Wednesday, November 26, 2014

سلیم احمد


جاکے پھر لوٹ جو آئے ، وہ زمانہ کیسا

تیری آنکھوں نے یہ چھیڑا ہے ، فسانہ کیسا



آنکھ سرشارِ تمنا ہے ، تُو وعدہ کرلے
چال کہتی ہے کہ اب لوٹ کے ، ‌آنا کیسا

مجھ سے کہتا ہے کہ سائے کی طرح ساتھ ہیں ہم
یوں نہ ملنے کا نکالا ہے ، بہانہ کیسا

اس کا شکوہ تو نہیں ہے ، نہ ملے تو ہم سے
رنج ا سکا ہی کہ تم نے ہمیں ، جانا کیسا

خود بھی سوچا تھا بہت ، اس نے بھی پوچھا تھا بہت
حال جب خود ہی نہ سمجھے تو ، سنانا کیسا

تجھ کو پانے کی ہوس تھی ، سو کسے معلوم تھا
اپنے ہی آپ کو کھو بیٹھیں گے ، پانا کیسا 

سلیم احمد




کپلنگ نے کہا تھا
“مشرق، مشرق ہے
اور مغرب، مغرب ہے
اور دونوں کا ملنا ناممکن ہے”

لیکن مغرب، مشرق کے گھر آنگن میں آ پہنچا ہے
میرے بچوں کے کپڑے لندن سے آتے ہیں
میرا نوکر بی بی سی کی خبریں سنتا ہے
میں بیدل اور حافظ کے بجائے
شیکسپیئر اور رلکے کی باتیں کرتا ہوں

اخباروں میں
مغرب کے چکلوں کی خبریں اور تصویریں چھپتی ہیں
مجھ کو چگی داڑھی والے اکبر کی کھسیانی ہنسی پر
رحم آتا ہے

اقبال کی باتیں (گستاخی ہوتی ہے)
……… مجذوب کی بڑہیں
وارث شاہ اور بلھے شاہ اور بابا فرید؟
چلیے جانے دیجیے ان باتوں میں کیا رکھا ہے
مشرق ہار گیا ہے!

یہ بکسر پلاسی کی ہار نہیں ہے
ٹیپو اور جھانسی کی رانی کی ہار نہیں ہے
سن ستاون کی جنگ آزادی کی ہار نہیں ہے
ایسی ہار تو جیتی جا سکتی ہے (شاید ہم نے جیت بھی لی ہے)
لیکن مشرق اپنی روح کے اندر ہار گیا ہے

قبلائی خان تم ہار گئے ہو؟
اور تمہارے ٹکڑوں پر پلنے والا لالچی مارکوپولو
جیت گیا ہے
اکبر اعظم! تم کو مغرب کی جس عیارہ نے تحفے بھیجے تھے
اور بڑا بھائی لکھا تھا
اس کے کتے بھی ان لوگوں سے افضل ہیں
جو تمہیں مہابلی اور ظل الہی کہا کرتے تھے

مشرق کیا تھا؟
جسم سے اوپر اٹھنے کی خواہش تھی
شہوت اور جبلت کی تاریکی میں
اک دیا جلانے کی کوشش تھی
میں سوچ رہا ہوں، سورج مشرق سے نکلا تھا
(مشرق سے جانے کتنے سورج نکلے تھے)
لیکن مغرب ہر سورج کو نگل گیا ہے
“میں ہار گیا ہوں”

میں نے اپنے گھر کی دیواروں پر لکھا ہے
“میں ہار گیا ہوں”
میں نے اپنے آئینے پر کالک مل دی ہے
اور تصویروں پر تھوکا ہے
ہارنے والے چہرے ایسے ہوتے ہیں

میری روح کے اندر اک ایسا زخم لگا ہے
جس کے بھرنے کے لیے صدیاں بھی ناکافی ہیں
میں اپنے بچے اور کتے دونوں کو ٹیپو کہتا ہوں
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو
اور مجھے اک نفرت دے دو
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو
اور مجھے ایک غصہ دے دو
ایسی نفرت، ایسا غصہ
جس کی آگ میں سب جل جائیں
……. میں بھی!


سلیم احمد

0 comments:

Post a Comment