Sunday, November 30, 2014

راجندر ناتھ رہبر


پیار کی آخری پونجی بھی لٹا آیا ہوں
اپنی ہستی کو بھی لگتا ہے مٹا آیا ہوں
عمر بھر کی جو کمائی تھی گنوا آیا ہوں
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں

تو نے لکھا تھا جلا دوں میں تری تحریریں
تو نے چاہا تھا جلا دوں میں تری تصویریں
سوچ لیں میں نے مگر اور ہی کچھ تدبیریں
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں

تیرے خوشبو میں بسے خط میں جلاتا کیسے
پیار میں ڈوبے ہوئے خط میں جلاتا کیسے
تیرے ہاتھوں کے لکھے خط میں جلاتا کیسے
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں

جن کو دنیا کی نگاہوں سے چھپائے رکھا
جن کو اک عمر کلیجے سے لگائے رکھا
دین جن کو جنہیں ایمان بنائے رکھا

جن کا ہر لفظ مجھے یاد ہے پانی کی طرح
یاد تھے مجھ کو جو پیغامِ زبانی کی طرح
مجھ کو پیارے تھے جو انمول نشانی کی طرح

تو نے دنیا کی نگاہوں سے جو بچ کر لکھے
سالہا سال مرے نام برابر لکھے
کبھی دن میں تو کبھی رات کو اٹھ کر لکھے

تیرے رومال ترے خط ترے چھلے بھی گئے
تیری تصویریں ترے شوخ لفافے بھی گئے
ایک یگ ختم ہوا یگ کے فسانے بھی گئے
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں

کتنا بے چین انہیں لینے کو گنگا جل تھا
جو بھی دھارا تھا انہیں کے لیے وہ بیکل تھا
پیار اپنا بھی تو گنگا کی طرح نرمل تھا
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں

راجندر ناتھ رہبر

0 comments:

Post a Comment