Thursday, November 27, 2014

معراج فیض آبادی


ہم غزل میں ترا چرچا نہیں ہونے دیتے

تیری یادوں کو بھی رُسوا نہیں ہونے دیتے



کچھ تو ہم خود بھی نہیں چاہتے شہرت اپنی
اور کچھ لوگ بھی ایسا نہیں ہونے دیتے



عظمتیں اپنے چراغوں کی بچانے کے لئے
ہم کسی گھر میں اُجالا نہیں ہونے دیتے

آج بھی گاؤں میں کچھ کچے مکانوں والے
گھر میں ہمسائے کے فاقہ نہیں ہونے دیتے

ذکر کرتے ہیں ترا نام نہیں لیتے ہیں
ہم سمندر کو جزیرہ نہیں ہونے دیتے

مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے



اسی تھکے ہوئے دستِ طلب سے مانگتے ہیں
جو مانگتے نہیں رب سے، وہ سب سے مانگتے ہیں

وہ بھیک مانگتا ہے حاکموں کے لہجوں میں
ہم اپنے بچوں کا حق بھی ادب سے مانگتے ہیں

میرے خدا اُنہیں توفیقِ خودشناسی دے
چراغ ہو کہ اُجالا جو شب سے مانگتے ہیں

وہ بادشاہ اِدھر مڑ کہ دیکھتا ہی نہیں
ہم اپنے حصے کی خیرات کب سے مانگتے ہیں

میں شاہزادہ غربت، امیرِ دشتِ اَنا
یہ لوگ کیا میرے نام و نسب سے مانگتے ہیں

0 comments:

Post a Comment