر پيتے پيتے
يہ اشک جو پيتے جا رہے ہو
جِن زخموں کو وقت بھر چلا ہے
تم کيوں انہیں چھيڑے جا رہے ہو

ريکھاؤں کا کھيل ہے مقدّر
ريکھاؤں سے مات کھا رہے ہو

0 comments:

Post a Comment