Thursday, November 27, 2014

خمار بارہ بنکوی



وہ ہیں پاس اور یاد آنے لگے ہیں

محبت کے ہوش اب ٹھکانے لگے ہیں

وہی پھر مجھے یاد آنے لگے ہیں

جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں

سنا ہے ہمیں وہ بھلانے لگے ہیں
تو کیا ہم انہیں یاد آنے لگے ہیں
ہٹائے تھے جو راہ سے دوستوں کی
وہ پتھر مرے گھر میں آنے لگے ہیں
یہ کہنا تھا ان سے محبت ہے مجھ کو
یہ کہنے میں مجھ کو زمانے لگے ہیں
قیامت یقیناً قریب آ گئی ہے
خمار اب تو مسجد میں جانے لگے ہیں

 خمار بارہ بنکوی



ترے در سے اٹھ کر جدھر جاؤں میں
چلوں دو قدم اور ٹھہر جاؤں میں
اگر تُو خفا ہو تو پروا نہیں

ترا غم خفا ہو تو مر جاؤں میں
تبسّم نے اتنا ڈسا ہے مجھے
کلی مسکرائے تو ڈر جاؤں میں
سنبھالے تو ہوں خود کو تجھ بن مگر
جو چھُو لے کوئی تو بکھر جاؤں میں
مبارک خمار آپ کو ترکِ مے
پڑے مجھ پر ایسی تو مر جاؤں میں

خمار بارہ بنکوی






مجھ کو شکستِ دل کا مزہ یاد آ گیا
تم کیوں اُداس ہو گئے، کیا یاد آ گیا

کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر
کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آ گیا

برسے بغیر ہی جو گھٹا گِھر کے کُھل گئی
اک بیوفا کا عہدِ وفا یاد آ گیا

واعظ سلام لے، کہ چلا میکدے کو میں
فردوسِ گمشدہ کا پتہ یاد آ گیا

مانگیں گے اب دعا کہ اُسے بُھول جائیں ہم
لیکن جو وہ بوقتِ دعا یاد آ گیا!

حیرت ہے تم کو دیکھ کے مسجد میں اے خمار!
کیا بات ہو گئی جو خدا یاد آ گیا






دشمنوں سے پشیماں ہونا پڑا ہے
دوستوں کا خلوص آزمانے کے بعد

بخش دے یا رب اہلِ ہوس کو بہشت
مجھ کو کیا چاہیے تم کو پانے کے بعد

کیسے کیسے گلے یاد آئے خمار
ان کے آنے سے قبل ان کے جانے کے بعد




بیتے دنوں کی یاد بھلائے نہیں بنے 
یہ آخری چراغ بجھائے نہ بنے 
دنیا نے جب مرا نہیں بننے دیا انہیں 
پتھر تو بن گئے وہ پرائے نہیں بنے 
توبہ کیے زمانہ ہوا، لیکن آج تک 
جب شام ہو تو کچھ بھی بنائے نہیں بنے 
پردے ہزار خندہ پیہم کے ڈالیے 
غم وہ گناہ ہے کہ چھپائے نہیں بنے 
یہ نصف شب یہ میکدے کا در یہ محتسب 
ٹوکے کوئی تو بات بنائے نہیں بنے 
جاتے تو ہیں صنم کدے سے حضرتِ خمار 
لیکن خدا کرے کہ بن آئے نہ بنے



ترے در سے اٹھ کر جدھر جاؤں میں 
چلوں دو قدم اور ٹھہر جاؤں میں 
اگر تُو خفا ہو تو پروا نہیں 
ترا غم خفا ہو تو مر جاؤں میں 
تبسّم نے اتنا ڈسا ہے مجھے 
کلی مسکرائے تو ڈر جاؤں میں 
سنبھالے تو ہوں خود کو تجھ بن مگر 
جو چھُو لے کوئی تو بکھر جاؤں میں 
مبارک خمار آپ کو ترکِ مے 
پڑے مجھ پر ایسی تو مر جاؤں میں




اک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھیے 
دو دن کی زندگی کا مزا ہم سے پوچھیے 
بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدّتوں میں ہم 
قسطوں میں خود کشی کا مزا ہم سے پوچھیے 
آغازِعاشقی کا مزا آپ جانیے 
انجامِ عاشقی کا مزا ہم سے پوچھیے 
وہ جان ہی گئے کہ ہمیں ان سے پیار ہے 
آنکھوں کی مخبری کا مزا ہم سے پوچھیے 
جلتے دلوں میں جلتے گھروں جیسی ضَو کہاں 
سرکار روشنی کا مزا ہم سے پوچھیے 
ہنسنے کا شوق ہم کو بھی تھا آپ کی طرح 
ہنسیے مگر ہنسی کا مزا ہم سے پوچھیے 
ہم توبہ کر کے مر گئے قبلِ اجل خمار 
توہینِ مے کشی کا مزا ہم سے پوچھیے




نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے 
دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے 
سکوں ہی سکوں ہے، خوشی ہی خوشی ہے 
ترا غم سلامت، مجھے کیا کمی ہے 
وہ موجود ہیں اور ان کی کمی ہے 
محبت بھی تنہائی یہ دائمی ہے 
کھٹک گدگدی کا مزا دے رہی ہے 
جسے عشق کہتے ہیں شاید یہی ہے 
چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں 
نیا ہے زمانہ، نئی روشنی ہے 
جفاؤں پہ گھُٹ گھُٹ کے چُپ رہنے والو 
خموشی جفاؤں کی تائید بھی ہے 
مرے راہبر! مجھ کو گمراہ کر دے 
سنا ہے کہ منزل قریب آ گئی ہے 
خمارِ بلا نوش! تُو اور توبہ! 
تجھے زاہدوں کی نظر لگ گئی ہے





وہ ہیں پاس اور یاد آنے لگے ہیں 
محبت کے ہوش اب ٹھکانے لگے ہیں 
وہی پھر مجھے یاد آنے لگے ہیں 
جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں 
سنا ہے ہمیں وہ بھلانے لگے ہیں 
تو کیا ہم انہیں یاد آنے لگے ہیں 
ہٹائے تھے جو راہ سے دوستوں کی 
وہ پتھر مرے گھر میں آنے لگے ہیں 
یہ کہنا تھا ان سے محبت ہے مجھ کو 
یہ کہنے میں مجھ کو زمانے لگے ہیں 
قیامت یقیناً قریب آ گئی ہے 
خمار اب تو مسجد میں جانے لگے ہیں





ہم انہیں، وہ ہمیں بھلا بیٹھے 
دو گنہگار زہر کھا بیٹھے 
حالِ غم کہہ کے غم بڑھا بیٹھے 
تیر مارے تھے، تیر کھا بیٹھے 
آندھیو! جاؤ اب کرو آرام 
ہم کود اپنا دیا بجھا بیٹھے 
جی تو ہلکا ہوا مگر یارو 
رو کے ہم لطفِ غم گنوا بیٹھے 
بے سہاروں کا حوصلہ ہی کیا 
گھر میں گھبرائے در پہ آ بیٹھے 
جب سے بچھڑے وہ مسکرائے نہ ہم 
سب نے چھیڑا تو لب ہلا بیٹھے 
ہم رہے مبتلائے دیر و حرم 
وہ دبے پاؤں دل میں آ بیٹھے 
اٹھ کے اک بے وفا نے دے دی جان 
رہ گئے سارے با وفا بیٹھے 
حشر کا دن ابھی ہے دُور خمار 
آپ کیوں زاہدوں میں جا بیٹھے


0 comments:

Post a Comment