Sunday, November 30, 2014

انور مسعود



دُنیا بھی عجب قافلہِ تشنہ لباں ہے

ہر شخص سرابوں کے تعاقب میں رواں ہے



تنہا تری محفل میں نہیں ہوں کہ مرے ساتھ
اِک لذتِ پابندیِ اظہار و بیاں ہے



جو دل کے سمندر میں اُبھرتا ہے یقیں ہے
جو ذہن کے ساحل سے گزرتا ہے گُماں ہے



پُھولوں پہ گھٹاؤں کے تو سائے نہیں انور
آوارۂ گلزار نشیمن کا دُھواں ہے




بر سبیلِ تذکرہ اِک روز میڈم نے کہا
اپنے شوخ و شنگ اندازِ تکلم کے بغیر
میرا وعدہ ہے کہ گانا چھوڑ دوں گی میں اگر
مولوی تقریر فرمائے ترنم کے بغیر
____________________________

جو ہے اوروں کی وہی رائے ہماری بھی ہے
ایک ہو رائے سبھی کی، یہ کچھ آسان نہیں
لوگ کہتے ہیں فرشتہ ہیں جنابِ واعظ
ہم بھی کہتے تو یہی ہیں کہ وہ انسان نہیں



0 comments:

Post a Comment