Saturday, January 31, 2015

پیر نصیرالدین شاہ نصیر

کبھی اُن کا نام لینا کبھی اُن کی بات کرنا
مِرا ذوق اُن کی چاہت مِرا شوق اُن پہ مرنا


وہ کسی کی جھیل آنکھیں وہ مِری جُنوں مِزاجی
کبھی ڈُوبنا اُبھر کر کبھی ڈُوب کر اُبھرنا

تِرے منچلوں کا جگ میں یہ عجب چلن رہا ہے
نہ کِسی کی بات سُننا نہ کِسی سے بات کرنا

شبِ غم نہ پُوچھ کیسے تِرے مُبتلا پہ گُزری
کبھی آہ بھر کے گِرنا کبھی گِر کے آہ بھرنا

وہ تِری گلی کے تیور، وہ نظر نظر پہ پہرے
وہ مِرا کِسی بہانے تُجھے دیکھتے گُزرنا

کہاں میرے دِل کی حسرت، کہاں میری نارسائی
کہاں تیرے گیسوؤں کا تِرے دوش پر بِکھرنا

چلے لاکھ چال دُنیا ہو زمانہ لاکھ دُشمن
جو تِری پناہ میں ہو اُسے کیا کِسی سے ڈرنا


وہ کریں گے ناخُدائی تو لگے گی پار کشتی
ہے نصیر ورنہ مُشکل تِرا پار یوں اُترنا

0 comments:

Post a Comment