Thursday, November 27, 2014

امیر مینائی


ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
تری بانکی چتون نے چن چن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے
نہ گل ہیں نہ غنچے نو بوٹے نہ پتے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے
یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا
وہاں ان کو گزرے گماں کیسے کیسے
ہزاروں برس کی ہے بڑھیا یہ دنیا
مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے
ترے جاں نثاروں کے تیور وہی ہیں
گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے
جوانی کا صدقہ ذرا آنکھ اٹھاؤ
تڑپتے ہیں دیکھو جواں کیسے کیسے
خزاں لوٹ ہی لے گئی باغ سارا
تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے
امیرؔ اب سخن کی بڑی قدر ہو گی
پھلے پھولیں گے نکتہ داں کیسے کیسے



تو نے بتِ ہرجائی، کچھ ایسی ادا پائی
تکتا ہے تیری صورت ہر ایک تماشائی

پہلے سے نہ سوچا تھا انجام محبت کا
تب ہوش میں آۓ ہیں جب جان پہ بن آئی

جی بھر گیا دنیا سے ، اب دل میں یہ حسرت ہے
میں ہوں یا تیرا جلوہ ، اور گوشہء تنہائی

طعنو ں سے ہے دل زخمی ، زخموں سے جگر خوں ہے
لو دل کے لگانے کی ہم نے یہ سزا پائی

مدت سے امیر ان سے ملنے کی تمنا تھی
آج اس نے بلایا ہے لینے کو قضا آئی

0 comments:

Post a Comment