Friday, January 30, 2015

ساحر لدھیانوی

میں نے ہر چند غمِ عشق کو کھونا چاہا 

غمِ الفت غمِ دنیا میں سمونا چاہا 
وہی افسانے مری سمت رواں ہیں اب تک 
وہی شعلے مرے سینے میں نہاں ہیں اب تک 
وہی بے سود خلش ہے مرے سینے میں ہنوز 
وہی بیکار تمنائیں جواں ہیں‌اب تک 
وہی گیسو مری راتوں پہ ہیں بکھرے بکھرے 
وہی آنکھیں مری جانب نگراں ہیں اب تک 
کثرتِ غم بھی مرے غم کا مداوا نہ ہوئی! 
میرے بے چین خیالوں کو سکون مل نہ سکا 
دل نے دنیا کے ہر اک درد کو اپنا تو لیا 
مضمحل روح کو اندازِ جنوں مل نہ سکا 
میری تخئیل کا شیرازۂ برہم ہے وہی 
میرے بجھتے ہوئے احساس کا عالم ہے وہی 
وہی بے جان ارادے وہی بے رنگ سوال 
وہی بے روح کشاکش وہی بے چین خیال 
آہ اس کشمکشِ صبح و مسا کا انجام 
میں بھی ناکام مری سعی عمل بھی ناکام





میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ 
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا 
زندگی تلخ سہی ، زہر سہی، سم ہی سہی 
دردو آزار سہی، جبر سہی، غم ہی سہی 
لیکن اس درد و غم و جبر کی وسعت کو تو دیکھ 
ظلم کی چھاؤں میں دم توڑتی خلقت کو تو دیکھ 
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا 
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ 
جلسہ گاہوں میں یہ دہشت زدہ سہمے انبوہ 
رہ گزاروں پہ فلاکت زدہ لوگوں کا گروہ 
بھوک اور پیاس سے پژمردہ سیہ فام زمیں 
تیرہ و تار مکاں، مفلس و بیمار مکیں 
نوعِ انساں میں یہ سرمایہ و محنت کا تضاد 
امن و تہذیب کے پرچم تلے قوموں کا فساد 
ہر طرف آتش و آہن کا یہ سیلابِ عظیم 
نت نئے طرز پہ ہوتی ہوئی دنیا تقسیم 
لہلہاتے ہوئے کھیتوں پہ جوانی کا سماں 
اور دہقان کے چھپر میں نہ بتی نہ دھواں 
یہ فلک بوس ملیں دلکش و سمیں بازار 
یہ غلاظت پہ چھپٹتے ہوئے بھوکے نادار 
دور ساحل پہ وہ شفاف مکانوں کی قطار 
سرسراتے ہوئے پردوں میں سمٹتے گلزار 
درو دیوار پہ انوار کا سیلابِ رواں 
جیسے اک شاعرِ مدہوش کے خوابوں کا جہاں 
یہ سبھی کیوں ہے یہ کیا ہے مجھے کچھ سوچنے دے 
کون انساں کا خدا ہے مجھے کچھ سوچنے دے 
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا 
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ





سوچتا ہوں‌کہ محبت سے کنارا کرلوں 
دل کو بیگانۂ ترغیب و تمنا کرلوں 
سوچتا ہوں‌کہ محبت ہے جنونِ رسوا 
چند بے کار سے بے ہودہ خیالوں کا ہجوم 
ایک آزاد کو پابند بنانے کی ہوس 
ایک بیگانے کو اپنانے کی سعئ موہوم 
سوچتا ہوں کہ محبت سے سرور و مستی 
اس کی تنویر سے روشن ہے فضائے ہستی 
سوچتا ہوں کہ محبت ہے بشر کی فطرت 
اس کا مٹ جانا مٹا دینا بہت مشکل ہے 
سوچتا ہوں کہ محبت سے ہے تابندہ حیات 
اور یہ شمع بجھا دینا بہت مشکل ہے 
سوچتا ہوں کہ محبت پہ کڑی شرطیں ہیں 
اس تمدن میں مسرت پہ بڑی شرطیں ہیں 
سوچتا ہوں کہ محبت ہے اک افسردہ سی لاش 
چادرِ عزت و ناموس میں کفنائی ہوئی 
دورِ سرمایہ کی روندی ہوئی رسوا ہستی 
درگہِ مذہب و اخلاق سے ٹھکرائی ہوئی 
سوچتا ہوں کہ بشر اور محبت کا جنوں 
ایسے بوسیدہ تمدن میں ہے اک کار زبوں 
سوچتا ہوں کہ محبت نہ بچے گی زندہ 
پیش ازاں وقت کہ سڑ جائے یہ گلتی ہوئی لاش 
یہی بہتر ہے کہ بیگانۂ الفت ہو کر 
اپنے سینے میں‌کروں جذبۂ نفرت کی تلاش 
سوچتا ہوں کہ محبت سے کنارا کر لوں 
دل کو بیگانۂ ترغیب و تمنا کر لوں







تمہیں اداس سا پاتا ہوں میں کئی دن سے 
نہ جانے کون سے صدمے اٹھا رہی ہوتم 
وہ شوخیاں وہ تبسم وہ قہقہے نہ رہے 
ہر ایک چیز کو حسرت سے دیکھتی ہو تم 
چھپا چھپا کے خموشی میں اپنی بے چینی 
خود اپنے راز کی تشہیر بن گئی ہو تم 
میری امید اگر مٹ گئی تو مٹنے دو 
امید کیا ہے بس اک پیش و پس ہے کچھ بھی نہیں 
میری حیات کی غمگینیوں کاغم نہ کرو 
غمِ حیات غم یک نفس ہے کچھ بھی نہیں 
تم اپنے حسن کی رعنائیوں پہ رحم کرو 
وفا فریب ہے، طول ہوس ہے کچھ بھی نہیں 
مجھے تمہارے تغافل سے کیوں شکایت ہو؟ 
مری فنا مرے احساس کا تقاضا ہے 
میں‌ جانتا ہوں کہ دنیا کا خوف ہے تم کو 
مجھے خبر ہے یہ دنیا عجیب دنیا ہے 
یہاں حیات کے پردے میں موت پلتی ہے 
شکستِ ساز کی آواز روحِ نغمہ ہے 
مجھے تمہاری جدائی کا کوئی رنج نہیں 
مرے خیال کی دنیا میں‌میرے پاس ہو تم 
یہ تم نے ٹھیک کہا ہے تمہیں ملا نہ کروں 
مگر مجھے یہ بتا دو کہ کیوں اداس ہو تم 
خفا نہ ہونا مری جرأت تخاطب پر؟ 
تمہیں‌خبر ہے مری زندگی کی آس ہو تم 
مرا تو کچھ بھی نہیں ہے میں رو کے جی لوں گا 
مگر خدا کے لیے تم اسیرِ‌غم نہ رہو 
ہوا ہی کیا جو زمانے نے تم کو چھین لیا 
یہاں پہ کون ہوا ہے کسی کا، سوچو تو 
مجھے قسم ہے مری دکھ بھری جوانی کی 
میں خوش ہوں میری محبت کے پھول ٹھکرا دو 
میں اپنی روح کی ہر اک خوشی مٹا لوں گا 
مگر تمہاری مسرت مٹا نہیں سکتا 
میں‌ خود کو موت کے ہاتھوں میں‌سونپ سکتاہوں 
مگر یہ بارِ مصائب اٹھا نہیں سکتا 
تمہارے غم کے سوا اور بھی تو غم ہیں مجھے 
نجات جن سے میں اک لحظہ پا نہیں ‌سکتا 
یہ اونچے اونچے مکانوں کی ڈیوڑھیوں کے تلے 
ہر ایک گام پہ بھوکے بھکاریوں کی صدا 
ہر ایک گھر میں ہے افلاس اور بھوک کا شور 
ہر ایک سمت یہ انسانیت کی آہ و بکا 
یہ کارخانوں میں لوہے کا شوروغل جس میں 
ہےدفن لاکھوں غریبوں کی روح کا نغمہ 
یہ شاہراہوں پہ رنگین ساڑھیوں کی جھلک 
یہ جھونپڑوں میں‌غریبوں کے بے کفن لاشے 
یہ مال روڈ پہ کاروں کی ریل پیل کا شور 
یہ پٹڑیوں پہ غریبوں کے زرد رو بچے 
گلی گلی میں یہ بکتے ہوئے جواں چہرے 
حسین آنکھوں میں افسردگی سی چھائی ہوئی 
یہ جنگ اور یہ میرے وطن کے شوخ جواں 
خریدی جاتی ہے اٹھتی جوانیاں جن کی 
یہ بات بات پہ قانون و ضابطے کی گرفت 
یہ ذلّتیں، یہ غلامی یہ دورِ مجبوری 
یہ غم بہت ہیں مری زندگی مٹانے کو 
اداس رہ کے مرے دل کو اور رنج نہ دو







تنگ آ چکے ہیں کشمکشِ زندگی سےہم 
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں‌ بے دلی سے ہم 
مایوسئ مآلِ محبت نہ پوچھئے 
اپنوں سے پیش آئے ہیں ‌بیگانگی سے ہم 
لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ امید 
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم 
ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے 
گودب گئے ہیں بارِ غمِ زندگی سے ہم 
گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے 
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم 
اللہ رے فریبِ مشیت کہ آج تک 
دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم





خودداریوں کےخون کو ارزاں نہ کرسکے 
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے 
ہو کر خرابِ مے ترے غم تو بھلا دیئے 
لیکن غمِ حیات کا درماں نہ کر سکے 
ٹوٹا طلسمِ عہد محبّت کچھ اس طرح 
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے 
ہر شے قریب آکے کشش اپنی کھو گئی 
وہ بھی علاجِ شوق گریزاں نہ کرسکے 
کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے 
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کرسکے 
مایوسیوں نے چھین لیے دل کے ولولے 
وہ بھی نشاطِ روح کا ساماں نہ کر سکے




خلوت و جلوت میں تم مجھ سے ملی ہو بارہا 
تم نے کیا دیکھا نہیں، میں مسکرا سکتا نہیں 
میں‌کہ مایوسی مری فطرت میں داخل ہو چکی 
جبر بھی خود پر کروں‌تو گنگنا سکتا نہیں 
مجھ میں کیا دیکھا کہ تم الفت کا دم بھرنے لگیں 
میں تو خود اپنے بھی کوئی کام آسکتا نہیں 
روح افزا ہیں جنونِ عشق کے نغمے مگر 
اب میں ان گائے ہوئے گیتوں کو گاسکتا نہیں 
میں نے دیکھا ہے شکستِ سازِ الفت کا سماں 
اب کسی تحریک پر بربط اٹھا سکتا نہیں 
دل تمہاری شدتِ احساس سے واقف تو ہے 
اپنے احساسات سے دامن چھڑا سکتا نہیں 
تم مری ہو کر بھی بیگانہ ہی پاؤ گی مجھے 
میں تمہارا ہو کے بھی تم میں سما سکتا نہیں 
گائے ہیں میں نے خلوصِ دل سے بھی الفت کے گیت 
اب ریا کاری سے بھی چاہوں تو گا سکتا نہیں 
کس طرح تم کو بنا لوں میں‌شریکِ زندگی 
میں‌تو اپنی زندگی کا بار اٹھا سکتا نہیں 
یاس کی تاریکیوں میں‌ ڈوب جانے دو مجھے 
اب میں‌شمعِ ‌آرزو کی لو بڑھا سکتا نہیں


0 comments:

Post a Comment