Friday, January 30, 2015

احمد راہی



دل کے سنسان جزیروں کی خبر لائے گا 
درد پہلو سے جدا ہو کے کہاں جائے گا 
کون ہوتا ہے کسی کا شبِ تنہائی میں 
غمِ فرقت ہی غمِ عشق کو بہلائے گا 
چاند کے پہلو میں دم سادھ کے روتی ہے کرن 
آج تاروں فُسوں خاک نظر آئے گا 
راکھ میں آگ بھی ہے غمِ محرومی کی 
راکھ ہو کر بھی یہ شعلہ ہمیں سلگائے گا 
وقت خاموش ہے رُوٹھے ہوئے یاروں کی طرح 
کون لو دیتے ہوئے زخموں کو سہلائے گا 
دھوپ کو دیکھ کے اس جسم پہ پڑتی ہے چمک 
چھاؤں دیکھیں گے تو اس زلف کا دھیان آئے گا 
زندگی چل کہ زرا موت کا دم خم دیکھیں 
ورنہ یہ جذبہ لحد تک ہمیں لے جائے گا





کوئی حسرت بھی نہیں ، کوئی تمنا بھی نہیں 
دل وہ آنسو جو کسی آنکھ سے چھلکا بھی نہیں 
روٹھ کر بیٹھ گئ ہمت دشوار پسند 
راہ میں اب کوئی جلتا ھوا صحرا بھی نہیں 
آگے کچھ لوگ ھمیں دیکھ کے ھنس دیتے تھے 
اب یہ عالم ھے کہ کوئی دیکھنے والا بھی نہیں 
درد وہ آگ کہ بجھتی نہیں جلتی بھی نہیں 
یاد وہ زخم کہ بھرتا نہیں ، رستا بھی نہیں 
باد باں کھول کے بیٹھے ھیں سفینوں والے 
پار اترنے کے لیے ہلکا سا جھونکا بھی نہیں




0 comments:

Post a Comment